کورونا اجتماعی رویوں کی قلت

جس ملک یا قوم نے احتیاط و انتظام میں قومی اجتماعیت کو مقدم نہ رکھا وہ اس وقت سنگین صورتحال سے دوچار ہیں



دنیا میں قومیں تبھی ترقی کرتی ہیں یا تکالیف سے نجات پاتی ہیں جب وہ کسی بھی اجتماعی مسئلے پر یکجا و یک آواز ہوکر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ دنیا میں اس وقت کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، اس وبا سے بچنے کے لیے بھی قومی اتفاق ِ رائے و قومی اجتماعیت کی شدید ضرورت ہے ۔ جس کے تحت حکومت و انتظامیہ کی جانب سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عملدرآمد ہی ہمیں اس وبا سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ جس کی مثال چین ہے ۔ جہاں سے یہ وائرس پھیلا۔ وہاں کے عوام نے اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو بھی محفوظ رکھا اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھنے کی کوشش کی ۔ اور یوں وہ بہت جلد اس وبا پر قابو پاگئے ۔

مگر جس ملک یا قوم نے احتیاط و انتظام میں قومی اجتماعیت کو مقدم نہ رکھا وہ اس وقت سنگین صورتحال سے دوچار ہیں ۔ جس میں اٹلی ، اسپین اور امریکا جیسی ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی کی حامل اقوام بھی سرفہرست ہیں ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملک کتنے ہی ترقی یافتہ ہوں ، عوام کتنی ہی پڑھی لکھی ہو مگر غیرسنجیدگی بھی قوموں کو ڈبو سکتی ہے ۔ ویسے بھی کسی بھی قوم کے رویوں یا ملک کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے ایک اہم و بنیادی کسوٹی یہ ہوتی ہے کہ وہ کس طرح قدرتی آفات سے نبرد آزما ہوتے ہیں ۔

یہ قدرتی آفات چاہے زلزلہ کی صورت میں ہو یا سیلاب کی صورت یا پھر کسی وبا کی صورت میں آئے ۔ ہر آفت قوموں کو بہت کچھ سکھاتی ہے ، جو قومیں اُن آفات سے سیکھتی ہیں وہ مستقبل میں برپا ہونے والی آفات سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسیاں ، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کرتی ہیں تاکہ ماضی میں کی جانیوالی غلطیوں کو نہ دہرائیں اور آفات کو درست سمت سے سمجھتے ہوئے اُن سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں ۔ ان آفات کے دوران اقوام اور اُن کی قیادت کو ایک امتحانی کیفیت سے گذرنا پڑتا ہے کہ آیا قوم کی یہ قیادت واقعی میں مشکل وقت میں بجا طور پر رہنمائی کرنے کا ہنر رکھتی ہے ؟ ماضی میں پیش آنیوالی قدرتی آفات کو دیکھتے ہوئے اور موجودہ کورونا کی وبائی صورتحال کے اب تک کے مناظر اور نتائج کے پیش نظر ہمیں یہ کہنے میں کوئی مغالطہ نہیں ہورہا کہ بحیثیت قوم ہم میں اجتمائی سوچ اب تک پروان نہیں چڑھ سکی ہے ۔

ہم اجتماعیت کے احساس سے عاری قوم ثابت ہوئے ہیں ۔ کسی بھی آفت سے نمٹنے کے لیے جو سب سے ضروری چیزدرکار ہوتی ہے وہ اجتماعی حوصلہ یا اتحاد و قومی احساس ہے ۔ جس سے آج بھی ہم کو سوں دور کھڑے نظر آتے ہیں ۔ یوں تو عالمی سطح پر بھی اجتماعیت کی صورتحال کوئی اچھی نظر نہیں آتی ۔ کوئی بھی قوم ، ملک بحیثیت انسان نہیں سوچ رہا بلکہ اس وبائی صورتحال میں بھی جغرافیائی حدود میں بٹے ممالک اور مختلف نظریوں و عقیدوں میں منقسم قوموں کے طور پر اپنے اپنے سیاسی و مذہبی مفادات حاصل کرنے میں مشغول دکھائی دیتے ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے دنیا کی تعمیر نو اور نظم نسق کو بحال رکھنے کے لیے اقوام متحدہ اور عالمی مانیٹرنگ فنڈ جیسے ادارے قائم کیے گئے لیکن وہ بھی عملی طور پر تحفظ انسانی جیسے اجتماعی عوامل میں ناکام رہے ہیں ۔ یہ دونوں ادارے بھی بڑی قوتوں کے مفادات کے آگے گھٹنے ٹیکے بیٹھے ہیں ۔

اس وجہ سے دنیا ایک ، دو نہیں بلکہ کئی بلاکوں میں منقسم اور ٹکراؤ میں ہے ۔ حالانکہ جغرافیائی حد بندی ہونے کے بعد سب کو اپنے اپنے ملک میں خودمختاری حاصل ہے اور اگر وہ چاہیں تو اپنے اپنے عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اجتماعیت کے جذبے سے اُنہیں امن اور ترقی کی لافانی منازل تک پہنچا سکتے ہیں لیکن یہ سب محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ آج بھی عملی طور پر تمام ممالک آپس میں مرغوں کی مانند نظر آتے ہیں ، جو ایک دوسرے کو دیکھتے ہی ایک دوسرے پر جھڑپ پڑتے ہیں ۔حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں اور علی الاعلان اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں ، اُس کے باوجود انسانوں کے اجتماعی عوامل پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے ۔

یہی سب کچھ موجودہ کورونا وائرس کے دوران بھی ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ کورونا وائرس ایک انسان دشمن بیماری ہے جسے شکست دینا اقوام ِ عالم کی مشترکہ ذمے داری ہے ۔ اقوام متحدہ کے ماتحت ادارے عالمی ادارہ صحت (WHO) کے تعاون سے مشترکہ محاذ قائم ہونا چاہیے ، اس بیماری کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ فنڈ بھی قائم ہونا چاہیے لیکن ابھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ سب سردی کی رضائی اپنی طرف کھینچنے میں مصروف ہیں ۔ کوئی وائرس کو چینی ، امریکی قرار دے رہا ہے تو کوئی ایرانی اور اسرائیلی کہہ رہا ہے ۔

لیکن وہ سب یہ بات بھول بیٹھے ہیں کہ وائرس کو فقط انسانی جسم درکار ہے ۔ اُسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس قوم ، ملک یا نسل سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہماری اجتماعی سوچ سے انحرافی کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ دنیا میں رواں صدی کے ان بیس برسوں میں خود کشی سے مرنے والوں کی تعدادجنگوں ، دہشت گرد کارروائیوں اور مجرموں کے ہاتھوں مرنے والی کُل تعداد سے زیادہ ہے ۔ ہر انسان صرف اپنی فکر میں ہے ۔آج کل دنیا میں لوگ وباؤں سے زیادہ بھوک، بدحالی ، ضعیفی اور بیماریوں سے مر رہے ہیں ۔ اور تو اور بے ترتیب وزیادہ کھانا کھانے(Food Poision) کی وجہ سے مرجانے والے لوگوں کی تعداد بھی آفات سے جاں بحق ہونے والے افراد سے زیادہ ہے ۔

بہت سی جگہوں پر عوام کی جانب سے انسانی اجتماعیت کے عمل ہوتے نظر آئے ہیں لیکن وہ محدود اور کم ہونے کی وجہ سے کسی بڑے فائدے سے لاچار نظر آتے ہیں ۔ مثلاً یورپ میں کورونا وائرس کے باعث بیوپاریوں نے بازاروں میں اشیاء سستی کردیں ، ریستوران کے مالکان نے ڈاکٹروں ، نرسوں اور دیگر صحت عملے سے کھانے کے بل نہیں لیے وغیرہ وغیرہ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ حالانکہ سندھ حکومت اور سندھ پولیس نے احکامات جاری کیے ہیں کہ ڈاکٹروں اور دیگر میڈیکل عملے کو دیکھتے ہی Saluteکریں کیونکہ یہ ہمارے قومی ہیروز ہیں ، لیکن ہم اُن کی خدمات کو تنخواہ کے پیمانے میں تول رہے ہیں ۔

ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم تھکے ماندے کسی ڈاکٹر کو اپنی سیٹ تک بیٹھنے کو دینے کے لیے تیار نہیں ۔ اور ہمارے بیوپاریوں کی حالت یہ ہے کہ ماسک اور دیگر اشیاء بلیک پر بیچ رہے ہیں ۔ اور بحیثیت قوم ہماری حالت یہ ہے کہ اس وبا کو بھی ہم نے صوبائی ، وفاقی ، شہری ،دیہی کے ساتھ ساتھ مذہبی اور فرقوں میں تقسیم کردیا ہے ۔ یہاں بھی انسانی اور قومی حیثیت میں اس وبا سے نمٹنے کا ہمارا کوئی پروگرام نظر نہیں آتا ۔ ہم اجتماعی اقدار سے اس قدر نالاں ہیں کہ اس وبائی صورتحال میں بھی ذاتی و گروہی مفادات کو اُتم سمجھتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک مثال سکھر قرنطینہ مرکز میں نظر آئی کہ وہاں موجود مریضوں کو سہولیات کی عدم دستیابی کا بہانہ بناکر ان کے حامی لوگوں نے مرکز پر دھاوا بول دیا اور وائرس سے متاثرہ افراد کو بھگا لے گئے ۔ ہم عام طور پر تو لاپرواہ ہیں ہی مگر اس جان لیوا بھیانک وبا میں بھی صورتحال کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں ۔ ہمیں صرف گھروں تک محدود رہنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہے جس سے نہ صرف ہم خود بلکہ پورا معاشرہ محفوظ رہ سکتا ہے لیکن ہم سے یہ بھی نہیں ہوپارہا ۔

کورونا جیسی وبا ، جس کا احتیاط کے سوا کوئی اور علاج ہی نہیں ۔ چین جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس مرض سے تبھی مقابلہ کرپایا جب لوگوں کو گھر تک محدود رکھا اور لوگ بھی قومی و اجتماعی سوچ کو عملی روپ دیتے ہوئے گھروں تک محدود رہے ۔ بھوک برداشت کی مگر مفت راشن کے بیگ کے چکر میں بھیڑ لگاکر ایک دوسرے کو وائرس میں مبتلا کرنے کا رسک نہیں بنے ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے بھی صوبہ میں لوگوں کو گھروں تک محدود رہنے کی اپیل کی اور بعد میں لاک ڈاؤن بھی کیا لیکن یہاں لوگ ان کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں ۔چھوٹے چھوٹے شہر تو چھوڑیں صوبہ کے دارالحکومت کی حالت یہ ہے کہ لوگ بازاروں و گلیوں اور سڑکوں پر دندناتے پھر رہے ہیں ۔

روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں افراد لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے تحت گرفتار ہورہے ہیں ، اُس کے باوجود قومی و اجتماعی احتیاطی احساس نام کی کوئی چیز ہمیں اپنے معاشرے میں نظر نہیں آرہی ہے ۔حالانکہ ہمیں خود میل جول ترک کرکے رضاکارانہ طور پر گھروں تک محدود رہنا چاہیے تھا تاکہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت درپیش نہ آتی لیکن ہم نے یہاں بھی اجتماعی احساس پر انفرادی آوارگی کو اہمیت دی اور حکومتی اپیلوں کو مسترد کرکے سڑکوں و بازاروں میں دندناتے رہے ، جس سے نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی وائرس کے نشانے پر لے آئے ۔ مجبوراً حکومت کو لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا پڑااور بے وجہ باہر نکلنے کوپاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 4کے تحت قابل سزاجرم تصور کیے جانے کا حکم صادر ہونے کے باوجود بھی لوگ باز نہیں آئے ۔ اور یوں ہم غریبوں و محتاجوں کی بدحالی کا ماحول برپا کرنے کا باعث بنے ۔

اگر ہم اجتماعی احتیاط برلاتے تو شاید لاک ڈاؤن کی نوبت نہ آتی اور اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو شاید روز مرہ کی زندگی اتنی مجبور نہ ہوتی اور شاید غریبوں کے گھروں کے چولہے یوں ٹھنڈے نہ پڑے ہوتے اور نہ ہی اُن کے بچے یوں گھر کے بند دروازوں یا بند دریچوں سے باہر سے بھیک کی طرح ملنے والی روٹی یا امداد پر نظریں گاڑے رہتے ۔ حکومت اپنے انتظامات کر رہی ہے ۔

سرکاری ملازمین کو ایڈوانس تنخواہیں ادا کردی گئیں تو پرائیویٹ اداروں اور فیکٹریز کے ملازمین کے حق میں آرڈر جاری کیے ہیں کہ کارخانوں میں کام کرنے والے ملازمین کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام پر نہ آسکنے کی صورت میں نہ ہی ملازمت سے نکالا جاسکے گا اور نہ ہی اُن کی تنخواہ کاٹی جاسکے گی ۔ سندھ حکومت نے ایدھی ، چھیپا ، عالمگیرٹرسٹ، نئی زندگی ، الخدمت فاؤنڈیشن ، میمن فاؤنڈیشن اور دیگر کے ساتھ مل کر مستحقین کو گھر گھر راشن پہنچانے پر کام شروع کردیا ہے ۔ لیکن ہم کیا کررہے ہیں ۔ مستحق نہ ہونے کے باوجود راشن ہتھیانے میں پیش پیش ہیں ، پھر جن کو مل رہا ہے وہ بھی حرص میں آکر زیادہ سے زیادہ کے چکر میں ہیں ۔ پڑوسیوںاور رشتے داروں کے حقوق تو جیسے ہم بھول ہی گئے ہیں ۔ ایسے میں انسانی ہمدردی کے تحت کسی کی مدد کی بھلا ہم کہاںاور کس سے اُمید کرسکتے ہیں ۔

ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہم معاشی طور پر کمزور اور سماجی طور پر بے ترتیب رہائشی طرز کی حامل ایک بڑی آبادی ہیں اور یہ وائرس انسان سے انسان میں منتقل ہونے میں دیر نہیں لگاتا ۔ تھوڑی سی لاپرواہی سے اگر یہ ملک میں پھیل گیا تو پھر اسے سنبھالنا مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم سب ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی تمام احکامات پر عمل کریں خصوصاًگھروں تک محدود رہیں ۔ اسی میں ہماری قومی و نسل ِ انسانی کی بقا ہے ۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام نے اپنے سائنسدانوں کو اس وبا سے عالم انسانیت کی نجات دلانے کے عظیم مقصد پر لگادیا ہے مگر ہمارے یہاں صرف وسائل کی کمی کا راگ سننے میں آرہا ہے ۔

ایسی گمبھیر صورتحال میں ہمیں اپنی نسل کی بقا کے لیے احتیاطی اقدامات پر عمل کرنا ہوگا ۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے کم از کم اس وبا کو پھیلنے سے روکا ضرور جاسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت اور سماجی تنظیمیں و باشعور افراد آگاہی مہم میں مصروف ہیں ۔ سندھ حکومت نے تو اولیتی بنیادوں پر بہتر حکمت عملی سے کورونا متاثرین کے لیے تمام بڑے شہروں میں قرنطینہ مراکز قائم کردیے بلکہ ایکسپو سینٹر کراچی اور سکھر میں ملک کے سب سے بڑے مراکز قائم کرکے کسی حد تک سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے ۔ جہاں سے میڈیائی رپورٹس کے مطابق 600افراد صحتیاب قرارپاکر گھروں میں منتقل بھی ہوچکے ہیں ۔مگر عوام کی حالت یہ ہے کہ اس وبائی صورتحال میں بھی ہمارا بیوپاری طبقہ اشیائے خورونوش اور ادویات و حفاظتی اشیاء مہنگے داموں فروخت کرکے بے جا منافع کمانے کے بے ہودہ کاروبار میں محو ہے ۔ لاہور میں جعلی سینی ٹائزر کی فیکٹری پکڑی جاتی ہے اور اس کا مالک ظاہری طور پر ایک بڑا دیندار و پارسہ شخص کہلاتا ہے ۔ حالانکہ یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ دنیا میں 20ہزار سے زیادہ جانیں ضایع کرنیوالے اس وائرس کا کوئی علاج نہیں ۔

عالمی طور پر یہ افواہیں بھی پھیلی ہیں کہ یہ وائرس ایک بایولوجیکل ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ انسان کی اسی فسادی روش کا اظہار ہے جس کی نشاندہی قرآن شریف میں تخلیق ِ آدم کے وقت فرشتوں کی زبانی کی گئی ہے اور یہی روش انسان کو اپنے اجتماعی مفاد سے دور کرتی آرہی ہے ۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو انسان دھرتی کی مرکزی تہہ (Centre of Earth) میں چھپے رازوں سے خلاء میں بھٹکتے تاروں و سیاروں کے بھیدوں کو آشکار کرنے میں مصروف ہے وہ دماغ کے خلیوں پر تحقیق سے اپنی اس Psychology کو بدلنے کے نسخے پر جامع تحقیق کے بعدحاصل نتائج سے اپنی اشرف المخلوقات والی فطرت کو ارادہ خداوندی جان کر بجا طور پر رائج نہیں کرسکتا ؟ چونکہ کورونا ایک ایسی جنگ ہے جس میں ایک فرد کے زخمی ہونے سے پورا معاشرہ زخمی ہوجاتا ہے اور جانیں ضایع ہوسکتی ہیں ۔

اس لیے خود کو بچانے کے ساتھ ساتھ قوم کو بچانے اور نسل ِ انسانی کو بچانے کی فکر لاحق ہونی چاہیے۔ اور یہی آپ کا فرداً فرداً انفرادی فیصلہ اجتماعیت میں تبدیل ہوتا جائے گا۔ ویسے بھی عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اگر لوگ اجتماعی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھروں تک محدود رہیں تو علاقہ، پھر ملک اور پھر پوری دنیا Auto Sanitizedہوجائے گی اور کچھ ہی دنوں میں یہ وائرس دنیابھر سے ختم ہوجائے گا۔ کیونکہ اس وائرس کی کُل عمر ہی چند گھنٹے ہے ، جوکہ ایک سے دوسرے فرد کو لگنے سے شدت پکڑتا ہے ۔

امریکا میں مقیم پاکستانی نژاد محققین نمرہ حیات اور احمد تودیز کی ایک مشترکہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کا ایک مریض 4افراد کو متاثر کرتا ہے اور چونکہ پاکستان اس وقت دنیا کا چھٹا بڑا گنجان آبادی والا ملک ہے جوکہ کورونا وائرس کے بدترین پھیلاؤ کے لیے سازگار عوامل میں سے ایک ہے ۔ اس لحاظ سے اگر حالات ایسے ہی لاپرواہی کے ساتھ جاری رہے تو مئی کے وسط میں تقریباً 3کروڑ 13لاکھ افراد کورونا کے شکار ہوجائیں گے جوکہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا 31فیصد ہوگا۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ ملکی آبادی کے چوتھائی سے زیادہ حصے کی تباہی میں کردار ادا کرتے ہیں یا اُن کو بچانے میں اجتماعی احتیاطی تدابیر ی راستہ اختیار کرتے ہیں ۔۔!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔