وزیراعظم کو شرم آنی چاہیے اسلام آباد ہائیکورٹ پی ایم ڈی سی کی عدم بحالی پر برہم
اسلام آباد ہائی کورٹ کا پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل فوری کھولنے کا حکم
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک گھنٹے میں پی ایم ڈی سی کھولنے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کوعدالتی حکم کے باوجود بحال نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ پی ایم ڈی سی ملازمین نے بتایا کہ حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا اور ہمیں پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی۔
سیکرٹری ہیلتھ کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جسٹس محسن اختر کیانی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں سیکرٹری ہیلتھ کو چھ ماہ کے لئے جیل بھیجنے کا حکم دیتا ہوں، ایس ایچ او جائیں اور سیکرٹری ہیلتھ کو گرفتار کر کے جیل بھیجیں، حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے،وزیروں اور اعلی حکام کو جیل بھیج دونگا، کوئی ایسی بات نہیں،جیلیں انہی کے لئے بنی ہیں، ایمرجنسی میں وفاقی حکومت جو کام کر رہی ہے وہ تباہ کن ہے، سیکرٹری سے کہیں کورونا ٹیسٹ کروا کے آئیں میں اسے آج ہی جیل بھیجوں گا، وفاقی حکومت، وزیراعظم اور وزیر صحت کو شرم آنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایم ڈی سی تحلیل کرنیکا صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ ایک گھنٹے میں پی ایم ڈی سی کا تالہ توڑ کر اس عدالت کو آگاہ کریں، میں اپنے فیصلے کو اس سطح پر لے جاؤں گا کہ کوئی برداشت نہیں کر سکے گا، وفاقی حکومت عدالت کے منہ پر تھپڑ مارہی ہے، وزارت والوں کو سمجھائیں یہ جیل چلے جائیں گے تو ان جیسے ہو جائیں گے جو جیلوں میں بند ہیں، ابھی جائیں اور پی ایم ڈی سی کے تالے توڑ کر رجسٹرار کو انکے دفتر میں بٹھا کر آئیں، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنا توہین عدالت ہے، وفاقی حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ ایسا رویہ اپنائے، تین تاریخیں دے چکا ہوں، آپ انٹراکورٹ اپیل میں فیصلہ معطل کرا لیتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت صحت کو نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن سے بھی روکتے ہوئے کہا کہ پی ایم ڈی سی کو اختیار ہے کہ وہ نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کی درخواستیں وصول کرے، رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو وہاں بیٹھائیں اور ایک گھنٹے بعد عمل درآمد رپورٹ دیں، اگر ایک گھنٹے بعد پی ایم ڈی سی نہ کھلا تو سیکرٹری ہیلتھ کو جیل بھیج دوں گا۔
عدالت میں وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو وفاقی حکومت نے پی ایم ڈی سی فوری ڈی سیل (کھولنے) کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ حکومت نے عدالتی حکم پر بحال ہونے والے رجسٹرار کو دفتر میں بیٹھنے کی اجازت بھی دے دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کوعدالتی حکم کے باوجود بحال نہ کرنے کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ پی ایم ڈی سی ملازمین نے بتایا کہ حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا اور ہمیں پانچ ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی۔
سیکرٹری ہیلتھ کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر جسٹس محسن اختر کیانی نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں سیکرٹری ہیلتھ کو چھ ماہ کے لئے جیل بھیجنے کا حکم دیتا ہوں، ایس ایچ او جائیں اور سیکرٹری ہیلتھ کو گرفتار کر کے جیل بھیجیں، حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے،وزیروں اور اعلی حکام کو جیل بھیج دونگا، کوئی ایسی بات نہیں،جیلیں انہی کے لئے بنی ہیں، ایمرجنسی میں وفاقی حکومت جو کام کر رہی ہے وہ تباہ کن ہے، سیکرٹری سے کہیں کورونا ٹیسٹ کروا کے آئیں میں اسے آج ہی جیل بھیجوں گا، وفاقی حکومت، وزیراعظم اور وزیر صحت کو شرم آنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایم ڈی سی تحلیل کرنیکا صدارتی آرڈیننس کالعدم قرار
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ ایک گھنٹے میں پی ایم ڈی سی کا تالہ توڑ کر اس عدالت کو آگاہ کریں، میں اپنے فیصلے کو اس سطح پر لے جاؤں گا کہ کوئی برداشت نہیں کر سکے گا، وفاقی حکومت عدالت کے منہ پر تھپڑ مارہی ہے، وزارت والوں کو سمجھائیں یہ جیل چلے جائیں گے تو ان جیسے ہو جائیں گے جو جیلوں میں بند ہیں، ابھی جائیں اور پی ایم ڈی سی کے تالے توڑ کر رجسٹرار کو انکے دفتر میں بٹھا کر آئیں، عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنا توہین عدالت ہے، وفاقی حکومت کو زیب نہیں دیتا کہ ایسا رویہ اپنائے، تین تاریخیں دے چکا ہوں، آپ انٹراکورٹ اپیل میں فیصلہ معطل کرا لیتے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت صحت کو نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن سے بھی روکتے ہوئے کہا کہ پی ایم ڈی سی کو اختیار ہے کہ وہ نئے ڈاکٹرز کی رجسٹریشن کی درخواستیں وصول کرے، رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو وہاں بیٹھائیں اور ایک گھنٹے بعد عمل درآمد رپورٹ دیں، اگر ایک گھنٹے بعد پی ایم ڈی سی نہ کھلا تو سیکرٹری ہیلتھ کو جیل بھیج دوں گا۔
عدالت میں وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی تو وفاقی حکومت نے پی ایم ڈی سی فوری ڈی سیل (کھولنے) کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ حکومت نے عدالتی حکم پر بحال ہونے والے رجسٹرار کو دفتر میں بیٹھنے کی اجازت بھی دے دی۔