گرگٹ رنگ بدلتا ہے

آٹا مہنگا بکے‘ کیے جاؤ تقریر<br /> <br /> خون بہتا رہے‘ کیے جاؤ تقریر<br /> <br /> کوئی سنے یا نہ سنے‘ بس کیے جاؤ تقریر


Zuber Rehman December 01, 2013
[email protected]

آٹا مہنگا بکے' کیے جاؤ تقریر

خون بہتا رہے' کیے جاؤ تقریر

کوئی سنے یا نہ سنے' بس کیے جاؤ تقریر

(جالب)

ریاست کی تشکیل کے بعد عوام کن مسائل کے شکار ہوئے؟ یہ مسائل یوں شروع ہوئے کہ بلوانوں نے ذرایع پیداوار پر قبضہ جمانا شروع کردیا اور لوگ زمین کی عوامی ملکیت سے محروم ہوتے گئے اور آج بھی ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا کی بیشتر زمین، آبی وسائل اور مارکیٹس پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ پاکستان کی لاکھوں ایکڑ زمین سرمایہ دار خرید چکے ہیں۔ فیکٹریاں لگانے کے نام پر لاکھوں ایکڑ زمین سرمایہ داروں کے قبضے میں آچکی ہے۔ تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج کروڑوں کی تعداد میں پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے سرمایہ داروں کے پاس دنیا کی ہر نعمتیں موجود ہیں۔ مگر ان کی اس جانب نظر نہیں پڑتی کہ یہاں آلو 100 روپے، پیاز 50 روپے، چاول 140 روپے، تیل 200 روپے، سبزیاں 100 روپے کلو فروخت ہو رہی ہیں۔ ان ہوش ربا مہنگائی کے خلاف حزب اقتدار ہو حزب اختلاف کوئی کچھ بولتا ہے، احتجاج کرتا ہے اور نہ ریلی یا ہڑتال کرتا ہے۔ مزدور ہر شعبے سے برطرف کیے جارہے ہیں اور جنھیں رکھا جارہا ہے وہ منظور نظر، نااہل، نالائق ہونے کے باوجود اہم عہدوں پر فائز ہیں اور لاکھوں روپے کی تنخواہوں پہ رکھا جارہا ہے۔کون سا ایسا شخص حکومتی سیاسی اور مذہبی اکابرین، عہدیداروں اور رہنماؤں کے لواحقین میں سے نہیں ہے جسے دولت بٹورنے کی مشینوں پہ نہ متعین کیا گیا ہو؟ دنیا بھر کے ارب پتیوں اور کھرب پتیوں نے اپنے ملکوں کی دولت لوٹ کر سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کے تین غریب ترین ممالک صومالیہ، ایتھوپیا اور روانڈا کے امیروں نے بھی 197 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں جمع کروا رکھے ہیں اور سوئس ڈاکو جوکہ صومالی بحری ڈاکوؤں سے لاکھوں گنا بڑے مہذب اور تعلیم یافتہ ڈاکو ہیں انھیں کھلے عام قانونی طور پر ڈاکوؤں کے ساہوکار بننے کا اجازت نامہ ملا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک جانب عوام بھوک، افلاس، بے روزگاری اور بے گھری میں مبتلا ہیں جب کہ دوسری جانب آئی این بی کی اطلاع کے مطابق مہذب ساہوکار سوئٹزر لینڈ کی حکومت پاکستان سمیت دنیا بھر کے آمروں کی اپنے ممالک سے لوٹ مار کرکے سوئس بینکوں میں جمع کھربوں ڈالر کی دولت اپنے شہریوں میں تقسیم کرے گی۔ منظور کیے گئے قانون کے تحت حکومت اپنے 46 لاکھ بالغ شہریوں کو ماہانہ 2800 ڈالر اور 18 سال سے کم عمر کے شہریوں کو 694 ڈالر ماہانہ وظیفہ دے گی۔ مملکت کی طرف سے یہ وظیفہ تمام شہریوں کو بلا امتیاز دیا جائے گا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، برسر روزگار یا بے روزگار۔ قانون کے تحت حکومت ہر ماہ اپنے شہریوں کو 14 ارب ڈالر وظیفہ تقسیم کرے گی۔ جب کہ اسی سوئٹزرلینڈ میں ملک کی کل 50 فیصد دولت کے مالک 1 فیصد لوگ ہیں اور باقی 50 فیصد دولت کے مالک 99 فیصد لوگ ہیں۔ اور اس دنیا میں بھوک سے ہر سال 18 لاکھ افراد مر رہے ہیں۔ اب بھلا آپ خود فیصلہ کریں کہ جن کی پہلے سے اچھی تنخواہیں ہیں، انھیں وظیفہ دینا چاہیے یا ہر ماہ بھوک سے مرنے والے 18 لاکھ انسانوں کو بچانا چاہیے؟ پاکستان کے سیکریٹری امور خارجہ سرتاج عزیز سے امریکی نمایندے نے امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملے نہ کرنے کا وعدہ کیا اور دوسرے دن حملہ کردیا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے امریکا سے اندرون خانہ معاہدہ کر رکھا ہے کہ ڈرون حملے کرتے رہو ہم یوں ہی مخالفت کرتے رہیں گے۔

ڈرون حملے کے خلاف حکومت کے چار ارکان جب آپس میں تبادلہ خیال کر رہے تھے تو دو سخت رویہ اختیار کرتے ہیں جب کہ دو نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ''امریکا سے خوشگوار تعلقات ہیں اسے خراب نہ کیا جائے''دوسری جانب پاکستان کی جانب سے واشنگٹن میں امریکا کے وزارت دفاع سے مذاکرات کے دوران اپنی دفاعی ضروریات کی فہرست بھی پیش کی جاتی ہے اور اسے فراہم کرنے کی التجا کی جاتی ہے۔ عمران خان ڈرون حملے کی مخالفت تو کرتے ہیں لیکن شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مرکز پر فوجی آپریشن کرنے کا مطالبہ نہیں کرتے۔ مسلم لیگ، پی پی پی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اور جے یو آئی غرض یہ کہ سب ہی پاکستان میں امریکی مداخلت کے خلاف بولتے ہیں لیکن امریکی بھیک، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرنے کی بات نہیں کرتے۔ گزشتہ دنوں خبر آئی کہ اہم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہٹ لسٹ تیار ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پنڈی، کوہاٹ، ہنگو، ملتان، چشتیاں، کوئٹہ اور کراچی میں فرقہ وارانہ تشدد اور قتل و غارت گری کے خلاف احتجاج اور ریلیاں نکلتی رہیں۔

لیکن وہ عوام کے مسائل یعنی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انھیں عوام کے مسائل، دکھوں، ذلتوں، اذیتوں، بھوک، بیماریوں اور جہالت سے کوئی تعلق نہیں، ان کا تعلق نسل پرستی، قوم پرستی اور نسلی برادری سے ہے۔ اسی لیے تو اگر ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں تو ہڑتال کرکے اپنی ریٹنگ میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس بات پر کبھی ہڑتال کرتے ہیں اور نہ کریں گے کہ اسلحے کی پیداوار بند کرو، آئی ایم ایف کا قرضہ لینا بند کرو اور گندم اور چاول کی پیداوار میں اضافہ کرو، ان کی برآمدات کو روکو، سوئس بینکوں اور دیگر ممالک سے پیسے لاکر کارخانے لگاؤ اور غیر پیداواری اشیا کی درآمد پر پابندی لگاؤ۔ ان فرقہ واریت کے فساد میں عوام کو اتنا الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات پر احتجاج نہ کریں۔ مگر جب لوگ بھوک سے بلک اٹھیں گے تو عوام کا سمندر سڑکوں پہ امنڈ آئے گا اور یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ ہم کون ہیں؟ کس قومیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ صرف اپنی بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے۔ جب تک کہ خطے میں ایک غیر طبقاتی، امداد باہمی کا سماج قائم نہیں ہوتا حالات نہیں بدل سکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں