اللہ رحم فرمائے یہ وائرس کہاں سے پھیلا
مسلم و غیر مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کی وائرس فیصلوں کی پیروی کرنا فرض و واجب ہے۔
گزشتہ دوتین ماہ سے دنیا ایک وبائی مرض (کورونا وائرس ) کے نرغے میں ہے جس کی شروعات چین سے ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے194ممالک میں پھیل گیا ۔ تادم تحریر عالمی سطح پر ہلاکتوں کی تعداد 16098اور متاثرہ افراد کی تعداد 3 لاکھ66880ہوگئی ہے دنیا بھر میں اب تک مجموعی طور پر 1لاکھ 1065افراد صحت یاب ہوچکے ہیں جب کہ 2لاکھ 49717افراد ابھی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔چین میں کورونا کے کل کیسز کی تعداد 81ہزار جب کہ اموات کی تعداد 3270ہوچکی ہے۔
چین کے ووہان شہر میں دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے لگے ۔ایران میں کورونا وائرس کی مجموعی تعداد 23049ہوگئی ہے جب کہ 1812اموات ہوئیں ہیں ۔امریکا میں مجموعی طور پر متاثرین 40ہزار سے تجاوز کرگئے جب کہ 483اموات ریکارڈ کی گئی ۔برطانیہ میں متاثرین کی تعداد 5837ہوگئی ہے ،ہلاکتوں کی تعداد 335ہوگئی ہے ۔
جنوبی کوریا میں متاثرین کی تعداد 8ہزار 961ہوگئی اور 111 ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ پاکستان میں کورونا وائرس مریضوں کی تعداد 892ہوگئی ہے جب کہ 7مریض جاں بحق ہوچکے ہیں اور 6افراد صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو جاچکے ہیں ۔سندھ میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 399،پنجاب میں 249، بلوچستان میں 110،گلگت بلتستان میں 80، خیبر پختون خوا میں 38جب کہ اسلام آباد میں 15اور آزاد کشمیر میں ایک ہے ۔
یہ وائرس کہاں سے پھیلا ؟ جب چین سے اس وائرس کی اطلاعات آنا شروع ہوئی تو اسے پہلے ان جانوروں کے کھانے کا سبب بیان کیا گیاجسے مسلمان نہیں کھاتے ہیں یعنی حرام جانور کھانے سے ۔ چینی ماہرین نے ابتدا ء میں کہا کہ یہ وائرس چمگاڈر کھانے سے پھیلا ۔ تحقیق جاری تھی کہ پھرکسی اور جانور کا نام لیا گیا کہ اس کے کھانے سے پھیلا ہے ۔ دنیا بھر میں اس پر تبصرہ کرنا شروع ہوا۔ کسی نے کیا کہا اور کسی نے کیا کچھ نہیں بتایا الغرض جتنے منہ اتنی باتیں کی گئی۔
اب حال ہی میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی جیان ژانے انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس گزشتہ برس امریکا میں پھیلا تھا جس کی وجہ سے 20ہزار ہلاکتیں ہوئی تھیں ۔لی جیان ژانے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا کے سینٹرز فارڈیز کنٹرول اینڈ پریو ینشن ( سی ڈی سی) نے یہ تسلیم کی ہے کہ 2019کے فلو سیزن میں کورونا وائرس کے کچھ مریضوں کی درست تشخیص نہیں ہوپائی تھی ۔ گزشتہ برس امریکا میں 34 ملین (3کروڑ 40لاکھ ) لوگ متاثر ہوئے تھے ۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوال اٹھایا کہ اگر کورونا وائرس گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہواتھا اور امریکا کے پاس ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی تو اب تک کتنے لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہوں گے ؟ امریکا کو اس کا اسی وقت پتا لگا لینا چاہیئے تھا جب اس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا ۔خیال رہے کہ لی جیان ژانے پہلے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ کورونا وائرس امریکا سے آیا ہے اور یہ ممکنہ طور پر امریک فوجی ووہان شہر میں لے کر آئے تھے جہاں فوجیوں کے انٹرنیشنل مقابلے ہورہے تھے ۔
لی جان ژا کے پہلے بیان کے بعد امریکا نے کورونا وائرس کو چینی وائرس کا نام دینا شروع کردیا ۔ صدر ٹرمپ اکثر پریس کانفرنسز میں کورو نا وائرس یا کودڈ 19کے بجائے چینی وائرس کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کی ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بھی مذمت کی گئی ہے ۔
قبل ازیں دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کورونا وائرس کی خبریں آنا شروع ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ وباء عام ہوا ۔ اس کی وجہ یہ بتایا گیا کہ نوول کورونا وائرس نیا وائرس ہے جو سب سے پہلے چین کے شہر دوہان میں نمودار ہوا ۔ ماہرین کے مطابق یہ وائرس جانوروں سے انسانوں تک پہنچا اور اب ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہورہا ہے ۔اس کی علامات میں بخار ،کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہے جو نمونیا کی شکل اختیار کرسکتی ہے ۔یہ علامات وائرس لگنے کے 2سے14دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔
شدید بیماری نمونیا کی صورت اختیار کرسکتی ہے ،پچھلے 14دنوں میں جن لوگوں نے بیرون ملک سفر کیا ۔ان میں اوپر دی گئی علامات ہوں تو انھیں گھر پر رہتے ہوئے فون کے ذریعے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا یا ہیلپ لائن 1166پر کا ل کرنا چاہیئے ۔یاد رکھیں ! ہر نزلہ ،بخار اور کھانسی کورونا وائرس نہیں ہے ۔کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 97فیصد لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
جس سے بچنے کا طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے کم از کم ایک میٹر فاصلہ پر رہے ،سماجی میل جول ترک کرے ، رش میں نہ جائیں ، ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں، ٹشو پیپر استعمال کے بعد مناسب طریقے سے ضایع کریں ، بخار ،کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کی صورت میں احتیاط کریں ،اگر آپ کو نزلہ ،زکام ہے تو اپنے آفس ،اسکول یا بھیڑ میں جانے کی بجائے گھر پر رہیں ، گندے ہاتھوں سے آنکھ ،ناک یا منہ کو مت چھوئیں ، کھانسی یا چھینک آنے پر منہ اور ناک کو ٹشو یا آستین کے کپڑے سے ڈھانپیں ، ( ہاتھوں سے نہیں ) ،اپنے ہاتھوں کو باقاعدگی سے صابن اور پانی سے صاف کریں یا ہاتھ صاف کرنے والا لوشن استعمال کریں ،اگر آپ کو نزلہ ،زکام ہے تو دوسرے لوگوں سے کم از کم ایک میٹر دوری رکھیں ،اگر آپ کو نزلہ ،زکام ہے تو لوگوں کو گلے ملنے یا ہاتھ ملانے سے پرہیز کریں ۔
ادھر میڈیا رپورٹ کے مطابق تنظیم اتحاد امت پاکستان کے چیئرمین محمد ضیا الحق نقشبندی نے شریعہ بورڈ سے مشاورت کے بعد کورونا وائرس سے جاں بحق افراد کی تدفین کے حوالے سے حکومت اور عوام کی رہنمائی میں اجتماعی فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان میت کو غسل دینا فرض شرعی ہے اور بغیر کسی وجہ شرعی کے غسل کو ساقط کرنا ہرگز جائز نہیں ہے اس لیے میت کو حفاظتی اقدامات کرکے غسل دیا جاسکتا ہے اگر صورت حال زیادہ سنگین ہوتو میت کو غسل کی بجائے تمیم کروایا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض کی میت کو کفن پہنانے سے اس وائرس کے دوسرے افراد تک منتقل ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے لہٰذا میت کے کفن کے لیے ایک کپڑا کافی ہے لہٰذا اسی پر اکتفا کیا جائے ، کورونا سے جاں بحق فر کی میت کو صندوق میں بند کرکے دفن کیا جائے ۔ کورونا سے جاں بحق مسلم میت کا نماز جنازہ پڑھا جائے اور قبرستان میں دفن کیا جائے البتہ حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔
مفتیان کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ مصافحہ فرض یا واجب نہیں ہے ،لہٰذا مصافحہ کرنے سے عوام مکمل پرہیز کرے ۔مسلم حکمران یکسو یک جا ہوکر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں ،مسلم حکمران جلد از جلد کعبہ میں اکٹھے ہوکر توبہ کا اعلان کریں ،علما مساجد سے بار بار اذانیں دیں تاکہ اللہ ہم پر مہربان ہوجائے ،مالک مزدور کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دینے کا اعلان کریں تاکہ کسی غریب کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو ،مالک مکان ایک ماہ کا کرایہ چھوڑنے کا اعلان کریں ،موجودہ صورت حال میں بلاوجہ گھروں سے نکلنا غیر شرعی ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔
مسلم و غیر مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کی وائرس فیصلوں کی پیروی کرنا فرض و واجب ہے۔مفتیان کرام نے کہا ہے تاجر برادری حکومتی فیصلوں کی پابندی کریں ،ناجائز منافع خوری سے جہنم میں جاسکتے ہیں ممکن ہے وہ دنیا میں ہی ذلیل ہوں ، صفائی نصف ایمان ہے لہٰذا مفتیان کرام نے اپیل کی ہے کہ ،ماسک پہننا وینٹی لیٹر میں ماسک پہننے سے بہتر ہے ، گھر میں رہنا آئی سی یو میں رہنے سے بہتر ہے ،ہاتھ دھونا زندگی سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے ۔ علما کرام مساجد سے اور پادری گرجا گھروں سے قالین اٹھا دیں اور فرش پر نماز پڑھنے کی عادت بنائیں ۔
چین کے ووہان شہر میں دو ماہ کے لاک ڈاؤن کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے لگے ۔ایران میں کورونا وائرس کی مجموعی تعداد 23049ہوگئی ہے جب کہ 1812اموات ہوئیں ہیں ۔امریکا میں مجموعی طور پر متاثرین 40ہزار سے تجاوز کرگئے جب کہ 483اموات ریکارڈ کی گئی ۔برطانیہ میں متاثرین کی تعداد 5837ہوگئی ہے ،ہلاکتوں کی تعداد 335ہوگئی ہے ۔
جنوبی کوریا میں متاثرین کی تعداد 8ہزار 961ہوگئی اور 111 ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ پاکستان میں کورونا وائرس مریضوں کی تعداد 892ہوگئی ہے جب کہ 7مریض جاں بحق ہوچکے ہیں اور 6افراد صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو جاچکے ہیں ۔سندھ میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 399،پنجاب میں 249، بلوچستان میں 110،گلگت بلتستان میں 80، خیبر پختون خوا میں 38جب کہ اسلام آباد میں 15اور آزاد کشمیر میں ایک ہے ۔
یہ وائرس کہاں سے پھیلا ؟ جب چین سے اس وائرس کی اطلاعات آنا شروع ہوئی تو اسے پہلے ان جانوروں کے کھانے کا سبب بیان کیا گیاجسے مسلمان نہیں کھاتے ہیں یعنی حرام جانور کھانے سے ۔ چینی ماہرین نے ابتدا ء میں کہا کہ یہ وائرس چمگاڈر کھانے سے پھیلا ۔ تحقیق جاری تھی کہ پھرکسی اور جانور کا نام لیا گیا کہ اس کے کھانے سے پھیلا ہے ۔ دنیا بھر میں اس پر تبصرہ کرنا شروع ہوا۔ کسی نے کیا کہا اور کسی نے کیا کچھ نہیں بتایا الغرض جتنے منہ اتنی باتیں کی گئی۔
اب حال ہی میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لی جیان ژانے انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس گزشتہ برس امریکا میں پھیلا تھا جس کی وجہ سے 20ہزار ہلاکتیں ہوئی تھیں ۔لی جیان ژانے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ امریکا کے سینٹرز فارڈیز کنٹرول اینڈ پریو ینشن ( سی ڈی سی) نے یہ تسلیم کی ہے کہ 2019کے فلو سیزن میں کورونا وائرس کے کچھ مریضوں کی درست تشخیص نہیں ہوپائی تھی ۔ گزشتہ برس امریکا میں 34 ملین (3کروڑ 40لاکھ ) لوگ متاثر ہوئے تھے ۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوال اٹھایا کہ اگر کورونا وائرس گزشتہ برس ستمبر میں شروع ہواتھا اور امریکا کے پاس ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں تھی تو اب تک کتنے لوگ اس سے متاثر ہوچکے ہوں گے ؟ امریکا کو اس کا اسی وقت پتا لگا لینا چاہیئے تھا جب اس کا پہلا مریض سامنے آیا تھا ۔خیال رہے کہ لی جیان ژانے پہلے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ کورونا وائرس امریکا سے آیا ہے اور یہ ممکنہ طور پر امریک فوجی ووہان شہر میں لے کر آئے تھے جہاں فوجیوں کے انٹرنیشنل مقابلے ہورہے تھے ۔
لی جان ژا کے پہلے بیان کے بعد امریکا نے کورونا وائرس کو چینی وائرس کا نام دینا شروع کردیا ۔ صدر ٹرمپ اکثر پریس کانفرنسز میں کورو نا وائرس یا کودڈ 19کے بجائے چینی وائرس کا لفظ استعمال کرتے ہیں جس کی ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بھی مذمت کی گئی ہے ۔
قبل ازیں دنیا کے دیگر ممالک سے بھی کورونا وائرس کی خبریں آنا شروع ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ وباء عام ہوا ۔ اس کی وجہ یہ بتایا گیا کہ نوول کورونا وائرس نیا وائرس ہے جو سب سے پہلے چین کے شہر دوہان میں نمودار ہوا ۔ ماہرین کے مطابق یہ وائرس جانوروں سے انسانوں تک پہنچا اور اب ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہورہا ہے ۔اس کی علامات میں بخار ،کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہے جو نمونیا کی شکل اختیار کرسکتی ہے ۔یہ علامات وائرس لگنے کے 2سے14دن میں ظاہر ہوتی ہیں۔
شدید بیماری نمونیا کی صورت اختیار کرسکتی ہے ،پچھلے 14دنوں میں جن لوگوں نے بیرون ملک سفر کیا ۔ان میں اوپر دی گئی علامات ہوں تو انھیں گھر پر رہتے ہوئے فون کے ذریعے اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا یا ہیلپ لائن 1166پر کا ل کرنا چاہیئے ۔یاد رکھیں ! ہر نزلہ ،بخار اور کھانسی کورونا وائرس نہیں ہے ۔کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 97فیصد لوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
جس سے بچنے کا طریقہ یہ بتایا جارہا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے کم از کم ایک میٹر فاصلہ پر رہے ،سماجی میل جول ترک کرے ، رش میں نہ جائیں ، ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں، ٹشو پیپر استعمال کے بعد مناسب طریقے سے ضایع کریں ، بخار ،کھانسی اور سانس لینے میں دشواری کی صورت میں احتیاط کریں ،اگر آپ کو نزلہ ،زکام ہے تو اپنے آفس ،اسکول یا بھیڑ میں جانے کی بجائے گھر پر رہیں ، گندے ہاتھوں سے آنکھ ،ناک یا منہ کو مت چھوئیں ، کھانسی یا چھینک آنے پر منہ اور ناک کو ٹشو یا آستین کے کپڑے سے ڈھانپیں ، ( ہاتھوں سے نہیں ) ،اپنے ہاتھوں کو باقاعدگی سے صابن اور پانی سے صاف کریں یا ہاتھ صاف کرنے والا لوشن استعمال کریں ،اگر آپ کو نزلہ ،زکام ہے تو دوسرے لوگوں سے کم از کم ایک میٹر دوری رکھیں ،اگر آپ کو نزلہ ،زکام ہے تو لوگوں کو گلے ملنے یا ہاتھ ملانے سے پرہیز کریں ۔
ادھر میڈیا رپورٹ کے مطابق تنظیم اتحاد امت پاکستان کے چیئرمین محمد ضیا الحق نقشبندی نے شریعہ بورڈ سے مشاورت کے بعد کورونا وائرس سے جاں بحق افراد کی تدفین کے حوالے سے حکومت اور عوام کی رہنمائی میں اجتماعی فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان میت کو غسل دینا فرض شرعی ہے اور بغیر کسی وجہ شرعی کے غسل کو ساقط کرنا ہرگز جائز نہیں ہے اس لیے میت کو حفاظتی اقدامات کرکے غسل دیا جاسکتا ہے اگر صورت حال زیادہ سنگین ہوتو میت کو غسل کی بجائے تمیم کروایا جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے مریض کی میت کو کفن پہنانے سے اس وائرس کے دوسرے افراد تک منتقل ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے لہٰذا میت کے کفن کے لیے ایک کپڑا کافی ہے لہٰذا اسی پر اکتفا کیا جائے ، کورونا سے جاں بحق فر کی میت کو صندوق میں بند کرکے دفن کیا جائے ۔ کورونا سے جاں بحق مسلم میت کا نماز جنازہ پڑھا جائے اور قبرستان میں دفن کیا جائے البتہ حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔
مفتیان کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ مصافحہ فرض یا واجب نہیں ہے ،لہٰذا مصافحہ کرنے سے عوام مکمل پرہیز کرے ۔مسلم حکمران یکسو یک جا ہوکر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کریں ،مسلم حکمران جلد از جلد کعبہ میں اکٹھے ہوکر توبہ کا اعلان کریں ،علما مساجد سے بار بار اذانیں دیں تاکہ اللہ ہم پر مہربان ہوجائے ،مالک مزدور کو ایک ماہ کی اضافی تنخواہ دینے کا اعلان کریں تاکہ کسی غریب کا چولہا ٹھنڈا نہ ہو ،مالک مکان ایک ماہ کا کرایہ چھوڑنے کا اعلان کریں ،موجودہ صورت حال میں بلاوجہ گھروں سے نکلنا غیر شرعی ،غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔
مسلم و غیر مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کی وائرس فیصلوں کی پیروی کرنا فرض و واجب ہے۔مفتیان کرام نے کہا ہے تاجر برادری حکومتی فیصلوں کی پابندی کریں ،ناجائز منافع خوری سے جہنم میں جاسکتے ہیں ممکن ہے وہ دنیا میں ہی ذلیل ہوں ، صفائی نصف ایمان ہے لہٰذا مفتیان کرام نے اپیل کی ہے کہ ،ماسک پہننا وینٹی لیٹر میں ماسک پہننے سے بہتر ہے ، گھر میں رہنا آئی سی یو میں رہنے سے بہتر ہے ،ہاتھ دھونا زندگی سے ہاتھ دھونے سے بہتر ہے ۔ علما کرام مساجد سے اور پادری گرجا گھروں سے قالین اٹھا دیں اور فرش پر نماز پڑھنے کی عادت بنائیں ۔