سرگوشیاں
مجیب الحق حقی لکھتے ہیں کہ انسان زندگی اور کائناتی حقائق کا جو مشاہدہ کرتا ہے وہ دماغ کے واسطے سے کرتا ہے۔
کچھ ایسے سوال ہیں جو اکثر انسان کے ذہن میں اٹھتے ہیں جیسے یہ کہ میں کون ہوں ، کہاں سے آیا ہوں، میرا مقصد زندگی کیا ہے، یہ کائنات کیسے بنی، خدا کیا ہے؟
مجیب الحق حقی نے اپنی کتاب ''خدائی سرگوشیاں'' میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنے پیش لفظ میں کہتے ہیں کہ اس کتاب کا موضوع توحید ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے انھوں نے اپنے عقیدے کے مطابق ان سوالوں کے جواب سائنسی بنیادوں پر تلاش کیے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کائنات اور اس کے مظاہر کی تشریح اس طرح کی جائے کہ ہمارے نوجوان حقیقی سچائی تک پہنچ سکیں۔
مجیب حقی لکھتے ہیں '' قرآن دین فطرت کا نمایندہ ہے اور انسان کے ہر سوال کا جواب رکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کو کائنات میں غورکی دعوت دیتا ہے یعنی ریسرچ کرو اور دیکھوکہ کیسے کیسے علوم کے خزانے خالق نے کائنات کے گوشے گوشے میں چھپائے ہیں۔ قرآن کی دعوت فکر اس بات کی غماز ہے کہ خالق انسان کو منطقی اور عقلی بنیادوں پر ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ یہاں کوئی اندھا یقین نہیں ہے بلکہ علم پر مبنی اور عقلی طور پر مضبوط دلائل سے لیس ایمان ویقین ہے۔ غیب پر ایمان صرف بغیر دلیل کے ہی نہیں بلکہ علوم کی گواہی سے بھی ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہی خالق نے ایسی بنائی ہے کہ وہ عقل کی کسوٹی پر معاملات کو پرکھتا ہے۔ قرآن کی بار بار تفکرکی دعوت دراصل اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جدید دور کا انسان بالآخر حاصل کردہ جدید علوم کی ناقابل تردید گواہیوں سے ہی کائنات کے خالق کو تسلیم کرے گا۔ موجودہ دورکی زبردست ترقی اور پیچیدہ تر علوم کی دریافتیں ایک لامحدود خالق کی نشانیاں ہی تو ہیں۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے بارے میں اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ کے آخری رسولؐ کے ذریعے انسانوں کو اللہ کا آخری تحریری پیغام ہے یوں یہ بات بھی طے ہوئی کہ اس میں درج امور ہر آنے والے دور کے لیے بھی ہیں۔''
میں کون ہوں اورکہاں سے آیا ہوں؟ اس سوال کے بارے میں مجیب حقی لکھتے ہیں '' اسلام جو دین فطرت ہے اور اپنا ایک فلسفہ حیات رکھتا ہے اس کی بنیاد دماغی سوچ یا انسانی فلسفہ نہیں بلکہ مادے سے ماوریٰ وحی یا الوہی احکام ہیں۔ یہ انسان کو ایک مقام اولیٰ عطا کرتا ہے کہ انسان اپنے خالق کی برتر ترین تخلیق اور زمین پر اپنے خالق کا نائب ہے۔ خالق کی صفات ایک معین درجے میں انسان میں ودیعت کی گئی ہیں تاکہ یہ ایک بااختیار محدودیت میں قید ''خالق'' بنے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کائنات مٹی کا ایک پتلا بناکر اس میں ایک مخصوص روح ڈالتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ یہ زمین پر میرا نائب ہوگا۔ انسان کو فضیلت کی اس عظیم عطا پر باقی مخلوق کی حیرانی دور کرنے کے لیے خالق کائنات پہلے انسان کو کائنات کا سارا علم عطا کرتا ہے، پھر فرشتوں سے چیزوں کے نام پوچھتا ہے تو سب لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں جب کہ آدمؑ ودیعت کردہ علوم کے تئیں کائنات کی ہر چیز کا نام بتا دیتے ہیں۔ اسلام کے مطابق یہی تو ہے ہماری ابتدا۔ اسی ابتدا میں ہمارے سوال کا جواب بھی پنہاں ہوسکتا ہے کیونکہ یہی تو وہ لمحہ تھا جب کائنات کے تمام علوم دیے گئے۔ یہی ذخیرہ علم کل علوم کا ڈیٹا بینک ہے جسے ہم آدم کی کتاب علم کہیں گے۔ انسان اسی کتاب علم کو ورق ورق کھولتا آگے بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ودیعت کردہ ہر علم کو اپنی عقل سے جان کر اور عیاں کرکے اپنے آپ کو مسجود ملائک کے شرف کا حق دار ثابت بھی کردے گا۔ قرآن بار بار انسان کو تفکر کی دعوت اسی لیے دیتا ہے کہ جب انسان غورکرتا ہے تو معلومات کے اس ویئر ہاؤس تک جا پہنچتا ہے اور اس کتاب کے اوراق کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔''
مجیب حقی لکھتے ہیں ''یہ کائناتی نظام ایک مرکز سے چلایا جا رہا ہے۔ عرش کے ہمہ گیر سینٹرل کنٹرول کے نظام کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ یہ عرش انسان کے تصورکی گرفت سے باہر ہے جس میں بہت سی عیاں اور چھپی جہتیں ہیں۔ کائنات کے مخفی رخ کا کنٹرول وہیں سے ہے۔ انھی مخفی رخوں (Dimensions) کی تلاش، دریافت اور پہچان علم کے وہ دروازے کھولتی ہے جو انسان کو خالق کے قریب تر کرتے ہیں یعنی یہ جدید علوم ہی ہوں گے جو انسان کو مابعد طبیعات کے اس ماحول کی کچھ خبر دیں گے جہاں خالق کائنات کسی مظہر یا نظم کی تخلیق کا صرف ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
تصور اور خیال کی یہ قوت انسان کے اندر بھی ہے اور جدید سائنس میں ایک شعبہ ذہنی سائنس کا موجود ہے جو انسان کے ذہن کی قوت پر تحقیق کر رہا ہے۔ علوم کی اس پیہم پیش رفت سے جسے عرف عام میں سائنس کہا جاتا ہے، دراصل آگہی کے بند دروازے کھلتے رہتے ہیں اور وہ وقت بھی آئے گا جب انسان اس عظیم الشان ہستی سے رابطے کے کچھ پیرائے دریافت کرے گا اور تصدیق کرے گا کہ کائنات کے باہرکوئی لامحدود ہستی ہے جو کائنات کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے کیونکہ کائنات کے توازن کے حوالے سے قرآن کے مطابق اللہ نے کائنات تھامی ہوئی ہے تو یہ امکان موجود ہے کہ کشش ثقل کے بیرون کائنات سے کوئی مضبوط تعلق کی سائنسی دریافت خدا کو سائنسی طور پر جاننے کی طرف مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے۔
مجیب الحق حقی لکھتے ہیں کہ انسان زندگی اور کائناتی حقائق کا جو مشاہدہ کرتا ہے وہ دماغ کے واسطے سے کرتا ہے۔ اس واسطے سے کائنات ہمارے لیے ایک حقیقت ہے۔ یہی ہمیں بتاتا ہے کہ ''میں کون ہوں'' مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ سوچتا ہے، دریافت کرتا ہے۔ گتھیوں کو سلجھاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس میں جذبات جنم لیتے ہیں جن کا انسان کو علم نہیں کہ یہ کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کیسے ہمارے جسم اور چہرے کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں۔
مجیب الحق حقی نے اپنی کتاب ''خدائی سرگوشیاں'' میں ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنے پیش لفظ میں کہتے ہیں کہ اس کتاب کا موضوع توحید ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے انھوں نے اپنے عقیدے کے مطابق ان سوالوں کے جواب سائنسی بنیادوں پر تلاش کیے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کائنات اور اس کے مظاہر کی تشریح اس طرح کی جائے کہ ہمارے نوجوان حقیقی سچائی تک پہنچ سکیں۔
مجیب حقی لکھتے ہیں '' قرآن دین فطرت کا نمایندہ ہے اور انسان کے ہر سوال کا جواب رکھتا ہے۔ اسی لیے انسان کو کائنات میں غورکی دعوت دیتا ہے یعنی ریسرچ کرو اور دیکھوکہ کیسے کیسے علوم کے خزانے خالق نے کائنات کے گوشے گوشے میں چھپائے ہیں۔ قرآن کی دعوت فکر اس بات کی غماز ہے کہ خالق انسان کو منطقی اور عقلی بنیادوں پر ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ یہاں کوئی اندھا یقین نہیں ہے بلکہ علم پر مبنی اور عقلی طور پر مضبوط دلائل سے لیس ایمان ویقین ہے۔ غیب پر ایمان صرف بغیر دلیل کے ہی نہیں بلکہ علوم کی گواہی سے بھی ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہی خالق نے ایسی بنائی ہے کہ وہ عقل کی کسوٹی پر معاملات کو پرکھتا ہے۔ قرآن کی بار بار تفکرکی دعوت دراصل اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جدید دور کا انسان بالآخر حاصل کردہ جدید علوم کی ناقابل تردید گواہیوں سے ہی کائنات کے خالق کو تسلیم کرے گا۔ موجودہ دورکی زبردست ترقی اور پیچیدہ تر علوم کی دریافتیں ایک لامحدود خالق کی نشانیاں ہی تو ہیں۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کے بارے میں اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ اللہ کے آخری رسولؐ کے ذریعے انسانوں کو اللہ کا آخری تحریری پیغام ہے یوں یہ بات بھی طے ہوئی کہ اس میں درج امور ہر آنے والے دور کے لیے بھی ہیں۔''
میں کون ہوں اورکہاں سے آیا ہوں؟ اس سوال کے بارے میں مجیب حقی لکھتے ہیں '' اسلام جو دین فطرت ہے اور اپنا ایک فلسفہ حیات رکھتا ہے اس کی بنیاد دماغی سوچ یا انسانی فلسفہ نہیں بلکہ مادے سے ماوریٰ وحی یا الوہی احکام ہیں۔ یہ انسان کو ایک مقام اولیٰ عطا کرتا ہے کہ انسان اپنے خالق کی برتر ترین تخلیق اور زمین پر اپنے خالق کا نائب ہے۔ خالق کی صفات ایک معین درجے میں انسان میں ودیعت کی گئی ہیں تاکہ یہ ایک بااختیار محدودیت میں قید ''خالق'' بنے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کائنات مٹی کا ایک پتلا بناکر اس میں ایک مخصوص روح ڈالتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ یہ زمین پر میرا نائب ہوگا۔ انسان کو فضیلت کی اس عظیم عطا پر باقی مخلوق کی حیرانی دور کرنے کے لیے خالق کائنات پہلے انسان کو کائنات کا سارا علم عطا کرتا ہے، پھر فرشتوں سے چیزوں کے نام پوچھتا ہے تو سب لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں جب کہ آدمؑ ودیعت کردہ علوم کے تئیں کائنات کی ہر چیز کا نام بتا دیتے ہیں۔ اسلام کے مطابق یہی تو ہے ہماری ابتدا۔ اسی ابتدا میں ہمارے سوال کا جواب بھی پنہاں ہوسکتا ہے کیونکہ یہی تو وہ لمحہ تھا جب کائنات کے تمام علوم دیے گئے۔ یہی ذخیرہ علم کل علوم کا ڈیٹا بینک ہے جسے ہم آدم کی کتاب علم کہیں گے۔ انسان اسی کتاب علم کو ورق ورق کھولتا آگے بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ودیعت کردہ ہر علم کو اپنی عقل سے جان کر اور عیاں کرکے اپنے آپ کو مسجود ملائک کے شرف کا حق دار ثابت بھی کردے گا۔ قرآن بار بار انسان کو تفکر کی دعوت اسی لیے دیتا ہے کہ جب انسان غورکرتا ہے تو معلومات کے اس ویئر ہاؤس تک جا پہنچتا ہے اور اس کتاب کے اوراق کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔''
مجیب حقی لکھتے ہیں ''یہ کائناتی نظام ایک مرکز سے چلایا جا رہا ہے۔ عرش کے ہمہ گیر سینٹرل کنٹرول کے نظام کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ یہ عرش انسان کے تصورکی گرفت سے باہر ہے جس میں بہت سی عیاں اور چھپی جہتیں ہیں۔ کائنات کے مخفی رخ کا کنٹرول وہیں سے ہے۔ انھی مخفی رخوں (Dimensions) کی تلاش، دریافت اور پہچان علم کے وہ دروازے کھولتی ہے جو انسان کو خالق کے قریب تر کرتے ہیں یعنی یہ جدید علوم ہی ہوں گے جو انسان کو مابعد طبیعات کے اس ماحول کی کچھ خبر دیں گے جہاں خالق کائنات کسی مظہر یا نظم کی تخلیق کا صرف ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔
تصور اور خیال کی یہ قوت انسان کے اندر بھی ہے اور جدید سائنس میں ایک شعبہ ذہنی سائنس کا موجود ہے جو انسان کے ذہن کی قوت پر تحقیق کر رہا ہے۔ علوم کی اس پیہم پیش رفت سے جسے عرف عام میں سائنس کہا جاتا ہے، دراصل آگہی کے بند دروازے کھلتے رہتے ہیں اور وہ وقت بھی آئے گا جب انسان اس عظیم الشان ہستی سے رابطے کے کچھ پیرائے دریافت کرے گا اور تصدیق کرے گا کہ کائنات کے باہرکوئی لامحدود ہستی ہے جو کائنات کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے کیونکہ کائنات کے توازن کے حوالے سے قرآن کے مطابق اللہ نے کائنات تھامی ہوئی ہے تو یہ امکان موجود ہے کہ کشش ثقل کے بیرون کائنات سے کوئی مضبوط تعلق کی سائنسی دریافت خدا کو سائنسی طور پر جاننے کی طرف مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے۔
مجیب الحق حقی لکھتے ہیں کہ انسان زندگی اور کائناتی حقائق کا جو مشاہدہ کرتا ہے وہ دماغ کے واسطے سے کرتا ہے۔ اس واسطے سے کائنات ہمارے لیے ایک حقیقت ہے۔ یہی ہمیں بتاتا ہے کہ ''میں کون ہوں'' مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ سوچتا ہے، دریافت کرتا ہے۔ گتھیوں کو سلجھاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر اس میں جذبات جنم لیتے ہیں جن کا انسان کو علم نہیں کہ یہ کیوں پیدا ہوتے ہیں اور کیسے ہمارے جسم اور چہرے کے ذریعے ظاہر ہوتے ہیں۔