’’لہور ‘‘ لہور اے
پنجابی زبان کی بات ہو خواہ اردو زبان کی ہمیں یہ کہتے ہوئے عار محسوس نہیں ہونی چاہیے
حسب روایت امسال بھی اپنے مقرر کردہ شیڈول کے مطابق کراچی کے ایکسپو سینٹر میں کتب فروشی کا سلسلہ جاری رہا۔ حیر ت ہوئی کہ ان پانچ دنوں میں کتاب سے حقیقی معنوں میں محبت و عشق رکھنے والوں کے ہر عمر کے علم دوست افراد کا بھرپور رش دیکھنے کو ملا جن میں بیشتر تعداد طلبا و طالبات اور خواتین کی تھی۔
گویا ایک چھت تلے ہر اسٹال پر علم کے شائقین کا ایک جم غفیر نظر آیا۔ سندھی ، عربی ، اردو اور انگریزی زبانوں میں کتب بھی خاصی تعداد میں نظر آئیں۔ اس نمائش کی خاص بات یہ تھی کہ کراچی اور لاہور کے نامور پبلیشرز نے اس نمائش میں اپنی بھرپور شرکت کو یقینی بنایا۔ اتفاق سے راقم بھی لاہورہی کے ایک نامور پبلشر زکے اسٹال پر کھڑا کچھ نئی اشاعت و طباعت کی ورق گردانی میں مصروف تھاکہ اسی اثنا میں میرے برابر میں کھڑے ایک باریش اور بزرگ نما صاحب نے اسٹال پر موجود سیلز مین سے سندھی لہجے میں دریافت کیا کہ لاہور کے حوالہ سے کیا آپ کے پاس پنجابی زبان میں کتب دستیاب ہیں ؟ سیلز مین نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا کہ ہم صرف اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔
جواب میں وہ صاحب بولے ''کیوں ؟ میں نے پنجابی کتب کا اس لیے دریافت کیا کہ چونکہ لاہور پنجاب کا خاص حصہ ہے اس لحاظ سے وہاں پنجابی کی کتب شایع ضرور ہوتی ہو نگی۔ اس کی سپورٹ میں، میں بولا کہ'' آپ کو نہیں معلوم کہ لاہورپنجابی سے زیادہ اردو زبان و ادب کا سب سے بڑا گہوارہ ہے۔، ہم ایک عرصہ سے یہ جملے سنتے چلے آرہے ہیں۔ ''لاہور، لاہور ہے '' پنجابی زبان میں 'جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں '' یعنی اردو میں کہا جائے گا کہ ''جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا ''ان محاوراتی اور طلسماتی جملوں میں کچھ نہ کچھ تو روایتی اور حقیقی صداقت پنہاں ہے۔
لاہور صدیوں سے روحانیت کے اعتبار سے صوفی ازم ، عرفان و تصوف ، مخدومیت، ولی اللہ، اولیائے کرام کے متبرک مزارات و مقابر، آستانوں، مقبروں، خانقاہ عالیہ کا مرکز رہا ہے۔ بی بی پاک دامن، حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ، حضرت میاں میر بالا پیر لاہوری ،شیخ موسی آہن گر، شیخ چوہڑ عبدالجلیل قطب عالم، شاہ شمس الدین قادری، مادھو لال حسین، سید میراں شاہ المشہور موج دریا بخاری کے مزارات اسی شہر لاہور ہی میں ہیں جہاں روزانہ عقیدت مندوں کی کثیر تعداد ان روحانی بزرگوں سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ شہر کے پرانے علاقوں میں حویلیاں، بارادریاں، درویشی سرائے کی نشانیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔
میرے ذاتی مشاہدے کے مطابق لاہور کی تعلیم سیمی کیڈٹ انداز کی تھی۔ سیکنڈری سطح تک تعلیمی اداروں میںتمام اساتذہ بی ایڈ کی عملی اور تدریسی تعلیم سے آراستہ ہوا کرتے تھے۔ تمام اساتذہ محنت و جانفشانی سے ہر طالبعلم پر درس و تدریس پر توجہ اپنے فرائض منصبی سمجھتے تھے۔ تعلیم کا معیار اعلی و ارفع ہوا کرتا تھا۔ طلبا کے قیام و طعام کے لیے صاف اور ہوا دار ہاسٹلز اور اس کے اطراف میں کھلے اور سر سبز گارڈن کالج کی شان میں اضافہ کیا کرتے تھے۔
سائنس کے طلبا کی عملی مشق کے لیے کشادہ اور صاف ستھری کیمیائی لیبارٹریاں اپنے ضروری سامان کے ذخیرہ کے ساتھ موجود ہواکرتی تھیں۔میونسپل ٹا ون ہال ، ناصر باغ جسکا پرانا نام گول باغ تھا کے سنگم میں ضلع کچہری، پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس، گورنمنٹ کالج ، نیشنل کالج آف آرٹس، قومی عجائب گھر اور اس عجائب گھر کے عقب میں شہر کا سب سے بڑا دارالمطالعاتی مرکز گورنمنٹ پنجاب پبلک لائیبریری ہے۔یہ وہ عوامی لائیبریریاں ہیں جہاں سے کتب کرایہ پر مل سکتی ہے اور ادھار بھی مل جاتی ہے۔اس لا ئیبریری میں ممبر شپ کی کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نجی سیکٹر میں LCB پبلک لائیبریری، ای لائیبریری، ڈیفینس لائیبریری، ماڈل ٹاون لائیبریری قابل ذکر ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا چھاپہ خانہ پیسہ اخبار لاہور ہی میں واقع ہے۔ اردو بازار لاہور کا سب سے قدیم اور ملک کا سب سے بڑا بازار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
لاہور کی معروف مال روڈ پر واقع ''پاک ٹی ہاوس '' شعر و ادب کی آماجگاہ ہے جہاں کی شامیں جدید شعرا کے لیے ایک زندہ دنیا ہے۔ مگر یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ تمام بڑے بڑے عالمی مشاعرے کراچی میں منعقد کیے جاتے ہیں، کیا لاہور کا حق نہیں ہے کہ ایسے مشاعرے لاہور کے رومانوی موسم بہار میں کیے جائیں۔ ہماری رائے ہے کہ جس طرح کراچی کی تنظیم '' شہر قائد '' کے نام سے مشہور ہے اسی طرز پر لاہور کی بھی '' شہر اقبال '' یا ''شہر شاعر مشرق '' کے نام کی تنظیم ہونی چاہیے۔
پنجابی زبان کی بات ہو خواہ اردو زبان کی ہمیں یہ کہتے ہوئے عار محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ اسی شہر شاعر مشرق میں مشرقی طرز تعلیم کی عظیم درسگاہ '' پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج '' جہاں نہ صرف عربی ، فارسی اور سنسکرت جیسی کلاسیکل زبانیں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں بلکہ اردو ، ہندی، پنجابی اور پشتو جیسی اورینٹل زبانیں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں۔ یہ پاکستان ہی کیا بلکہ پوری دنیا میں اس معیار کی لسانی درسگاہ نہیں ملے گی۔ ایشیا کی ادب و تہذیب کی یہی واحد منفرد درسگاہ ہے جو قیام پاکستان سے قبل ہی سے درس و تدریس میں کوشاں ہے۔
برصغیر سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ سو ایسے پنجابی شعرا ہیں جنہوں نے شہرت پائی ان میں سے صوفیانہ پنجابی شعرا میں وارث شاہ، بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش، واصف علی واصف کے نام قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ فیض احمد فیض، ابن انشا ، استاد دامن، حسین شاہ، صوفی غلام مصطفے تبسم، منیر نیازی، انور مسعودکی پنجابی ادب کی خدمات میں نمایاں نام ہیں۔ ان شعرا کا تعلق بھی کسی نہ کسی حوالہ سے لاہور ہی سے رہا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کا واحد تخلیقی فن مصوری کی تعلیمی درسگاہ ''نیشنل کالج آف آرٹس '' لاہور ہے۔
راوین اوردروازوں کا شہرلاہور کی تاریخ دو ہزار سال قدیم ہے۔ لاہور کی تاریخ کا تذکرہ مسلمان مورخ اور تاریخ دان ''البیرونی '' کی کتاب ''تاریخ الہند '' میں بھی ملتا ہے۔ تاریخ لاہور کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ زمانہ قدیم میں ہندوؤں کے دیوتا راما کے بیٹے لاوا کے بعد لاہور کا نام پڑا۔ لاوا کو لوہ سے پکارا جاتا تھا اور لوہ (لاوا) کے لیے تعمیر کیا جانے والا قلعہ ''لوہ آور '' کے نام سے مشہور ہوا ۔ کچھ کتابوں میں ملتا ہے لاہور کا قدیم نام ''لاوہ پوری'' اور کچھ میں قطب الدین ایبک کے زمانہ بادشاہی میں لاہور ''غزنی آف انڈیا '' کے نام سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ لاہور سے قبل پنجاب کی راج دھانی شہر دیپال پور تھا۔ ی
ہ وہ زمانہ تھا جب لاہور میں جین (جین مندر آج بھی لاہور میں مشہور ہے) اور برہمن ہندو، بڈہسٹ ، مسلمان ، سکھ بڑی تعداد میں سکونت پذیر تھے۔ 1524سے 1752 عیسوی کا درمیان کا طویل عرصہ ماہرین فن تعمیر مغل بادشاہوں کے زیر اثر رہا۔مغل بادشاہوں نے بیرونی حملوں سے بچاؤ کے لیے شہر میں مضبوط حصار کے فصیل تعمیر کیے جس کے بارہ دروازے اور ایک چھوٹا دروازہ تھا جس کو عرف عام میں موتی دروازہ المعروف موچی دروازہ کہتے ہیں۔ دہلی دروازہ، اکبری دروازہ، شاہ عالم دروازہ، لہاری دروازہ المعروف لاہوری دروازہ، موری دروازہ، بھاٹی دروازہ، ٹکسالی دروازہ، مستی دروازہ، کشمیری دروازہ، ذکی دروازہ المعروف یکی دروازہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
سلطان سبکتگین کے بیٹے سلطان محمود غزنوی کے دور میں لاہور کا سب سے پہلا گورنر اور حاکم ملک ایاز نے جدید لاہور کی بنیاد رکھی اور اس کو پنجاب کا دارالسلطنت بنایا جس کے زیر انتظا م شہر دلی بھی آتا تھا۔ یاد رہے ! ملک ایاز اس وقت لاہور کے مرکزی تجارتی اور کاروباری علاقہ ''رنگ محل '' میں آسودہ خاک ہے۔ کاشغر ، بخارا، سمر قند ، عراق ، خراسان اور ہرات سے آئے ہوئے نامور شعرا ، روسا و حکما اور صاحبان کسب و ہنر اور جید علما کرام کی ایک بڑی تعداد نے اس شہر کا دورہ کیا اور اس شہر کو ''سیکھنے کا شہر'' قرار دیا۔ قدیم دروازوں، قدیم حویلیاں، خوبصورت کشادہ سر سبز باغات ، تاریخی دلکش و پرشکوہ عمارات کا شہر لاہور۔