کورونا وائرس سے بچاؤ
مدافعتی نظام اور غذا کی اہمیت
غذا ہمارے جسم کی صحت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے غذا کے بنیادی کاموں میں سب سے اہم کام جسم کو توانائی فراہم کرنا ہے جو اندرونی اعضاء کی کارکردگی اور روزمرّہ کے کاموں کے لیے درکار ہوتی ہے اس کے علاوہ غذا جسم کی نشوونما اور روزانہ کی بنیاد پر جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے غذا کی مدد سے جسم ایسا مدافعتی نظام قائم کرتا ہے جو اس کو ہر قسم کے بیرونی دشمنوں کے حملے سے محفوظ رکھتا ہے۔
وبائی اور متعدی امراض سے بچنے کے لیے سب سے پہلے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے۔ متوازن غذا سے مراد ایسی غذا ہے جس میں تمام ضروری غذائی اجزاء مثلاً نشاستہ، لحمیات، حیاتین، معدنیات اور چکنائی متوازن مقدار میں موجود ہوں۔ ہماری غذا کا سب سے زیادہ حصّہ نشاستہ (کاربوہاڈریٹ) پر مشتمل ہونا چاہیے مثلاً اناج اور اناج سے بنی اشیاء، پھل اور سبزیاں، نشاستہ کی مقدار غذا میں اتنی شامل کی جائے کہ وہ ہمارے جسم کی روزانہ کی توانائی کی ضرورت کا پچاس سے اٹھاون فیصد مہّیا کرے، لحمیات یعنی پروٹین مثلاً گوشت، مرغی مچھلی، دودھ، پنیر اور انڈوں سے اکیس سے اکیاون فیصد توانائی حاصل ہونی چاہیے اور تیس فیصد توانائی چکنائی سے حاصل ہونی چاہیے جس میں گھی، تیل، مکھن، ملائی، مارجرین اور خشک میوہ جات شامل ہیں۔ متوازن غذا ہر قسم کے ضروری غذائی اجزاء مہیّا کرتی ہے جس سے جسم کے تمام افعال مناسب طریقے سے انجام پاتے ہیں۔ یوں جسم میں ہر قسم کے وبائی امراض سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
نشاستہ (کاربوہائی ڈریٹ)
جسم کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ نشاستہ ہے۔ یہ توانائی جسم کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے۔ ساتھ ہی مدافعتی نظام کے افعال کے لیے توانائی مہیّا کرتا نشاستہ دو طر ح کا ہوتا ہے ایک وہ جو مکمل طور پر اپنے بنیادی اجزاء یعنی گلوکوز میں تبدیل ہوکر خون میں شامل ہوجاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے، جب کہ دوسری قسم کا نشاستہ جسم میں غیرہاضم ہوتا ہے۔ نشاستہ یعنی کاربوہائی ڈریٹ کی وہ اقسام جو جسم میں جذب نہیں ہوتیں ریشہ (فائبر) مہیّا کرتی ہیں۔ یہ ریشہ نظامِ ہاضمہ کی روزانہ صفائی کرتا ہے اور اسے تندرست رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق حل پذیر ریشہ جراثیم سے ہونے والے انفیکشن سے جلد بہتری کا باعث بنتا ہے اور جسم میں انفیکشن سے لڑنے والے ٹی۔سیل کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دالیں، مکمل اناج (بھوسی سمیت) ، رسیلے پھل، بیری اور السی کے بیج حل پذیر ریشے کے حصول کے بہترین ذرایع ہیں۔
لحمیات (پروٹین)
ہمارا جسم کھربوں خلیوں سے بنا ہے اور ہر خلیہ لحمیات (پروٹین) سے بنا ہے۔ ان خلیوں کی صحت اور مدافعتی صلاحیت پروٹین ہی کی بدولت مضبوط رہتی ہے۔ یہ ہی نہیں جسم میں موجود تمام انزائم، ہارمونز ، اینٹی باڈیز، اور خون کے دفاعی خلیات سب پروٹین سے بنے ہیں جسم کے مدافعتی نظام کو حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے ذریعے مضبوط بنایا جاتا ہے جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اگر جسم میں ناکافی پروٹین ہو تو کسی بھی ویکسین کے نتیجے میں جسم میں اینٹی باڈیز نہیں بنتی اور حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے استعمال کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یعنی حفاظتی ٹیکے لگانے کے باوجود بیماری ہونے کے امکانات باقی رہتے ہیں۔ اس کی مثال ہمارے ملک میں سندھ کے ضلع تھر کے نحیف اور لاغر بچوں کی ہے جن کو حکومت کی جانب سے مفت حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں مگر پھر بھی تھر میں خسرہ وبا کی صورت اختیار کرجاتی ہے اور بڑی تعداد میں بچوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض ادویات جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط نہیں کر سکتیں اگر جسم میں مناسب مقدار میں غذائیت موجود نہ ہو تو ویکسین کے استعمال کے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
متوازن غذا میں اعلیٰ معیار کی پروٹین نہایت اہمیت کی حامل ہے اعلیٰ معیار کی پروٹین وہ کہلاتی ہے جو جسم کو زیادہ مقدار میں ضروری امینو تراشے مہیّا کرے یعنی زیادہ تعمیری مواد مہیّا کرے، انڈے، گوشت (گائے، بکرا، دنبہ وغیرہ)، مرغی، مچھلی، دودھ، پنیر، دودھ سے بنی غذائیں اور دالیں، پھلیاں اعلیٰ معیار کی پروٹین مہیّا کرتی ہیں۔
پروٹین کے بعد دیگر غذائی اجزا کا بھی ذکر ہو جائے ہمارا سب سے بڑا دفاعی عضّو ہماری جلد ہے جلد مضبوط اور محفوظ ہو تو بیرونی عناصر جسم پر حملہ نہیں کرپاتے۔ جلد کی صحت اور مضبوطی پروٹین کے ساتھ ساتھ دیگر غذائی اجزاء پر بھی منحصر ہے جن میں حیاتین (وٹامن) مثلاً وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای اور وٹامن بی کمپلیکس سرِفہرست ہیں۔
حیاتین (وٹامن)
وٹامن اے
وٹامن اے جلد کی صحت وتندرستی کا ضامن ہے اور مدافعتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے گاجر، پالک، رسیلے پھل، پنیر، انڈے، مچھلی مرغی ، دودھ اور کلیجی وٹامن اے کے حصول کے بہترین ذرائع ہیں۔
وٹامن سی
وٹامن سی جلد کے خلیات کو جوڑنے ولا مادہ جو سیمنٹ کی طرح کا کام کرتا ہے اور یوں جلد کو مضبوط مدافعتی ڈھال بناتا ہے جسم کی اندرونی جھلیاں مثلاً ناک حلق اور پھیپھڑوں کی اندرونی جھلیاں بھی اس کی مدد سے مضبوط و مستحکم رہتی ہیں رسیلے پھل مثلاً موسمی، مالٹے ، کینو، میٹھا ، سنترہ، چکوترہ، لیموں ان کے علاوہ اسٹرابیری ، ہری مرچ ، مٹر، مولی وٹامن سی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
وٹامن ای
وٹامن ای جسم کے خلیات کو زہریلے اجزاء (Free redicals) کے حملے محفوظ رکھتا ہے جبکہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے جسم میں داخل ہونے والے بیکٹیریا اور وائرس سے مقابلے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے صحت مند مدافعتی نظام کے لیے بے حد مفید ہے گوشت، مکئی، کدّو کے بیج ، خشک میوہ جات اور دودھ اور اس سے تیار غذائیں اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔
وٹامن ڈی
جہاں وٹامن ڈی کے اور بہت سے افعال ہیں وہاں زکام کے خلاف مدافعت صلاحیت پیدا کرنا ہے تنفّس کے نظام میں ہونے والے انفیکشن اور فلو کے امکانات کو کم کرتا ہے اس کی کمی مدافعتی نظام کو کم زور کرتی ہے جس سے بیماریوں کے حملے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں وٹامن ڈی سورج کی بالائے بنفشی شعاؤں کی مدد سے جسم خود بھی تیار کرسکتا ہے مگر جدید شہری طرز رہائش مطلوبہ مقدار میں سورج کی روشنی جسم تک نہیں پہنچنے دیتا۔ یہی و جہ ہے کہ گرم ملک میں رہنے کے باوجود ہماری شہری آبادی کی ایک بڑی تعداد میں لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ غذا سے بھی وٹامن ڈی حاصل کیا جاسکتا ہے مگر اس کی مقدار خاطرخواہ نہیں ہوتی مکھن، انڈے کی زردی، مچھلی دیگر سمندری خوراک اور آلو کچھ مقدار میں وٹامن ڈی مہیّا کرتے ہیں۔ وٹامن کے علاوہ معدنیات کے گروہ میں سے زنک، کاپر اور آئیوڈین نہایت اہم ہیں۔
زنک
جدید تحقیق کے مطابق زنک کو نزلہ زکام کے علاج کے لیے بہت مفید و معاون پایا گیا زنک کی چوسنے والی گولیاں (lozenges) کے استعمال سے نزلہ زکام کے زور میں کمی پائی گئی یہ نہ صرف انفیکشن سے مقابلے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ زخموں کو بھی جلد مندمل کرتا ہے گوشت، دالیں، خشک میوہ جات، مکمل اناج، دودھ اور انڈے زنک کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں۔
پانی
ایک اور اہم عنصر پانی ہے گو کہ پانی کو غذائیت میں شامل نہیں کیا جاتا مگر تمام غذائی اجزاء کے انہضام اور انجذاب میں پانی بنیادی حیثیت رکھتا ہے جلد کو صحت مند رکھنے میں پانی کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ ہی نہیں پانی جسم سے فاضل اور زہریلے مادے خارج کرنے کا اہم کام کرتا ہے، اگر یہ فاضل اور زہریلے مادّے جسم سے مناسب طریقے سے خارج نہ ہوں تو جسم کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوتا ہے پانی دودھ، جوس، کھیرا، خربوزہ اور رسیلے پھلوں کے استعمال سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
تناؤ (اسٹریس)
ایک اور بڑا محّرک جو ہمارے مدافعتی نظام کو کم زور کرتا ہے وہ ہے تناؤ یعنی اسٹریس ہے۔ اسٹریس جلد کی صحت کو متاثر کرتا ہے جس سے اس کی حفاظت کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور دیگر مدافعتی نظام میں معاون اعضاء کو بھی کم زور کر بناتا ہے اسٹریس بیماریوں کو نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ اگر کوئی مرض پہلے سے موجود ہو تو تناؤ اس کو مزید پیچیدہ بناتا ہے تناؤ کم کرنے کی ادویات لی جا سکتیں ہیں مگر بے ضرر قدرتی طریقوں سے تناؤ کم کرنا زیادہ دیرپا اور مؤثر ہے مثلاً ہلکی پھلکی ورزش، باغبانی، تعمیری اور فلاحی کام وغیرہ صحت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ پرسکون نیند بھی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے یہ نہ صرف تناؤ کو کم کرتی ہے بلکہ جسم کی روزانہ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے لیے وقت فراہم کرتی ہے۔
عمر اور مدافعت
عمر کے ساتھ ساتھ جسم کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا جاتا ہے چوںکہ بڑھاپے میں ذیابطیس، بلڈ پریشر، جوڑوں اور ہڈیوں کے امرض اور دیگر اعصابی امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کم زور اور عمررسیدہ افراد زیادہ وبائی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری زیادہ توجہ اور زیادہ دیکھ بھال کے مستحق ہیں جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مدافعتی نظام کا بھی معاملہ ہے جس طرح بوڑھوں کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے ایسے ہی بچوں کا بھی مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے بچوں کی غذا کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں میں انفیکشن ان کی نشوونما کو روک دیتا ہے اور غذائی کمی میں مبتلا کر دیتا ہے اور غذائی کمی امدفعتی نظام کو کم زور کر دیتی ہے ہر انفیکشن مدافعتی نظام کو مزید کمزور کرتا ہے اور کمزور مدافعتی نظام ایک نئے انفیکشن کو دعوت دیتا ہے یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
مدافعتی نظام کو کمزور کرنے والے عناصر
غذا کے ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کو کم زور کرتے ہیں اور Inflamation سوجن اور جلنے کی سی تکلیف میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً غذا میں لگنے والی پھپوندی سے پیدا ہونے والے Mycotoxins زہریلے مادّے ہیں ڈبل روٹی، پھلوں، سبزیوں اور فریج میں رکھے کھانوں میں اکثر پھپوندی لگ جاتی ہے۔ اگر کسی غذا پر پھپوندی لگی ہو تو ہم صرف متاثرہ حصّہ الگ کرکے وہ غذا استعمال کرلیتے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بظاہر تھوڑی سی پھپوند ی کا زہر غذا کے بڑے حصّہ میں دور تک پھیل جاتا اس لیے اگر ممکن ہو تو وہ غذا استعمال ہی نہ کریں اور اگر اس کا استعمال بے حد ضروری ہو تو پھر پھپوندی کے اردگرد کا بہت بڑا سا حصّہ ضائع کردیں۔ اس کے علاوہ ہوا اور ماحول میں موجود آلودگی، جو انسانی جسم میں سانس کے ذریعے تو جا ہی رہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کھلے بکنے والے گوشت، دودھ، پھل اور سبزیوں کے ذریعے بھی ہمارے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔
بھاری دھاتیں (Heavey matals) مثلاً پارہ (Mercury) لیڈ (lead) اور کیڈیم (Cadmium) ہمارے ماحول خاص کر شہری علاقوں کو آلودہ کررہی ہیں اور غذا کے ساتھ جسم میں داخل ہوکر ہماری صحت پر انتہائی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ اس ہی طرح غذاؤں کا ذائقہ، رنگ، خوشبو اور محفوظ کرنے کی مدّت بڑھانے کے لیے ڈالے جانے والے کیمیکلز بھی قابلِ توجہ ہیں۔ ان کیمیکلز میں سے بہت سے ایسے ہیں جو انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً مونوسوڈیم گلوٹامیٹ، مصنوعی فوڈ کلر، سوڈیم نائٹریٹ (گوشت کو محفوظ کرنے والا کیمیکل) وغیرہ۔ تمباکونوشی ایسا عمل ہے جو بالواسط اور بلاواسطہ جسم کے مدافعتی نظام کو تباہ کرتی ہے اور جسم کو تحفظ دینے والے وٹامن کو ناکارہ بناتی ہے۔ مثلاً وٹامن سی تمباکو نوشی سے ضایع ہوجاتا ہے یوں مدافعتی نظام مزید کم زور ہو جاتا ہے۔
انفیکشن کی صورت میں غذا کا استعمال
اب آجائیں ان غذاؤں کی جانب جن کا استعمال انفیکشن ہونے کی صورت میں بڑھا دینا چاہیے شہد خوردبینی اجسام کے خلاف ایک قدرتی دوا ہے۔ لہسن بھی بہترین اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کا حامل ہے۔ ہلدی ہمارے بزرگوں کا آزمودہ اور جدید سائنس سے ثابت شدہ نسخہ ہے ان کے علاوہ لیموں، انناس، ادرک اور کھوپرے کا تیل بھی فائدہ مند غذائیں ہیں۔ انفیکشن کی صورت میں اگر معالج اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کرتے ہیں تو اس سے یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ بیماری پھیلانے والے جراثیم مر جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہمارے دوست جراثیم بھی مرجاتے ہیں دوست جراثیم ہمارے جسم اور خاص کر آنتوں کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ اس لیے جب اینٹی بائیوٹیک ادویات استعمال کریں تو اس کے بعد زیادہ ریشے والی غذائیں مثلاً بھوسی کے ساتھ آٹا، پھلیاں، پھل، سبزیاں اور دہی کا استعمال ضرور کریں کیوںکہ یہ تمام غذائیں ہمارے دوست جراثیم کو دوبارہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
غرض یہ کہ کسی بھی وبائی یا متعدی مرض سے بچنے کے لیے اپنا گھر محفوظ کرنا ہوگا۔ یعنی اپنے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط بنانا ضروری ہے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال ، وقت پر کھانا کھانا، پراسیس غذاؤں سے اجتناب (یعنی وہ تمام کھانے جن میں محفوظ کرنے یا رنگ اور ذائقہ بڑھانے کے لیے کیمیائی اجزا ڈالے گئے ہوں) غذا کی خریداری اور تیاری میں صفائی کا خاص اہتمام، ہلکی پھلکی ورزش یا دن میں کم از کم تیس منٹ کی چہل قدمی، آٹھ سے دس گلاس پانی کا استعمال، چھے سے آٹھ گھنٹے کی پُرسکون نیند، تعمیری، فلاحی، مثبت کام اور حفظانِ صحت کے اصولوں کا خاص خیال ہمیں کسی بھی قسم کے وبائی اور متعدی مرض سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چوںکہ یہ اسباب کی دنیا ہے اس لیے ان تمام حفاظتی اقدامات کے بعد اللہ سے عافیت کی دعا ہمیں ایمان و یقین کی وہ روحانی طاقت عطا کرتی ہے جو ہمیں ہر قسم کے حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔
وبائی اور متعدی امراض سے بچنے کے لیے سب سے پہلے متوازن غذا کا استعمال ضروری ہے۔ متوازن غذا سے مراد ایسی غذا ہے جس میں تمام ضروری غذائی اجزاء مثلاً نشاستہ، لحمیات، حیاتین، معدنیات اور چکنائی متوازن مقدار میں موجود ہوں۔ ہماری غذا کا سب سے زیادہ حصّہ نشاستہ (کاربوہاڈریٹ) پر مشتمل ہونا چاہیے مثلاً اناج اور اناج سے بنی اشیاء، پھل اور سبزیاں، نشاستہ کی مقدار غذا میں اتنی شامل کی جائے کہ وہ ہمارے جسم کی روزانہ کی توانائی کی ضرورت کا پچاس سے اٹھاون فیصد مہّیا کرے، لحمیات یعنی پروٹین مثلاً گوشت، مرغی مچھلی، دودھ، پنیر اور انڈوں سے اکیس سے اکیاون فیصد توانائی حاصل ہونی چاہیے اور تیس فیصد توانائی چکنائی سے حاصل ہونی چاہیے جس میں گھی، تیل، مکھن، ملائی، مارجرین اور خشک میوہ جات شامل ہیں۔ متوازن غذا ہر قسم کے ضروری غذائی اجزاء مہیّا کرتی ہے جس سے جسم کے تمام افعال مناسب طریقے سے انجام پاتے ہیں۔ یوں جسم میں ہر قسم کے وبائی امراض سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
نشاستہ (کاربوہائی ڈریٹ)
جسم کے لیے توانائی کا بنیادی ذریعہ نشاستہ ہے۔ یہ توانائی جسم کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتی ہے۔ ساتھ ہی مدافعتی نظام کے افعال کے لیے توانائی مہیّا کرتا نشاستہ دو طر ح کا ہوتا ہے ایک وہ جو مکمل طور پر اپنے بنیادی اجزاء یعنی گلوکوز میں تبدیل ہوکر خون میں شامل ہوجاتا ہے اور توانائی فراہم کرتا ہے، جب کہ دوسری قسم کا نشاستہ جسم میں غیرہاضم ہوتا ہے۔ نشاستہ یعنی کاربوہائی ڈریٹ کی وہ اقسام جو جسم میں جذب نہیں ہوتیں ریشہ (فائبر) مہیّا کرتی ہیں۔ یہ ریشہ نظامِ ہاضمہ کی روزانہ صفائی کرتا ہے اور اسے تندرست رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق حل پذیر ریشہ جراثیم سے ہونے والے انفیکشن سے جلد بہتری کا باعث بنتا ہے اور جسم میں انفیکشن سے لڑنے والے ٹی۔سیل کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ دالیں، مکمل اناج (بھوسی سمیت) ، رسیلے پھل، بیری اور السی کے بیج حل پذیر ریشے کے حصول کے بہترین ذرایع ہیں۔
لحمیات (پروٹین)
ہمارا جسم کھربوں خلیوں سے بنا ہے اور ہر خلیہ لحمیات (پروٹین) سے بنا ہے۔ ان خلیوں کی صحت اور مدافعتی صلاحیت پروٹین ہی کی بدولت مضبوط رہتی ہے۔ یہ ہی نہیں جسم میں موجود تمام انزائم، ہارمونز ، اینٹی باڈیز، اور خون کے دفاعی خلیات سب پروٹین سے بنے ہیں جسم کے مدافعتی نظام کو حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے ذریعے مضبوط بنایا جاتا ہے جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اگر جسم میں ناکافی پروٹین ہو تو کسی بھی ویکسین کے نتیجے میں جسم میں اینٹی باڈیز نہیں بنتی اور حفاظتی ٹیکوں (ویکسین) کے استعمال کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یعنی حفاظتی ٹیکے لگانے کے باوجود بیماری ہونے کے امکانات باقی رہتے ہیں۔ اس کی مثال ہمارے ملک میں سندھ کے ضلع تھر کے نحیف اور لاغر بچوں کی ہے جن کو حکومت کی جانب سے مفت حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں مگر پھر بھی تھر میں خسرہ وبا کی صورت اختیار کرجاتی ہے اور بڑی تعداد میں بچوں کی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض ادویات جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط نہیں کر سکتیں اگر جسم میں مناسب مقدار میں غذائیت موجود نہ ہو تو ویکسین کے استعمال کے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
متوازن غذا میں اعلیٰ معیار کی پروٹین نہایت اہمیت کی حامل ہے اعلیٰ معیار کی پروٹین وہ کہلاتی ہے جو جسم کو زیادہ مقدار میں ضروری امینو تراشے مہیّا کرے یعنی زیادہ تعمیری مواد مہیّا کرے، انڈے، گوشت (گائے، بکرا، دنبہ وغیرہ)، مرغی، مچھلی، دودھ، پنیر، دودھ سے بنی غذائیں اور دالیں، پھلیاں اعلیٰ معیار کی پروٹین مہیّا کرتی ہیں۔
پروٹین کے بعد دیگر غذائی اجزا کا بھی ذکر ہو جائے ہمارا سب سے بڑا دفاعی عضّو ہماری جلد ہے جلد مضبوط اور محفوظ ہو تو بیرونی عناصر جسم پر حملہ نہیں کرپاتے۔ جلد کی صحت اور مضبوطی پروٹین کے ساتھ ساتھ دیگر غذائی اجزاء پر بھی منحصر ہے جن میں حیاتین (وٹامن) مثلاً وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن ای اور وٹامن بی کمپلیکس سرِفہرست ہیں۔
حیاتین (وٹامن)
وٹامن اے
وٹامن اے جلد کی صحت وتندرستی کا ضامن ہے اور مدافعتی نظام میں اہم کردار ادا کرتا ہے گاجر، پالک، رسیلے پھل، پنیر، انڈے، مچھلی مرغی ، دودھ اور کلیجی وٹامن اے کے حصول کے بہترین ذرائع ہیں۔
وٹامن سی
وٹامن سی جلد کے خلیات کو جوڑنے ولا مادہ جو سیمنٹ کی طرح کا کام کرتا ہے اور یوں جلد کو مضبوط مدافعتی ڈھال بناتا ہے جسم کی اندرونی جھلیاں مثلاً ناک حلق اور پھیپھڑوں کی اندرونی جھلیاں بھی اس کی مدد سے مضبوط و مستحکم رہتی ہیں رسیلے پھل مثلاً موسمی، مالٹے ، کینو، میٹھا ، سنترہ، چکوترہ، لیموں ان کے علاوہ اسٹرابیری ، ہری مرچ ، مٹر، مولی وٹامن سی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
وٹامن ای
وٹامن ای جسم کے خلیات کو زہریلے اجزاء (Free redicals) کے حملے محفوظ رکھتا ہے جبکہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے جسم میں داخل ہونے والے بیکٹیریا اور وائرس سے مقابلے کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے صحت مند مدافعتی نظام کے لیے بے حد مفید ہے گوشت، مکئی، کدّو کے بیج ، خشک میوہ جات اور دودھ اور اس سے تیار غذائیں اس کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔
وٹامن ڈی
جہاں وٹامن ڈی کے اور بہت سے افعال ہیں وہاں زکام کے خلاف مدافعت صلاحیت پیدا کرنا ہے تنفّس کے نظام میں ہونے والے انفیکشن اور فلو کے امکانات کو کم کرتا ہے اس کی کمی مدافعتی نظام کو کم زور کرتی ہے جس سے بیماریوں کے حملے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں وٹامن ڈی سورج کی بالائے بنفشی شعاؤں کی مدد سے جسم خود بھی تیار کرسکتا ہے مگر جدید شہری طرز رہائش مطلوبہ مقدار میں سورج کی روشنی جسم تک نہیں پہنچنے دیتا۔ یہی و جہ ہے کہ گرم ملک میں رہنے کے باوجود ہماری شہری آبادی کی ایک بڑی تعداد میں لوگ وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔ غذا سے بھی وٹامن ڈی حاصل کیا جاسکتا ہے مگر اس کی مقدار خاطرخواہ نہیں ہوتی مکھن، انڈے کی زردی، مچھلی دیگر سمندری خوراک اور آلو کچھ مقدار میں وٹامن ڈی مہیّا کرتے ہیں۔ وٹامن کے علاوہ معدنیات کے گروہ میں سے زنک، کاپر اور آئیوڈین نہایت اہم ہیں۔
زنک
جدید تحقیق کے مطابق زنک کو نزلہ زکام کے علاج کے لیے بہت مفید و معاون پایا گیا زنک کی چوسنے والی گولیاں (lozenges) کے استعمال سے نزلہ زکام کے زور میں کمی پائی گئی یہ نہ صرف انفیکشن سے مقابلے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ زخموں کو بھی جلد مندمل کرتا ہے گوشت، دالیں، خشک میوہ جات، مکمل اناج، دودھ اور انڈے زنک کے حصول کا اچھا ذریعہ ہیں۔
پانی
ایک اور اہم عنصر پانی ہے گو کہ پانی کو غذائیت میں شامل نہیں کیا جاتا مگر تمام غذائی اجزاء کے انہضام اور انجذاب میں پانی بنیادی حیثیت رکھتا ہے جلد کو صحت مند رکھنے میں پانی کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ ہی نہیں پانی جسم سے فاضل اور زہریلے مادے خارج کرنے کا اہم کام کرتا ہے، اگر یہ فاضل اور زہریلے مادّے جسم سے مناسب طریقے سے خارج نہ ہوں تو جسم کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوتا ہے پانی دودھ، جوس، کھیرا، خربوزہ اور رسیلے پھلوں کے استعمال سے بھی حاصل ہوتا ہے۔
تناؤ (اسٹریس)
ایک اور بڑا محّرک جو ہمارے مدافعتی نظام کو کم زور کرتا ہے وہ ہے تناؤ یعنی اسٹریس ہے۔ اسٹریس جلد کی صحت کو متاثر کرتا ہے جس سے اس کی حفاظت کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور دیگر مدافعتی نظام میں معاون اعضاء کو بھی کم زور کر بناتا ہے اسٹریس بیماریوں کو نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ اگر کوئی مرض پہلے سے موجود ہو تو تناؤ اس کو مزید پیچیدہ بناتا ہے تناؤ کم کرنے کی ادویات لی جا سکتیں ہیں مگر بے ضرر قدرتی طریقوں سے تناؤ کم کرنا زیادہ دیرپا اور مؤثر ہے مثلاً ہلکی پھلکی ورزش، باغبانی، تعمیری اور فلاحی کام وغیرہ صحت پر مثبت اثرات ڈالتے ہیں۔ پرسکون نیند بھی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے یہ نہ صرف تناؤ کو کم کرتی ہے بلکہ جسم کی روزانہ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کے لیے وقت فراہم کرتی ہے۔
عمر اور مدافعت
عمر کے ساتھ ساتھ جسم کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا جاتا ہے چوںکہ بڑھاپے میں ذیابطیس، بلڈ پریشر، جوڑوں اور ہڈیوں کے امرض اور دیگر اعصابی امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کم زور اور عمررسیدہ افراد زیادہ وبائی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری زیادہ توجہ اور زیادہ دیکھ بھال کے مستحق ہیں جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مدافعتی نظام کا بھی معاملہ ہے جس طرح بوڑھوں کا مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے ایسے ہی بچوں کا بھی مدافعتی نظام کم زور ہوتا ہے بچوں کی غذا کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے، کیوں کہ بچوں میں انفیکشن ان کی نشوونما کو روک دیتا ہے اور غذائی کمی میں مبتلا کر دیتا ہے اور غذائی کمی امدفعتی نظام کو کم زور کر دیتی ہے ہر انفیکشن مدافعتی نظام کو مزید کمزور کرتا ہے اور کمزور مدافعتی نظام ایک نئے انفیکشن کو دعوت دیتا ہے یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
مدافعتی نظام کو کمزور کرنے والے عناصر
غذا کے ساتھ کچھ ایسے عناصر بھی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کو کم زور کرتے ہیں اور Inflamation سوجن اور جلنے کی سی تکلیف میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً غذا میں لگنے والی پھپوندی سے پیدا ہونے والے Mycotoxins زہریلے مادّے ہیں ڈبل روٹی، پھلوں، سبزیوں اور فریج میں رکھے کھانوں میں اکثر پھپوندی لگ جاتی ہے۔ اگر کسی غذا پر پھپوندی لگی ہو تو ہم صرف متاثرہ حصّہ الگ کرکے وہ غذا استعمال کرلیتے ہیں آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بظاہر تھوڑی سی پھپوند ی کا زہر غذا کے بڑے حصّہ میں دور تک پھیل جاتا اس لیے اگر ممکن ہو تو وہ غذا استعمال ہی نہ کریں اور اگر اس کا استعمال بے حد ضروری ہو تو پھر پھپوندی کے اردگرد کا بہت بڑا سا حصّہ ضائع کردیں۔ اس کے علاوہ ہوا اور ماحول میں موجود آلودگی، جو انسانی جسم میں سانس کے ذریعے تو جا ہی رہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ کھلے بکنے والے گوشت، دودھ، پھل اور سبزیوں کے ذریعے بھی ہمارے جسم میں داخل ہو رہی ہے۔
بھاری دھاتیں (Heavey matals) مثلاً پارہ (Mercury) لیڈ (lead) اور کیڈیم (Cadmium) ہمارے ماحول خاص کر شہری علاقوں کو آلودہ کررہی ہیں اور غذا کے ساتھ جسم میں داخل ہوکر ہماری صحت پر انتہائی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ اس ہی طرح غذاؤں کا ذائقہ، رنگ، خوشبو اور محفوظ کرنے کی مدّت بڑھانے کے لیے ڈالے جانے والے کیمیکلز بھی قابلِ توجہ ہیں۔ ان کیمیکلز میں سے بہت سے ایسے ہیں جو انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً مونوسوڈیم گلوٹامیٹ، مصنوعی فوڈ کلر، سوڈیم نائٹریٹ (گوشت کو محفوظ کرنے والا کیمیکل) وغیرہ۔ تمباکونوشی ایسا عمل ہے جو بالواسط اور بلاواسطہ جسم کے مدافعتی نظام کو تباہ کرتی ہے اور جسم کو تحفظ دینے والے وٹامن کو ناکارہ بناتی ہے۔ مثلاً وٹامن سی تمباکو نوشی سے ضایع ہوجاتا ہے یوں مدافعتی نظام مزید کم زور ہو جاتا ہے۔
انفیکشن کی صورت میں غذا کا استعمال
اب آجائیں ان غذاؤں کی جانب جن کا استعمال انفیکشن ہونے کی صورت میں بڑھا دینا چاہیے شہد خوردبینی اجسام کے خلاف ایک قدرتی دوا ہے۔ لہسن بھی بہترین اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کا حامل ہے۔ ہلدی ہمارے بزرگوں کا آزمودہ اور جدید سائنس سے ثابت شدہ نسخہ ہے ان کے علاوہ لیموں، انناس، ادرک اور کھوپرے کا تیل بھی فائدہ مند غذائیں ہیں۔ انفیکشن کی صورت میں اگر معالج اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کرتے ہیں تو اس سے یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ بیماری پھیلانے والے جراثیم مر جاتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہمارے دوست جراثیم بھی مرجاتے ہیں دوست جراثیم ہمارے جسم اور خاص کر آنتوں کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ اس لیے جب اینٹی بائیوٹیک ادویات استعمال کریں تو اس کے بعد زیادہ ریشے والی غذائیں مثلاً بھوسی کے ساتھ آٹا، پھلیاں، پھل، سبزیاں اور دہی کا استعمال ضرور کریں کیوںکہ یہ تمام غذائیں ہمارے دوست جراثیم کو دوبارہ بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
غرض یہ کہ کسی بھی وبائی یا متعدی مرض سے بچنے کے لیے اپنا گھر محفوظ کرنا ہوگا۔ یعنی اپنے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط بنانا ضروری ہے مناسب اور متوازن غذا کا استعمال ، وقت پر کھانا کھانا، پراسیس غذاؤں سے اجتناب (یعنی وہ تمام کھانے جن میں محفوظ کرنے یا رنگ اور ذائقہ بڑھانے کے لیے کیمیائی اجزا ڈالے گئے ہوں) غذا کی خریداری اور تیاری میں صفائی کا خاص اہتمام، ہلکی پھلکی ورزش یا دن میں کم از کم تیس منٹ کی چہل قدمی، آٹھ سے دس گلاس پانی کا استعمال، چھے سے آٹھ گھنٹے کی پُرسکون نیند، تعمیری، فلاحی، مثبت کام اور حفظانِ صحت کے اصولوں کا خاص خیال ہمیں کسی بھی قسم کے وبائی اور متعدی مرض سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چوںکہ یہ اسباب کی دنیا ہے اس لیے ان تمام حفاظتی اقدامات کے بعد اللہ سے عافیت کی دعا ہمیں ایمان و یقین کی وہ روحانی طاقت عطا کرتی ہے جو ہمیں ہر قسم کے حالات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔