ہمارے ملک کا پولیو
افسوس یہ نہیں ہے کہ ہم ان پانچ ملکوں میں سے ایک ہیں جہاں ابھی تک پولیو موجود ہے۔ افسوس یہ ہے کہ کچھ سالوں میں...
افسوس یہ نہیں ہے کہ ہم ان پانچ ملکوں میں سے ایک ہیں جہاں ابھی تک پولیو موجود ہے۔ افسوس یہ ہے کہ کچھ سالوں میں ہم وہ واحد ملک ہوں گے جہاں کے معصوم بچے پولیو کا شکار ہوں گے جس کے بعد دنیا بھر میں دوبارہ پولیو پھیلنے کا سہرا ہمارے سر ہوگا۔
پولیو جس سے انسان کے جسم کا کوئی ایک حصہ ہمیشہ کے لیے مفلوج (Paralyse) ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی کوئی علامات نہیں ہوتیں یعنی جس کو یہ انفیکشن ہوجائے اس کا صرف گلا خراب، ہلکا سا سر میں درد، متلی یا پھر پیٹ میں درد کے ساتھ بخار ہوسکتا ہے جس سے آس پاس کے لوگوں کو لگتا ہے کہ یا تو موسم کا اثر ہے یا پھر کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہوگا لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پولیو تھا۔ یہ بیماری عموماً پانچ سال سے کم عمر بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے وہ حملہ جو 95 فیصد پتہ ہی نہیں چلتا اور اس میں خطرے کی بات یہ ہے کہ مریض کے آس پاس کے لوگوں خصوصاً بچوں کو آسانی سے یہ لگ سکتا ہے اگر وہ اس فضا میں سانس لے رہے ہوں یا ان ہی برتنوں میں کھائیں جنھیں مریض استعمال کر رہا ہے۔
یقینا آپ نے پچھلے کچھ مہینوں یا سالوں سے یہ سنا ہوگا کہ شمالی پاکستان کے لوگ پولیو کے ویکسین کے خلاف ہیں، کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پولیو ویکسین کے خلاف مہم اس لیے جاری ہے کہ اسامہ بن لادن کے پکڑے جانے کے آپریشن میں ایک پاکستانی ڈاکٹر کا نام آیا ہے، طالبان اس بات سے چوکنا ہوگئے ہیں اور باہر سے تعلق رکھنے والے کسی بھی میڈیکل عملے کو اپنے علاقے میں نہیں آنے دیتے، بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ پولیو ویکسینیشن کے خلاف کام پاکستان بھر میں خصوصاً ان علاقوں میں جہاں طالبان زیادہ ہیں آج سے نہیں پچھلے دس سال سے چل رہا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم دتی احمد وہ واحد انسان ہیں جن کی وجہ سے آج بھی مسلمان ملکوں میں پولیو موجود ہے، 2003 میں ان نائیجیرین ڈاکٹر نے یہ تھیوری پیش کی تھی کہ مغربی ممالک جہاں پولیو کے یہ ویکسین تیار ہوتے ہیں وہ دراصل ان میں ایسے اجزا ڈال دیتے ہیں کہ یہ ٹیکے استعمال کرنیوالوں کے آگے چل کر بچے نہیں ہوپاتے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ پولیو ویکسین ایجاد کرنیوالی خاتون ڈاکٹر یہودی تھیں جو یقینا مسلمانوں کو دشمن سمجھتی ہوں گی اور یہ پوری ویکسین کی ہم مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم کی تھیوری بہت تیزی سے مسلمان ملکوں میں عام ہوگئی جب کہ ویکسین میں ایسا کچھ نہیں تھا پھر ان علاقوں جہاں پر تعلیم کی کمی تھی ان باتوں پر یقین کرنے لگے، پچھلے دس سالوں میں ہمیشہ ہی پاکستان کے شمالی علاقوں میں پولیو کا مسئلہ چلتا رہا ہے۔
1988 میں جہاں ساری دنیا میں ساڑھے تین لاکھ پولیو کے کیس ہوئے تھے وہیں 2012 میں صرف 223 یعنی پولیو دنیا سے تقریباً ختم ہوگیا ہے جہاں نائیجیریا ، افغانستان اور پاکستان کے ساتھ پولیو سے متاثرہ ممالک میں انڈیا کا نام بھی آتا ہے وہیں 2012 میں وہاں پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا جب کہ پاکستان میں یہ نمبر دو سو سے کہیں زیادہ ہوگا کیوں کہ ہمارے یہاں بے چارے بچوں کو نہ ہی ویکسینیشن مل پاتی ہے اور پولیو ہوجانے پر کسی اور قسم کی توجہ بھی نہیں ملتی۔
یہ بات کئی بار کہی جاچکی ہے کہ جب تک دنیا کے ہر بچے کو پولیو ویکسینیشن نہیں دے دی جاتی دنیا سے پولیو اس وقت تک ختم نہیں ہوگا لیکن اب شاید ایسا ہونا ممکن نہیں کیوں کہ پاکستان میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پولیو ویکسینیشن کے خلاف کام ہو رہا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں رہنے والے عموماً لوگ پولیو ویکسینیشن دینے والے ورکرز کو جاسوس مانتے ہیں اور ان کے خیال میں اس ویکسینیشن میں زہر ملا ہوتا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں میں ان ورکرز پر کتے چھوڑے گئے ہیں، ان پر پتھراؤ ہوا ہے، کچھ علاقوں میں پہلے ان ورکرز کو اغوا کرلیا گیا اور پھر ان کی لاشیں ملیں اور یہ سلسلہ رک نہیں رہا، کچھ دن پہلے خیبر کے علاقے ''برا'' کے ایک پرائیویٹ اسکول سے گیارہ ٹیچرز کو اغوا کرلیا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس علاقے کے بچوں کو پولیو ڈراپس دے کر واپس لوٹے تھے۔
دسمبر 2012 سے اب تک بیس ورکرز ہلاک کیے جاچکے ہیں، طالبان کے مطابق یہ ویکسینیشن اس وقت تک نہیں دینے دیں گے جب تک ڈرون حملے بند نہیں کیے جاتے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس سے بدلہ لے رہے ہیں جن کو یہ دشمن سمجھتے ہیں ان سے یہ کہنا کہ ہم اپنے خود کے ہاتھ کاٹ لیں گے اگر ہماری بات نہیں مانی یعنی کہ ڈرون بند کرو جس سے معصوموں کی جانیں جاتی ہیں ورنہ ہم خود معصوموں کو پولیو کا شکار بنا دیں گے پولیو ویکسینیشن مغربی دوا ہے اس لیے استعمال نہیں کریں اور باقی سب؟
ہاتھ میں امریکا کی بنی بندوق لے کر، جرمن گاڑی چلا کر، سوئس گھڑی لگا کر کہتے ہیں کہ مغربی چیزوں کے خلاف ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جو کمپیوٹر استعمال کرکے وہ اپنے پیغامات دنیا بھر تک پہنچا رہے ہیں اس کا سافٹ ویئر بنانے والے بل گیٹس ہی وہ آدمی ہیں جو دنیا میں پولیو ختم کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ جب امریکا میں بنی مشین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں تو پھر وہاں تیار کی ہوئی ویکسین سے اپنے بچوں کی زندگی خراب ہونے سے کیوں نہیں بچا سکتے۔
ہم نے پچھلے سال مارے جانے والے کئی ورکرز کی زندگیوں پر نظر ڈالی۔ غریب گھر کی دو لڑکیاں جن کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور گھر میں کھانے کو نہیں تھا مجبوری میں ویکسینیشن ورکرز بن گئی تھیں۔ ان دونوں کو مار دیا گیا۔ وہ ورکر جن کے دونوں والدین اسپتال میں تھے اب وہ زندگی بھر اپنے بیٹے کا انتظار ہی کرتے رہیں گے، وہ پانچ وقت کا نمازی جو حج پر جانے کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا اسے آج اس لیے مار دیا گیا کیوں کہ وہ اپنے علاقے کے بچوں کا کل بہتر کرنے کے لیے گلی گلی گھوم رہا تھا۔
نفرت مٹانے کا طریقہ نفرت پھیلانا نہیں ہے، دنیا بھر میں ''یرغمال'' بنانا کچھ نیا نہیں ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ کوئی اپنے خود کے بچوں کو یرغمال بناکر دشمن سے اپنی مانگیں پوری کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مغرب کو لگتا ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں انسان نہیں بستے، اپنے خود کے بچوں اور پولیو ورکرز کے ساتھ ظلم کرکے ان کی سوچ کو صحیح ثابت نہ کریں۔
پولیو جس سے انسان کے جسم کا کوئی ایک حصہ ہمیشہ کے لیے مفلوج (Paralyse) ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی کوئی علامات نہیں ہوتیں یعنی جس کو یہ انفیکشن ہوجائے اس کا صرف گلا خراب، ہلکا سا سر میں درد، متلی یا پھر پیٹ میں درد کے ساتھ بخار ہوسکتا ہے جس سے آس پاس کے لوگوں کو لگتا ہے کہ یا تو موسم کا اثر ہے یا پھر کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہوگا لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ تو پولیو تھا۔ یہ بیماری عموماً پانچ سال سے کم عمر بچوں پر حملہ آور ہوتی ہے وہ حملہ جو 95 فیصد پتہ ہی نہیں چلتا اور اس میں خطرے کی بات یہ ہے کہ مریض کے آس پاس کے لوگوں خصوصاً بچوں کو آسانی سے یہ لگ سکتا ہے اگر وہ اس فضا میں سانس لے رہے ہوں یا ان ہی برتنوں میں کھائیں جنھیں مریض استعمال کر رہا ہے۔
یقینا آپ نے پچھلے کچھ مہینوں یا سالوں سے یہ سنا ہوگا کہ شمالی پاکستان کے لوگ پولیو کے ویکسین کے خلاف ہیں، کئی لوگوں کا خیال ہے کہ پولیو ویکسین کے خلاف مہم اس لیے جاری ہے کہ اسامہ بن لادن کے پکڑے جانے کے آپریشن میں ایک پاکستانی ڈاکٹر کا نام آیا ہے، طالبان اس بات سے چوکنا ہوگئے ہیں اور باہر سے تعلق رکھنے والے کسی بھی میڈیکل عملے کو اپنے علاقے میں نہیں آنے دیتے، بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ پولیو ویکسینیشن کے خلاف کام پاکستان بھر میں خصوصاً ان علاقوں میں جہاں طالبان زیادہ ہیں آج سے نہیں پچھلے دس سال سے چل رہا ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم دتی احمد وہ واحد انسان ہیں جن کی وجہ سے آج بھی مسلمان ملکوں میں پولیو موجود ہے، 2003 میں ان نائیجیرین ڈاکٹر نے یہ تھیوری پیش کی تھی کہ مغربی ممالک جہاں پولیو کے یہ ویکسین تیار ہوتے ہیں وہ دراصل ان میں ایسے اجزا ڈال دیتے ہیں کہ یہ ٹیکے استعمال کرنیوالوں کے آگے چل کر بچے نہیں ہوپاتے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ پولیو ویکسین ایجاد کرنیوالی خاتون ڈاکٹر یہودی تھیں جو یقینا مسلمانوں کو دشمن سمجھتی ہوں گی اور یہ پوری ویکسین کی ہم مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم کی تھیوری بہت تیزی سے مسلمان ملکوں میں عام ہوگئی جب کہ ویکسین میں ایسا کچھ نہیں تھا پھر ان علاقوں جہاں پر تعلیم کی کمی تھی ان باتوں پر یقین کرنے لگے، پچھلے دس سالوں میں ہمیشہ ہی پاکستان کے شمالی علاقوں میں پولیو کا مسئلہ چلتا رہا ہے۔
1988 میں جہاں ساری دنیا میں ساڑھے تین لاکھ پولیو کے کیس ہوئے تھے وہیں 2012 میں صرف 223 یعنی پولیو دنیا سے تقریباً ختم ہوگیا ہے جہاں نائیجیریا ، افغانستان اور پاکستان کے ساتھ پولیو سے متاثرہ ممالک میں انڈیا کا نام بھی آتا ہے وہیں 2012 میں وہاں پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا جب کہ پاکستان میں یہ نمبر دو سو سے کہیں زیادہ ہوگا کیوں کہ ہمارے یہاں بے چارے بچوں کو نہ ہی ویکسینیشن مل پاتی ہے اور پولیو ہوجانے پر کسی اور قسم کی توجہ بھی نہیں ملتی۔
یہ بات کئی بار کہی جاچکی ہے کہ جب تک دنیا کے ہر بچے کو پولیو ویکسینیشن نہیں دے دی جاتی دنیا سے پولیو اس وقت تک ختم نہیں ہوگا لیکن اب شاید ایسا ہونا ممکن نہیں کیوں کہ پاکستان میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے پولیو ویکسینیشن کے خلاف کام ہو رہا ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں رہنے والے عموماً لوگ پولیو ویکسینیشن دینے والے ورکرز کو جاسوس مانتے ہیں اور ان کے خیال میں اس ویکسینیشن میں زہر ملا ہوتا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں میں ان ورکرز پر کتے چھوڑے گئے ہیں، ان پر پتھراؤ ہوا ہے، کچھ علاقوں میں پہلے ان ورکرز کو اغوا کرلیا گیا اور پھر ان کی لاشیں ملیں اور یہ سلسلہ رک نہیں رہا، کچھ دن پہلے خیبر کے علاقے ''برا'' کے ایک پرائیویٹ اسکول سے گیارہ ٹیچرز کو اغوا کرلیا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس علاقے کے بچوں کو پولیو ڈراپس دے کر واپس لوٹے تھے۔
دسمبر 2012 سے اب تک بیس ورکرز ہلاک کیے جاچکے ہیں، طالبان کے مطابق یہ ویکسینیشن اس وقت تک نہیں دینے دیں گے جب تک ڈرون حملے بند نہیں کیے جاتے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس سے بدلہ لے رہے ہیں جن کو یہ دشمن سمجھتے ہیں ان سے یہ کہنا کہ ہم اپنے خود کے ہاتھ کاٹ لیں گے اگر ہماری بات نہیں مانی یعنی کہ ڈرون بند کرو جس سے معصوموں کی جانیں جاتی ہیں ورنہ ہم خود معصوموں کو پولیو کا شکار بنا دیں گے پولیو ویکسینیشن مغربی دوا ہے اس لیے استعمال نہیں کریں اور باقی سب؟
ہاتھ میں امریکا کی بنی بندوق لے کر، جرمن گاڑی چلا کر، سوئس گھڑی لگا کر کہتے ہیں کہ مغربی چیزوں کے خلاف ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ جو کمپیوٹر استعمال کرکے وہ اپنے پیغامات دنیا بھر تک پہنچا رہے ہیں اس کا سافٹ ویئر بنانے والے بل گیٹس ہی وہ آدمی ہیں جو دنیا میں پولیو ختم کرنے کے لیے سب سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔ جب امریکا میں بنی مشین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں تو پھر وہاں تیار کی ہوئی ویکسین سے اپنے بچوں کی زندگی خراب ہونے سے کیوں نہیں بچا سکتے۔
ہم نے پچھلے سال مارے جانے والے کئی ورکرز کی زندگیوں پر نظر ڈالی۔ غریب گھر کی دو لڑکیاں جن کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور گھر میں کھانے کو نہیں تھا مجبوری میں ویکسینیشن ورکرز بن گئی تھیں۔ ان دونوں کو مار دیا گیا۔ وہ ورکر جن کے دونوں والدین اسپتال میں تھے اب وہ زندگی بھر اپنے بیٹے کا انتظار ہی کرتے رہیں گے، وہ پانچ وقت کا نمازی جو حج پر جانے کے لیے پیسے جمع کر رہا تھا اسے آج اس لیے مار دیا گیا کیوں کہ وہ اپنے علاقے کے بچوں کا کل بہتر کرنے کے لیے گلی گلی گھوم رہا تھا۔
نفرت مٹانے کا طریقہ نفرت پھیلانا نہیں ہے، دنیا بھر میں ''یرغمال'' بنانا کچھ نیا نہیں ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ کوئی اپنے خود کے بچوں کو یرغمال بناکر دشمن سے اپنی مانگیں پوری کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مغرب کو لگتا ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں انسان نہیں بستے، اپنے خود کے بچوں اور پولیو ورکرز کے ساتھ ظلم کرکے ان کی سوچ کو صحیح ثابت نہ کریں۔