محل اُداس اور گلیاں سُونی

جیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی یعنی بقائے شہر ہے اب شہر کی ویرانی میں۔

h.sethi@hotmail.com

گزشتہ سال کے آخری دنوں میں چین کے شہر Wuhan میں جو Coronaviris نامی وبا نے سر اٹھایا تو اس تیزی سے پھیلی کہ چین میں ہزاروں لوگوں لقمۂ اجل بنانے کے بعد دنیا کے بے شمار ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔ Covid-19 نامی اس بیماری یا وباء نے یوں تودنیا کے کم و بیش 80 ملکوں تک تین ہی ماہ میں پھیل کر نہ صرف تباہی مچادی بلکہ آفت زدہ کرنے کے علاوہ خوف و ہراس کی فضا بھی پیدا کردی جو بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اس وقت جو سب سے زیادہ متاثر ممالک ہیں ان میں چین، اٹلی، امریکا، اسپین، جرمنی، ایران، فرانس، سوئٹزرلینڈ، جنوبی کوریا اور برطانیہ شامل ہیں جب کہ یہ کورونا نام کی بلا خود چل کر ان ممالک کے مکینوں کے پاس نہیں پہنچی بلکہ یہ تمام متاثرین خود اسے لانے گئے اور لے کر اپنے گھروں کو لوٹے ہیں۔ یہی وجہ Corona کی پاکستان میں ورود کی ہے۔ اکثر زائرین اسے اپنے ہمراہ لے کر آئے ہیں اور پھر یہ ان واپس آنے والوں سے ان کے عزیزوں اور ملاقاتیوں میں منتقل ہوئی۔

یہ ایشو شروع میں ممکنہ لاعلمی یا غفلت کی وجہ سے Mishandle ہوا اور پھیلا یعنی دوسروں کو منتقل ہوا۔ حیرت کا مقام کہ ریڈیو ٹیلیوژن سے نشر ہونے والی واضع ہدایات کے بعد بھی کہ اس آفت کا مقابلہ دعا اور دوا کے بعد دوسرے لوگوں سے فاصلہ رکھنے، مصافے اور معانقے سے فی الحال پرہیز سے ممکن ہے۔ لوگ احکامات اور ہدایت پر عمل کرنے میں قطعی غیر سنجیدہ رہے۔ چند روز قبل کراچی سے سید انصر ظفر نے ٹیلیفون پر بتایا کہ وہاں سمندر کے قریب ایک مشہور ہوٹل ہے، کورونا وائرس کی شدت کے باوجود دو تین سو گاہکوں سے اس روز بھی بھرا ہوا تھا ۔ اصل خرابی پڑوسی ملک ایران کی سمت سے آنیوالے زائرین کو بروقت مکمل ٹیسٹ کے مراحل سے گزارے بغیر پاکستان میں داخل ہونے دینے اور اپنے اپنے علاقوں میں علاج کے بغیر جاکر وہاں وائرس پھیلانے کا سبب بنی۔ یا تو وائرس کے متاثرین کو بیماری کے بارے میں شعور ہی نہیں تھا یا احتیاطی تدابیر سے لاعلم تھے۔

معروف ادیب یونس جاوید جن سے میرا احمد ندیم قاسمی صاحب کے دور سے گہرا تعلق ہے، انھوں نے مجھے ایک گیت کی ویڈیو بھیجی جس کے بول ہیں:

محل اداس اور گلیاں سونی

چپ چپ ہیں دیواریں


جسے سن کر میں بھی کافی دیر چپ رہا اور پھر چپ توڑنے کے لیے انھیں فون کیا اور بتایا کہ میرے مکان کے اردگرد بھی موت جیسا سناٹا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خاں نے بھی Lock Down کا حکم صادر کردیا لیکن اسے یہ فیصلہ سندھ حکومت کے فیصلے سے بھی پہلے کرکے عملدرآمد کے لیے فوج کو مامور کردینا چاہیے تھا ۔ ٹیلیفون پر تمام متاثرہ ممالک میں پھیلی اس وباء کا تازہ ترین Data دکھایا جارہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر ابھی تک قابو پانے میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی لیکن کئی ممالک کے ماہرین روز و شب جدوجہد کررہے ہیں ،کیا یہ ہم لوگوں کی شامت اعمال ہے یا خود کو سدھار نے کے لیے وارننگ، امکان یہی ہے کہ یہ دونوں وجوہات ہیں لیکن اس وباء سے لوگوں کو بچانے کے لیے جدوجہد میں ہمہ تن مصروف اسٹاف اور ڈاکٹروں کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ چین سے شروع ہونے والی اس وباء کو کنٹرول بھی کافی حد تک اسی ملک نے کیا۔ کورونا وائرس نے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ یوں خدا کے منکرین کو ایک بار پھر اس کی ذات پاک کے وجود اور نظام ہستی چلانے کا محرک ہونے کا ثبوت فراہم ہوگیا ہے کہ زندگی کہ زندگی دینے اور لینے والی اسی کی ذات ہے۔ یعنی وہی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے۔

ملک میں لاک ڈاؤن سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عجیب مرض ہے جس کی دوا ہے تنہائی یعنی بقائے شہر ہے اب شہر کی ویرانی میں۔ پروین شاکر نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا:

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو

کوئی شام گھر بھی رہا کرو

اس وقت ایک سو کے قریب ممالک میں Lock Down ہے تاکہ یہ خطرناک وائرس زیادہ نہ پھیلے ۔ یہ ممالک جن میں چین، اٹلی، امریکا، ہالینڈ، اسپین، جرمنی، فرانس، برطانیہ، سوئٹزرلینڈ جنوبی کوریا اور ایران شامل ہیں۔ یوں تو ترقی یافتہ ہیں لیکن ان میں ہر ملک ہزاروں جانیں گنوا چکا ہے۔ اس وقت رات کے دس بجے ہیں اور مساجد سے اذانوں کی آوازیں آرہی ہیں۔
Load Next Story