مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
اس وقت تویوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے
اس وقت تویوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل ، یہ تو فقط ایک گھڑی ہے
ہمت کرو ، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
(میو اسپتال۔ ۴ مارچ، ۱۹۸۲)
اڑتیس برس قبل لکھی گئی فیض کی یہ نظم، لگتا ہے کہ آج کے حالات کے تناظر میں لکھی گئی تھی ۔ اس وقت جن کیفیات کو فیض خود پر گزرتے ہوئے محسوس کر رہے تھے، آج ہم سب ان سے گزر رہے ہیں۔ فیس بک اور باقی سوشل میڈیا پر بھی بہت سے لوگ اس نظم کے اشعار کو اپنی حالت بیان کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم سب اس وقت ایسی کیفیات سے گزر رہے ہیں کہ ان کا اظہار ممکن نہیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیاکے ذریعے ہم ہمہ وقت کورونا وائرس کی نت نئی صور ت حال سے آگاہ ہیں، خوفزدہ بھی ہیں، اپنے رب سے معافی بھی مانگ رہے ہیں اور اس سے اس کی رحمت کی طلب کر رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے دعا گو ہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ باقی دنیا کے لیے، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دعاگو ہیں ۔ اس عالمی وبا نے ہمیں ایک جیسے درد اور تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے ، ہم دوسروں کی تکلیف پر بھی تڑپ رہے ہیں۔
اس وبا نے ہمیں گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کر دیا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسی میں ہماری عافیت ہے۔ ملک میں ایک طبقہء فکر اس بات پر مصر ہے کہ ہمارے ملک میں فوری طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دینا چاہیے۔ چند دن قبل تک میں بھی اس کی حامی تھی مگر وقت جوں جوں گزر رہا ہے، مجھے ہوا میں جس ویرانی کی خوشبو آتی ہے، اسی خوشبو نے بتایا ہے کہ ہم تو اپنے آرام دہ گھروں میں اپنے لیے اشیائے ضروریہ رکھ کر محصور ہو گئے ہیں اور انتہائی ضرورت کے علاوہ گھر سے باہر نہیں نکلتے مگر اسی دنیا میں، اسی ملک میں بلکہ ہمارے ارد گرد، اسی ہوا میں وہ لوگ بھی سانس لے رہے ہیںجو اپنے گھروں پر محصور ہو کر شاید کورونا سے تو بچ جائیں مگر بھوک سے مر جائیں گے۔ اپنے گھروں میں بند ہو گئے تو کون ان کا پرسان حال ہو گا؟
سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فوری اور بروقت فیصلے کو بھی ہم سب نے سراہا مگر اس لاک ڈاؤن کے اعلان سے کیا لوگ گھروں میںبند ہو کر خوش ہیں، کیا سب لوگوں کے پاس اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ موجود ہے کہ انھیں گھروں سے نہ نکلنا پڑے۔ سب لوگ ہماری طرح تنخواہ یا پنشن دار تو نہیں کہ دفتر میں کام کیا اور مہینے کے مہینے تنخواہ بینک میں آ جائے... آج کل کے حالات میں جو ملازمین چھٹیوں پر ہیں انھیں بھی تنخواہ ملے گی خواہ وہ مکمل چھٹی پر ہیں یا گھر سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا کیا ہو جو ہر روز اپنے گھر سے نکلتے ہیں کہ اپنے اور اپنے گھر کے باقی افراد کے پیٹ کے تنور میں ایندھن کے لیے مشقت کرنا ہوتی ہے ۔
ہمارے پاس تو پھر برے وقتوں کے لیے بچتیں ہوتی ہیں یا اپنے جیسے دوست اور رشتہ دار کہ جو مشکل وقت میں ہماری مدد بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہم ان سے کچھ بھی مستعار لے سکتے ہیں ، خواہ وہ رقم ہو یا راشن۔ ان بے چاروں کے تو محلے دار، ہمسائے، رشتہ دار اور پرسان حال بھی وہی لوگ ہیں جو انھی کی طرح غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں یا انھی کی طرح دیہاڑی پر کام کرتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، ریڑھیاں لگاتے ہیں، بوجھ ڈھوتے ہیں، صفائی کا کام کرتے ہیں، گھروں میں اور دفتروں میں چپڑاسیوں کا کام کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تو ایک دن مزدوری نہ ملنے پر اسی روز گھر کا چولہا سرد رہتا ہے، وہ کہاں سے اپنے لیے راشن جمع کر کے گھروں میں محصور ہو جائیں، اگر کام نہ کریں تو کھائیں کہاں سے؟ روٹی روزی تو اللہ نے سب کی اپنے اپنے نصیب کی لکھ دی ہے، جس کے پاس زیادہ ہے اسے اور بھی زیادہ کہیں نہ کہیں سے ملنے کی امید ہوتی ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اس کی امیدوں کی جھولی بھی خالی ہوتی ہے ۔
ہمارا رونا کیا ہے... ماسک نہیں مل رہے، سینی ٹائزر نایاب ہیں ، گھروں پر بور ہو رہے ہیں، کچھ تفریح نہیں زندگی میں۔ ان کے پاس تو پورے تن کو ڈھانپنے کے لیے لباس بھی نہیں ہوتا، سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوتا ہے، گھر کے ہر فرد کا ہر روز پیٹ بھر کر سوکھی روٹی کھانا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں ایک تولیہ نہیں ہوتا اور ہم بات کرتے ہیں کہ ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ تولیہ ہو۔ ہم اپنے گھروں میں سینی ٹائزرز سے اپنے گاڑیوں اور دروازوںکے ہینڈل تک صاف کر رہے ہیں اور ان کے پاس ہاتھ دھونے کے لیے صابن تو کجا، پانی بھی صاف اور وافر نہیں ہوتا ۔
جب اس نوعیت کی دو انتہائیں ہوجاتی ہیں تو اللہ کو اذانیں دے دے کر نہیں منایا جا سکتا ۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اس کا بڑا مان ہے۔ ہم اس نبی پاک ﷺ کی امت ہیں کہ جس کی خاطر یہ کائنات بنائی گئی تھی، محبوب خدا نے اپنی ساری زندگی اپنی امت کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کی ہیں ۔ اللہ کا لاکھوں اور کروڑوں بار شکر ہے کہ اس نے اتنی تیز رفتاری سے اس ملک میں کورونا کی یلغار سے ہمیں بچا رکھا ہے اور حکومت کے با ربار اس اصرار پر کہ لوگ رضاکارانہ طور پر اپنے گھروں میں مقید ہو جائیں تا کہ اس آفت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ جتنا ہم گھر سے کم باہر نکلیں گے، اتنا ہی اس بات کا امکان کم ہو جائے گا کہ ہم پر یا ہماری وجہ سے کسی اور پر یہ وائرس حملہ آور ہو سکے گا۔ گھر میں رہیں، اپنے لیے ، اپنے پیاروں کے لیے اور دوسروں کی حفاظت کے لیے بھی۔
خود بھی گھر پر رہیں اوردوسروں کی بھی مدد کریں کہ وہ گھروں پر رہیں ... یہ مدد آپ کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب بڑا آسان ہے!! آپ نے اور میں نے اپنے گھروں میں راشن ڈال لیا ہے اور ہم اپنے گھروں میں محصور و محفوظ ہو گئے ہیں، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو ہمارے اور آپ کے ملازمین ہیں، ہمارے علاقوں سے قریبی غریب اور دیہاڑی دار ہیں، وہ گھر پر اسی صورت بیٹھ سکتے ہیں کہ جب ہم انھیں وہ سب کچھ اپنی اپنی استطاعت کیمطابق ان کے گھروں میں فراہم کریں ۔ اس میں راشن بھی ہو سکتا ہے، دوائیں اور نقد رقوم بھی۔ ماہ رمضان کے قریب آتے ہی ہم سب اپنی اپنی زکوۃ کی ادائیگی کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں، اس بار عین ماہ رمضان کا انتظار کرنے کی بجائے کیوں نہ ابھی سے اپنی زکوۃ، بلکہ اس سے بڑھ کر ، اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اس کے بنائے ہوئے اپنے جیسے ان انسانوں کے لیے کچھ قربانی دیں جو استطاعت نہیں رکھتے اور ہماری توجہ اور مدد کے مستحق ہیں۔ اسی سے ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم مسلمان، بلکہ اچھے مسلمان ہیں ۔ نبی پاک ﷺ کی امت کہلانے کے حق دار اور ان کی کی گئی دعاؤں کے مستحق ہیں ۔ اسی سے روز قیامت ہم اپنے نامہء اعمال میں کچھ اچھے کاموں کی سند لے کر کھڑے ہوں گے... انشاء اللہ!!
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آکے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بیر، نہ اک مہر ، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل ، یہ تو فقط ایک گھڑی ہے
ہمت کرو ، جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
(میو اسپتال۔ ۴ مارچ، ۱۹۸۲)
اڑتیس برس قبل لکھی گئی فیض کی یہ نظم، لگتا ہے کہ آج کے حالات کے تناظر میں لکھی گئی تھی ۔ اس وقت جن کیفیات کو فیض خود پر گزرتے ہوئے محسوس کر رہے تھے، آج ہم سب ان سے گزر رہے ہیں۔ فیس بک اور باقی سوشل میڈیا پر بھی بہت سے لوگ اس نظم کے اشعار کو اپنی حالت بیان کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم سب اس وقت ایسی کیفیات سے گزر رہے ہیں کہ ان کا اظہار ممکن نہیں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیاکے ذریعے ہم ہمہ وقت کورونا وائرس کی نت نئی صور ت حال سے آگاہ ہیں، خوفزدہ بھی ہیں، اپنے رب سے معافی بھی مانگ رہے ہیں اور اس سے اس کی رحمت کی طلب کر رہے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہم صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے دعا گو ہیں، نہ صرف پاکستان بلکہ باقی دنیا کے لیے، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دعاگو ہیں ۔ اس عالمی وبا نے ہمیں ایک جیسے درد اور تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے ، ہم دوسروں کی تکلیف پر بھی تڑپ رہے ہیں۔
اس وبا نے ہمیں گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کر دیا ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اسی میں ہماری عافیت ہے۔ ملک میں ایک طبقہء فکر اس بات پر مصر ہے کہ ہمارے ملک میں فوری طور پر لاک ڈاؤن کا اعلان کر دینا چاہیے۔ چند دن قبل تک میں بھی اس کی حامی تھی مگر وقت جوں جوں گزر رہا ہے، مجھے ہوا میں جس ویرانی کی خوشبو آتی ہے، اسی خوشبو نے بتایا ہے کہ ہم تو اپنے آرام دہ گھروں میں اپنے لیے اشیائے ضروریہ رکھ کر محصور ہو گئے ہیں اور انتہائی ضرورت کے علاوہ گھر سے باہر نہیں نکلتے مگر اسی دنیا میں، اسی ملک میں بلکہ ہمارے ارد گرد، اسی ہوا میں وہ لوگ بھی سانس لے رہے ہیںجو اپنے گھروں پر محصور ہو کر شاید کورونا سے تو بچ جائیں مگر بھوک سے مر جائیں گے۔ اپنے گھروں میں بند ہو گئے تو کون ان کا پرسان حال ہو گا؟
سندھ حکومت کے لاک ڈاؤن کے فوری اور بروقت فیصلے کو بھی ہم سب نے سراہا مگر اس لاک ڈاؤن کے اعلان سے کیا لوگ گھروں میںبند ہو کر خوش ہیں، کیا سب لوگوں کے پاس اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ موجود ہے کہ انھیں گھروں سے نہ نکلنا پڑے۔ سب لوگ ہماری طرح تنخواہ یا پنشن دار تو نہیں کہ دفتر میں کام کیا اور مہینے کے مہینے تنخواہ بینک میں آ جائے... آج کل کے حالات میں جو ملازمین چھٹیوں پر ہیں انھیں بھی تنخواہ ملے گی خواہ وہ مکمل چھٹی پر ہیں یا گھر سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا کیا ہو جو ہر روز اپنے گھر سے نکلتے ہیں کہ اپنے اور اپنے گھر کے باقی افراد کے پیٹ کے تنور میں ایندھن کے لیے مشقت کرنا ہوتی ہے ۔
ہمارے پاس تو پھر برے وقتوں کے لیے بچتیں ہوتی ہیں یا اپنے جیسے دوست اور رشتہ دار کہ جو مشکل وقت میں ہماری مدد بھی کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہم ان سے کچھ بھی مستعار لے سکتے ہیں ، خواہ وہ رقم ہو یا راشن۔ ان بے چاروں کے تو محلے دار، ہمسائے، رشتہ دار اور پرسان حال بھی وہی لوگ ہیں جو انھی کی طرح غربت کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں یا انھی کی طرح دیہاڑی پر کام کرتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں، ریڑھیاں لگاتے ہیں، بوجھ ڈھوتے ہیں، صفائی کا کام کرتے ہیں، گھروں میں اور دفتروں میں چپڑاسیوں کا کام کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تو ایک دن مزدوری نہ ملنے پر اسی روز گھر کا چولہا سرد رہتا ہے، وہ کہاں سے اپنے لیے راشن جمع کر کے گھروں میں محصور ہو جائیں، اگر کام نہ کریں تو کھائیں کہاں سے؟ روٹی روزی تو اللہ نے سب کی اپنے اپنے نصیب کی لکھ دی ہے، جس کے پاس زیادہ ہے اسے اور بھی زیادہ کہیں نہ کہیں سے ملنے کی امید ہوتی ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اس کی امیدوں کی جھولی بھی خالی ہوتی ہے ۔
ہمارا رونا کیا ہے... ماسک نہیں مل رہے، سینی ٹائزر نایاب ہیں ، گھروں پر بور ہو رہے ہیں، کچھ تفریح نہیں زندگی میں۔ ان کے پاس تو پورے تن کو ڈھانپنے کے لیے لباس بھی نہیں ہوتا، سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوتا ہے، گھر کے ہر فرد کا ہر روز پیٹ بھر کر سوکھی روٹی کھانا ممکن نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں ایک تولیہ نہیں ہوتا اور ہم بات کرتے ہیں کہ ہر ایک کے لیے علیحدہ علیحدہ تولیہ ہو۔ ہم اپنے گھروں میں سینی ٹائزرز سے اپنے گاڑیوں اور دروازوںکے ہینڈل تک صاف کر رہے ہیں اور ان کے پاس ہاتھ دھونے کے لیے صابن تو کجا، پانی بھی صاف اور وافر نہیں ہوتا ۔
جب اس نوعیت کی دو انتہائیں ہوجاتی ہیں تو اللہ کو اذانیں دے دے کر نہیں منایا جا سکتا ۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اس کا بڑا مان ہے۔ ہم اس نبی پاک ﷺ کی امت ہیں کہ جس کی خاطر یہ کائنات بنائی گئی تھی، محبوب خدا نے اپنی ساری زندگی اپنی امت کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کی ہیں ۔ اللہ کا لاکھوں اور کروڑوں بار شکر ہے کہ اس نے اتنی تیز رفتاری سے اس ملک میں کورونا کی یلغار سے ہمیں بچا رکھا ہے اور حکومت کے با ربار اس اصرار پر کہ لوگ رضاکارانہ طور پر اپنے گھروں میں مقید ہو جائیں تا کہ اس آفت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ جتنا ہم گھر سے کم باہر نکلیں گے، اتنا ہی اس بات کا امکان کم ہو جائے گا کہ ہم پر یا ہماری وجہ سے کسی اور پر یہ وائرس حملہ آور ہو سکے گا۔ گھر میں رہیں، اپنے لیے ، اپنے پیاروں کے لیے اور دوسروں کی حفاظت کے لیے بھی۔
خود بھی گھر پر رہیں اوردوسروں کی بھی مدد کریں کہ وہ گھروں پر رہیں ... یہ مدد آپ کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب بڑا آسان ہے!! آپ نے اور میں نے اپنے گھروں میں راشن ڈال لیا ہے اور ہم اپنے گھروں میں محصور و محفوظ ہو گئے ہیں، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو ہمارے اور آپ کے ملازمین ہیں، ہمارے علاقوں سے قریبی غریب اور دیہاڑی دار ہیں، وہ گھر پر اسی صورت بیٹھ سکتے ہیں کہ جب ہم انھیں وہ سب کچھ اپنی اپنی استطاعت کیمطابق ان کے گھروں میں فراہم کریں ۔ اس میں راشن بھی ہو سکتا ہے، دوائیں اور نقد رقوم بھی۔ ماہ رمضان کے قریب آتے ہی ہم سب اپنی اپنی زکوۃ کی ادائیگی کے لیے کوشاں ہو جاتے ہیں، اس بار عین ماہ رمضان کا انتظار کرنے کی بجائے کیوں نہ ابھی سے اپنی زکوۃ، بلکہ اس سے بڑھ کر ، اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے اس کے بنائے ہوئے اپنے جیسے ان انسانوں کے لیے کچھ قربانی دیں جو استطاعت نہیں رکھتے اور ہماری توجہ اور مدد کے مستحق ہیں۔ اسی سے ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم مسلمان، بلکہ اچھے مسلمان ہیں ۔ نبی پاک ﷺ کی امت کہلانے کے حق دار اور ان کی کی گئی دعاؤں کے مستحق ہیں ۔ اسی سے روز قیامت ہم اپنے نامہء اعمال میں کچھ اچھے کاموں کی سند لے کر کھڑے ہوں گے... انشاء اللہ!!