ترقیاتی فنڈز کرونا سے بچاؤ کے اقدامات پر مرکوز کر دئیے جائیں
کورونا وائرس کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال تمام تر سیاسی سرگرمیوں کو نگل گئی ہے۔
لاہور:
کورونا وائرس کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال تمام تر سیاسی سرگرمیوں کو نگل گئی ہے۔ اس وقت پوری کی پوری توجہ صرف اس مسلہ کو کنٹرول کرنے پر ہی مرکوز ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فرنٹ فٹ پر حکومت ہی کھیل رہی ہے، اسی لیے لاک ڈاون سمیت جتنے بھی اہم اقدامات ہیں وہ حکومت نے ہی کرنے ہیں تاہم اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں اور عوام پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر کورونا کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری تنہا حکومت پر چھوڑ دی گئی تو اس صورت میں یہ مسلہ کنٹرول نہیں ہو پائے گا۔
اسی بات کو مد نظررکھتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے اپوزیشن کی جماعتوں سے رابطے کیے ہیں تاکہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر آسکیں۔ وزیراعلیٰ کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہت پہلے رابطے کرنے چاہیں تھے جو نہ ہو سکا جس کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ حکومت کو ابھی جزوی لاک ڈاون کی طرف جانا پڑاہے جو آنے والے دنوں میں مکمل لاک ڈاون کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ سب ایک ہی صفحے پر ہوں۔ سیاسی قیادت کے ساتھ علماء کرام اور آئمہ کرام کو اعتماد میں لینا بھی ضروری تھا، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اجمل خان وزیر نے یہ فریضہ انجام دیا ہے۔
انہوں نے صوبہ بھر کے علماء اور آئمہ کرام کو اکٹھا کرکے ان کے ذریعے عوام کو سماجی میل جول میں کمی لانے کا واضح پیغام دلوایا ہے۔ چونکہ پاکستانی معاشرہ مشکل سے مشکل حالات کو بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا اس لیے سندھ حکومت کو مکمل لاک ڈاون کی طرف جانا پڑا۔
بلوچستان ،پنجاب،خیبرپختونخوا ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے بھی آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر ایسے ہی فیصلے کیے جائیں تاہم مرکزی حکومت تاحال ملک بھر میں لاک ڈاون کرنے کے موڈمیں نہیں ،وزیراعظم کا یہ موقف درست ہے کہ پاکستان قوم غربت کا شکار ہے اور انھیں پندرہ دنوں کے لیے گھروں میں بند کرنے سے شدید مالی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
حکومت کے پاس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور انصاف ہیلتھ کارڈ کے حوالے سے ڈیٹا موجود ہے اوراسی ڈیٹا کو موجودہ حالات میں عوام کو راشن اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔ مرکز اور چاروں صوبے ہر سال ترقیاتی کاموں کے لیے اربوں روپے مختص کرتے ہیں اوراس سال بھی اسی طرز پر اربوں روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن سے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری ہے تاہم موجودہ حالات میں ترقیاتی کاموں کی بجائے کورونا وائرس پر قابو پانا ضروری ہے اس لیے فوری طور پر ترقیاتی پروگرام معطل کرتے ہوئے یہ پیسہ عوام کو راشن کی فراہمی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کی طرف منتقل کر دیا جائے تو مسلہ حل ہوسکتا ہے۔
سندھ حکومت نے اس سلسلے میں مثال قائم کردی ہے جس نے بجلی اور گیس کے بلوں میں عوام کو ریلیف دیا ہے اسی طرز پر مرکزی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتیں بھی اگر بجلی وگیس کے بلوں میں ریلیف ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور کم ازکم پندرہ دنوں کے لیے ریکارڈ پر موجود غرباء کو راشن کی فراہمی کردیں تو کوئی وجہ نہیں لوگ گھروں تک محدود نہ رہیں ،یقینی طور پر وزیراعظم جن تحفظات کا اظہار کررہے ہیں وہ بجا ہیں کہ دیہاڑی لگانے والا شخص کیسے پندرہ دنوں کے لیے گھر میں بیٹھ سکتا ہے لیکن اگر اسی دیہاڑی لگانے والے مزدور کو پندرہ دنوں کا راشن مل جائے اور بلوں میں ریلیف بھی تو اسے گھر بیٹھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی ۔
مرکزی اورسندھ کے علاوہ دیگر صوبائی حکومتیں تاحال ہچکچاہٹ کا شکار نظر آرہی ہیں اور وہ ایک،ایک قدم سست روی سے اٹھا رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ کئی حلقوں کی جانب سے اس خوف اور خدشے کا اظہار بھی بار ،بار کیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کے معاملے کو جتنا غیر سنجیدگی سے لیاجا رہا ہے اس سے کہیں اٹلی اوردیگر یورپی ممالک کی سی صورت حال پیدا نہ ہوجائے اس لیے یورپی ماڈل کو اختیارکرنے کی بجائے چینی ماڈل کی طرف جانا چاہیے۔ آج چین میں کورونا وائرس پر قابو پا لیا گیا ہے اور وہاں وائرس سے متاثرہ نئے کیسوں کی آمد کا سلسلہ رک گیاہے تاہم یورپ اور امریکہ سمیت جہاں بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاگیا وہاں مسلہ موجود بھی ہے اور کورونا تباہی بھی پھیلا رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے پاکستان کی بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو سخت اور معمول سے ہٹ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔
قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ جب 2010 میں غیرمعمولی بارشیں ہوئیں اور پھر سیلاب آیااور تباہی مچی تو اس صورت میں اس وقت کی عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت نے اپنا ترقیاتی فنڈ معطل کرتے ہوئے تمام تر وسائل سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کی طرف منتقل کردیئے تھے اس لیے مذکورہ ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جو بھی صورت حال ہے وہ سامنے بھی ہے اور واضح بھی اس لیے ان حالات میں تاخیر کرنے اور وائرس کو مزید تباہی کا موقع دینے کی بجائے سخت فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ فیصلے مرکز اور صوبوں کو یکساں طور پر لینے ہونگے تاکہ پورا ملک ایک ہی صفحے پر کھڑا نظر آئے ۔
عوام کو اس صورت حال کے حوالے سے آگاہ کرنے اور انھیں احتیاطی تدابیراختیار کرنے کی راہ پر لے جانے کے لیے ضروری ہے کہ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اراکین اسمبلی کو بھی متحرک کریں ،گوکہ زیادہ نقل وحرکت یا زیادہ لوگوں سے میل جول تو ان حالات میںممکن نہیں تاہم مساجد میں اعلانات اور موبائل فونز اور سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے یہی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنے حلقوں کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے انھیں گھروں کے اندر محدود رہنے اور سماجی میل جول میں کمی لانے پر آمادہ کرسکتے ہیں جس کے ساتھ ہی وہ لوگ جو ان حالات میں بھی شادی بیاہ یا دیگر سماجی تقریبات سجائے بیٹھے ہیں یا سجانے کے موڈ میں ہیں انھیں بھی ان حالات کا ادراک کرانے کے لیے علماء وآئمہ کرام اور ساتھ ہی عوامی نمائندوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ایسی تقریبات موجودہ صورت حال ٹل جانے کے بعد بھی منعقد کی جاسکتی ہیں جس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال تمام تر سیاسی سرگرمیوں کو نگل گئی ہے۔ اس وقت پوری کی پوری توجہ صرف اس مسلہ کو کنٹرول کرنے پر ہی مرکوز ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فرنٹ فٹ پر حکومت ہی کھیل رہی ہے، اسی لیے لاک ڈاون سمیت جتنے بھی اہم اقدامات ہیں وہ حکومت نے ہی کرنے ہیں تاہم اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں اور عوام پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر کورونا کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری تنہا حکومت پر چھوڑ دی گئی تو اس صورت میں یہ مسلہ کنٹرول نہیں ہو پائے گا۔
اسی بات کو مد نظررکھتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان نے اپوزیشن کی جماعتوں سے رابطے کیے ہیں تاکہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر آسکیں۔ وزیراعلیٰ کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہت پہلے رابطے کرنے چاہیں تھے جو نہ ہو سکا جس کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ حکومت کو ابھی جزوی لاک ڈاون کی طرف جانا پڑاہے جو آنے والے دنوں میں مکمل لاک ڈاون کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ سب ایک ہی صفحے پر ہوں۔ سیاسی قیادت کے ساتھ علماء کرام اور آئمہ کرام کو اعتماد میں لینا بھی ضروری تھا، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اجمل خان وزیر نے یہ فریضہ انجام دیا ہے۔
انہوں نے صوبہ بھر کے علماء اور آئمہ کرام کو اکٹھا کرکے ان کے ذریعے عوام کو سماجی میل جول میں کمی لانے کا واضح پیغام دلوایا ہے۔ چونکہ پاکستانی معاشرہ مشکل سے مشکل حالات کو بھی زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا اس لیے سندھ حکومت کو مکمل لاک ڈاون کی طرف جانا پڑا۔
بلوچستان ،پنجاب،خیبرپختونخوا ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے بھی آنے والے دنوں میں ممکنہ طور پر ایسے ہی فیصلے کیے جائیں تاہم مرکزی حکومت تاحال ملک بھر میں لاک ڈاون کرنے کے موڈمیں نہیں ،وزیراعظم کا یہ موقف درست ہے کہ پاکستان قوم غربت کا شکار ہے اور انھیں پندرہ دنوں کے لیے گھروں میں بند کرنے سے شدید مالی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
حکومت کے پاس بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور انصاف ہیلتھ کارڈ کے حوالے سے ڈیٹا موجود ہے اوراسی ڈیٹا کو موجودہ حالات میں عوام کو راشن اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے ۔ مرکز اور چاروں صوبے ہر سال ترقیاتی کاموں کے لیے اربوں روپے مختص کرتے ہیں اوراس سال بھی اسی طرز پر اربوں روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن سے ترقیاتی کاموں کا سلسلہ جاری ہے تاہم موجودہ حالات میں ترقیاتی کاموں کی بجائے کورونا وائرس پر قابو پانا ضروری ہے اس لیے فوری طور پر ترقیاتی پروگرام معطل کرتے ہوئے یہ پیسہ عوام کو راشن کی فراہمی اور دیگر ضروریات پوری کرنے کی طرف منتقل کر دیا جائے تو مسلہ حل ہوسکتا ہے۔
سندھ حکومت نے اس سلسلے میں مثال قائم کردی ہے جس نے بجلی اور گیس کے بلوں میں عوام کو ریلیف دیا ہے اسی طرز پر مرکزی حکومت اور دیگر صوبائی حکومتیں بھی اگر بجلی وگیس کے بلوں میں ریلیف ،پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور کم ازکم پندرہ دنوں کے لیے ریکارڈ پر موجود غرباء کو راشن کی فراہمی کردیں تو کوئی وجہ نہیں لوگ گھروں تک محدود نہ رہیں ،یقینی طور پر وزیراعظم جن تحفظات کا اظہار کررہے ہیں وہ بجا ہیں کہ دیہاڑی لگانے والا شخص کیسے پندرہ دنوں کے لیے گھر میں بیٹھ سکتا ہے لیکن اگر اسی دیہاڑی لگانے والے مزدور کو پندرہ دنوں کا راشن مل جائے اور بلوں میں ریلیف بھی تو اسے گھر بیٹھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی ۔
مرکزی اورسندھ کے علاوہ دیگر صوبائی حکومتیں تاحال ہچکچاہٹ کا شکار نظر آرہی ہیں اور وہ ایک،ایک قدم سست روی سے اٹھا رہی ہیں جس کی وجہ سے عوام بھی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ کئی حلقوں کی جانب سے اس خوف اور خدشے کا اظہار بھی بار ،بار کیا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کے معاملے کو جتنا غیر سنجیدگی سے لیاجا رہا ہے اس سے کہیں اٹلی اوردیگر یورپی ممالک کی سی صورت حال پیدا نہ ہوجائے اس لیے یورپی ماڈل کو اختیارکرنے کی بجائے چینی ماڈل کی طرف جانا چاہیے۔ آج چین میں کورونا وائرس پر قابو پا لیا گیا ہے اور وہاں وائرس سے متاثرہ نئے کیسوں کی آمد کا سلسلہ رک گیاہے تاہم یورپ اور امریکہ سمیت جہاں بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیاگیا وہاں مسلہ موجود بھی ہے اور کورونا تباہی بھی پھیلا رہا ہے جسے دیکھتے ہوئے پاکستان کی بھی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو سخت اور معمول سے ہٹ کر فیصلے کرنے ہوں گے۔
قارئین کو یاد ہی ہوگا کہ جب 2010 میں غیرمعمولی بارشیں ہوئیں اور پھر سیلاب آیااور تباہی مچی تو اس صورت میں اس وقت کی عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت نے اپنا ترقیاتی فنڈ معطل کرتے ہوئے تمام تر وسائل سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کی طرف منتقل کردیئے تھے اس لیے مذکورہ ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جو بھی صورت حال ہے وہ سامنے بھی ہے اور واضح بھی اس لیے ان حالات میں تاخیر کرنے اور وائرس کو مزید تباہی کا موقع دینے کی بجائے سخت فیصلے کرنا ہوں گے اور یہ فیصلے مرکز اور صوبوں کو یکساں طور پر لینے ہونگے تاکہ پورا ملک ایک ہی صفحے پر کھڑا نظر آئے ۔
عوام کو اس صورت حال کے حوالے سے آگاہ کرنے اور انھیں احتیاطی تدابیراختیار کرنے کی راہ پر لے جانے کے لیے ضروری ہے کہ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اراکین اسمبلی کو بھی متحرک کریں ،گوکہ زیادہ نقل وحرکت یا زیادہ لوگوں سے میل جول تو ان حالات میںممکن نہیں تاہم مساجد میں اعلانات اور موبائل فونز اور سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے یہی اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اپنے حلقوں کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہوئے انھیں گھروں کے اندر محدود رہنے اور سماجی میل جول میں کمی لانے پر آمادہ کرسکتے ہیں جس کے ساتھ ہی وہ لوگ جو ان حالات میں بھی شادی بیاہ یا دیگر سماجی تقریبات سجائے بیٹھے ہیں یا سجانے کے موڈ میں ہیں انھیں بھی ان حالات کا ادراک کرانے کے لیے علماء وآئمہ کرام اور ساتھ ہی عوامی نمائندوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ایسی تقریبات موجودہ صورت حال ٹل جانے کے بعد بھی منعقد کی جاسکتی ہیں جس میں کوئی مضائقہ نہیں۔