ذاکر اللہ اور یعقوب کی بے وقوفی

افغانستان کے اندر جنگ اور بین الاقوامی اجاہ داری قائم کرنے کی کشمکش کےنتیجے میں پولیو وائرس کے آبادی پرکامیاب حملے...

ذ اکر اللہ اور یعقوب کو کیا پتہ تھا کہ اُ ن کے سا تھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ تو بس اپنا کام کر رہے تھے اُس دیانت داری اور ایمان داری کے ساتھ جو آج کل قیادت کے نام پر شیخیاں بگھارنے والوں کے دلوں میں سے غائب ہوگئی ہے۔ اور ویسے بھی کام ظاہراً اتنا کوئی مشکل نہیں تھا۔ جانے پہچانے علاقے میں تین چار لوگوں کی ٹیم کو آٹھ دس چکر لگوانے تھے اور بس ۔گڑھی قمرودین کا ہر کونہ انھوں نے دیکھا ہوا تھا۔ مگر جس پہلو کو یہ دونوں نہ جانچ پائے وہ یہ کہ وہ دونوں پولیس کی وردی میں تھے اور اُن کے تحفظ میں دی جانے والی ٹیم پاکستانیوں کے بچوں کو یقینی معذوری سے بچا نے کے لیے پولیو کے قطرے پلار ہی تھی اُس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا ہے۔

موٹر سائیکل پر سوار ماہر قاتلوں نے حملہ کردیا۔ ذاکر اور یعقوب بری طرح زخمی ہوئے۔ لیڈی ریڈنگ میں ذاکر اللہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔ یعقوب موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے نجانے بچتا ہے یا نہیں۔ خیبرپختونخوا میں مار ے جانے والے پولیس والو ں کی تعداد سترہ ہوگئی ہے۔ میر ے نزدیک تو یہ سب شہید ہیں۔ مگر چونکہ مولانا فضل الرحمن اور محترم منور حسن نے اپنے علم کے ذریعے شہید کے معیار کو تبدیل کر دیا ہے۔ تو میں بھی مخمصہ میں پڑگیا ہوں کہ کہیں اِن پولیس والوں کا اِس جہاں کے بعد رتبہ ویسے ہی تو نہیں جیسا منور صاحب نے اُن فوجیوں کے بار ے میں طے کر دیا تھا جو اِس سرزمین پر آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی راہ میں اپنی جانیں دے رہے ہیں۔

ایک خبر کے مطابق اس وقت تقر یبا 2002کے قریب پولیس والے پولیو کی اُن ٹیموں کی حفاظت پر مامور ہیں جو دنیا کے بعض بدترین شورش زدہ علاقوں میں آرام سے کام کر پاتی ہیں۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے۔ اتنے اہلکار تو شاید وی آئی پیز ڈ یوٹیوں کے اوپر مامور کیے جاتے ہیں۔ پولیو کی ٹیموں کا تحفظ ایک مقامی مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے صرف دو تین ممالک ہی آڑ ے آرہے ہیں۔ پاکستان اُن میں سے ایک ہے۔ اگر شام جیسے ممالک میں اِس بیماری کو ختم کرنے کے لیے کوشش نامکمل ہوتو بات سمجھ میں آتی ہے۔کسی زمانے میں اچھا بھلا ملک اب اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ بارک اوباما کی طرف سے مشرق وسطیٰ میںجمہوریت کے نام پر ملکوں کی ساخت بدلنے کا بہترین نمونہ اب بے بسی کی ایک تصویر ہے۔ 1999میں شام میں پولیو کا مکمل خاتمہ کردیا گیا تھا۔ 2013 میں واشنگٹن کی مہربانی سے کم ازکم تیرہ بچوں کے پولیو سے مفلوج ہونے کی خبر سامنے آچکی ہے۔

افغانستان کے اندر جنگ اور بین الاقوامی اجاہ داری قائم کرنے کی کشمکش کے نتیجے میں پولیو وائرس کے آبادی پر کامیاب حملے بھی سمجھ میں آتے ہیں۔ جہاں پر حامد کرزئی صدر ہوگا اور چالیس ممالک اپنی خفیہ ایجنسیوں سمیت جوڑ توڑ میں مصروف ہوںگے وہاں ہر قسم کا وائرس کامیاب ہوسکتا ہے۔ مگر پاکستان؟ یہ تو وہ ملک ہے جہاں پر باکمال جمہوریت قائم ہو چکی ہے۔ سویلین اداروں اور سیاسی قیادت پر فوج کا بچا کھچا تسلط بھی ختم ہو گیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان مکمل طور پرسیاسی فتح سے ہمکنار ہوگئے ہیں۔


صوبوں کے اندر بھی خود مختار اور دلیر قیادت کا سورج چمک رہا ہے۔ ایک جگہ پر شہباز شریف جیسا ان تھک وزیراعلی دن رات کام کرکے دس کروڑ عوام کی دعائیں لیتا ہے۔ دوسری طرف جناب پرویز خٹک صاحب ہے جو عمر کے اس حصے میں بھی خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی امنگوں پر پورا اترنے کے لیے بنی گالہ اور پشاور کے درمیان ہر وقت بھاگ دوڑ کر تے رہتے ہیں۔عمران خان اور اُن کی ذہین و فطین ٹیم پرویز خٹک کو اضافی مدد پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ آزاد ہے۔ ذرایع ابلاغ میں اپنے علم و تحقیق سے روشنی پھیلانے والوں کی کمی نہیں۔ سول سوسائٹی کے ممبران اپنی این جی اوز کی مدد سے ہروقت انسانی حقوق کے تحفظ پر غیر مسلح مگر چاق و چوبند ہر اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں۔

دوسر ے الفاظ میں ملک عظیم درخشاں مستقبل کے ضامنوں کے ہاتھ میں ہے۔یہاں پر پولیو وائرس کی موجودگی کیسے ممکن ہے۔کیا یہ وائرس بھی ایک بیرونی سازش ہو سکتی ہے؟ ایک خورد بینی ڈرون۔کیا اس کے خلاف بھی دھرنا نہیں دینا چاہیے یا پھر اس وائرس کے کسی نمایندے کے ساتھ بات چیت کے لیے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے؟ ایک مشترکہ اعلامیہ بنایا جائے؟ ہوسکتا ہے اس طرح یہ ہم پر حملے کرنا بند کردے یا پھر اس کو بڑا مسئلہ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ کوئی اتنا نقصان دہ بھی نہیں ہے۔صرف غریبوں کے بچوں کو اپاہج کرتا ہے۔ چند ایک بے کار قسم کے خاندان جن کے پاس زندگی گزارنے کی تہذیب و طریقہ نہیں ہے اُن کو مسلسل اذیت میں ڈال دیتا ہے۔اس کی کوئی قومی اہمیت نہیں۔

اور جہاں تک رہی ہلاک / مارے جانے والے/ شاید شہید پولیس اہلکاروں کی تو اُن کو اصل میں اُ ن کی بے وقوفی کی سزا مل رہی ہے۔ اُن کو پولیو ٹیموں کی حفاظت پر مامور ہونے کے بجائے کچھ اور کرنا چاہیے تھا مثلا نیٹو سپلائی روکنے کے لیے دھرنے میں شرکت یا نیب چیئرمین کی طرح طویل رخصت لے کر ٹیلی ویژن پر وزیراعظم نواز شریف اور حامد کرزئی کی محبت بڑی باتوں سے لطف اندوز ہونا چاہیے تھا۔ اگر اور کچھ نہیں تو پراپرٹی کا کاروبار ہی کرلیتے۔بہر حال انھوں نے اپنے کیے کی سزا پائی ہے۔ پولیو ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
Load Next Story