قیامت کی گھڑی
کورونا وائرس ، دنیا اس بلائے عظیم سے بچاؤ کا کوئی راستہ ابھی تک تلاش نہیں کرسکی
کورونا وائرس ، دنیا اس بلائے عظیم سے بچاؤ کا کوئی راستہ ابھی تک تلاش نہیں کرسکی۔ اس وائرس کی وجہ سے اب تک 10 ہزار سے زیادہ انسان موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور ہزاروں زیر علاج ہیں۔ اس بیماری کی نزاکت کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو غلطی سے بھی چھو لے تو کورونا بیماری ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
اس خوف سے دنیا کے کئی ملکوں میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے۔ پاکستان میں تین، چار دن سے لاک ڈاؤن جاری ہے۔ چیف منسٹر سندھ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ عوام اپنے مفاد میں گھروں میں بند رہیں۔ بلاشبہ ان حالات میں اسی قسم کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کورونا ایک ایسی بلائے عظیم ہے جو مہینوں تک ملکوں پر مسلط رہی ہے۔
چین سے شروع ہونے والی اس وبانے اب ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ساری دنیا کے عوام سخت خوف کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا خاتمہ کس طرح ہوگا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارا حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ دنیا کا حکمران طبقہ کورونا کے مریضوں کے علاج کی بھرپور کوشش کر رہا ہے ان حالات میں یہی کچھ کیا جاسکتا ہے لیکن اس خطرناک بیماری کے علاج پر دنیا کی ساری توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے، انسان بڑا ذہین ہے، امید ہے جلد وہ اس بیماری کا علاج دریافت کر لے گا۔
دنیا کی کوئی وباء ہو، اس کی لپیٹ میں سب سے پہلے غریب طبقات آتے ہیں۔ کراچی میں لاک ڈاؤن جاری ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ اس لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والے مسائل سے کیسے نمٹا جائے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کے گزر بسر کا کیا ہوگا؟ میڈیا پر اس حوالے سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت روز کنواں کھودنے روز پانی پینے والوں کا مسئلہ کیسے حل کرے گی جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیسا ہوگا کہ سیکڑوں میلوں پر پھیلے ہوئے اس شہر میں دیہاڑی پر کام کرنے والوں کے کوائف کیسے جمع ہو سکیں گے۔
یہ ایسے مسائل ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ایک منظم اور مربوط طریقہ کار کی ضرورت ہے اور یہ ایک ایسا ضروری اور اہم کام ہے کہ اس میں تساہل نہیں برتا جا سکتا ۔ دوسری بات اس حوالے سے یہ ہے کہ کیا حکومت پاکستان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ اس بڑے اور پیچیدہ مسئلے کو حل کرسکے۔ بدقسمتی سے سرمایہ دارانہ نظام کی غیر یقینیت نے عوام میں ایک ایسا کلچر پیدا کردیا ہے کہ ''کل کے خوف سے'' وہ جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ لوازمات، آٹا، چاول، تیل، گھی، چینی وغیرہ کی زیادہ تعداد کیسے اکٹھے کرے کہ آنے والے وقت میں اسے ان چیزوں کی کمی کا سامنا نہ ہوسکے۔
اس حوالے سے دو مشکلات یا انسانی کمزوریاں سامنے آتی ہیں۔ اس بات سے سارے طبی شعبے کے افراد واقف ہیں کہ ماضی قریب تک ایسی وبائی بیماریاں دنیا پر مسلط رہیں جن کی وجہ سے لاکھوں انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔ ان بیماریوں میں ہیضہ، طاعون، ٹی بی وغیرہ شامل ہیں جن کا ماضی میں کوئی علاج نہیں تھا۔ طاعون چوہوں کے ذریعے پھیلتا تھا اور طاعون کے جراثیم چوہوں کے جسموں پر ہوتے تھے، لوگ چوہوں کے جسم پر موجود جراثیم سے خوفزدہ ہوکر بستیاں خالی کردیتے تھے۔ مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ طاعون کی وبا کے موقع پر ہمیں اپنے گھر چھوڑ کر بستیوں سے کئی کلو میٹر دور چٹائیوں کی جھونپڑیوں میں رہنا پڑا۔
کورونا کا مسئلہ بالکل مختلف ہے اس وبا میں وائرس اس تیزی سے پھیلتا ہے کہ انسان اس کا دفاع نہیں کرسکتا۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کو چھونے سے یہ بیماری ایک سے دوسرے، دوسرے سے سیکڑوں افراد تک پہنچ جاتی ہے اور مزید المیہ یہ ہے کہ اس کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اگر انسان پہلے سے کورونا کو جانتا تھا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا علاج ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ہماری دنیا میں لاکھوں ڈاکٹر ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں محقق ہیں کیا ان حضرات نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کیا؟
ایسے موقعوں پر دنیا میں عوام اور خواص میں اپنے اپنے اختلافات کو بھلا کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ملک میں اس نازک موقع پر یکجہتی تو دور کی بات ہے، ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ سیاستدان قابل تعریف ہیں جو سیاسی اختلافات کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ دنیا اس وقت ایک خطرناک ہنگامی دور سے گزر رہی ہے مختلف ملکوں میں ہر روز سیکڑوں انسان جان سے جا رہے ہیں، ہر طرف خوف و دہشت کا دور دورہ ہے۔
عام غریب آدمی جو دیہاڑی پر کام کرتا ہے اور جن کی حالت روز کمانے روز کھانے کی ہے۔ وہ کیا کرے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ جو لوگ قرنطینہ میں ہیں ان کے کھانے پینے اور دواؤں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے جن بددیانتوں نے اربوں کی کرپشن کرکے کرپشن کی دولت بچا لی ہے، ان سے یہ توقع کرنا احمقانہ بات ہے کہ وہ اس وقت غریب عوام کی مدد کریں گے۔ اب غریب عوام کو اگر زندہ رہنا ہے تو اپنا حق چھیننا ہوگا۔