بحرانی حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو میدان عمل میں آنا چاہیے
جن سخت حالات کا اس وقت پوری قوم سامنا کررہی ہے ایسے حالات کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا اتھل پتھل ہوکر رہ گئی ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ پاکستان اور اس کے چاروں صوبے اس صورت حال سے محفوظ رہتے۔
پاکستان سے بیرون ملک گئے مسافروں کی واپسی سے یہ وائرس پاکستان وارد ہوا اور یہاں پر پھیلتے ہوئے لوگوں کو متاثر کررہا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے بروقت اقدامات کیے جس کے نتیجے میں یہ وائرس صوبہ میں بڑے پیمانے پر پھیلنے سے رک گیا ہے۔ گو کہ مردان سمیت بعض علاقوں میں وائرس تباہی پھیلا رہا ہے تاہم اس کی وجہ بیرون ممالک سے آئے وہ افراد ہیں جنہوں نے وطن واپسی پر اپنا طبی معائنہ کرانے کی بجائے گھروں کو لوٹنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے دیگر بہت سے لوگ بھی متاثر ہوئے ۔ چونکہ صوبہ کے مختلف اضلاع کی صورت حال صوبائی حکومت کے سامنے تھی اسی لیے محمودخان حکومت نے بروقت اقدامات کیے۔ پہلے مرحلے میں تعلیمی اداروں کو بند کیاگیا جن میں سکولوں کے علاوہ کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں جبکہ ساتھ ہی میٹرک کے سالانہ امتحانات بھی ملتوی کیے گئے۔
حکومتی اقدامات یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ ساتھ ہی اس صورت حال میں لازمی گردانے جانے والے سرکاری محکموں کے علاوہ دیگر تمام دفاتر کو بند کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو چھٹی دے دی گئی جس میں اب 5 اپریل تک توسیع کی جاچکی ہے اورساتھ ہی عوام کی بازاروں میں آمدورفت کو روکنے کے لیے کاروباری مراکز کو بند کردیاگیاجن کی بندش میںاب 10 اپریل تک توسیع کی جاچکی ہے تاکہ عوام باہر نہ نکلیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کے علاوہ دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو صوبہ بھر میں تعینات کیا جا چکا ہے جو عوام کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان خود تمام تر حفاظتی اقدامات اورریلیف سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں جنہوں نے کابینہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے متاثرین کی مدد اور غرباء کو ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے32 ارب روپے مالیت کے امدادی پیکج کی منظوری دی جس سے 19 لاکھ خاندانوں کو ماہانہ بنیادوں پر5 ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے جس کے لیے صوبائی حکومت اپنی جانب سے11 ارب60 کروڑ روپے کی فراہمی کرے گی۔ ٹیکسوں میں بھی عوام کو پانچ ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اوریہ بھی واضح کیاگیا ہے کہ اگرضرورت پڑی تو صوبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے کٹوتی کرتے ہوئے عوام کی مدد اور ریلیف کے لیے پیسہ فراہم کیاجائے گا۔
صوبائی حکومت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی موجودہ حالات میں فرنٹ پر رہتے ہوئے خدمات انجام دینے والے طبی عملے اور سیکورٹی اہلکاروں کے لیے بھی پیکج دینے کا عندیہ دیا ہے جس کے تحت اگر ان حالات کی وجہ سے طبی عملہ یا کوئی بھی سیکورٹی اہلکار متاثر ہوتا ہے یا اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے تو حکومت کی جانب سے اس کے اہل خانہ کی بھرپور انداز میں مدد کی جائے گی ۔
عوامی میل جول کی روک تھام کے ذریعے وائرس کو پھیلنے سے روکا ضرور جاسکتا ہے اسی بات کو مد نظررکھتے ہوئے شہروں کے اندر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ دیگر شہروں اوربین الاضلاعی روٹس پر چلنے والی ٹریفک کو بھی بند کیا گیا ہے۔ محمودخان حکومت نے جاری مالی سال کے لیے صوبہ کے 319 ارب روپے مالیت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے کٹوتی کرنے یا اسے کُلی طور پر معطل کرتے ہوئے فنڈز امدادی اور ریلیف سرگرمیوں کی طرف موڑنے پر بھی غور شروع کردیا ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں حتمی طور پر فیصلہ کیاجائے گا ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا صورت حال میں ایران سے آنے والے زائرین کی نقل وحمل کو روکنا ضروری تھا اسی لیے ڈی آئی خان اور دوران پور پشاورمیں قرنطینہ قائم کیے گئے جبکہ صوبہ بھر میں سکولوں میں مزید قرنطینہ کے قیام کے لیے بھی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید سکولوں میں بھی قرنطینہ کا قیام عمل میں لایاجائے گا۔ اس کے ساتھ صوبائی حکومت عوام کو اشیائے خور و نوش کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے جس کے لیے ضروری اقدامات جاری ہیں۔
انتظامی ٹیمیں اس سلسلے میں متحرک بھی ہیں جنھیں مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض مقامات پر ذخیرہ اندوز ان سے زیادہ متحرک ہوچکے ہیں جو نہ صرف اشیائے خور و نوش اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں بلکہ انہوںنے ازخود ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیاہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات در پیش ہیں۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں اپنے تمام تر وسائل اور ورکروں کے ساتھ میدان میں ہوتیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں شروع کردیتیں لیکن ان نازک حالات میں صرف جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت فاونڈیشن ہی میدان میں دکھائی دے رہی ہے جو طبی اور ریلیف سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس صورت حال میں یہ ساری ذمہ داری نہ تو حکومت ادا کرسکتی ہے اور ہی نہ ہی تن تنہا الخدمت فاونڈیشن بلکہ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے وسائل کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے، تاکہ ضرورت مند افراد کی امداد ان کے گھروں کے دروازے پر کرنی چاہیے تاکہ جمگٹھے بھی نہ لگیں اور ضرورت مندوں کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔
اس کے برعکس سیاسی جماعتیں اب تک حکومت اور حکومتی اقدامات پر تنقید تک ہی محدود ہیں،سیاسی جماعتوں کے قائدین نہ صرف گھروں میں بیٹھے صرف تنقیدی بیانات جاری کر رہے ہیں بلکہ عملی طور پر میدان میں نکلنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے جو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ان حالات میں چند ماہ قبل ہی اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کااستعمال کرتے ہوئے ہر علاقے اور محلے میں ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرے جبکہ ان حالات میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا متحرک ہونا لازمی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ اگر اپنے انتخابی اخراجات کا نصف بھی ان حالات میں ضرورت مندوں اور غرباء کی مدد اور انھیں ریلیف دینے کے لیے خرچ کریں تو اس سے صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے۔
چونکہ یہ صورت حال غیرمعمولی ہے اس لیے اس میں غیر معمولی اقدامات ہی ہونے چاہیں جس کے لیے اگر حکومت سالانہ ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی کرنے یا اسے معطل کرنے جیسے اقدامات کی طرف جارہی ہے تو اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں کو بھی قربانی دینا ہوگی کیونکہ جن سخت حالات کا اس وقت پوری قوم سامنا کررہی ہے ایسے حالات کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔
پاکستان سے بیرون ملک گئے مسافروں کی واپسی سے یہ وائرس پاکستان وارد ہوا اور یہاں پر پھیلتے ہوئے لوگوں کو متاثر کررہا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے بروقت اقدامات کیے جس کے نتیجے میں یہ وائرس صوبہ میں بڑے پیمانے پر پھیلنے سے رک گیا ہے۔ گو کہ مردان سمیت بعض علاقوں میں وائرس تباہی پھیلا رہا ہے تاہم اس کی وجہ بیرون ممالک سے آئے وہ افراد ہیں جنہوں نے وطن واپسی پر اپنا طبی معائنہ کرانے کی بجائے گھروں کو لوٹنے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے دیگر بہت سے لوگ بھی متاثر ہوئے ۔ چونکہ صوبہ کے مختلف اضلاع کی صورت حال صوبائی حکومت کے سامنے تھی اسی لیے محمودخان حکومت نے بروقت اقدامات کیے۔ پہلے مرحلے میں تعلیمی اداروں کو بند کیاگیا جن میں سکولوں کے علاوہ کالج اور یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں جبکہ ساتھ ہی میٹرک کے سالانہ امتحانات بھی ملتوی کیے گئے۔
حکومتی اقدامات یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ ساتھ ہی اس صورت حال میں لازمی گردانے جانے والے سرکاری محکموں کے علاوہ دیگر تمام دفاتر کو بند کرتے ہوئے سرکاری اہلکاروں کو چھٹی دے دی گئی جس میں اب 5 اپریل تک توسیع کی جاچکی ہے اورساتھ ہی عوام کی بازاروں میں آمدورفت کو روکنے کے لیے کاروباری مراکز کو بند کردیاگیاجن کی بندش میںاب 10 اپریل تک توسیع کی جاچکی ہے تاکہ عوام باہر نہ نکلیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کے علاوہ دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو صوبہ بھر میں تعینات کیا جا چکا ہے جو عوام کو گھروں تک محدود رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان خود تمام تر حفاظتی اقدامات اورریلیف سرگرمیوں کی نگرانی کررہے ہیں جنہوں نے کابینہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے متاثرین کی مدد اور غرباء کو ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے32 ارب روپے مالیت کے امدادی پیکج کی منظوری دی جس سے 19 لاکھ خاندانوں کو ماہانہ بنیادوں پر5 ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے جس کے لیے صوبائی حکومت اپنی جانب سے11 ارب60 کروڑ روپے کی فراہمی کرے گی۔ ٹیکسوں میں بھی عوام کو پانچ ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے اوریہ بھی واضح کیاگیا ہے کہ اگرضرورت پڑی تو صوبہ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے کٹوتی کرتے ہوئے عوام کی مدد اور ریلیف کے لیے پیسہ فراہم کیاجائے گا۔
صوبائی حکومت نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی موجودہ حالات میں فرنٹ پر رہتے ہوئے خدمات انجام دینے والے طبی عملے اور سیکورٹی اہلکاروں کے لیے بھی پیکج دینے کا عندیہ دیا ہے جس کے تحت اگر ان حالات کی وجہ سے طبی عملہ یا کوئی بھی سیکورٹی اہلکار متاثر ہوتا ہے یا اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے تو حکومت کی جانب سے اس کے اہل خانہ کی بھرپور انداز میں مدد کی جائے گی ۔
عوامی میل جول کی روک تھام کے ذریعے وائرس کو پھیلنے سے روکا ضرور جاسکتا ہے اسی بات کو مد نظررکھتے ہوئے شہروں کے اندر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ دیگر شہروں اوربین الاضلاعی روٹس پر چلنے والی ٹریفک کو بھی بند کیا گیا ہے۔ محمودخان حکومت نے جاری مالی سال کے لیے صوبہ کے 319 ارب روپے مالیت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے کٹوتی کرنے یا اسے کُلی طور پر معطل کرتے ہوئے فنڈز امدادی اور ریلیف سرگرمیوں کی طرف موڑنے پر بھی غور شروع کردیا ہے اور آنے والے دنوں میں حالات کو دیکھتے ہوئے اس بارے میں حتمی طور پر فیصلہ کیاجائے گا ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا صورت حال میں ایران سے آنے والے زائرین کی نقل وحمل کو روکنا ضروری تھا اسی لیے ڈی آئی خان اور دوران پور پشاورمیں قرنطینہ قائم کیے گئے جبکہ صوبہ بھر میں سکولوں میں مزید قرنطینہ کے قیام کے لیے بھی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں اور ضرورت پڑنے پر مزید سکولوں میں بھی قرنطینہ کا قیام عمل میں لایاجائے گا۔ اس کے ساتھ صوبائی حکومت عوام کو اشیائے خور و نوش کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بھی کوشاں ہے جس کے لیے ضروری اقدامات جاری ہیں۔
انتظامی ٹیمیں اس سلسلے میں متحرک بھی ہیں جنھیں مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ بعض مقامات پر ذخیرہ اندوز ان سے زیادہ متحرک ہوچکے ہیں جو نہ صرف اشیائے خور و نوش اور ادویات کی ذخیرہ اندوزی میں مصروف ہیں بلکہ انہوںنے ازخود ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیاہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات در پیش ہیں۔
ضرورت تو اس بات کی تھی کہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی جماعتیں اپنے تمام تر وسائل اور ورکروں کے ساتھ میدان میں ہوتیں اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اپنی سرگرمیاں شروع کردیتیں لیکن ان نازک حالات میں صرف جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت فاونڈیشن ہی میدان میں دکھائی دے رہی ہے جو طبی اور ریلیف سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس صورت حال میں یہ ساری ذمہ داری نہ تو حکومت ادا کرسکتی ہے اور ہی نہ ہی تن تنہا الخدمت فاونڈیشن بلکہ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے وسائل کے ساتھ میدان میں آنا چاہیے، تاکہ ضرورت مند افراد کی امداد ان کے گھروں کے دروازے پر کرنی چاہیے تاکہ جمگٹھے بھی نہ لگیں اور ضرورت مندوں کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔
اس کے برعکس سیاسی جماعتیں اب تک حکومت اور حکومتی اقدامات پر تنقید تک ہی محدود ہیں،سیاسی جماعتوں کے قائدین نہ صرف گھروں میں بیٹھے صرف تنقیدی بیانات جاری کر رہے ہیں بلکہ عملی طور پر میدان میں نکلنے کے لیے تیار نظر نہیں آرہے جو نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ان حالات میں چند ماہ قبل ہی اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کااستعمال کرتے ہوئے ہر علاقے اور محلے میں ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرے جبکہ ان حالات میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا متحرک ہونا لازمی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ اگر اپنے انتخابی اخراجات کا نصف بھی ان حالات میں ضرورت مندوں اور غرباء کی مدد اور انھیں ریلیف دینے کے لیے خرچ کریں تو اس سے صورت حال تبدیل ہوسکتی ہے۔
چونکہ یہ صورت حال غیرمعمولی ہے اس لیے اس میں غیر معمولی اقدامات ہی ہونے چاہیں جس کے لیے اگر حکومت سالانہ ترقیاتی پروگرام میں کٹوتی کرنے یا اسے معطل کرنے جیسے اقدامات کی طرف جارہی ہے تو اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں کو بھی قربانی دینا ہوگی کیونکہ جن سخت حالات کا اس وقت پوری قوم سامنا کررہی ہے ایسے حالات کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔