انسانی جسم پر بیرونی حیات کا حملہ
کوئی باریک چھینٹا بھی جو جراثیم کو لے جانے کے قابل ہو اگر لگ جائے تو اس کو نجس العین قرار دیا ہے۔
جب اول روز چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں تو روس نے روایتی طور پر اس کو امریکا کے جراثیمی حملے کی ایک قسم کا شک قرار دیا بلکہ اس سے بھی آگے جاکر یہ تک کہا کہ امریکا نے ہزاروں مہلک جراثیم اور جرثومے روس کی مغربی سرحدوں پر لگا رکھے ہیں۔
مگر چند روز بعد جب یہ انکشاف ہوا کہ امریکا کے ایک اتحادی مغربی ملک اٹلی میں بھی اس سے کہیں زیادہ اموات ہو رہی ہیں اور اس ملک کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے تو یہ زبانی کلامی لڑائی پس منظر میں چلی گئی اور روس چین کی مدد کو بالکل اسی طرح سامنے آیا جیساکہ چینی انقلاب کے دور میں سوویت یونین نے لانگ مارچ کے رفقا کی مدد کی تھی اور تھوڑے ہی دن میں چین نے اس انوکھے وائرس کو نابود کردیا۔
چونکہ روس آج تک سوویت دور کے خاتمے کے باوجود چین اور شمالی کوریا کے علاوہ اور کسی حد تک کیوبا تک کھلا ہوا ہے۔ اور باقی دنیا سے ہر قسم کا رابطہ نہیں ہے اس لیے اس کے علاج کی اور اس ناول وائرس کے خاتمے کی اصل وجہ سامنے نہ آئی البتہ صفائی ستھرائی اور پانی سے سڑکوں کی دھلائی اور قرنطینہ کے عملی اقدام سامنے آئے۔
یہاں ہمیں یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ ہمارے نبی اکرمﷺ نے تو صاف ستھرا رہنے کے علاوہ پنج وقتہ باوضو رہنے کی بھی تاکید کی ہے اس کے علاوہ صاف کے ساتھ پاک کا تصور بھی پیش کیا ہے۔ یعنی کوئی باریک چھینٹا بھی جو جراثیم کو لے جانے کے قابل ہو اگر لگ جائے تو اس کو نجس العین قرار دیا ہے۔
جب بات طہارت کے در تک پہنچ چکی ہے تو پھر آنحضرت ﷺ کا یہ قول کہ مجھے خوشبو لگانا پسند ہے۔ اسی لیے درگاہوں میں دن رات لوبان اور اگر بتی کی مہک پھیل رہی ہوتی ہے۔ جس کو ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب تک جو چار ہزار آٹھ سو اقسام وائرس کی دریافت ہو چکی ہیں یہ سب خوشبو اور اس کے دھوئیں سے دور بھاگتی ہیں اسی لیے عام طور پر کیچڑ پانی اور بدبودار جگہوں سے گزرتے ہوئے منہ پر رومال رکھ لیتے ہیں۔ یہ قدیم رواج بھی ہے اور صوفیا کرام کا طریقہ بھی کہ پاکی اختیار کی جائے۔
چونکہ گفتگو کا رخ موضوع سے دوری کی طرف جانے کا خدشہ ہے اس لیے ہم دوبارہ اس نوول وائرس کی طرف لوٹتے ہیں جو ماضی میں ایک بار پہلے بھی اٹلی میں آچکا تھا اور وہاں کے لوگوں کا یہ قدیم خیال تھا کہ یہ وائرس چمگادڑ (BAT) کے جسم سے پھیلتا ہے۔ واضح رہے کہ چمگادڑ واحد ایسا پرندہ ہے جو انڈوں کے بجائے بچے دیتا ہے اور ان کو دودھ پلاتا ہے۔ اندھیروں سے رغبت، کیڑے اس کی غذا اور خوشبو سے دور بھاگتا ہے۔
اس وقت ہمارے پڑوسی ملک ایران کو بھی امریکی رکاوٹوں کی وجہ سے شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اور شرح اموات میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے امریکا سے براہ راست یہ درخواست کی ہے کہ امریکا ایران سے کم ازکم ادویات کی پابندی ہٹالے کیونکہ یہ عمل درحقیقت جراثیمی مرض کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔ چونکہ دور حاضر میں دنیا، جو کبھی تصورات کے جام جم میں تھی اب وہ اس حقیقی جام جم میں موجود ہے۔
آمد و رفت کا اندازہ تو لگائیے کہ انڈیا کے لوگ امریکی ریاست انڈیانا تک اس مرض کو لے کر پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا امریکی حکومت نے قرنطینہ عائد کردیا ہے۔ بقول ایک امریکی شخص کے جب یہ اطلاع امریکی عوام کو پہنچی تو شاپنگ مالز میں لوٹ کا سماں تھا یہ تہذیب یافتہ قوموں کی عورتیں بھی ایک دوسرے سے چھینا جھپٹی کر رہی تھیں اور سب سے زیادہ لوٹ مار ٹشو پیپر کی تھی کیونکہ ان ممالک میں طہارت کے وہ طریقے رائج نہیں جو مسلم ممالک میں ہیں۔ بہرحال یہاں اس بات پر افسوس کرنا پڑے گا۔ بقول علامہ اقبال کے کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
کیونکہ یہ ایٹمی ہتھیاروں کے علاوہ جراثیمی ہتھیار اور انسان کش روبوٹ کی تیاری میں بھی مصروف ہے۔ مگر اس میں الیکٹرانک مائیکرو اسکوپ سے دیکھے جانے والے باریک جرثوموں کو نابود کرنے کا کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ انسان کا جنگی جنون اور ایک دوسرے پر حکومت کرنے کی خواہش اس قدر بڑھ چکی ہے کہ غریب ممالک بھی جدید ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ ان ممالک میں بھی یہ وبا پھیل چکی ہے لیکن ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے غریب عوام کو کھانے کی اشیا مہیا کرسکیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے قرنطینہ کا تذکرہ بڑے پژمردہ انداز میں کیا اور یہ بات ببانگ دہل کہی کہ وہ اس مرض سے بچاؤ کی تدبیریں تو کر رہے ہیں۔ مگر غریب عوام کو مراعات نہیں دے سکتے اور نہ ہی غریب اور مفلوک الحال عوام کو کسی قسم کی تربیت فراہم کرسکتے کیونکہ مرض کی علامت بڑی سرعت سے ملک میں پھیلی ہے۔
کراچی میں دوسرے واقعات میں اہم واقعہ یہ ہے کہ نام نمود کی خاطر سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن کے مختلف عوامی اداروں نے جو دسترخوان لگاتے ہیں ان میں سے اکثر نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ غریب علاقوں میں کھانے کا انتظام کریں گے۔ خاص طور سے ان علاقوں میں جو کام نہ ملنے کے باعث چائے پینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے وہاں کوئی اپنی سوزوکی وین لے کر نہیں پہنچا۔ ڈیفنس سے ملا ہوا علاقہ ''کچرا کونڈی'' جو قیوم آباد کے قرب میں ہے اور ناصر جمپ کورنگی کے علاقے میں نیلم کالونی کلفٹن اور شیریں جناح کالونی کے عوام بھی بھوک مری کا شکار ہوئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک میں سطحی کام کرنے والوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔
سندھ حکومت نے بہت اچھے اقدامات کیے جو زبان و بیان کے اعتبار سے قابل تعریف کہے جاسکتے ہیں۔ لیکن آیندہ پندرہ روز میں اگر غریب مرض سے جانبر ہو بھی گئے تو بھوک ہی ان کو آسمان کی سیر کرا دے گی۔ لہٰذا صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ جن اداروں نے غریب علاقوں میں کھانا پہنچانے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا احاطہ کیا جائے اور ان کو عملی اقدام پر مجبور کیا جائے۔ اس کے علاوہ روزمرہ کے چھوٹے کام کرنے والوں کے لیے بھی مناسب انتظام کیا جائے اور رکشہ ڈرائیوروں کو ایک سواری کو لے جانے کی اجازت دی جائے۔قرنطینہ کے نام پر حکومتی ادارے اپنے جائز عمل سے تجاوز نہ کریں، حکومت یہ احکامات فوری طور پر جاری کرے۔ بصورت دیگر یہ تمام اقدامات عوام دشمن کارروائیوں کا حصہ بن جائیں گے۔