بلوچستان میں اغوا کی وارداتیں
غالباً یہ پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے منو بھیل کی قیادت میں سیکڑوں مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کی...
غالباً یہ پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے منو بھیل کی قیادت میں سیکڑوں مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں کی ایک ریلی پندرہ بیس دن کا سفر پیدل طے کرکے حیدر آباد پریس کلب پہنچی تھی یہ ریلی وڈیروں کے اس ظلم کے خلاف نکالی گئی تھی کہ ایک وڈیرے نے منو بھیل کے خاندان کو اغوا کرکے دس سال سے اپنی نجی جیل میں قید کر رکھا تھا اور منوبھیل انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی وغیرہ کے مسلسل احتجاج کے باوجود انھیں رہا نہیں کر رہا تھا، اس ریلی میں شرکت کے لیے ہم بھی کراچی سے حیدر آباد گئے تھے پچھلے ہفتے ہم برادرم مومن خان مومن کے ساتھ صدر کے ایک ہوٹل میں چائے پی رہے تھے کہ عوامی پارٹی کے سینئر رہنما محمد رمضان آگئے پھر ملک کی بدترین صورت حال پر غور کے دوران محمد رمضان نے بتایا کہ بلوچستان سے سیکڑوں بلوچ مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں پر مشتمل ایک ریلی کئی ہفتوں کا سفر پیدل طے کرکے کراچی پریس کلب آرہی ہے اس ریلی کا استقبال یوسف گوٹھ میں کیا جارہا ہے اگر آپ بھی اس استقبال میں شرکت کریں تو مناسب ہوگا۔
برادرم رمضان نے بتایا کہ یہ ریلی ان گمشدہ سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے نکالی جا رہی ہے جنھیں زمین کھا گئی یا آسمان کچھ نہیں کہہ سکتے۔ البتہ ان گمشدہ نوجوانوں کی لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پڑی ملتی ہیں۔ اس ریلی میں اپنے گمشدہ باپ کے بچے، بیویاں، بھائی، بہنیں شامل تھے جو کوئٹہ سے پیدل چل کر گمشدہ باپ، بھائیوں، شوہروں کی بازیابی کے لیے کراچی پریس کلب پر احتجاج کرنے آئے تھے۔ میں منو بھیل کے خاندان کی گمشدگی اور بلوچستان کے ہزاروں نوجوانوں کی گمشدگی میں کوئی ربط کوئی تعلق کوئی رشتہ تلاش کر رہا تھا۔ اور اس تلاش کا سلسلہ اس 66 سالہ Status Quo سے جا ملتا تھا جس کے تین بڑے پارٹنر تھے۔
بلوچستان میں اس قسم کایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی معاہدہ نومبر24 کو ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان وہ تاریخی معاہدہ طے پا گیا جس کے لیے پچھلے دس سال سے پس پردہ کوششیں ہو رہی تھیں۔ امسال جون میں حسن روحانی کے ایرانی صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی اور ایرانی اہلکاروں کے کئی رابطے اور متعدد ملاقاتیں ہوئیں جو بار آور ثابت ہوئیں۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران کئی اتار چڑھائو آئے جس میں ایسا لگتا تھا کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن شام کے بحران نے اس میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ شام کے بحران نے ایسی شکل اختیار کر لی تھی جس سے القاعدہ کا نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ ہو جاتا۔ بشار الاسد کی مخالف اپوزیشن فرقہ واریت کا رنگ اختیار کر گئی۔ روس کے صدر پیوٹن کو بہر حال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے امریکا پر ہر طرح کا دبائو استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کو ایک ہولناک جنگ سے بچا لیا۔ جنگ کی صورت میں امریکا اور ایران کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی۔ مسئلہ تو کیا حل ہونا تھا جنگ کی صورت میں یہ بحران ملٹی پلائی ہو جاتا اور فائدہ سارے کا سارا القاعدہ اور اس کی ذیلی دہشت گرد تنظیموں کو پہنچتا کہ ان کا مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان پر قبضہ ہو جاتا یہاں تک کہ بھارت بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا کہ وہاں پر ہندوانتہا پسند جمہوریت اور سیکولر ازم کا خاتمہ کرتے ہوئے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتے۔
یہ بلی کے بھاگوں چھنکا ٹوٹا والی صورت حال ہوئی۔ پھر یہ معاملہ یہاں پر ہی نہیں رکنا تھا۔ یہ عدم استحکام آخر کار چین سمیت پورے مشرق بعید کو متاثر کرتا۔کیونکہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ مذہبی انتہا پسندی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے اتنے بڑے علاقے کے متاثرہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ پوری دنیا اس بحران کی زد میں آ جاتی۔ وہ جنگ جو مشرق وسطیٰ تک محدود تھی آخر کار دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تیسری عالمی جنگ کا آغاز بنتی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات ایران امریکا کی بیک ڈور ڈپلومیسی اور اعلیٰ سطحی روابط کے نتیجے میں کامیاب ہوئے۔ ان حساس مذاکرات کی نوعیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا نے ان خفیہ مذاکرات کو اپنے قریبی ساتھیوں یہاں تک کہ اسرائیل سے بھی چھپا کر رکھا ۔ ماضی میں دنیا کو اکثر یوں محسوس ہوتا تھا کہ امریکا اپنے مفادات پر اسرائیلی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے لیکن جب خالص امریکی مفادات سامنے آ گئے توامریکا نے اسرائیل کو ہوا تک نہیں لگنے دی، امریکیوں کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم تھی ، وہ یہ ہے کہ ان کی بالادستی دنیا پر زیادہ سے زیادہ عرصے تک رہے تاکہ وہ دنیا کے قدرتی وسائل کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک استعمال کر سکیں۔ ماضی میں یہ دنیاکے بیشتر قدرتی وسائل پر کنٹرول ہی تھا جس کے ذریعے انھوں نے اپنے دشمن سوویت یونین کو شکست دی۔
اب تو دنیا کے قدرتی وسائل مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں آ گئے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط چین روس سمیت پوری دنیا پرہو گیاہے۔ اس طرح سرمائے کی آمریت پوری دنیا پر قائم ہو گئی ہے۔ یعنی فرد ہو یا قوم یا ملک جہاں سرمائے کا ارتکاز ہو گا بالادستی اسی کی ہو گی۔ ایران سے امریکا کا جوہری معاہدہ ایک ظاہری شکل ہے۔ مذاکرات صرف ایران کے جوہری کنٹرول پر نہیں ہو رہے بلکہ اس پر بھی ہو رہے ہیں کہ ایران کا کردار آنے والے وقت میں خطے کے حوالے سے کیا ہو گا۔ اوباما نے کہا کہ درشت گوئی اور اکڑ فوں سیاسی لحاظ سے تو آسان ہو سکتی ہے لیکن سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ درست نہیں۔ اس میں پاکستان اور بھارت کے لیے بھی سبق پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی انائوں کے اسیر ہوئے بغیر دونوں ملکوں کے عوام کو نئی زندگی دے سکیں۔ اب عالمی رائے عامہ اس معاہدے کے بارے میں کیا کہتی ہے اسے دیکھتے ہیں۔ روسی صدر نے ایرانی جوہری معاہدے کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طویل اور مشکل ترین سفر کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ معاہدہ تمام فریقین کے مفاد میں ہے۔ کسی کی ہار ہوئی ہے اور نہ کسی کی جیت ہوئی ہے۔ چین فرانس برطانیہ جرمنی جاپان نے بھی انھی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔
پوری عالمی برادری نے اس معاہدے کا زبردست خیر مقدم کیا ہے سوائے اسرائیل اور سعودی عرب کے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے ایران سے معاہدہ کر کے تاریخی غلطی کی ہے۔ اسرائیل اسے ماننے کا پابند نہیں ہے۔ جوہری معاہدہ برا ہے۔ ایران نے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جو وہ چاہتا تھا۔ یہ ایران کی سفارتی کامیابی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران نے اپنے یورینیم افزودگی کے حق کو تسلیم کرا لیا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ یہ معاہدہ اس لیے ممکن ہوا کہ ایرانی عوام نے انتخابات میں ''اعتدال پسندی'' کو چنا۔ اس تعمیری معاہدے نے نئے افق کھول دیے ہیں۔ بعد ازاں ایرانی صدر نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ میں قوم کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ یورینیم کی افزودگی ماضی کی طرح جاری رہے گی۔ معاہدے کی جیسے بھی تشریح کی جائے لیکن واضح طور پر یہ طے کیا گیا ہے کہ افزودگی پروگرام جاری رہے گا تاہم انھوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اس معاہدے پر اسرائیل کے بعد سعودی عرب نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کو اسرائیل کے سیکڑوں ایٹم بموں سے کوئی خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ ہے تو اس ایرانی ایٹم بم سے جو ابھی وجود میں ہی نہیں آیا۔ جس کے بارے میں ایرانی قیادت بار بار دنیا کے سامنے دہرا چکی ہے کہ اسلام میں ایسے ہتھیار کی ممانعت ہے جس کے ذریعے چشم زدن میں لاکھوں کروڑوں لوگ مارے اور نسل در نسل مفلوج ہو جائیں۔ نسل انسانی کا خاتمہ ہو۔ ایران مخالفت میں اسرائیل سعودی عرب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ امریکی ایران جوہری معاہدے سے دو گروہ شدید مایوسی اور صدمے کا شکار ہیں۔ اس معاہدے نے ان کی برسوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ پہلی ایران مخالف مذہبی قوتیں ' دوسرے ہمارے سادہ لوح انقلابی جو مدت سے میکلوڈ روڈ کے چوک سے انقلاب کے برآمد ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دونوں ہی اس وقت شدید ڈپریشن کا شکار ہیں۔ سوچ بعد المشرقین ...خواہش ایک جیسی...ہے نا حیرت کی بات۔ 2016ء سے 2020ء کے درمیان روس پھر سے سپر پاور بن جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997 ے مظالم نہ آج کی بات ہیں نہ صرف 66 سال کی بات، بلکہ ان مظالم کا سلسلہ صدیوں پر پھیلا ہوا ہے جس کی تفصیل اس مختصر کالم میں نہیں سما سکتی البتہ اس کے بعض اہم حصے اس کالم میں پیش کیے جارہے ہیں ظلم و جبر کی اس داستان کا تعلق انگریزوں کے دور سے ہے اس دور میں بلوچستان کا حال کیا تھا، اس کا اندازہ 1929 میں لکھے گئے یوسف عزیز بلوچ کے ایک مقالے کے اقتباس سے ہوسکتا ہے۔ یوسف عزیز بلوچ کا شمار ان فرزندان بلوچستان میں ہوتا ہے جنھوں نے بلوچستان کی انگریز حکومت سے آزادی اور منجمد بلوچ معاشرے میں ہلچل پیدا کرنے کی جرأت مندانہ کوشش کی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ یوسف عزیز بلوچ نے جو مقالہ بلوچستان کی صورت حال پر لکھا اس کا ایک اقتباس ''آج ساری دنیا شاہراہ ترقی پر گامزن ہے، مگر بلوچستان کچھ ایسا سویا ہوا ہے کہ اس کا جاگنا محشر تک طویل نظر آرہا ہے بلوچوں سے ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ خدا کے لیے دنیا کو ہنسنے کا موقع نہ دیجیے ، اٹھیے اور غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیے اور قوموں کے لیے مشعل راہ بن جائیے۔''
انگریزوں نے بلوچستان میں اپنے اقدار کو مستحکم بنانے کے لیے جس ایجنٹ کو منتخب کیا تھا اس کا نام شمس شاہ تھا۔ شمس شاہ ایک انتہائی مغرور اور سخت گیر حکمران تھا۔ میر یوسف علی کو ریاست کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں ایک سال کے لیے نظربند کیا گیا نظر بندی سے رہائی کے بعد میر یوسف نے عبدالعزیز کرد سے مل کر ''اتحاد بلوچ و بلوچستان'' کے نام سے ایک جماعت بنائی اس تنظیم نے اپنے پہلے اجلاس میں یہ مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں ایک منتخب پارلیمنٹ قائم کی جائے ملک میں تعلیم عام کی جائے، ایک آزاد اور خود مختار بلوچستان ان کے مطالبات میں اہم مطالبہ تھا۔ شمس شاہ کے عوام پر مظالم کا عالم یہ تھا کہ جس دن انگریز حاکم آتا تھا اس دن کسانوں کو بیگار میں پکڑ کر بیس پچیس میل تک انگریز حاکم کی پذیرائی میں گھنٹوں کھڑا کردیا جاتا۔ سرکاری عمارتوں کی تعمیر میں کسانوں سے بلا معاوضہ کام لیا جاتا، سڑکوں کی درستی اور مرمت کے لیے بھی کسانوں سے جبریہ محنت لی جاتی تھی ، عوام سے برگ ریزی محصول، جمعداری محصول سمیت کئی جبریہ ٹیکس وصول کیے جاتے تھے، رشوت عام تھی۔
بلوچستان میں دور استبداد کے خلاف ایک کتابچہ نکالا گیا جس پر شمس شاہ چراغ پا ہوگیا اور میر یوسف کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔ میر یوسف فرار ہوکر جیکب آباد پہنچ گیا۔ ملتان میں شہر بدری ایک سال کی نظربندی کے بعد جیکب آباد میں پناہ شمس شاہ کی سزاؤں کا تسلسل تھا۔ میر یوسف اور ان کے ساتھیوں نے شمس شاہ کے مظالم کے خلاف باضابطہ تحریک شروع کی اس تحریک کے دوران مگسی قبائل کے ہزاروں افراد قلات چھوڑ کر سندھ چلے گئے۔ بلوچوں کی یہ ایک طویل داستان ہے جو ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے۔
1947 کے بعد سے 2013 تک بلوچستان ہر حکومت کے زیر عتاب رہا۔ بھٹو صاحب سے پہلے ایوب خان کے دور میں بھی بلوچوں سے بعض معاملات پر زیادتی ہوئی ، پچھلے لگ بھگ 13-12 سال سے بلوچوں کے پراسرار اغوا کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور اب تک 200 افراد کی مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مل چکی ہیں جن میں کراچی کے مضافات سے ملنے والی 25 لاشیں بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی ان کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ جب پاکستان بنا تو بلوچستان کی ریاست قلات نے ہندوستان اور پاکستان دونوں میں سے کسی میں شامل ہونے سے انکار کردیا لیکن پاکستان کی حکومت نے ریاستی اسمبلی کی مرضی کے بغیر بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرلیا یوں بلوچستان میں پاکستان سے ناراضگی کا سلسلہ 66 سال طویل ہے لیکن اس دوران بلوچستان کے معروف سیاستدانوں نے اپنی سیاسی جماعتیں بناکر نہ صرف بلوچستان کی پارلیمانی سیاست میں بھرپور حصہ لیا اور بلوچستان میں برسر اقتدار بھی رہے بلکہ پاکستان کی مجموعی سیاست میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے جن میں بھٹو جیسے مقبول جمہوری رہنما بھی شامل ہیں بلوچستان کی قیادت کو مطمئن کرنے کے بجائے انھیں ریاستی طاقت سے دبانے کی کوشش شروع کی یہ سب ''مضبوط مرکز'' کے نام پر کیا گیا مشرقی پاکستان کی اکثریت کو دبانے کے لیے مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت نے ون یونٹ کا فلسفہ گھڑ کر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی فکر کو پروان چڑھایا آخر کار 1971میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔
1970 میں نیپ کے ایک وفد کے ساتھ ہمارا ڈھاکہ جانا ہوا تو ڈھاکہ میں مغربی پاکستان کے عام لوگوں کا بنگالیوں کے ساتھ تحقیر آمیز سلوک اور اس سلوک کے خلاف بنگالیوں کی آنکھوں میں شدید نفرت دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مشرقی پاکستان کا پاکستان کے ساتھ رہنا مشکل ہے۔ یوں مشرقی پاکستان ہماری سیاست سے بیزار ہوکر ہم سے علیحدہ ہوگیا مجھے یاد ہے شیخ مجیب الرحمن کو جب اگرتلہ سازش سے مکتی دلائی گئی تو وہ کراچی آئے تھے اور عابد زبیری کے مکان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''مجھ پر علیحدگی کا غلط الزام لگایا جارہا ہے اگر مشرقی پاکستان کبھی پاکستان سے الگ ہوا تو اس میں ہماری مرضی شامل نہیں ہوگی بلکہ اس کی ذمے داری مغربی پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر ہوگی۔'' اور ایسا ہی ہوا، عوامی لیگ کو اقتدار دینے پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ترجیح دی گئی۔
اب موجودہ بلوچستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس صوبے میں علیحدگی کی مسلح لڑائی ہو رہی ہے بی ایل او سمیت کئی مسلح تنظیمیں باضابطہ آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بلوچستان کی نوجوان سیاسی قیادت جن میں اختر مینگل، بگٹی اور غوث بزنجو کے بیٹے حاصل بزنجو وغیرہ شامل ہیں 2013 کے الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں اور بلوچستان کی ڈاکٹر مالک کی حکومت کا حصہ بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آزادی کی جنگ بھی جاری ہے اور اندازہ ہے کہ اغوا کا یہ سلسلہ آزادی کی لڑائی کو کمزور کرنے کا حصہ ہے۔ ہم قانون اور انصاف کی دن رات باتیں کرتے ہیں اگر ہم واقعی قانون اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں تو بغاوت کے الزام میں پکڑے جانے والوں کے خلاف کھلی عدالتوں میں مقدمہ چلاکر انھیں سزا دی جائے نہ کہ اغوا کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیںادھر ادھر پھینکی جائیں۔ بلوچستان میں آزادی کی جنگ کون لڑ رہے ہیں کیا اس جنگ کو لڑنے والوں کو اندازہ ہے کہ اگر وہ بلوچستان کو آزاد کرالیں تو بلوچستان کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگرد سمیت بیرونی طاقتیں بھی متحرک ہیں اور پاکستان کو توڑنا یا پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں بہرحال منطقی طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ غیر جانبدار دانشوروں کے ذریعے مذاکرات کرکے اس مسئلے کا کوئی پرامن حل نکالا جائے لیکن بلوچوں کے اغوا اور قتل کا سلسلہ ہر حال میں بند ہونا چاہیے۔