طلاق یافتہ سماج کی ٹھوکر پر کیوں

’’باجی ! کیا میرا کوئی گھر نہیں ہے‘‘ رضیہ روتے ہوئے سوال کر رہی تھی اور میں حیرانی سے اس کا اداس چہرہ ...

KARACHI:
''باجی ! کیا میرا کوئی گھر نہیں ہے'' رضیہ روتے ہوئے سوال کر رہی تھی اور میں حیرانی سے اس کا اداس چہرہ دیکھ رہی تھی، کچھ دن ہوئے میں نے ان خواتین کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جس میں وہ خواتین جو کسی بھی مجبوری کی بنا پر اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرچکی تھیں وہ دوبارہ سے ایک سالہ کورس کرکے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ دے سکتی تھیں۔ رضیہ میری ان شاگردوں میں سے ایک تھی جو ہمیشہ ہنسنے مسکرانے اور تعلیم میں دلچسپی لیتی نظر آتی تھی لیکن آج اس کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر کرب کے تاثرات دکھ کی نئی کہانی سنا رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ چار مہینے پہلے شادی ہوئی تھی مگر 10 دن بعد ہی سسرال والوں نے طلاق دے کر گھر بٹھا دیا اب وہی گھر جہاں سے بابل کے گیت سن کر وداع ہوئی تھی واپس آنے کے بعد جہنم بن چکا ہے۔ گھر والے طنز کے تیر چلاتے ہیں تو بیگانے الزامات کی ایسی بوچھاڑ کرتے ہیں کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے اسے تو میں نے تسلی دلاسہ دے کر چپ کرادیا لیکن خود سوچنے پر مجبور ہوگئی۔

شادی تو ایک مقدس بندھن ہے جس میں بندھ کر مردوعورت سماج کے نظام کا حصہ بنتے ہیں اس رشتے میں علیحدگی میاں بیوی دونوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے مگر اس مردوں کے معاشرے میں زیادہ دکھ عورت کے حصے میں آتے ہیں اور اگر کہیں بچے موجود ہوں تو وہ تو اس بری طرح رلتے ہیں کہ دونوں میاں بیوی میں لڑائی جھگڑا، ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا یا سسرالی رشتوں کی بے جا مداخلت رشتوں میں دراڑ کا سبب بنتی ہے لیکن معاشرتی المیہ یہ ہے کہ جیسے ہی مرد و عورت میں علیحدگی ہوجاتی ہے معاشرے کا رویہ تبدیل ہوجاتا ہے بالخصوص عورت کے ساتھ لوگوں کا رویہ حتیٰ کہ قریبی رشتے دار بھی ایسے ایسے الفاظ کے نشتر چبھوتے ہیں اور ایسے زخم لگاتے ہیں جن کی تکلیف تا زندگی رہتی ہے۔ عورت کی سننے کی بجائے پورا معاشرہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جاتا ہے حتیٰ کہ مائیں بھی لڑکی کا قصور نہ ہوتے ہوئے بھی اس کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہیں۔ کہا جاتا ہے ''کیا تھا، تم صبر سے کام لے لیتیں تو آج یہ سب نہ ہوتا''۔ کوئی اس عورت سے نہیں پوچھتا کہ اس کے دل پر کیا گزر رہی ہے، رات کی تنہائی میں کس کرب سے گزر رہی ہے ۔


وائے افسوس ہمارے معاشرے کا تو المیہ یہ ہے کہ ہم طلاق یافتہ عورت کو اچھا نہیں سمجھتے چنانچہ بے جا نکتہ چینی، اعتراضات معاشرے کے چبھتے ہوئے سوالات ان کی عزت نفس کو دن رات مجروح کرتے ہیں حتیٰ کہ عورت کی نام نہاد آزادی کی دعویدار این جی اوز جوکہ پسند کی شادی کرانے میں تو پیش پیش رہتی ہیں مگر طلاق کے بعد ان کا رویہ بھی مثبت نظر نہیں آتا۔ کسی سماجی تنظیم نے ان عورتوں کی بھلائی یا بحالی کے لیے کام نہیں کیا جو طلاق ہو جانے کے بعد سماج میں تنہا ہوجاتی ہیں ۔کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اگر اپنی زندگی کا دوبارہ فیصلہ کرلیں تو آزاد خیالی کے زمرے میں آجاتی ہیں۔ کردار کو لوگ نشانہ بنانے لگتے ہیں کہ ''کردار ہی خراب ہوگا جب ہی تو اتنی جلدی دوسری شادی کرلی، اس آدمی کی وجہ سے ہی اپنا گھر خراب کیا ہوگا'' اس طرح کے دس الزامات ہوتے ہیں جن کا سامنا عورت کو کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر طلاق کے بعد عورت اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا فیصلہ کرے تو جب بھی معاشرے کی فرسودہ روایات اور لوگوں کی لمبی زبانیں اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہیں اور یہ روایات نسل در نسل پروان چڑھ رہی ہیں اس تعلیم یافتہ دور میں بھی ہم ان روایتوں کے امین بنتے جا رہے ہیں۔

معاشرے کو تو کیا سدھاریں گے ہمیں تو لگتا ہے پاکستانی معاشرہ ترقی معکوس کی طرف جارہا ہے بجلی ختم ہوئی، پانی سیلاب کی صورت میں نظر آتا ہے، مہنگائی کا عفریت منہ کھولے سب ہڑپ کرنے کے لیے آگے بڑھتا جارہا ہے مگر نہیں بدلا تو ہمارا نظام نہیں بدلا۔ عورت کے لیے یہ معاشرہ کل بھی ویسے ہی تھا اور آج بھی ویسا ہی ہے اور خدانخواستہ ہمارے معاشرے کی ترقی معکوس کی یہی رفتار رہی اور جس طرح سے معاشرے میں مدرسہ سسٹم پروان چڑھ رہا ہے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں بھی عورت پر قدغن لگانیوالے آ موجود ہوں جہاں کچھ تو سہی عورت اپنا مقام پہچان رہی ہے اور یہ مقام خود ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جہاد کے بعد شہید ہوجانے والے صحابہ کی عورتوں کے گھر بسانے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ بچوں کو باپ کی ذمے داری قرار دیا تھا تاکہ عورتوں کے دوبارہ گھر بسنے میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں تو 50 سال سے زائد عمر کی خواتین کے بھی نکاح کروائے گئے تاکہ وہ عزت سے گھروں میں بیٹھ کر اپنی بقیہ زندگی کے ایام پورے کریں۔ہم اسلامی شعائر کا بہت تذکرہ کرتے ہیں مگر صرف ان کا جن سے فائدہ پہنچنے کی امید ہو، مگر ایسے احکامات جن سے عورتوں کو فائدہ پہنچے ان کو کہیں پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔آج کے جدید پاکستانی معاشرے میں بھی ایک پچاس سالہ خاتون اگر اپنا گھر بساتی ہے تو اسے ایسے ایسے القاب سننے کو ملتے ہیں کہ حد نہیں۔ پڑھے لکھے مرد ہوں یا خواتین اس طرح سے طنز کے تیر چلاتے ہیں کہ ان کو سن کر ہی لوگ توبہ کرلیں۔ اس طرح کے سماجی رویوں سے معاشرے میں غیر اخلاقی باتیں فروغ پاتی ہیں۔
Load Next Story