ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی معاہدہ

نومبر24 کو ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان وہ تاریخی معاہدہ طے پا گیا جس کے لیے پچھلے دس سال سے پس پردہ ...


Zamrad Naqvi December 01, 2013

نومبر24 کو ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان وہ تاریخی معاہدہ طے پا گیا جس کے لیے پچھلے دس سال سے پس پردہ کوششیں ہو رہی تھیں۔ امسال جون میں حسن روحانی کے ایرانی صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی اور ایرانی اہلکاروں کے کئی رابطے اور متعدد ملاقاتیں ہوئیں جو بار آور ثابت ہوئیں۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران کئی اتار چڑھائو آئے جس میں ایسا لگتا تھا کہ دونوں ملک جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن شام کے بحران نے اس میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ شام کے بحران نے ایسی شکل اختیار کر لی تھی جس سے القاعدہ کا نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ پر قبضہ ہو جاتا۔ بشار الاسد کی مخالف اپوزیشن فرقہ واریت کا رنگ اختیار کر گئی۔ روس کے صدر پیوٹن کو بہر حال یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے امریکا پر ہر طرح کا دبائو استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کو ایک ہولناک جنگ سے بچا لیا۔

جنگ کی صورت میں امریکا اور ایران کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی۔ مسئلہ تو کیا حل ہونا تھا جنگ کی صورت میں یہ بحران ملٹی پلائی ہو جاتا اور فائدہ سارے کا سارا القاعدہ اور اس کی ذیلی دہشت گرد تنظیموں کو پہنچتا کہ ان کا مشرق وسطیٰ سمیت پاکستان پر قبضہ ہو جاتا یہاں تک کہ بھارت بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا کہ وہاں پر ہندوانتہا پسند جمہوریت اور سیکولر ازم کا خاتمہ کرتے ہوئے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتے۔ یہ بلی کے بھاگوں چھنکا ٹوٹا والی صورت حال ہوئی۔ پھر یہ معاملہ یہاں پر ہی نہیں رکنا تھا۔ یہ عدم استحکام آخر کار چین سمیت پورے مشرق بعید کو متاثر کرتا۔کیونکہ لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ مذہبی انتہا پسندی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے اتنے بڑے علاقے کے متاثرہونے کا مطلب یہ ہوتا کہ پوری دنیا اس بحران کی زد میں آ جاتی۔ وہ جنگ جو مشرق وسطیٰ تک محدود تھی آخر کار دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر تیسری عالمی جنگ کا آغاز بنتی۔

کہا جاتا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونے والے مذاکرات ایران امریکا کی بیک ڈور ڈپلومیسی اور اعلیٰ سطحی روابط کے نتیجے میں کامیاب ہوئے۔ ان حساس مذاکرات کی نوعیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا نے ان خفیہ مذاکرات کو اپنے قریبی ساتھیوں یہاں تک کہ اسرائیل سے بھی چھپا کر رکھا ۔ ماضی میں دنیا کو اکثر یوں محسوس ہوتا تھا کہ امریکا اپنے مفادات پر اسرائیلی مفادات کو ترجیح دے رہا ہے لیکن جب خالص امریکی مفادات سامنے آ گئے توامریکا نے اسرائیل کو ہوا تک نہیں لگنے دی، امریکیوں کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم تھی ، وہ یہ ہے کہ ان کی بالادستی دنیا پر زیادہ سے زیادہ عرصے تک رہے تاکہ وہ دنیا کے قدرتی وسائل کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک استعمال کر سکیں۔ ماضی میں یہ دنیاکے بیشتر قدرتی وسائل پر کنٹرول ہی تھا جس کے ذریعے انھوں نے اپنے دشمن سوویت یونین کو شکست دی۔ اب تو دنیا کے قدرتی وسائل مکمل طور پر ان کے کنٹرول میں آ گئے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط چین روس سمیت پوری دنیا پرہو گیاہے۔ اس طرح سرمائے کی آمریت پوری دنیا پر قائم ہو گئی ہے۔ یعنی فرد ہو یا قوم یا ملک جہاں سرمائے کا ارتکاز ہو گا بالادستی اسی کی ہو گی۔ ایران سے امریکا کا جوہری معاہدہ ایک ظاہری شکل ہے۔ مذاکرات صرف ایران کے جوہری کنٹرول پر نہیں ہو رہے بلکہ اس پر بھی ہو رہے ہیں کہ ایران کا کردار آنے والے وقت میں خطے کے حوالے سے کیا ہو گا۔ اوباما نے کہا کہ درشت گوئی اور اکڑ فوں سیاسی لحاظ سے تو آسان ہو سکتی ہے لیکن سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے یہ درست نہیں۔ اس میں پاکستان اور بھارت کے لیے بھی سبق پوشیدہ ہے کہ وہ اپنی انائوں کے اسیر ہوئے بغیر دونوں ملکوں کے عوام کو نئی زندگی دے سکیں۔

اب عالمی رائے عامہ اس معاہدے کے بارے میں کیا کہتی ہے اسے دیکھتے ہیں۔ روسی صدر نے ایرانی جوہری معاہدے کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طویل اور مشکل ترین سفر کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ معاہدہ تمام فریقین کے مفاد میں ہے۔ کسی کی ہار ہوئی ہے اور نہ کسی کی جیت ہوئی ہے۔ چین فرانس برطانیہ جرمنی جاپان نے بھی انھی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ پوری عالمی برادری نے اس معاہدے کا زبردست خیر مقدم کیا ہے سوائے اسرائیل اور سعودی عرب کے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا نے ایران سے معاہدہ کر کے تاریخی غلطی کی ہے۔ اسرائیل اسے ماننے کا پابند نہیں ہے۔ جوہری معاہدہ برا ہے۔ ایران نے وہ کچھ حاصل کر لیا ہے جو وہ چاہتا تھا۔ یہ ایران کی سفارتی کامیابی ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران نے اپنے یورینیم افزودگی کے حق کو تسلیم کرا لیا۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا کہ یہ معاہدہ اس لیے ممکن ہوا کہ ایرانی عوام نے انتخابات میں ''اعتدال پسندی'' کو چنا۔ اس تعمیری معاہدے نے نئے افق کھول دیے ہیں۔ بعد ازاں ایرانی صدر نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ میں قوم کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ یورینیم کی افزودگی ماضی کی طرح جاری رہے گی۔ معاہدے کی جیسے بھی تشریح کی جائے لیکن واضح طور پر یہ طے کیا گیا ہے کہ افزودگی پروگرام جاری رہے گا تاہم انھوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

اس معاہدے پر اسرائیل کے بعد سعودی عرب نے سخت غم و غصے کا اظہار کیا۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ سعودی بادشاہت کو اسرائیل کے سیکڑوں ایٹم بموں سے کوئی خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ ہے تو اس ایرانی ایٹم بم سے جو ابھی وجود میں ہی نہیں آیا۔ جس کے بارے میں ایرانی قیادت بار بار دنیا کے سامنے دہرا چکی ہے کہ اسلام میں ایسے ہتھیار کی ممانعت ہے جس کے ذریعے چشم زدن میں لاکھوں کروڑوں لوگ مارے اور نسل در نسل مفلوج ہو جائیں۔ نسل انسانی کا خاتمہ ہو۔ ایران مخالفت میں اسرائیل سعودی عرب ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ امریکی ایران جوہری معاہدے سے دو گروہ شدید مایوسی اور صدمے کا شکار ہیں۔ اس معاہدے نے ان کی برسوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ پہلی ایران مخالف مذہبی قوتیں ' دوسرے ہمارے سادہ لوح انقلابی جو مدت سے میکلوڈ روڈ کے چوک سے انقلاب کے برآمد ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دونوں ہی اس وقت شدید ڈپریشن کا شکار ہیں۔ سوچ بعد المشرقین ...خواہش ایک جیسی...ہے نا حیرت کی بات۔

2016ء سے 2020ء کے درمیان روس پھر سے سپر پاور بن جائے گا۔

سیل فون: 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں