خدارا سنجیدگی اختیار کیجیے دوسرا اور آخری حصہ
ہم پر ایسے لوگ مسلط کردیے جاتے ہیں جنھیں ملک کی کوئی پروا ہوتی ہے نہ قوم سے کوئی سروکار۔
اس پر عملدرآمد اس قدر سخت تھا کہ وبا شام اور عراق سے باہر نہ نکل سکی۔جن دنوں وہاں وبا پھیلی انھیں دنوں حضرت عمرفاروق ؓ شام کی طرف روانہ ہو چکے تھے تاکہ مفتوحہ ممالک کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں سے درست فرمائیں، آپؓ ابھی تبوک کے قریب ہی پہنچے تھے کہ طاعون کی اطلاع ملی۔
اسی اصول کے تحت آگے جانے کے بجائے، واپس ہولیے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ پچیس ہزار مسلمان طاعون کی نذر ہوئے جن میں جلیل القدر صحابہؓ بھی شامل تھے۔ کیا ان حضرات سے زیادہ بھی کوئی سچّا اور ایمان والا تھا؟ اور کیا ان کی ایمانی طاقت کم تھی کہ طاعون نے انھیں شہید کر دیا؟۔ جو لوگ کہتے ہیں مصافحہ سنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، علمائے ملت کا کہنا ہے کو ایسی صورت میں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے۔ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا ًبیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔(صحیح مسلم: 2231)گویا ایسے مواقع پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو،جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو، (بخاری: 5707) گویا ایسے موقع پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں، وہ غلط کہتے ہیں، سرکارﷺ کا فرمان ہے، اونٹ کی رسی باندھو اور پھر توکل کرو۔
(ترمذی: 2517)۔ خندق کھودو پھر توکل کرو۔ گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں،کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمرفاروق ؓسے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔حکومت اور عوام کے لیے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ بہت بڑی مثال ہے۔ ہمارے پاس سوشل ڈسٹینسنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ بڑی بڑی سپر طاقتیں اس وبا کے آگے بے بس نظر آرہی ہیں اور پاکستان تو ایک غریب ملک ہے جس کی معیشت پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے،اگر یہاں صورتحال کنٹرول سے باہر چلی گئی تواٹلی سے بدتر حالات نظر آئیں گے اور اس کے ذمے دار ہم خود ہوں گے کیونکہ ہم اپنے رویوں سے ایسے حالات کو دعوت دے رہے ہیں۔ کورونا کی وبا سے بچنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ابھی تو ہمارے پاس موقع ہے لیکن اگر اسے ضایع کردیا تو آنے والے وقت نے اپنے دامن میں کیا چھپا رکھا ہے کسی کو نہیں پتا۔
ایک ضروری بات وطن عزیز کے بار بار بحرانی صورتحال سے دوچار ہونے کے حوالے سے ہے۔ یہ اللہ کی مار نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ ہم پر ایسے لوگ مسلط کردیے جاتے ہیں جنھیں ملک کی کوئی پروا ہوتی ہے نہ قوم سے کوئی سروکار۔ وہ ایسے فیصلے اور اقدامات اٹھاتے ہیں جو پوری قوم کے لیے سزا بن جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کی ہر مصیبت کو کھینچ کر اپنے ملک لاتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں جنھیں جب جب دہرایا جاتا ہے تب تب دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں جب امریکا نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت افغانستان پر شب خون مارا اور دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ کے آغاز کا اعلان کیا تو ہمارے بہادر کمانڈو جنرل مشرف کھڑا ہونے کے بجائے لیٹ گئے۔ یوں ان کا یہ عمل پرائی جنگ کو کھینچ کر اپنے ملک میں لانے کا سبب بنا۔
اس کا نتیجہ ستر ہزار سے زائد لاشوں، لاکھوں پاکستانیوں کی معذوری، ہزاروں گھروں میں صف ماتم، اداروں کی بربادی اور اربوں ڈالر کی قومی و نجی املاک کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑااور احمق ہیں کہ آج بھی اس فیصلے کے صحیح ہونے کے بارے میں توجیہات پیش کرنے سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ چند ماہ سے جب پوری دنیا کو کورونا وائرس سے پھوٹنے والی وبا کا سامنا تھا اور تدبیری طور پر متاثرہ ممالک لاک ڈاؤن کی طرف جارہے تھے ، عین اس موقع پر ایران میں موجود ہزاروں زائرین کو بنا اسکریننگ کے پاکستان لایا گیا اور یہاں اس مہلک وائرس کو پھیلایا گیا۔تا وقت تحریر اس سنگین نوعیت کے معاملے کے بارے اگر کہیں تحقیقات ہورہی ہیں تو قوم کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس مجرمانہ غفلت میں وزیر اعظم کے جس مشیرکا نام آرہا ہے، وہ ابھی تک اپنے عہدیپر برا جمان ہیں۔ وزیر اعظم کا اس حوالے سے نرم رویہ سمجھ سے بالا ہے۔
اسی اصول کے تحت آگے جانے کے بجائے، واپس ہولیے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں کہ پچیس ہزار مسلمان طاعون کی نذر ہوئے جن میں جلیل القدر صحابہؓ بھی شامل تھے۔ کیا ان حضرات سے زیادہ بھی کوئی سچّا اور ایمان والا تھا؟ اور کیا ان کی ایمانی طاقت کم تھی کہ طاعون نے انھیں شہید کر دیا؟۔ جو لوگ کہتے ہیں مصافحہ سنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، علمائے ملت کا کہنا ہے کو ایسی صورت میں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے۔ ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالتؐ میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا ًبیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔(صحیح مسلم: 2231)گویا ایسے مواقع پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو،جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو، (بخاری: 5707) گویا ایسے موقع پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں، وہ غلط کہتے ہیں، سرکارﷺ کا فرمان ہے، اونٹ کی رسی باندھو اور پھر توکل کرو۔
(ترمذی: 2517)۔ خندق کھودو پھر توکل کرو۔ گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں،کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمرفاروق ؓسے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔حکومت اور عوام کے لیے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ بہت بڑی مثال ہے۔ ہمارے پاس سوشل ڈسٹینسنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ بڑی بڑی سپر طاقتیں اس وبا کے آگے بے بس نظر آرہی ہیں اور پاکستان تو ایک غریب ملک ہے جس کی معیشت پہلے ہی ڈانواں ڈول ہے،اگر یہاں صورتحال کنٹرول سے باہر چلی گئی تواٹلی سے بدتر حالات نظر آئیں گے اور اس کے ذمے دار ہم خود ہوں گے کیونکہ ہم اپنے رویوں سے ایسے حالات کو دعوت دے رہے ہیں۔ کورونا کی وبا سے بچنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ ابھی تو ہمارے پاس موقع ہے لیکن اگر اسے ضایع کردیا تو آنے والے وقت نے اپنے دامن میں کیا چھپا رکھا ہے کسی کو نہیں پتا۔
ایک ضروری بات وطن عزیز کے بار بار بحرانی صورتحال سے دوچار ہونے کے حوالے سے ہے۔ یہ اللہ کی مار نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ ہم پر ایسے لوگ مسلط کردیے جاتے ہیں جنھیں ملک کی کوئی پروا ہوتی ہے نہ قوم سے کوئی سروکار۔ وہ ایسے فیصلے اور اقدامات اٹھاتے ہیں جو پوری قوم کے لیے سزا بن جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو دنیا کی ہر مصیبت کو کھینچ کر اپنے ملک لاتے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی ایسی مثالیں موجود ہیں جنھیں جب جب دہرایا جاتا ہے تب تب دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں جب امریکا نے ایک آزاد اور خود مختار مملکت افغانستان پر شب خون مارا اور دہشت گردی کے خلاف نام نہادجنگ کے آغاز کا اعلان کیا تو ہمارے بہادر کمانڈو جنرل مشرف کھڑا ہونے کے بجائے لیٹ گئے۔ یوں ان کا یہ عمل پرائی جنگ کو کھینچ کر اپنے ملک میں لانے کا سبب بنا۔
اس کا نتیجہ ستر ہزار سے زائد لاشوں، لاکھوں پاکستانیوں کی معذوری، ہزاروں گھروں میں صف ماتم، اداروں کی بربادی اور اربوں ڈالر کی قومی و نجی املاک کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑااور احمق ہیں کہ آج بھی اس فیصلے کے صحیح ہونے کے بارے میں توجیہات پیش کرنے سے باز نہیں آتے۔ گزشتہ چند ماہ سے جب پوری دنیا کو کورونا وائرس سے پھوٹنے والی وبا کا سامنا تھا اور تدبیری طور پر متاثرہ ممالک لاک ڈاؤن کی طرف جارہے تھے ، عین اس موقع پر ایران میں موجود ہزاروں زائرین کو بنا اسکریننگ کے پاکستان لایا گیا اور یہاں اس مہلک وائرس کو پھیلایا گیا۔تا وقت تحریر اس سنگین نوعیت کے معاملے کے بارے اگر کہیں تحقیقات ہورہی ہیں تو قوم کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔ اس مجرمانہ غفلت میں وزیر اعظم کے جس مشیرکا نام آرہا ہے، وہ ابھی تک اپنے عہدیپر برا جمان ہیں۔ وزیر اعظم کا اس حوالے سے نرم رویہ سمجھ سے بالا ہے۔