کورونا وائرس اور کچھ احتیاطی تدابیر

گرم پانی کا استعمال، دھوپ میں بیٹھنے اور میل جول محدود کرکے کورونا وائرس کو مات دی جاسکتی ہے۔


چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے کورونا وائرس کو شکست دی جاسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس اس وقت عالمی وبائی صورت ختیار کرچکا ہے۔ ایشیاء، امریکہ، یورپ ، افریقہ سمیت دنیا کے ہر گوشے میں اس خطرناک وائرس سے جنگ جارہی ہے ۔ گزشتہ چند ماہ میں کرونا وائرس کی وباء کے متعلق عوامی آگاہی بہت عام ہوچکی ہے جس کی بدولت عوام کی بڑی تعداد اب اس مسئلے کی سنجیدگی اور حسّاسیت سے واقف ہوچکی ہے۔ پاکستانی سماج میں بڑی تعداد میں لوگ اپنی ناخواندگی اورلاعلمی کی وجہ سے عملی اقدامات کرنے سے قاصرہیں۔ اس وقت پاکستان جس خطرے کا شکار ہے ، مستقل قریب میں اس کے نتائج انتہائی ہولناک ظاہر ہوسکتے ہیں۔

کرونا وائرس کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت کرونا کے مریضوں کی تعداد 1400 سے زیادہ ہے ۔ کورونا ایک متاثرہ شخص سے کم از کم دو سے تین افراد کو منتقل ہوجاتا ہے۔ اگر دنیا بھر میں یہ وائرس اسی شرح سے پھیلتا رہے تو اگلے دو ماہ میں یہ تعداد 21 لاکھ ہوجانے کا خدشہ ہے اور اس طرح متوقع اموات ایک لاکھ تک ہوسکتی ہیں ۔ پاکستان میں موجودہ ہیلتھ کیئر انفرا اسٹرکچر اتنی بڑی تعداد میں مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔ اٹلی اور ایران کے موجودہ حالات اس تکلیف دہ صورتِ حال کا مظہرہےں ۔

کرونا سے متاثرہ زیادہ تر صحت مند افراد دو ہفتوں میں خود اپنی قوتِ مدافعت سے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔جبکہ ایسے افراد جو کسی دائمی بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہوتے ہیں انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ چونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں سانس لینے کا نظام متاثر ہوتا ہے اس لیے مریض کو مصنوعی سانس یعنی وینٹی لیٹر کی ضرورت اکثر پڑجاتی ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے پاکستان میں وینٹی لیٹرز کی تعدادتین ہزار سے کم ہے جوکہ بہت قلیل ہے یعنی اگرحالات خراب ہوتے ہیں تو اکثر مریضوں کو بچانے کے لیے وینٹی لیٹر موجود نہیں ہونگے جس سے شرح اموات کئی گنا بڑھ سکتی ہے ۔

کرونا کا ٹیسٹ جس مشین کے ذریعے ہوتا ہے اس کو رئیل ٹائم پی سی آر مشین کہتے ہیں،یہ ایک مہنگی مشین ہے جس کی قیمت تیس سے ساٹھ لاکھ روپے تک ہے ۔ ملک میں اس مشین کی تعداد بھی محدود ہے جس کی وجہ سے تشخیص کی رفتار سُست روی کا شکار ہوگی ۔ دیگر مشکلات میں تشخیص کے لیے استعمال ہونے والی خاص ٹیوب جسے سویب میڈیا کنٹینر کہتے ہیں کی فراہمی ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیوب ہوتی ہے جس میں تشخیصی نمونہ رکھا جاتا ہے اور اس میں موجود مائع نمونہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ ان سویب کنٹینراور دیگر اشیاء کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب اور محدود فراہمی مستقبل قریب میں ایک مسئلہ بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ جو تشخیص اور علاج کے لیے تربیت یافتہ افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ مستقبل میں یہ مسئلہ ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔

کورونا اور احتیاطی تدابیر

آخر میں کچھ باتیں جنہیں اختیار کرنے سے کرونا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازہ کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیجئے۔ بند کمروں میں اے سی چلاکر بیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں ۔ سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر اُبھری ہوئی پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں ۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اور ہر ایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں ۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اور وہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح دن میں ایک مرتبہ گرم بھاپ لینے سے سانس کی نالی اور سائینس کی بھی صفائی ہوجاتی ہے ۔

اس وائرس کے خلاف جنگ میں طاقتور دفاعی نظام بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے آٹھ گھنٹے کی نیند بہت ضروری ہے کیونکہ اس دوران دفاعی نظام اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتا ہے اور دفاع کو مضبوظ بناتا ہے ۔ اس کے علاوہ معیاری اور متوازن غذا کی بھی بہت اہمیت ہے ۔

اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھنا اور عملی اقدامات کرنا ہر فرد کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ حکومتی اقدامات کا احترام کرنا اور احتیاطی تدابیر کو مکمل اختیار کرنا نہ صرف ایک انسانی اور قومی فریضہ ہے بلکہ اپنے پیاروں کی محبت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔ خود کو اور اپنے گھر والوں کو گھروں تک محدود رکھنا انتہائی ضروری قدم ہے ۔ انتہائی ضروری حالات میں ہی گھر سے باہر نکلنا چاہیے ۔ کرونا سے متوقع انسانی جانوں کا نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے اس وقت سب سے زیادہ ضروری امر فرد کا محتاط اور ذمہ دارانہ برتاو ہے ۔ جو قو میں مشکل حالات میں صبر کے ساتھ تنظیم اور اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہیں وہی کامیابی سے اپنا توازن برقرار رکھ پاتی ہیں۔

اس تحریر کے مصنف جامعہ کراچی میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی، ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیور میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ میں سینیئر ریسرچ آفیسر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں