کرپشن اور حکومت کی خاموشی

عام انتخابات کے موقعے پر میاں نواز شریف،عمران خان اور میاں شہباز شریف نے ملک میں کرپشن کے خلاف بڑی...


Muhammad Saeed Arain December 01, 2013

عام انتخابات کے موقعے پر میاں نواز شریف،عمران خان اور میاں شہباز شریف نے ملک میں کرپشن کے خلاف بڑی دھواں دھار تقریریں کی تھیں اور جذبات میں آکر شہباز شریف وہ کچھ کہہ جاتے تھے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا اورکارکن تالیاں بجاتے رہ جاتے تھے۔

1977ء میں بھٹو حکومت میں سیاسی کرپشن کا آغاز ہوا مگر وزیر اعظم بھٹو پر کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگا البتہ ان کے دور سے سیاسی بھرتیوں کا آغاز ہوا۔ پارٹی کارکنوں کو بے تحاشہ نوازا گیا مگر جب 1977 میں جنرل ضیا الحق نے بھٹو حکومت برطرف کی اس کی وجہ سیاسی وجوہات تھیں بھٹو حکومت پرکرپشن کے سنگین الزامات نہیں تھے۔ جنرل ضیا نے ملک پر 11 سال حکومت کی مگر ان کی حکومت پر مجموعی طور پر یا جنرل ضیا اور ان کے خاندان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں جنرل ضیا کی کرپشن کا سراغ لگوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہیں اور کچھ ثابت نہ ہوسکا۔ بے نظیر بھٹو کی پہلی ڈیڑھ سالہ حکومت میں کرپشن اتنی پروان چڑھی کہ ان کے شوہر آصف علی زرداری بھی محفوظ نہیں رہے تھے اور صدر غلام اسحاق نے ان کی حکومت برطرف کی تو وجوہات میں ایک الزام سنگین کرپشن بھی تھا۔

1990ء میں نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھی بے نظیر بھٹو کی کرپشن کا سراغ لگوانے کی کوشش کی ناکام رہے اور انھیں کہنا پڑا کہ اب کرپشن اتنے جدید طریقے سے کی جاتی ہے کہ ثبوت نہیں ملتا۔ بے نظیر دور میں آصف علی زرداری پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا الزام لگا۔ ان پر اس سلسلے میں نواز دور میں مقدمات بھی قائم ہوئے مگر عدالتوں میں کچھ ثابت نہ کیا جاسکا اور نواز حکومت برطرف کرنے پر غلام اسحاق کو آصف زرداری کو نگراں وزیر بھی بنانا پڑا۔ نواز شریف حکومت سپریم کورٹ کے ذریعے بحال تو ہوئی مگر نہ چل سکی اور مستعفی ہونے کے بعد ان کی حکومت پر بھی کرپشن کے متعدد الزامات لگے مگر شریف خاندان نے اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت جب ان ہی کے صدر فاروق خان لغاری نے برطرف کی تو الزامات میں کرپشن کا الزام پھر نمایاں تھا اور سب سے زیادہ الزامات آصف زرداری پر لگے اور طویل عرصہ جیل میں بھی رہنا پڑا۔ میاں نواز شریف 1997 میں بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم بنے تو انھوں نے کرپشن روکنے کے لیے سیف الرحمن کی سربراہی میں احتساب کمیشن بنایا مگر احتساب کمیشن آصف زرداری پر کرپشن ثابت کرسکا نہ پی پی کے کسی بھی کرپٹ اہم رہنما کو گرفت میں لایا جاسکا۔

جنرل پرویز نے جب 1999 میں نواز شریف حکومت برطرف کی تو نواز شریف کے خلاف جنرل کے طیارے کے اغوا کا الزام لگایا گیا جب کہ کرپشن کے الزامات ثانوی نوعیت کے تھے۔ محترمہ اور نواز شریف کی دونوں دو دو حکومتوں میں کرپشن کے زیادہ اور سنگین الزامات بے نظیر حکومت پر لگے جس کے بعد جنرل پرویز بھی ان پر مہربان رہے اور نواز شریف کو سعودی عرب بھجوانے اور محترمہ کی ازخود جلاوطنی کو اپنی کامیابی سمجھنے کے بعد انھوں نے ملک میں (ق) لیگ کی حکومت قائم کروائی اور جنرل مشرف اپنے 7 نکات بھول گئے اور (ق) لیگ کی حکومت میں بھی کرپشن کی کہانیاں عام ہوئیں مگر سیاسی مفاد کے لیے جنرل پرویز بھی کرپشن برداشت کر گئے۔

محترمہ کی شہادت کے نتیجے میں پی پی کی چوتھی حکومت قائم ہوئی اور جس آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات تھے وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے اور ان کی حکومت میں ماضی میں ہونے والی کرپشن کا کوئی کیس نہیں چلا جس کے نتیجے میں پی پی کی سابق حکومت میں بھی ریکارڈ کرپشن ہوئی اور وزیر اعظم گیلانی اور ان کے خاندان پر سنگین الزامات لگائے گئے جس کے بعد صدر زرداری نے راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنایا جس کے بعد اب راجہ پرویز کرپشن کے الزام میں ملزم بنائے جاچکے ہیں۔

جنرل ضیا کے دور میں 1988 میں غیر جماعتی الیکشن میں محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے تھے جن پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور اپنے دور میں انھوں نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر کو کرپشن کے الزام میں برطرف بھی کیا تھا۔

ملک میں جتنی سیاسی اور فوجی حکومتیں آئیں ان میں فوج کی حکومتوں کے برعکس سیاسی حکومتوں پر کرپشن کے زیادہ الزامات لگے اور سیاسی حکومتوں میں 1985 سے 2013 تک کرپشن کے زیادہ الزامات پیپلز پارٹی کی تین حکومتوں پر لگے مگر محفوظ مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی نہ (ن) کی اور ان تمام سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں فوجی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات برائے نام ہی تھے۔ مئی 2013 میں جو نئی حکومتیں آئیں ان میں کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی جس کا سب سے بڑا نعرہ انصاف اور کرپشن کی مخالفت تھا جس کا ثبوت عمران خان نے اپنی حلیف جماعت قومی وطن پارٹی کے دو وزیروں کو کرپشن کے الزام میں برطرف کرکے دے دیا ہے جس کے جواب میں خود عمران خان اور جہانگیر ترین کی کرپشن کے دعوے سکندر شیرپاؤ کی طرف سے کیے گئے ہیں جن کے حقیقی ثبوت دیے جانے تک کوئی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ایک اخباری خبر کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں چالیس پاکستانی سیاستدانوں کے دو سو ارب ڈالر کے کالے دھن کے موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ان لوگوں میں سیاستدان ہی نہیں تاجر بھی شامل ہیں، پاکستانی سیاست دانوں اور تاجروں کو سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں اپنا کالا دھن جمع کرانے کا موقعہ ملا اور سابق حکومت میں آصف علی زرداری کے مبینہ 60 لاکھ ڈالروں کا خط نہ لکھے جانے کی وجہ سے معاملہ ختم ہوگیا اور 5 ماہ قبل قائم ہونے والی (ن) لیگ کی حکومت نے بھی ماضی میں ہونے والی کرپشن بے نقاب کرنے کے اپنے دعوؤں پر عمل نہیں کیا اور اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ (ن) لیگ کی نئی حکومت میں بھی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کی نشاندہی کی ہے مگر خاموشی چھائی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ سیاسی حکومتوں نے ایک دوسرے کی کرپشن چھپانے کا کوئی خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے تاکہ ایک کے بعد دوسرے کو کرپشن کا موقعہ ملتا رہے۔کرپشن کے حوالے سے عدلیہ کا مسلسل انتباہ ایک الارم بیل ہے۔یہ ناسور ختم نہ ہوا تو ملکی معیشت کبھی بھی مستحکم نہیں ہوسکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں