کیا مسلمان کے لیے دولت کا حصول غلط ہے
بھارت کے مسلم نوجوانوں کے لیے لکھی گئی ایک تحریر، جو پاکستانی نوجوانوں کے لیے بھی سودمند ہے
ایک بہت ہی سنگین مسئلہ جس کا مشاہدہ میں نے نہایت قریب سے کیا، اس کا تعلق مسلم نوجوانوں کے مستقبل سے ہے۔ ہمارے نوجوان معاشرتی علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جیسے ہی یونیورسٹی کے کسی کورس میں داخلہ لیتے ہیں، وہ دائیں اور بائیں بازو کی ایک بائنری میں پھنس جاتے ہیں۔ کوئی تو ایک دم ہی ملحد ہوجاتا ہے، کچھ بھگت بن جاتے ہیں اور باقی جو بچتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں اس پر گفتگو کرنا فضول ہے۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں علمی طور پر پولورائزیشن کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ موجودہ طبقاتی، سیاسی چپقلش کے ماحول اور آمرانہ نظام کے عروج کے دور میں، ان میں سے ایک بڑی تعداد سیکولرازم کے سوالات کو دبانے کی کوشش میں بائیں بازو کی طرف مڑ جاتی ہے۔
مسلم طلبا کو ایک یہ سبق دیا جاتا ہے کہ کاروبار اور دولت کا حصول کس طرح بُرا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اکثر نوجوان اس معمے کی حقیقت کو جانے بغیر اس مفروضے میں پھنس جاتے ہیں اور جو لوگ انھیں سکھا رہے ہوتے ہیں کہ انفرادی طور پر دولت کا حصول اچھی بات نہیں ہے، ان میں سے بیشتر جاگیردارانہ بلکہ اہل ثروت اور مال دار خاندان یا اس پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں جو شاید اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتے کہ عام متوسط طبقے کے نوجوان تعلیم کی بنیاد پر ان کے برابر مرتبہ حاصل کر لیں۔ جب تک وہ اپنے خاندانی نیٹ ورک میں واپس جائیں گے، اس مہم جوئی کے متحمل ہوجائیں گے۔
مڈل کلاس والوں کو یہ 'عیاشی' اور فراخ دلی میسر نہیں آتی۔ ایک خاص موڑ کے بعد وہ خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں کہ اب جائیں تو کہاں جائیں۔ زندگی سے مایوس ہوکر چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے کام چلاتے ہیں۔ بسااوقات گاؤں لوٹتے ہیں تو خود کو لوٹا ہوا اور مجبور محسوس کرتے ہیں اور وہی پرانے ڈھرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے سنگین صورت حال یوپی اور بہار میں زراعت میں ہے جہاں کسی وقت زمینداری مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ زمینداری ختم ہونے کے بعد بھی بہت سے خاندان بڑی تعداد میں خاندانی زمین بچانے میں کام یاب رہے اور یہ کنبے کاشتکاری کرتے رہے۔ مگر ایک تو خاندانی زمین نسل درنسل تقسیم ہونے سے آمدنی کم ہوتی چلی گئی اور جو کچھ کمی رہی تھی وہ گذشتہ چند سالوں کے دوران حکومت کی پالیسیوں نے کاشت کاروں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ آبائی کام کو چھوڑکر اور زمینیں فروخت کرکے دیگر پیشے اختیار کرلیے۔ مگر مسلمانوں کی بہ نسبت پنجاب میں سکھوں نے اپنے بچوں کو زراعت میں اعلیٰ تعلیم دی اور خاندانی پیشے کو ترقی دی۔ کیا مسلمانوں کی بھی اسی جانب توجہ نہیں دینی چاہیے تھی؟ ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں کہا جاتا تھا۔ اُتم کھیتی مدھم بان نکھد چاکری بھیک ندان۔ مطلب سب سے اونچا پیشہ کاشت کاری ہے۔ تجارت درمیانہ درجے کا پیشہ ہے۔ نوکری سب سے گھٹیا اور بھیک مانگنا بدترین۔ ایک وقت اس پیشے کی اہمیت یہ تھی کہ اسے ہلے نمبر پر رکھا جاتا تھا۔
دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آبائی پیشہ جیسے برتن سازی، تالا سازی، کپڑا سازی جیسے ہنر کو پڑھ لکھ کر مزید بہتر کرنے کے بجائے اسے چھوڑ رہے ہیں۔ نتیجتاً مسلم پس منظر والی پیشہ ورانہ صنعت زوال پذیر ہے۔ تجارت، جسے رسول کریمﷺ نے کرنے کی تاکید کی، اسے اختیار کرنے والوں کے لیے نہایت تحقیر آمیز لہجہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاں کوئی اس میں کام یابی حاصل کرلے تو وہ باعزت سمجھا جاتا ہے۔ حالاںکہ اس طرح کی چیزوں میں جیسے ہینڈ لومز ہیں تانبے اور کانسی کی صنعت ہے۔ مٹی کے برتن بنانے اور بہت سی گھریلو کشیدہ کاری کی صنعت ہے، اس میں کسی مڈل مین کو شامل کرنے کے بجائے، خود اپنی مارکیٹنگ کی جائے، اس کے لیے تھوڑا پڑھا لکھا ہونا کافی ہو گا۔
ہنر اور خاص طور پر ووکیشنل تعلیم آج کے نوجوانوں کو کارآمد اور دل چسپ روزگار فراہم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہماری کرم فرما محترمہ سلمٰی جیلانی صاحبہ جن کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے، اس موضوع پر بات ہونے لگی تو انھوں نے بتایا کہ نیوزی لینڈ میں ستانوے فی صد چھوٹے کاروبار ہیں اور ان میں سے اکثر زرعی پیشے سے وابستہ ہیں، جنھیں جدید خطوط پر آراستہ کرنے سے آمدنی کے ذرائع بہتر ہوتے ہیں۔ انڈیا پاکستان میں بہت سے جدی پشتی پیشے ایسے ہیں جنھیں جدید خطوط پر ڈھالا جا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں متعارف کرا کے آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے مارکیٹ میں جگہ بنائی جا سکتی ہے، لیکن مسلم برادری اس جانب کم ہی توجہ دیتی ہے۔ مسلمانوں کو اس عام تصور کو خیرباد کہنا ہو گا کہ پیسہ کمانا کوئی بری بات ہے کیوںکہ پیارے نبی ﷺ نے مضبوط مسلمان کو کم زور مسلمان پر ترجیح دی ہے۔ یعنی اگر کوئی معاشی طور پر مستحکم ہو گا تب ہی غریبوں کی مدد کر سکے گا۔
ظاہری شان و شوکت، مالی فراوانی اور اہم عہدوں کے حصول کی طلب میں مسلم نوجوان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ وہ سوچ ہے جو کم علمی کی بنا پر ان کے ذہنوں میں بھردی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا صرف آخرت کی تیاری کی جگہ ہے اور یہاں خود دنیاوی ترقی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اصل مقصد سے ہٹ جانے کے مترادف ہے۔ میرے خیال میں یہ بات دینی تعلیمات کی روشنی میں بھی نادرست ہے کیوں کہ قرآن مجید میں قصہ قارون میں اللہ تعالٰی دین و دنیا کے حصول میں توازن بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
''جو کچھ تمہیں (مال ) دیا گیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے گھر کے بارے فکر کرو اور دنیا میں جو تمہارا حصہ ہے اسے بھی مت بھولو اور ویسے ہی اچھائی کرو جیسے اللہ نے (مال عطا کر کے) تمہارے ساتھ اچھائی کی۔ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ کیوں کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قارون کو یہ نہیں کہا جا رہا کہ دنیا کا حصول یا اس کی طلب کے لیے کوشش ہی نہ کر بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اسے حاصل کر لیکن اس کے ذریعے اپنی آخرت کو کام یاب بنا یعنی اس مال کو لوگوں پر خرچ کر۔ لوگوں پر کیا سارا مال خرچ کرنا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالٰی سورۂ بقرہ آیت نمبر 219 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مال ضرورت سے زیادہ ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مال کمانا اور پھر اپنی ضروریات کے بقدر اس کو اپنے پاس باقی رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ زکوٰۃ اور دیگر مدات میں جو ضروری انفاق ہے وہ بھی اس بات کا پتا دیتا ہے کہ ایک خاص مقدار اللّہ کے نام پر بس خرچ کی جائے اور باقی کا مال اپنی ضروریات میں صرف کیا جائے سو یہ کہنا یا خیال رکھنا کہ دولت کا حصول بذات خود یا اس کے لیے تگ و دو ہی شریعت کی نظر میں کوئی نامناسب عمل ہے، غلط ہے۔
اسی طرح عہدے کی حصول کی بات کی جائے تو اپنے اسٹیٹس کی بحالی اور جملہ دینی و معاشرتی سطح پر انفرادی یا اجتماعی بھلائی کی غرض سے اس کا حصول یا کوشش بھی کوئی بری چیز نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ مجھے وزیرخزانہ بنا دیا جائے کیوں کہ اس سے ایک تو ان کا اپنا اسٹیٹس بڑھ جانا تھا جو دعوت کے کام میں مفید ثابت ہونا تھا اور اہل مصر کی بھلائی بھی اسی میں پوشیدہ تھی۔
ہمارے نوجوانوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ جوں ہی گریجویشن کی تکمیل ہو، جزوقتی طور پر مزید اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو عملی طور پر اپنے من پسند میدان اور مزاج کے موافق آمدنی کے ذرائع سے وابستہ ہوں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پڑھنے کے بعد دماغ لگایا جائے تو اچھا کمایا جاسکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سمجھیں کہ پیسہ کمانا بھی ہماری جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ جتنا ہو سکے جائز طریقوں سے امیر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مسلم طلبا کو ایک یہ سبق دیا جاتا ہے کہ کاروبار اور دولت کا حصول کس طرح بُرا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اکثر نوجوان اس معمے کی حقیقت کو جانے بغیر اس مفروضے میں پھنس جاتے ہیں اور جو لوگ انھیں سکھا رہے ہوتے ہیں کہ انفرادی طور پر دولت کا حصول اچھی بات نہیں ہے، ان میں سے بیشتر جاگیردارانہ بلکہ اہل ثروت اور مال دار خاندان یا اس پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں جو شاید اس چیز کو برداشت نہیں کر سکتے کہ عام متوسط طبقے کے نوجوان تعلیم کی بنیاد پر ان کے برابر مرتبہ حاصل کر لیں۔ جب تک وہ اپنے خاندانی نیٹ ورک میں واپس جائیں گے، اس مہم جوئی کے متحمل ہوجائیں گے۔
مڈل کلاس والوں کو یہ 'عیاشی' اور فراخ دلی میسر نہیں آتی۔ ایک خاص موڑ کے بعد وہ خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں کہ اب جائیں تو کہاں جائیں۔ زندگی سے مایوس ہوکر چھوٹی چھوٹی نوکریوں سے کام چلاتے ہیں۔ بسااوقات گاؤں لوٹتے ہیں تو خود کو لوٹا ہوا اور مجبور محسوس کرتے ہیں اور وہی پرانے ڈھرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے سنگین صورت حال یوپی اور بہار میں زراعت میں ہے جہاں کسی وقت زمینداری مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ زمینداری ختم ہونے کے بعد بھی بہت سے خاندان بڑی تعداد میں خاندانی زمین بچانے میں کام یاب رہے اور یہ کنبے کاشتکاری کرتے رہے۔ مگر ایک تو خاندانی زمین نسل درنسل تقسیم ہونے سے آمدنی کم ہوتی چلی گئی اور جو کچھ کمی رہی تھی وہ گذشتہ چند سالوں کے دوران حکومت کی پالیسیوں نے کاشت کاروں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگ آبائی کام کو چھوڑکر اور زمینیں فروخت کرکے دیگر پیشے اختیار کرلیے۔ مگر مسلمانوں کی بہ نسبت پنجاب میں سکھوں نے اپنے بچوں کو زراعت میں اعلیٰ تعلیم دی اور خاندانی پیشے کو ترقی دی۔ کیا مسلمانوں کی بھی اسی جانب توجہ نہیں دینی چاہیے تھی؟ ایک وقت تھا جب ہمارے یہاں کہا جاتا تھا۔ اُتم کھیتی مدھم بان نکھد چاکری بھیک ندان۔ مطلب سب سے اونچا پیشہ کاشت کاری ہے۔ تجارت درمیانہ درجے کا پیشہ ہے۔ نوکری سب سے گھٹیا اور بھیک مانگنا بدترین۔ ایک وقت اس پیشے کی اہمیت یہ تھی کہ اسے ہلے نمبر پر رکھا جاتا تھا۔
دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے آبائی پیشہ جیسے برتن سازی، تالا سازی، کپڑا سازی جیسے ہنر کو پڑھ لکھ کر مزید بہتر کرنے کے بجائے اسے چھوڑ رہے ہیں۔ نتیجتاً مسلم پس منظر والی پیشہ ورانہ صنعت زوال پذیر ہے۔ تجارت، جسے رسول کریمﷺ نے کرنے کی تاکید کی، اسے اختیار کرنے والوں کے لیے نہایت تحقیر آمیز لہجہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاں کوئی اس میں کام یابی حاصل کرلے تو وہ باعزت سمجھا جاتا ہے۔ حالاںکہ اس طرح کی چیزوں میں جیسے ہینڈ لومز ہیں تانبے اور کانسی کی صنعت ہے۔ مٹی کے برتن بنانے اور بہت سی گھریلو کشیدہ کاری کی صنعت ہے، اس میں کسی مڈل مین کو شامل کرنے کے بجائے، خود اپنی مارکیٹنگ کی جائے، اس کے لیے تھوڑا پڑھا لکھا ہونا کافی ہو گا۔
ہنر اور خاص طور پر ووکیشنل تعلیم آج کے نوجوانوں کو کارآمد اور دل چسپ روزگار فراہم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہماری کرم فرما محترمہ سلمٰی جیلانی صاحبہ جن کا تعلق نیوزی لینڈ سے ہے، اس موضوع پر بات ہونے لگی تو انھوں نے بتایا کہ نیوزی لینڈ میں ستانوے فی صد چھوٹے کاروبار ہیں اور ان میں سے اکثر زرعی پیشے سے وابستہ ہیں، جنھیں جدید خطوط پر آراستہ کرنے سے آمدنی کے ذرائع بہتر ہوتے ہیں۔ انڈیا پاکستان میں بہت سے جدی پشتی پیشے ایسے ہیں جنھیں جدید خطوط پر ڈھالا جا سکتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں متعارف کرا کے آن لائن مارکیٹنگ کے ذریعے مارکیٹ میں جگہ بنائی جا سکتی ہے، لیکن مسلم برادری اس جانب کم ہی توجہ دیتی ہے۔ مسلمانوں کو اس عام تصور کو خیرباد کہنا ہو گا کہ پیسہ کمانا کوئی بری بات ہے کیوںکہ پیارے نبی ﷺ نے مضبوط مسلمان کو کم زور مسلمان پر ترجیح دی ہے۔ یعنی اگر کوئی معاشی طور پر مستحکم ہو گا تب ہی غریبوں کی مدد کر سکے گا۔
ظاہری شان و شوکت، مالی فراوانی اور اہم عہدوں کے حصول کی طلب میں مسلم نوجوان کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ وہ سوچ ہے جو کم علمی کی بنا پر ان کے ذہنوں میں بھردی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا صرف آخرت کی تیاری کی جگہ ہے اور یہاں خود دنیاوی ترقی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اصل مقصد سے ہٹ جانے کے مترادف ہے۔ میرے خیال میں یہ بات دینی تعلیمات کی روشنی میں بھی نادرست ہے کیوں کہ قرآن مجید میں قصہ قارون میں اللہ تعالٰی دین و دنیا کے حصول میں توازن بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ:
''جو کچھ تمہیں (مال ) دیا گیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے گھر کے بارے فکر کرو اور دنیا میں جو تمہارا حصہ ہے اسے بھی مت بھولو اور ویسے ہی اچھائی کرو جیسے اللہ نے (مال عطا کر کے) تمہارے ساتھ اچھائی کی۔ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ کیوں کہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔''
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قارون کو یہ نہیں کہا جا رہا کہ دنیا کا حصول یا اس کی طلب کے لیے کوشش ہی نہ کر بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ اسے حاصل کر لیکن اس کے ذریعے اپنی آخرت کو کام یاب بنا یعنی اس مال کو لوگوں پر خرچ کر۔ لوگوں پر کیا سارا مال خرچ کرنا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالٰی سورۂ بقرہ آیت نمبر 219 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مال ضرورت سے زیادہ ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مال کمانا اور پھر اپنی ضروریات کے بقدر اس کو اپنے پاس باقی رکھنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ زکوٰۃ اور دیگر مدات میں جو ضروری انفاق ہے وہ بھی اس بات کا پتا دیتا ہے کہ ایک خاص مقدار اللّہ کے نام پر بس خرچ کی جائے اور باقی کا مال اپنی ضروریات میں صرف کیا جائے سو یہ کہنا یا خیال رکھنا کہ دولت کا حصول بذات خود یا اس کے لیے تگ و دو ہی شریعت کی نظر میں کوئی نامناسب عمل ہے، غلط ہے۔
اسی طرح عہدے کی حصول کی بات کی جائے تو اپنے اسٹیٹس کی بحالی اور جملہ دینی و معاشرتی سطح پر انفرادی یا اجتماعی بھلائی کی غرض سے اس کا حصول یا کوشش بھی کوئی بری چیز نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خود یہ تجویز پیش کی تھی کہ مجھے وزیرخزانہ بنا دیا جائے کیوں کہ اس سے ایک تو ان کا اپنا اسٹیٹس بڑھ جانا تھا جو دعوت کے کام میں مفید ثابت ہونا تھا اور اہل مصر کی بھلائی بھی اسی میں پوشیدہ تھی۔
ہمارے نوجوانوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ جوں ہی گریجویشن کی تکمیل ہو، جزوقتی طور پر مزید اعلٰی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو عملی طور پر اپنے من پسند میدان اور مزاج کے موافق آمدنی کے ذرائع سے وابستہ ہوں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ پڑھنے کے بعد دماغ لگایا جائے تو اچھا کمایا جاسکتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم سمجھیں کہ پیسہ کمانا بھی ہماری جدوجہد کا ایک اہم حصہ ہے۔ جتنا ہو سکے جائز طریقوں سے امیر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔