بے روزگاری سے نجات۔۔۔

بے روزگاری جیسے مسئلے کے حل کے لیے سیرۃ طیّبہؐ ہماری، کامل اور جامع راہنمائی کرتی ہے


سُود کھانا زنا سے زیادہ شدید گناہ قرار دیا گیا فوٹو: فائل

معاشی ماہرین کے مطابق بے روزگاری ایسی کیفیت ہے، جس میں کام کرنے کے قابل اور خواہش مند افراد کو ان کی تعلیمی قابلیت، صلاحیت اور کارکردگی کے معیار کے مطابق کام نہ ملے۔

قرآن مجید میں بے روزگار کے لیے ''محروم'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مفسّرین نے محروم کی تشریح بے روزگار سے کی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ اور مجاہدؓ کا قول ہے: ''محروم وہ ہے جس کا کوئی حصہ بیت المال میں نہ ہو، خود اس کے پاس کوئی کام کاج نہ ہو، صنعت و حرفت یاد نہ ہو جس سے روزی کما سکے۔'' (تفسیر ابن کثیر)

مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ''ترجمان القرآن'' کے مطابق: ''قوم کے تمام ایسے افراد جن پر وسائل معیشت کی تنگی کی وجہ سے معیشت کے دروازے بند ہو رہے ہوں اور اگرچہ وہ خود پوری طرح سعی (کوشش کرنے والے) ہوں لیکن نہ تو نوکری ملتی ہو نہ کوئی اور راہ معیشت نکلتی ہو یقینا مساکین میں داخل ہیں۔''

بے روزگاری کے حل کے لیے آپؐ کی یہ حدیث ہماری راہ نمائی کرتی ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آپؐ کے پاس آیا اور اپنی حاجت بیان کی۔ آپؐ نے فرمایا: تیرے گھر میں کوئی چیز ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں! ایک ٹاٹ ہے۔ اس کے بعض کو ہم پہنتے ہیں، اور اس کے بعض کو ہم بچھاتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: دونوں چیزیں میرے پاس لاؤ۔ وہ دونوں چیزیں آپؐ کے پاس لایا۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ان دونوں کو کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں یہ دونوں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔

آپؐ نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ دو یا تین مرتبہ اس طرح فرمایا۔ ایک آدمی نے کہا: میں دو درہم دیتا ہوں۔ آپؐ نے وہ دونوں اس کو دے دیں۔ اس سے دو درہم لیے۔ پھر انصاری کو دے کر فرمایا: ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید لو اور اپنے گھر والوں کو دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔ وہ کلہاڑی خرید کر لایا اور رسول اﷲ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا: جاؤ اور لکڑیاں لاکر بیچا کرو۔ میں پندرہ دن تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ آدمی گیا اور لکڑیاں لاتا اور ان کو بیچتا۔ ایک دن وہ آیا اور اس نے دس درہم کمائے تھے۔ اس نے چند درہم سے کپڑا خریدا، کچھ کھانا خریدا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: یہ تیرے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تیرے چہرے میں بُرا نشان ہو۔ سوال کرنا تین اشخاص کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ ایسا محتاج جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال رکھا ہے، یا ایسا شخص جس کے ذمے بھاری قرض ہے جس کے اتارنے کی اس کو طاقت نہیں، یا کسی خون والے کے لیے جو درد پہنچائے۔ (سنن ابی داؤد)

آپؐ نے بھیک مانگنے کی مذمّت فرمائی ہے۔ بھیک مانگنے کے بہ جائے محنت کرکے روزی کمانے کی تعلیم دی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''وہ شخص جو لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے، چاہے وہ اسے کچھ دے یا نہ دے۔'' (صحیح بخاری)

ایک حدیث میں بھیک مانگنے اور سوال کرنے پر عذاب اخروی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا۔

آپؐ نے تجارت کرنے والے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور اس کے لیے دعا فرمائی ہے۔ آپؐ نے ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے کے بہ جائے محنت اور تجارت کرنے کو ترجیح دی اور ان کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔

عصر حاضر کی بے روزگاری سُودی نظام معیشت کی خامیوں میں شامل ہے۔ اس لیے نبی مکرم ؐ نے اپنی بیشتر احادیث میں سُود کی مذمت فرمائی ہے۔ علامہ رشید رضا مصری نے ''ربا الحدیث'' (وہ سُود جس کا احادیث میں ذکر ہے) کے نام سے باقاعدہ ایک قسم بتا ئی ہے۔ ان میں سے بعض احادیث میں سُود کو گناہ کبیرہ اور ہلاک کرنے والی چیز قرار دے کر اس سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ دوسری قسم کی احادیث وہ ہیں جن میں آپؐ نے سُود کی وجہ سے ہونے والے عذابوں اور بعض عذابوں کا مشاہدہ بیان فرمایا۔ بعض احادیث میں سُود کے ستر مفاسد میں سے سب سے ادنٰی ماں سے بدکاری قرار دیا گیا۔ سُود کھانا زنا سے زیادہ شدید گناہ قرار دیا گیا۔ ان کے علاوہ آپؐ نے سُودی کاروبار سے منسلک لوگوں پر لعنت فرمائی ہے۔

بے روزگاری جیسے مسئلے کے حل کے لیے سیرۃ طیّبہؐ ہماری، کامل اور جامع راہنمائی کرتی ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کو عملی طور پر نافذ کر کے سُود اور اس کے مفاسد کو ختم کرکے، دولت کی مساوی تقسیم، ایثار، اخوّت اور محنت کی عظمت کو اجاگر کرکے ہم اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں