تیزی سے تبدیل ہوتا منظر نامہ

گیا ہفتہ خاصا ہنگامہ خیز رہا،کیونکہ بعض اہم اورچونکا دینے والے معاملات سامنے آئے۔ابتدائے ہفتہ امریکا سمیت...


Muqtida Mansoor December 01, 2013
[email protected]

گیا ہفتہ خاصا ہنگامہ خیز رہا،کیونکہ بعض اہم اورچونکا دینے والے معاملات سامنے آئے۔ابتدائے ہفتہ امریکا سمیت مغربی ممالک اور ایران کے درمیان 34 برس سے جمی برف پگھلی۔جوہری پروگرام کے حوالے سے جوہری طاقتوں اور ایران کا کسی مفاہمت پر پہنچنااس خطے کی تاریخ کا اہم موڑ ہے۔جب کہ گزشتہ بدھ کو وزیر اعظم پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ سے محض 48گھنٹے قبل نئے آرمی چیف اور چیرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی کے ناموں کااعلان کرکے اس حوالے سے کئی ہفتوں سے جاری سسپنس کو ختم کردیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے لیے نئے چیف جسٹس کی تقرری کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیاگیا،جنھیں 12دسمبر کو اپنی ذمے داریاں سنبھالنی ہیں۔ پاکستان میں اہم ریاستی اداروں کے سربراہوں کی تبدیلی ایک ایسے وقت ہوئی ہے، جب ایران اور مغربی ممالک کے درمیان ہونے والی مفاہمت کے نتیجے میں خطے کی مجموعی سیاسی وتزویراتی صورتحال تبدیل ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ پاکستان میں اہم عسکری عہدوں پرایک ایسے وقت میں تبدیلی آئی ہے،جب اس خطے میں نئے چیلنج سر اٹھارہے ہیں۔

لہٰذا عسکری قیادت میں ہونے والی تبدیلی پرگفتگو کرنے کے بجائے خطے میںظہور پذیر ہونے والی تزویراتی تبدیلیوں کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیاپاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس نئی صورتحال سے نبرد آزماء ہونے کے لیے ذہنی طورپر تیارہوئی ہے؟امریکا سمیت چھ جوہری ممالک کی ایران کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط،اس بات کے غماز ہیں کہ دونوں جانب سے عالمی سطح پر تیزی سے تبدیل ہوتے حقائق کو محسوس کرتے ہوئے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کیاگیا۔یہ طے ہے کہ رویوں میں تبدیلی ہمیشہ دوطرفہ ہواکرتی ہے۔اگر ایک طرف نئی ایرانی حکومت نے امریکاسمیت مغربی دنیا کے ساتھ تزویراتی تعلقات کی بحالی کی خواہش کو عملی شکل دینے کے لیے اپنے سابقہ رویے میں لچک پیدا کی۔وہیں دوسری طرف امریکا سمیت مغربی ممالک نے خطے کی تبدیل ہوتی سیاسی و تزویراتی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ایران کے بارے میں اپنی سخت گیری پالیسی کو تبدیل کیا۔یوں مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی اور حالیہ معاہدہ سامنے آیا۔گوکہ منظر عام پر آنے والا معاہدہ چھ ماہ کے لیے ہے، لیکن توقع یہی ہے کہ اس میںمزید توسیع ہوگی اور آنے والے مہینوں میں تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔کسی صورتحال کے پروان چڑھنے میں ریاستوں کے اپنے مفادات کے علاوہ حالات کا جبربھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

1979ء میں عالمی منظر نامہ خاصا مختلف تھا۔ ایران کو ان معاشی مسائل کا سامنا نہیں تھا، جن سے آج وہ دوچار ہے۔یہی سبب ہے کہ8سالہ ایران عراق جنگ بھی ایران کے اعصاب مضمحل نہ کرسکی۔لیکن 2010ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے لگنے والی پابندیوں نے معیشت کوجودھچکا لگایا،وہ اس کی کی بقاء کے لیے ایک چیلنج بن گیاہے۔ لہٰذاایران کی حکومت اور عوام 34برس پرانے تصورات میں لچک پیدا کرنے پر مجبور ہوئے۔ دوسری طرف امریکاجسے1980ء کے عشرے میںعالمی سطح پر اپنی سیاسی و تزویراتی برتری کا احساس تھا۔اس زمانے میںوہ سوویت یونین کی سیاسی، عسکری اور تزویراتی طاقت کو ہر محاذ پر چیلنج کررہاتھا۔اس لیے اس نے اس زمانے میںایران کے ساتھ تعلقات کی خرابی کواہمیت نہیں دی۔لیکن آج جب کہ دنیا کثیر القطبی ہوچکی ہے،امریکاکو کئی نئے چیلنجوں کا سامنا ہوچکاہے۔ایک طرف اسے معاشی مشکلات کا سامناہے،دوسری طرف عالمی سطح پر سیاسی مخالفتوں میں اضافہ ہورہاہے،جب کہ تیسری طرف اس کی قوتِ واحدہ والی حیثیت بھی گہناگئی ہے۔اس لیے اس کی ترجیحات میںاب واضح تبدیلیاںنمودار ہونا شروع ہوگئی ہیں،جس کے نتیجے میں وہ اپنی پالیسیاںتبدیل کرنے پرمجبور ہوا ہے۔

1979ء میں ایران کے انقلاب کے کچھ عرصے بعد ہی روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں،تو یک بیک پاکستان کی تزویراتی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔پاکستان نے افغانستان میںامریکی عزائم کو کامیاب بنانے میں انتہائی فعال اور متحرک کردار ادا کیا۔پاکستان کے اس کردار سے امریکا کوامید پیداہوئی کہ اسے ایران کی جگہ پاکستان کی شکل میں خطے میں ایک نیا بااعتماد حلیف مل گیا ہے۔یہی سبب تھا کہ 1980ء کے عشرے میں بعض عالمی تجزیہ نگار یہ دعوے کرنے لگے تھے کہ پاکستان اس خطے میں ایران کی جگہ لے رہاہے۔لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس جانب توجہ نہیں دی کہ سوویت یونین کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد اپنی تزویراتی اہمیت کوبرقراررکھنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔نتیجتاً جنیوامعاہدے کے بعد پاکستان نے بغیر سوچے سمجھے افغانستان میں برسرپیکار جنگجو جتھوں کوفوری طورپرکشمیر میں مصروف کردیا،جو امریکی ناراضگی کا سبب بنا۔ دوسری غلطی جنگجو عناصر کوقبائلی علاقے میں رہائشی سہولیات مہیاکرنا تھا، جس نے خود پاکستان کے لیے نئے مسائل پیدا کیے۔تیسری غلطی طالبان کی سرپرستی اور انھیں افغانستان کے اقتدار پر قابض کرانا تھا، جس کی وجہ سے افغانستان میں موجود دیگر قومیتوںکے دل میں پاکستان کے لیے نفرت پیدا ہوئی۔ان اقدامات کی وجہ امریکا پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان کی فوجی امدادبند کرنے پر مجبور ہوا۔

سوویت یونین کے انہادم کے بعد پاکستان کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ افغانستان کے راستے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی تعلقات استوار کرتا۔ان ممالک کو گندم، چاول اور مصحالہ جات کی ضرورت تھی، جو پاکستان باآسانی مہیا کرسکتاتھا۔اس کے بدلے ان ممالک سے قدرتی گیس اور تیل حاصل کیا جاتا۔ آزاد ہونے والی چھ میں سے تین مسلم ریاستوں میں تقریباً6.3ٹریلین ٹن تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں۔جن سے توانائی کے مسائل حل کیے جاسکتے تھے اور پاکستان کو ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک بنایاجاسکتاتھا۔ لیکن ہمارے منصوبہ ساز اس خام خیالی میں مبتلارہے کہ جب انھوں نے سوویت یونین جیسی سپر پاور کو جہادی جتھوں کے ذریعے شکست سے دوچار کردیا، تو پھر پوری دنیا میں اسلام پھیلاناکوئی مشکل کام نہیں اور ان کی ذمے داری بھی ہے۔ یہی وہ فکری ابہام (Illusion) تھا، جس نے آنے والے دورمیں پاکستان کے لیے نئے مسائل پیدا کیے۔ پاکستان کی بغل میں بیٹھ کر القاعدہ نے سازشیں کیں،جنھیں پاکستانی منصوبہ سازوں اپنے مخصوص مفادات کی خاطر نظر اندازکرتے رہے۔اگر غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو9/11کے بعدکی صورتحال میں بھی ہمارے حکمرانوں کاطرز عمل فکری نرگسیت پر مبنی تھا اور انھوں نے امریکا سمیت عالمی قوتوں کو ڈبل کراس کرنے کی کوشش کی۔جس کے نتیجے میں ہم اپنا اعتماد کھوبیٹھے۔لہٰذا یہ تصور کرنا کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجود گی ، قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے اور امریکا مخالف جذبات بھڑکانے والی سیاسی جماعتوں کی منصوبہ سازوں کی جانب سے پشت پناہی کے باوجود عالمی قوتیں ہم اس خطے میں اہم کردار دیں گی، محض دیوانے کا خواب ہے۔

اب بھی وقت ہے اور بہت سے بگڑے معاملات کو درست کیا جاسکتاہے۔ سیاس و عسکری قیادت اور اہم ریاستی منصوبہ ساز اس پہلو پرتوجہ مرکوز کریں کہ آنے والے چند مہینوں کے دوران ہمارے اطراف اہم تبدیلیاں رونماء ہونے جارہی ہیں۔آنے والے برس کے ابتدائی مہینوں کے دوران بھارت میں عام انتخابات متوقع ہیں۔کم وبیش انھی مہینوں میں افغانستان میں بھی انتخابات ہوں گے۔ بھارت میںبی جے پی تیزی کے ساتھ آگے آرہی ہے۔نریندرمودی کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد خطے کی سیاست میں خاصے بڑے پیمانے پر تبدیلی کاامکان ہے۔دوسری طرف حامد کرزئی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کابھی امکان نہیں ہے۔تیسری طرف یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایساف افواج کا بڑا حصہ جو نیٹوافواج پرمشتمل ہے، وہ آیندہ برس افغانستان سے نکل جائے گا۔لیکن 10سے15ہزار امریکی فوجی افغانستان میںموجود رہیں گے اور ساتھ ہی افغان نیشنل آرمی جس کی تربیت اور مسلح کرنے پر امریکا 8ارب ڈالر خرچ کررہاہے،ایساف افواج کی جگہ لے گی۔ اس طرح پاکستان کے لیے افغانستان میںماضی کی طرح اپنی پسند کی حکومت قائم کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں بعض نادان دوست نیٹو سپلائی کے راستے میں رکاوٹ ڈال کر پاک امریکا تعلقات میں مزید دراڑیں ڈال رہے ہیں۔انھیں اندازہ نہیں کہ ان کے اس عمل کے نتیجے میں آیندہ خطے کی سیاست میں پاکستان کا کردار مزید کمزور اور اس کی تزویراتی اہمیت کم ہوگی۔ افغانستان میں بھارتی اثرو نفوذ میں اضافے کے ساتھ ایران کا کردار بھی اہم ہوگا۔اس پہلوپر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ چند ماہ بعد جب امریکا اور ایران مکمل طورپر سفارتی رشتوں میں بندھ جائیں گے توامریکا کے پاس اپنا سازوسامان واپس لے جانے کے لیے ہرات سے چابہار کی بندرگاہ والامتبادل راستہ بھی ہوگا۔یہ راستہ چمن سے کراچی اور تورخم سے کراچی کے مقابلے میں کم دشوار گذار اور زیادہ محفوظ ہے۔ اس لیے پاکستان کو اب شدت پسند عناصر کی چاپلوسی کرنے کے بجائے انھیں کچلنے اور آنے والے دنوں میں اپنی تزویراتی اہمیت کو بڑھانے کے لیے معاشی ترجیحات کو اولیت دینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔