دلی کے مسلم کش فسادات
مودی سرکار جو عملاً موذی سرکار ہے آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے
مودی کے مسلم کش جیالے آج کل دلی کی تباہی و بربادی پر تلے ہوئے ہیں۔ دلی جو ایک مدت دراز سے ہندوستان کا دارالخلافہ ہے، عظمت رفتہ کا استعارہ اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہے۔ یہ دو چار جید بزرگان دین کا مسکن نہیں بلکہ پورے بائیس خواجاؤں کی چوکھٹ ہے جن کے عقیدت مندوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم، خصوصاً ہندو بھی کثرت سے شامل ہیں۔ دلی جو واقعتاً ہندوستان کا دل ہے دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اسی لیے تو میرؔ صاحب نے فرمایا ہے:
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگارکے
.........
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
حکمراں بی جے پی کی ماتا آر ایس ایس کے غنڈے دلی کے اوراق مصور جیسے کوچوں میں ہولی کے تہوار سے پہلے ہی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے، لوٹ مار اور آتش زنی کرتے رہے اور پولیس محض تماشائی بنی رہی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دلی کے مسلم ووٹوں کی وجہ سے جیت کر چیف منسٹر بننے والا عام آدمی پارٹی کا سربراہ اروند کیجری وال دلی کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں کو آر ایس ایس کے غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر فسادات کے منظر سے غائب ہوگیا جس کے نتیجے میں غنڈوں کو بے آسرا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔
اگرچہ مرزا غالب کی طرح ہم بھی پیدائشی دلی والے نہ سہی لیکن دلی سے ہمارا بھی ویسا ہی اٹوٹ اور گہرا تعلق ہے جیسا مرزا غالب کا تھا۔ لہٰذا دلی کے فسادات اور اس کے مضمرات پر ہماری تشویش بیان سے باہر ہے۔ ان حالیہ فسادات میں قیام پاکستان کے وقت 1947 میں ہونے والے فسادات کی یاد تازہ کردی ہے جس کے ہم چشم دید گواہ ہی نہیں بلکہ کسی حد تک متاثرین میں بھی شامل ہیں۔ دلی 1857 میں بھی لٹ چکی ہے اور اس سے قبل نادر شاہ نے بھی اسے بری طرح تاراج کیا تھا۔ دلی کی لوٹ مار کی بازگشت میر تقی میر کے درج ذیل شعر میں دل کے حوالے سے واضح طور پر سنائی دیتی ہے:
دل کی بربادی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لُوٹا گیا
دلی کے 1947 کے فسادات اور حالیہ فسادات میں دو بنیادی حقائق کا فرق ہے۔ نمبر ایک، اس وقت بھارت کا وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تھا جوکانگریس کے حوالے سے سیکولر مزاج کا حامل تھا جب کہ بھارت کا موجودہ پردھان منتری نریندر مودی ہے جو ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا پروردہ ہے جو مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ مودی نہیں بلکہ موذی کہلانے کا مستحق ہے۔ نمبر دو، 1947 کے فسادات میں آر ایس ایس کے آلہ کار کے طور پر سکھ بھی مسلمانوں کے قتل عام میں پیش پیش تھے جس کی سزا قدرت انھیں 1984 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کے سکھ بارڈی گارڈ کے ہاتھوں ہلاکتوں کے ردعمل کے طور پر ہندوؤں کے ہاتھوں قتل عام کی صورت میں دے چکی ہے۔
گزشتہ ماہ فروری کی 25 تا 28 تاریخ کے دوران دلی کے چاند باغ سے بھجن پورہ تک کے علاقے میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کوئی اتفاقیہ پیش آجانے والا واقعہ نہیں تھا۔ اس خوں ریزی کی باقاعدہ منصوبہ بندی مودی سرکارکے بدنام زمانہ وزیر داخلہ امیت شا کے زیرنگرانی کافی عرصہ پہلے سی کی گئی تھی جس میں مرکزی حکومت کے زیرکنٹرول بھارتی پولیس بھی پوری طرح ملوث تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بلوانی نہتے اور بے بس مسلمانوں کو گاجر و مولی کی طرح کاٹتے رہے اور پولیس چپ سادھے ہوئے یہ خونیں ناٹک دیکھتی رہی۔
دلی کے ان فسادات میں مسلمانوں کو جو جانی نقصان اٹھانا پڑا وہ تو ناقابل تلافی ہے ہی لیکن ان کا جو مالی نقصان ہوا ہے اس کا معاوضہ ادا کرنا تو بھارتی حکومت کی اخلاقی و قانونی ذمے داری ہے۔ مگر بقول غالب:
ہم کو ان سے ہے وفا کی اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
شاباش دلی کے ایک مسیح وکیل کو جس نے انسان دوستی کا جرأت مندانہ مظاہرہ کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ کے دروازے پر انصاف کے لیے دستک دی جس کے جواب میں بیدار ضمیر اور انسان دوست جسٹس مرلی دھرن نے فوری کارروائی کرتے ہوئے پولیس حکام کو طلب کرلیا لیکن افسوس کہ اس منصف کے انصاف پسندانہ اقدام کے چند گھنٹوں کے اندر انصاف کا خون کرتے ہوئے بے جی پی کے لے پالک بھارت کے راشٹرپتی کوندا نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانے کے خوف سے جسٹس مرلی دھرن کا فوری تبادلہ کرکے انھیں ہریانہ ہائی کورٹ بھیج دیا۔ یوں مسلمانوں کے خون کے اوپر انصاف کا خون بھی کر دیا گیا۔
مودی سرکار جو عملاً موذی سرکار ہے آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ یہ ان مسلم کش اہداف کے حصول میں پاگل ہو رہی ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بونے والے زہریلے ناگوں بشمول مونجے، ساورکر اور بال گنگا دھر تلک نامی قائدین نے مقررکیے تھے۔ مودی اور اس کے شریک جرم ''آنند منٹھ'' نامی تعصب بھری کتاب کے بنگالی مصنف بنکم چندر چٹر جی کے اس زہر آلود تصورکو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہیں جس میں مساجد کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی شامل ہے۔ بنکم چندر چٹر جی اور رابندر ناتھ ٹیگور دونوں اصلاً بنگالی تھے لیکن سوچ اور اپروچ کے حوالے سے دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
آر ایس ایس کے گروگھنٹال موہن بھگت کھلم کھلا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ بھارت ایک ہندو راشٹر ہے۔ جب کہ اس کے بالکل برعکس روشن خیال اور انسان دوست رابندر ناتھ ٹیگور صلح و آشتی کے قائل تھے اور انسانی بھائی چارہ ان کا منشور تھا۔ ان کے ادارے شانتی نکیتن میں مذہب کے نام پر بھید بھاؤ کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔
آر ایس ایس اور بی جے پی ی سوچ اور نظریے کی تاریخ برسوں پرانی ہے اور اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اپنے مکروہ چہروں پر مکھوٹے چڑھا کر سیکولر نظریے کی حامل انڈین نیشنل کانگریس کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے جن میں سردار ولبھ بھائی پٹیل سر فہرست ہیں جو 1947 کے مسلم کش فسادات کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
اگر ان فسادات کے وقت پٹیل کی بجائے کوئی اور شخص بھارت کا وزیر داخلہ ہوتا تو شاید مسلمانوں کے خون کی اتنی ارزانی نہ ہوتی۔ افسوس کہ تعصب کے جراثیم کرکٹ کے کھیل تک میں داخل کر دیے گئے جو شرفا کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے امیر الٰہی انڈین کرکٹ ٹیم کے سب سے کامیاب اور بہترین اسپن بالر مانے جاتے تھے۔ لیکن سیلون (سری لنکا) کے دورے پر جانے والی انڈین کرکٹ ٹیم میں انھیں محض اس جرم کی پاداش میں شامل نہیں کیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ بھارت کی ہاکی ٹیم کے ایک سابق کپتان ظفر اقبال نے ہم سے یہ کہا تھا کہ مت پوچھیے کہ اس مقام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگارکے
.........
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
حکمراں بی جے پی کی ماتا آر ایس ایس کے غنڈے دلی کے اوراق مصور جیسے کوچوں میں ہولی کے تہوار سے پہلے ہی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے، لوٹ مار اور آتش زنی کرتے رہے اور پولیس محض تماشائی بنی رہی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دلی کے مسلم ووٹوں کی وجہ سے جیت کر چیف منسٹر بننے والا عام آدمی پارٹی کا سربراہ اروند کیجری وال دلی کے نہتے اور مظلوم مسلمانوں کو آر ایس ایس کے غنڈوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر فسادات کے منظر سے غائب ہوگیا جس کے نتیجے میں غنڈوں کو بے آسرا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔
اگرچہ مرزا غالب کی طرح ہم بھی پیدائشی دلی والے نہ سہی لیکن دلی سے ہمارا بھی ویسا ہی اٹوٹ اور گہرا تعلق ہے جیسا مرزا غالب کا تھا۔ لہٰذا دلی کے فسادات اور اس کے مضمرات پر ہماری تشویش بیان سے باہر ہے۔ ان حالیہ فسادات میں قیام پاکستان کے وقت 1947 میں ہونے والے فسادات کی یاد تازہ کردی ہے جس کے ہم چشم دید گواہ ہی نہیں بلکہ کسی حد تک متاثرین میں بھی شامل ہیں۔ دلی 1857 میں بھی لٹ چکی ہے اور اس سے قبل نادر شاہ نے بھی اسے بری طرح تاراج کیا تھا۔ دلی کی لوٹ مار کی بازگشت میر تقی میر کے درج ذیل شعر میں دل کے حوالے سے واضح طور پر سنائی دیتی ہے:
دل کی بربادی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لُوٹا گیا
دلی کے 1947 کے فسادات اور حالیہ فسادات میں دو بنیادی حقائق کا فرق ہے۔ نمبر ایک، اس وقت بھارت کا وزیر اعظم جواہر لعل نہرو تھا جوکانگریس کے حوالے سے سیکولر مزاج کا حامل تھا جب کہ بھارت کا موجودہ پردھان منتری نریندر مودی ہے جو ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کا پروردہ ہے جو مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ مودی نہیں بلکہ موذی کہلانے کا مستحق ہے۔ نمبر دو، 1947 کے فسادات میں آر ایس ایس کے آلہ کار کے طور پر سکھ بھی مسلمانوں کے قتل عام میں پیش پیش تھے جس کی سزا قدرت انھیں 1984 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کے سکھ بارڈی گارڈ کے ہاتھوں ہلاکتوں کے ردعمل کے طور پر ہندوؤں کے ہاتھوں قتل عام کی صورت میں دے چکی ہے۔
گزشتہ ماہ فروری کی 25 تا 28 تاریخ کے دوران دلی کے چاند باغ سے بھجن پورہ تک کے علاقے میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کوئی اتفاقیہ پیش آجانے والا واقعہ نہیں تھا۔ اس خوں ریزی کی باقاعدہ منصوبہ بندی مودی سرکارکے بدنام زمانہ وزیر داخلہ امیت شا کے زیرنگرانی کافی عرصہ پہلے سی کی گئی تھی جس میں مرکزی حکومت کے زیرکنٹرول بھارتی پولیس بھی پوری طرح ملوث تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بلوانی نہتے اور بے بس مسلمانوں کو گاجر و مولی کی طرح کاٹتے رہے اور پولیس چپ سادھے ہوئے یہ خونیں ناٹک دیکھتی رہی۔
دلی کے ان فسادات میں مسلمانوں کو جو جانی نقصان اٹھانا پڑا وہ تو ناقابل تلافی ہے ہی لیکن ان کا جو مالی نقصان ہوا ہے اس کا معاوضہ ادا کرنا تو بھارتی حکومت کی اخلاقی و قانونی ذمے داری ہے۔ مگر بقول غالب:
ہم کو ان سے ہے وفا کی اُمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
شاباش دلی کے ایک مسیح وکیل کو جس نے انسان دوستی کا جرأت مندانہ مظاہرہ کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ کے دروازے پر انصاف کے لیے دستک دی جس کے جواب میں بیدار ضمیر اور انسان دوست جسٹس مرلی دھرن نے فوری کارروائی کرتے ہوئے پولیس حکام کو طلب کرلیا لیکن افسوس کہ اس منصف کے انصاف پسندانہ اقدام کے چند گھنٹوں کے اندر انصاف کا خون کرتے ہوئے بے جی پی کے لے پالک بھارت کے راشٹرپتی کوندا نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجانے کے خوف سے جسٹس مرلی دھرن کا فوری تبادلہ کرکے انھیں ہریانہ ہائی کورٹ بھیج دیا۔ یوں مسلمانوں کے خون کے اوپر انصاف کا خون بھی کر دیا گیا۔
مودی سرکار جو عملاً موذی سرکار ہے آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ یہ ان مسلم کش اہداف کے حصول میں پاگل ہو رہی ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بونے والے زہریلے ناگوں بشمول مونجے، ساورکر اور بال گنگا دھر تلک نامی قائدین نے مقررکیے تھے۔ مودی اور اس کے شریک جرم ''آنند منٹھ'' نامی تعصب بھری کتاب کے بنگالی مصنف بنکم چندر چٹر جی کے اس زہر آلود تصورکو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہیں جس میں مساجد کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی شامل ہے۔ بنکم چندر چٹر جی اور رابندر ناتھ ٹیگور دونوں اصلاً بنگالی تھے لیکن سوچ اور اپروچ کے حوالے سے دونوں میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
آر ایس ایس کے گروگھنٹال موہن بھگت کھلم کھلا یہ اعلان کرچکے ہیں کہ بھارت ایک ہندو راشٹر ہے۔ جب کہ اس کے بالکل برعکس روشن خیال اور انسان دوست رابندر ناتھ ٹیگور صلح و آشتی کے قائل تھے اور انسانی بھائی چارہ ان کا منشور تھا۔ ان کے ادارے شانتی نکیتن میں مذہب کے نام پر بھید بھاؤ کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا۔
آر ایس ایس اور بی جے پی ی سوچ اور نظریے کی تاریخ برسوں پرانی ہے اور اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں جو اپنے مکروہ چہروں پر مکھوٹے چڑھا کر سیکولر نظریے کی حامل انڈین نیشنل کانگریس کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے جن میں سردار ولبھ بھائی پٹیل سر فہرست ہیں جو 1947 کے مسلم کش فسادات کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
اگر ان فسادات کے وقت پٹیل کی بجائے کوئی اور شخص بھارت کا وزیر داخلہ ہوتا تو شاید مسلمانوں کے خون کی اتنی ارزانی نہ ہوتی۔ افسوس کہ تعصب کے جراثیم کرکٹ کے کھیل تک میں داخل کر دیے گئے جو شرفا کا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے امیر الٰہی انڈین کرکٹ ٹیم کے سب سے کامیاب اور بہترین اسپن بالر مانے جاتے تھے۔ لیکن سیلون (سری لنکا) کے دورے پر جانے والی انڈین کرکٹ ٹیم میں انھیں محض اس جرم کی پاداش میں شامل نہیں کیا گیا کہ وہ مسلمان تھے۔ بھارت کی ہاکی ٹیم کے ایک سابق کپتان ظفر اقبال نے ہم سے یہ کہا تھا کہ مت پوچھیے کہ اس مقام تک رسائی حاصل کرنے کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔