لاک ڈاؤن سے گداگر بھی شدید پریشانی سے دوچار

بازار اور ریسٹورنٹ بند ہونے سے بھیک ملنا بھی محددو ہو گئی

گدا گر خاتون راشن نہ ملنے کے حوالے سے بتا رہی ہے ۔ فوٹو : ایکسپریس

سندھ میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے حکومتی لاک ڈاؤن کے سبب روزمرہ زندگی کے معمولات معطل ہونے اور کاروباری سرگرمیاں بند ہونے سے ہندو برداری کے اوڑھ قبیلے سے تعلق رکھنے والے گداگر خاندان ان دنوں مالی طور پرسخت پریشان ہے اور ان کے گھرانوں میں فاقہ کشی کی نوبت آ گئی۔

بازار، مارکیٹیں ، ہوٹل اور ریسٹورنٹ بند ہونے کی وجہ سے ان کو بھیک ملنا بھی انتہائی محددو ہوگئی ،فلاحی اداروں کی جانب سے دستر خوان بند کیے جانے کی وجہ سے ان کو کھانا نہیں مل پارہا ہے، بیشتر گداگروں کے اہل خانہ اس صورتحال کے سبب ایک ہفتہ قبل اپنے آبائی علاقوں میں چلے گئے ہیں اور جو کراچی میں موجود ہیں وہ اس وائرس کے خطرے اور لاک ڈاؤن کے سبب اپنے گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

کئی خاندان صرف روٹی اور دودھ سستا ہونے کی وجہ سے چائے اور آلو کے سالن پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں، ایک جانب فاقہ کشی اور دوسری جانب کورونا کی علامات اور احتیاطی تدابیر سے آگہی نہ ہونے اور ماسک کی عدم فراہمی کی وجہ سے اوڑھ قبیلے کے خاندانوں کی زندگیوں کو بھی اس وبا سے خطرات لاحق ہیں۔

بیشتر گداگر گھرانے آبائی علاقوں میں چلے گئے، دھرما

دھرما نے بتایا کہ آج کل کوئی کورونا بیماری پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے سب مارکیٹیں،بازار اور دکانیں بند ہیں، حکومت نے سب کچھ بند کردایا ہے اگر یہ اقدام اس وبا کو روکنے کے لیے تو یہ اچھا فیصلہ ہے ہم بھی ڈر گئے ہیں،میں نے بھی اپنے بچوں کو گھر میں رہنے کے لیے کہا ہے،ان دنوں کوئی بھیک بھی نہیں دے رہا، آمدنی بہت کم ہوگئی ہے،میں چار دن سے اکیلی دودھ کی دکان کے پاس 8 گھنٹے بھیک مانگ رہی ہوں،کبھی 200 کبھی 100 روپے مل جاتے ہیں،ہمارے 100افراد کھانے والے والے ہیں، 4 روز تو ایک روٹی اور چائے سے گزارا کیا ہے،کچھ راشن جمع تھا جس کی وجہ سے گزارا ہوا لیکن اب نوبت فاقہ کشی کی طرف آگئی۔

ہمارے گھروں میں کھانے کو بھی نہیں ہے، بچے بھوک سے پریشان ہیں،اس لیے وہ اب گھروں سے باہر بھیک مانگنے کے لیے نکل آئے ہیں، جب پیٹ میں بھوک کی آگ ہو تو اس کو بجھانا پڑتا ہے کورونا وائرس کی بیماری کا سن کر بیشتر گداگر گھرانے کراچی سے اپنے آبائی علاقوں میں چلے گئے ہیں۔


مرد اور بچے فلاحی اداروں کےدستر خوان پرپیٹ بھرتے تھے

دھرما نے گفتگو میں بتایا کہ ہماری برداری میں مشترکہ خاندانی نظام ہے سب خوشی وغمی میں ایک ساتھ شریک ہوتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ہم لوگ صبح 6 بجے اٹھتے ہیں،اپنی عبادت کرکے گھروں سے نکل جاتے ہیں، عام دنوں میں چائے کے ہوٹلوں پر بھیک مانگ کر صبح کاناشتہ کرتے ہیں اور پھر مختلف شاہراہوں،بازاروں اور عوامی مقامات پر شام 5بجے تک مانگتے ہیں، بوڑھے افراد ایک ہی مخصوص مقام پر بھیک مانگتے ہیں،کبھی 500 یا اس سے زائد مل جاتے ہیں، دوپہر کا کھانا بھی کسی ہوٹل سے مل ہی جاتا ہے یا کوئی مخیر شخص کھلادیتا ہے،پھر رات کا کھانا ہم لوگ گھروں میں تیار کرتے ہیں، ہمارے مرد اور بچے فلاحی اداروں کے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں انھیں گھروں میں کھانے کی عادت کم ہوتی ہے۔

حکومت اور مخیر حضرات گداگروں کو بھی راشن دیں
حکومت سندھ اور مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ گداگروں کا بھی خیال کیا جائے ہمیں بھی راشن مل جائے تو ہم بھی اپنے گھروں میں رہیں گے، انہوں نے بتایا کہ گداگروں کی زیادہ تر آبادی عیسی ٰ نگری،تین ہٹی، ناظم آباد پلوں کے نیچے اور کئی کچی آبادیوں میں مقیم ہیں،ان آبادیوں کی بھی یہ ہی صورتحال ہے اور یہاں بھی بھوک وافلاس ہے، انھوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہم گداگروں کا خیال کریں ہمیں بھی کورونا وائرس سے بچائو کے لیے ماسک اور دیگر سامان دیا جائے تاکہ ہماری زندگیاں بھی محفوظ ہو سکیں۔

کراچی میں 30برس سے خانہ بدوشوںکی زندگی گزار رہے ہیں

پنجاب کالونی لیاقت آباد میں رہائش پذیر کئی گھرانوں پر مشتمل اوڑھ قبیلے سے تعلق رکھنے والی 60 سالہ خاتون سربراہ دھرما نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا تعلق ہندوبرداری سے ہے اور ہم اوڑھ قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں،ہماری برداری ضلع مٹیاری میں آباد ہے ہم کراچی میں 30 برس سے مقیم ہیں لیکن ہماری زندگی خانہ بدوشوں والی ہے ہمارا ذریعہ آمدنی بھیک مانگنا ہے۔

ہم تین ماہ اپنے آبائی علاقے اور تین ماہ کراچی میں گزارتے ہیں،یہ چکر چلتا رہتا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے اگر گاؤں میں فضل ہوتی ہے تو ہم اس کی کٹائی کاکام کرتے ہیں، ہمارے خاندان کی اکثر عورتیں اور بچے زیادہ تر بھیک مانگتے ہیں اور مردوں کو کام کرنے کی عادت کم ہوتی ہے اگرکوئی مرد کام کرتے ہیں تو وہ غبارے،بچوں کے کھلونے اور سبز ی بیچتے ہیں انھوں نے کہا کہ کراچی ایک گلدستہ ہے،یہاں ہر مذہب،رنگ نسل،فرقے اور برداریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں،کراچی سب کو پناہ دیتا ہے اور ہر شخص کھانا مل ہی جاتا ہے اس لیے ہم بھی اس شہر میں آباد ہیں،انھوں نے بتایا کہ میرے آٹھ بچے ہیں جن میں چار اور چار لڑکیاں ہیں،سب بچوں کی شادیاں ہو چکی ہے سب خاندان کے افراد ایک ساتھ ہی رہتے ہیں۔
Load Next Story