حکمرانوں کا اثر
ایوب خان پاک فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ ان کے سامنے بڑی مشکل سے 56 کا آئین بنا تھا۔ ان نو ...
ایوب خان پاک فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔ ان کے سامنے بڑی مشکل سے 56 کا آئین بنا تھا۔ ان نو برسوں میں ملک کو '' سر زمین بے آئین'' کہا جاتا تھا۔ انتخابات ہونے والے تھے۔ لگتا تھا کہ ملک پٹڑی پر چڑھ جائے گا۔ صدر اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر جنرل ایوب نے مارشل لا لگا دیا۔ آئین ٹوٹ گیا، اسمبلیاں گھر کو چلی گئیں اور کابینہ بھی نہ رہی۔ یہ حکمرانوں کا فیصلہ تھا۔ عوام نے اسے نہ صرف قبول کیا بلکہ خوش آمدید کہا اور مٹھائیاں بانٹیں۔ عوام حکمرانوں سے اثرات قبول کرتے ہیں، یہ ہمارا آج کا موضوع ہے۔ اثرات نہ صرف آئین توڑنے میں، دستور کو معطل کرنے میں بلکہ انتخابی دھاندلیوں میں بھی عوام حکمرانوں کے اثرات کو قبول کرتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات اور 30 نومبر کو ازسر نو ووٹنگ ظاہر کرتی ہے کہ حکمرانوں کے اثرات کتنی دور تک جاتے ہیں۔ نہ صرف عام لوگوں تک بلکہ ملک کے پڑھے لکھے لوگ بھی ان اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔ اگر حکمران فیصلہ کریں کہ ''عوام نے ووٹ دیا تو ایوان میں ورنہ خاندان میں چلے جائیں گے''۔ اسی فارمولے پر عمل نہ کرنے والوں نے زندان کے منہ بھی دیکھے ہیں۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ عوام کس طرح حکمرانوں کے اثرات قبول کرتے ہیں۔
پہلے مارشل لا کا عوام نے خیر مقدم کیا، حکمرانوں نے چار سال بعد 62 کا آئین دیا۔ وہ آئین جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت زیادہ صدارتی تھا۔ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر شہر میں ہر جگہ سے نظر آتا ہے۔ صدر ایوب کے بارے میں کہا گیا کہ آئین کے ہر صفحے پر صرف اور صرف وہی نظر آتے ہیں۔ جب حکمرانوں نے ایک آئین توڑ کر دوسرا بنایا تو عوام یہ کام کیوں نہ کریں؟ سماجی تنظیموں اور خدمات کے اداروں نے بھی اپنے دستور کو ختم کرکے نئے بنانا شروع کردیے۔ طاقتور شخصیات سامنے آنے لگیں اور آمرانہ رجحانات پروان چڑھنے لگے۔ جس طرح ایوب کے سامنے کسی کو دم مارنے کی جرأت نہ تھی اسی طرح تنظیموں پر ایسے سرمایہ داروں نے قبضہ کیا کہ کسی کو ان کی دولت و حشمت کے سامنے بولنے کی جرأت نہ تھی۔ خوشامدی حضرات آگے آنے لگے اور باصلاحیت لوگ پیچھے دھکیلے جانے لگے۔ ایسے میں ایوب گئے اور یحییٰ تشریف لائے۔
یحییٰ خان کی پلاننگ اتنی زبردست تھی کہ وہ پندرہ بیس سال تک ملک میں حکمرانی کا خواب دیکھنے لگے۔ وہ ایوب کی غلطیوں سے بچ کر چلنا چاہتے تھے۔ پارلیمانی نظام، ایک فرد ایک ووٹ اور ون یونٹ کے خاتمے سے انھوں نے عوام اور سیاستدانوں کے دل جیت لیے تھے۔ ان تین مطالبوں کو لے کر ایوب کے خلاف تحریک چلی جس پر مہنگائی نے تیل چھڑک کر آمر اول کے اقتدار کو ختم کردیا۔ 70 کے انتخابات میں یحییٰ کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ دونوں خطوں میں دو بڑی پارٹیاں ابھر کر سامنے آگئیں۔ اگر عوام سات آٹھ پارٹیوں کو ووٹ دیتے تو شاید ملک ٹوٹنے سے بچ جاتا۔ جنرل یحییٰ سوچ رہے تھے کہ جب غلام محمد اور اسکندر مرزا سیاستدانوں کے درمیان میوزیکل چیئر کا گیم سجا سکتے تھے تو وہ کیوں نہ؟ وردی ان کی اضافی خوبی ہوتی اگر عوام کا مینڈیٹ تقسیم ہوتا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا نے بنگال میں آگ لگادی۔ مشرقی پاکستان کے حالات بگڑ گئے۔ بھارت نے ہماری نااتفاقی سے فائدہ اٹھایا اور ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ حکمرانوں کی اس نادانی کا اثر شرپسندوں نے لیا۔ وہ مغربی پاکستان کو تقسیم کے ارادے لے کر اٹھے لیکن بھٹو کی مضبوط شخصیت اور 73 کے آئین نے یہ نہ ہونے دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے پاکستان کو جوڑنے کی کوشش کی۔ دستور سازی اور ایٹم بم کی بنیاد ان کے دو ایسے کارنامے ہیں جنھیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ بھٹو سے ایک غلطی ہوگئی جس سے دو قسم کے لوگ آج تک فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک کو نقصان پہنچانے والے دو قسم کے عناصر۔ تقسیم کا خواب دیکھنے والے اور دھاندلی کرنے والے۔ 77 کے انتخابات میں دھاندلی نے پیپلز پارٹی سے حق حکمرانی اور قائد کی زندگی چھیننے کے دو نقصانات کے علاوہ یہ دو نقصان بھی پہنچائے۔ ہم آج تک علاقائی تنظیموں اور دھاندلی کرنے والی پارٹیوں کی گرفت سے نہیں نکل سکے ہیں۔ ضیا الحق کے اقتدار نے پاکستان کو توڑنے کا خواب دیکھنے والوں کے لیے دو فوجی جنرلوں کی حکمرانی کی یاد تازہ کردی۔ علاقہ پرست محسوس کرنے لگے کہ جس طرح ایوب کے طویل اقتدار اور یحییٰ کی نادانیوں نے بنگالیوں کو علیحدگی کا موقع فراہم کیا اسی طرح ضیا کا اقتدار ان کا کام بنا دے گا۔ کنفیڈریشن کے نعرے اور 1940 کی قرارداد پاکستان کی باتیں اسی طرف بڑھنے کا پیش خیمہ تھیں۔
70 کے عشرے کے تین صدمے قوم اب تک جھیل رہی ہے۔ حکمرانوں کے غلط فیصلوں کے اثرات نصف صدی کے لگ بھگ کا وقت گزارنے کے باوجود ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ سقوط ڈھاکا نے علاقائی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ سوچنے لگے کہ ملک جب ایک مرتبہ ٹوٹ سکتا ہے تو دوبارہ کیوں نہیں۔ ہندوستان کے علاوہ جرمنی و کوریا بھی تقسیم ہوئے تھے۔ جرمنی یکجا ہوگیا اور بھارت کو اس کی جمہوریت نے اب تک متحد رکھا ہوا ہے۔ دوسرا صدمہ 77 کے انتخابات میں دھاندلی تھی۔ ہم آج تک یحییٰ کے انتخابات کی شفافیت کو یاد کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا ہر انتخاب سابقہ سے بدتر رہا ہے۔ جھرلو، دھاندلی، انجینئرڈ اور ٹھپا کی اصطلاحیں بتاتی ہیں کہ قوم شفاف انتخابات کو ترستی بھی ہے اور دھاندلی کی طرف لپکتی بھی ہے۔ تیسرا صدمہ جو ہمیں ستر کے عشرے میں جھیلنا پڑا وہ افغانوں کی پاکستان میں بے دھڑک آمد کا ہے۔ ہمارا ملک حکمرانوں کے ایک عشرے کے تین غلط فیصلوں کا اسیر ہوچکا ہے۔ اب ملک میں ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس '' والا قانون لاگو ہے۔
انتخابی دھاندلی ہمارا آج کا موضوع ہے۔ الیکشن لڑنے والے ہر قیمت پر جیتنا چاہتے ہیں۔ جہاں تک ان کا بس چلتا ہے وہ ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ لسانیت، صوبائیت، علاقائیت، فرقہ واریت، برادری ازم اور پیسہ۔ حیرت ہے کہ ان سب کے بعد دھاندلی کی جاتی ہے۔ اس کی ابتدا ستر کے عشرے میں ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام جسے ووٹ دیتے ہیں، پسند کرتے ہیں، کندھے پر بٹھاتے ہیں وہ عوام کی رائے کے احترام کے بجائے ان پر اپنی رائے تھوپنا چاہتے ہیں۔ بیلٹ کے سبب جن کو عزت، شہرت و حکومت کے علاوہ دولت بھی ملتی ہے وہ اس کے تقدس کو پامال کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے اسی غلط کام کے اثر کو اب بدقسمتی سے دیگر اداروں نے بھی قبول کرلیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ بار کے 23 نومبر کو ہونے والے انتخابات کو منسوخ کرکے ایک ہفتے بعد ری پولنگ کا حکم دیا گیا ہے۔ وکلا ہر معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہوتا ہے۔ وہ ڈبل گریجویٹ ہوتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ بار میں نسبتاً جونیئر وکلا جب کہ ہائی کورٹ بارز میں سینئر وکلا کی اکثریت ہوتی ہے۔ وہ عمر، تجربے اور قانونی فہم میں اپنے ساتھیوں سے آگے ہوتے ہیں۔ انھیں حکمرانوں کے اثرات کو قبول کرنے کے بجائے اپنی بہتر روایات کو قابل تقلید بنانا چاہیے تھا۔ یہ ابتدا ہے اور برائی کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ اب ملک کے عوام، سیاستدانوں اور اداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کے انتخابی نظام کو کس طرح چلانا ہے؟ پڑھے لکھے لوگ سیاستدانوں پر اپنے اثرات چھوڑیں گے یا قبول کریں گے حکمرانوں کا اثر؟