صدا کس کی اندھیروں سے بلاتی ہے
نام نہاد مہذب دنیا اپنے مفادات کی چادر تانے برسہابرس سے سو رہی ہے
حال ہی میں دوحا میں ہونیوالے امریکی حکومت اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدے نے امریکا ،برطانیہ ،اقوام متحدہ بلکہ پوری مہذب دنیا کے سامنے یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ جب آپ کے قرار دیے گئے دہشتگرد کو دہشتگرد نہیں سمجھا گیا اور ان سے ہاتھ ملا لیا گیا تو پھر پاکستان کی شہریت رکھنے والی عافیہ صدیقی کا قصور اب کیا یا کتنا رہ جاتا ہے جسے 30 مارچ 2003 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا اور کل یعنی پیر کو اسے امریکا کی قید میں 17 برس ہو جائیں گے جہاں وہ 86سال قید کی سزا بھگت رہی ہے اور یہ سزا 30 اگست 2083 کو ختم ہوگی۔
یاد رہے ان طویل برسوں میں عافیہ پر کسی ایک انسان کا بھی قتل ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی اس پر دہشت گردی کا کوئی ٹھوس ثبوت مل سکا تو پھر اسے 86 سال کی سزا امریکی عدالت نے کس بنیاد پر دی اور جو خود کش حملوں کی ذمے داریاں قبول کرتے رہے ،ان کے ساتھ امن معاہدہ کیا معنی رکھتا ہے کیا؟ عافیہ صدیقی کا قصور یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہے؟
نام نہاد مہذب دنیا اپنے مفادات کی چادر تانے برسہابرس سے سو رہی ہے اور مسلم دنیا بھی اس حوالے سے بے حسی کی بکل مارے بیٹھی ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان جانوں سے جاچکے اور لاکھوں کی جانوں پر بنی ہوئی ہے، ایسے میں بے چاری عافیہ صدیقی کا وجود کس کو یاد رہ سکتا ہے، حالانکہ عافیہ صرف ایک عورت نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔
جب حکمران یا ارباب اختیار صرف خوشامد سننے، کروانے اور اپنی اپنی مرضی و پسند کی خبریں لگوانے یا پڑھنے کے عادی ہوجائیں تو وہ عوامی جذبات، ملکی مسائل اور حکومتی ناکامیوں کے ادراک سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہی ان کے اقتدار کے اختتام کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ ہماری حکومت اتنا بھی نہیں جانتی کہ بے جان اور سطحی اسکرپٹ پر بنائی گئی فلم صرف ''اسپیشل ایفیکٹس'' یا ''آئٹم سانگ'' کے زور پر نہیں چل سکتی لیکن افسوس پاکستان کے سیاسی نظام میں ہر انہونی ممکن ہے۔ اصل میں صحیح وقت پر مناسب فیصلہ ہی کامیاب یا اطمینان بخش زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ لیکن ہم سبھی لمبے عرصے سے فیصلوں، فیصلوں کا کھیل کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ ہم شاید جانتے نہیں کہ ہمارے فیصلوں کے اوپر بھی ایک فیصلہ نافذ ہو جاتا ہے اور یہ قدرت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ معافی کسی بھی جرم کی سب سے بڑی سزا ہوتی ہے۔ ایک ایسی سزا جو انسان کو کبھی بھی یہ بھولنے نہیں دیتی کہ اس نے کیا کیا تھا اور بدلے میں اسے کیا ملا؟ کتنی بدقسمت کتنی بے بس ہے عافیہ جس کا جرم یا قصور 17 سالوں میں بھی سامنے نہ آ سکا۔ ہر ایک شہری کے حقوق کا تحفظ پاکستان کا تحفظ ہے اس کی بقا ہے یہی حکومت کا فوکس ہونا چاہیے اور یہی اس کی ترجیح۔ کیونکہ پاکستان کسی خیالی پیکر کا نام نہیں اس میں رہنے بسنے والے انسان ہی پاکستان ہیں۔ افسوس سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ملک کے سربراہ نے اپنے وطن کی بیٹی کو اغیار کے ہاتھوں میں دے دیا۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ قید اور زندان خانے کے رشتے واقعی بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی 86سال قید کی سزا بھی اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے۔ ویسے بھی کبھی کبھی کسی کے لیے موت سے زیادہ سزا زندگی بن جاتی ہے اور کسی کے لیے موت آسان اور کسی کے لیے زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور یہ سب کا سب عافیہ صدیقی پر سچ ہو کر اس کے وجود پر لاگو ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ درد تو دو سال کے بچے کو بھی سو سال کا بنا دیتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ سہنے والا زندہ بچ جائے۔ عافیہ کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی ہے جو جیل میں اس سے الگ رکھا گیا ہے اور ایک بیٹا اور اس کی فیملی عافیہ کا درد سسک سسک کر سہنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔
پاکستان کے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ''عافیہ کو جو 86 سال کی سزا دی گئی ہے اس عدالتی ٹرائل میں جیوری اور جج کی فائنڈنگ مناسب نہیں تھی۔'' دوسری اہم بات یہ ہے کہ عافیہ پر جو الزام عائد کیا گیا ہے وہ واقعہ افغانستان میں پیش آیا تھا، قانونی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں جرم سرزد ہو مقدمہ بھی اسی ملک کی سرزمین پر چلتا ہے، لیکن عافیہ کے معاملے میں ایسا بھی نہیں کیا گیا۔
ستم بالائے ستم عافیہ کو اپنے دفاع کے حق سے بھی امریکی عدالت نے محروم کر دیا۔ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہمیں یہ یاد ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں عافیہ صدیقی کی رہائی کا سنہری موقع پاکستان کی طرف سے ضایع کردیا گیا، اس دور کی عافیہ کی وکیل ایلن شارپ کا کہنا تھا کہ ''اگر پاکستانی حکومت امریکی حکام کو عافیہ کی رہائی کا خط لکھ دیتی تو ان کی رہائی یقینی طور پر ممکن ہوسکتی تھی۔'' اسی طرح ماضی میں ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں بھی عافیہ صدیقی کو وطن واپس لایا جاسکتا تھا مگر افسوس ایسا بھی نہیں کیا جا سکا۔
2013 میں جب نواز شریف اپنے ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم بنے تو انھوں نے کراچی میں عافیہ کے اہل خانہ سے ملاقات کے موقع پر عافیہ کو اپنی بیٹی مریم کی طرح کہا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے 100 دنوں کے دوران عافیہ کو امریکا سے رہا کروا کر وطن واپس لائیں گے۔ آصف علی زرداری نے بھی کم و بیش یہی الفاظ اپنے دو ادوار میں استعمال کیے تھے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے 2003 میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پہلی بار میڈیا کے ذریعے یہ انکشاف کیا تھا کہ ''حکومتی اداروں نے عافیہ صدیقی کو اٹھاکر غائب کرایا ہے اور وہ اقتدار میں آکر عافیہ کو رہائی دلوائیں گے'' لیکن آج ڈیڑھ سال ہوگیا، اس مدت میں ایک بار بھی عمران خان کے منہ سے عافیہ کا ذکر سننے میں نہیں آیا۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی 31 مارچ کا دن آکر گزر جائے گا لیکن قوم کی بیٹی عافیہ کو 17 برسوں کے بعد بھی رہائی دلانے والا کوئی سامنے نہیں آئے گا۔ ویسے بھی بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار کا ماضی اور حال کبھی ایسا نہیں رہا کہ عوام ان پر اعتبار کر سکے۔ اس وجہ سے اقوام عالم بھی خاموش ہے اور ہمارے ارباب اختیار بھی چپ سادھے ہوئے ہیں، یہ خاموشی یہ چپ شور بن چکی ہے لیکن یہ خاموشی بھی عافیہ کی سزا میں سے ایک سزا بن گئی ہے لیکن بعض صدائیں صدیوں تک صدا بن کر گونجتی رہتی ہیں۔
یاد رہے ان طویل برسوں میں عافیہ پر کسی ایک انسان کا بھی قتل ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی اس پر دہشت گردی کا کوئی ٹھوس ثبوت مل سکا تو پھر اسے 86 سال کی سزا امریکی عدالت نے کس بنیاد پر دی اور جو خود کش حملوں کی ذمے داریاں قبول کرتے رہے ،ان کے ساتھ امن معاہدہ کیا معنی رکھتا ہے کیا؟ عافیہ صدیقی کا قصور یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہے؟
نام نہاد مہذب دنیا اپنے مفادات کی چادر تانے برسہابرس سے سو رہی ہے اور مسلم دنیا بھی اس حوالے سے بے حسی کی بکل مارے بیٹھی ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان جانوں سے جاچکے اور لاکھوں کی جانوں پر بنی ہوئی ہے، ایسے میں بے چاری عافیہ صدیقی کا وجود کس کو یاد رہ سکتا ہے، حالانکہ عافیہ صرف ایک عورت نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔
جب حکمران یا ارباب اختیار صرف خوشامد سننے، کروانے اور اپنی اپنی مرضی و پسند کی خبریں لگوانے یا پڑھنے کے عادی ہوجائیں تو وہ عوامی جذبات، ملکی مسائل اور حکومتی ناکامیوں کے ادراک سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہی ان کے اقتدار کے اختتام کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ ہماری حکومت اتنا بھی نہیں جانتی کہ بے جان اور سطحی اسکرپٹ پر بنائی گئی فلم صرف ''اسپیشل ایفیکٹس'' یا ''آئٹم سانگ'' کے زور پر نہیں چل سکتی لیکن افسوس پاکستان کے سیاسی نظام میں ہر انہونی ممکن ہے۔ اصل میں صحیح وقت پر مناسب فیصلہ ہی کامیاب یا اطمینان بخش زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ لیکن ہم سبھی لمبے عرصے سے فیصلوں، فیصلوں کا کھیل کھیلتے چلے آرہے ہیں۔ ہم شاید جانتے نہیں کہ ہمارے فیصلوں کے اوپر بھی ایک فیصلہ نافذ ہو جاتا ہے اور یہ قدرت کا فیصلہ ہوتا ہے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ معافی کسی بھی جرم کی سب سے بڑی سزا ہوتی ہے۔ ایک ایسی سزا جو انسان کو کبھی بھی یہ بھولنے نہیں دیتی کہ اس نے کیا کیا تھا اور بدلے میں اسے کیا ملا؟ کتنی بدقسمت کتنی بے بس ہے عافیہ جس کا جرم یا قصور 17 سالوں میں بھی سامنے نہ آ سکا۔ ہر ایک شہری کے حقوق کا تحفظ پاکستان کا تحفظ ہے اس کی بقا ہے یہی حکومت کا فوکس ہونا چاہیے اور یہی اس کی ترجیح۔ کیونکہ پاکستان کسی خیالی پیکر کا نام نہیں اس میں رہنے بسنے والے انسان ہی پاکستان ہیں۔ افسوس سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانے والے ملک کے سربراہ نے اپنے وطن کی بیٹی کو اغیار کے ہاتھوں میں دے دیا۔
اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ قید اور زندان خانے کے رشتے واقعی بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی 86سال قید کی سزا بھی اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے۔ ویسے بھی کبھی کبھی کسی کے لیے موت سے زیادہ سزا زندگی بن جاتی ہے اور کسی کے لیے موت آسان اور کسی کے لیے زندگی مشکل ہو جاتی ہے اور یہ سب کا سب عافیہ صدیقی پر سچ ہو کر اس کے وجود پر لاگو ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ درد تو دو سال کے بچے کو بھی سو سال کا بنا دیتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ سہنے والا زندہ بچ جائے۔ عافیہ کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی ہے جو جیل میں اس سے الگ رکھا گیا ہے اور ایک بیٹا اور اس کی فیملی عافیہ کا درد سسک سسک کر سہنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔
پاکستان کے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ''عافیہ کو جو 86 سال کی سزا دی گئی ہے اس عدالتی ٹرائل میں جیوری اور جج کی فائنڈنگ مناسب نہیں تھی۔'' دوسری اہم بات یہ ہے کہ عافیہ پر جو الزام عائد کیا گیا ہے وہ واقعہ افغانستان میں پیش آیا تھا، قانونی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں جرم سرزد ہو مقدمہ بھی اسی ملک کی سرزمین پر چلتا ہے، لیکن عافیہ کے معاملے میں ایسا بھی نہیں کیا گیا۔
ستم بالائے ستم عافیہ کو اپنے دفاع کے حق سے بھی امریکی عدالت نے محروم کر دیا۔ تاریخ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہمیں یہ یاد ہے کہ سابق امریکی صدر اوباما کے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں عافیہ صدیقی کی رہائی کا سنہری موقع پاکستان کی طرف سے ضایع کردیا گیا، اس دور کی عافیہ کی وکیل ایلن شارپ کا کہنا تھا کہ ''اگر پاکستانی حکومت امریکی حکام کو عافیہ کی رہائی کا خط لکھ دیتی تو ان کی رہائی یقینی طور پر ممکن ہوسکتی تھی۔'' اسی طرح ماضی میں ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے بدلے میں بھی عافیہ صدیقی کو وطن واپس لایا جاسکتا تھا مگر افسوس ایسا بھی نہیں کیا جا سکا۔
2013 میں جب نواز شریف اپنے ہیوی مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم بنے تو انھوں نے کراچی میں عافیہ کے اہل خانہ سے ملاقات کے موقع پر عافیہ کو اپنی بیٹی مریم کی طرح کہا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے 100 دنوں کے دوران عافیہ کو امریکا سے رہا کروا کر وطن واپس لائیں گے۔ آصف علی زرداری نے بھی کم و بیش یہی الفاظ اپنے دو ادوار میں استعمال کیے تھے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان نے 2003 میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پہلی بار میڈیا کے ذریعے یہ انکشاف کیا تھا کہ ''حکومتی اداروں نے عافیہ صدیقی کو اٹھاکر غائب کرایا ہے اور وہ اقتدار میں آکر عافیہ کو رہائی دلوائیں گے'' لیکن آج ڈیڑھ سال ہوگیا، اس مدت میں ایک بار بھی عمران خان کے منہ سے عافیہ کا ذکر سننے میں نہیں آیا۔
ہر سال کی طرح اس بار بھی 31 مارچ کا دن آکر گزر جائے گا لیکن قوم کی بیٹی عافیہ کو 17 برسوں کے بعد بھی رہائی دلانے والا کوئی سامنے نہیں آئے گا۔ ویسے بھی بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور ارباب اختیار کا ماضی اور حال کبھی ایسا نہیں رہا کہ عوام ان پر اعتبار کر سکے۔ اس وجہ سے اقوام عالم بھی خاموش ہے اور ہمارے ارباب اختیار بھی چپ سادھے ہوئے ہیں، یہ خاموشی یہ چپ شور بن چکی ہے لیکن یہ خاموشی بھی عافیہ کی سزا میں سے ایک سزا بن گئی ہے لیکن بعض صدائیں صدیوں تک صدا بن کر گونجتی رہتی ہیں۔