چین انسان اور بیماریاں
کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے اب تک ہزاروں انسان ہلاک ہو چکے ہیں،
مسئلہ جب موت اور زندگی کا سامنے آتا ہے تو ہر شخص خواہ وہ کتنا ہی بوڑھا کیوں نہ ہو زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔ آج دنیا میں یہی سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ساری دنیا یقینا زندگی ہی کو ترجیح دے گی لیکن جب صورت حال یہ ہو کہ زندگی ترجیح نہ بن سک رہی ہو تو پھر انسان کے سامنے ایک گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے لیکن انسان مایوسی سے بچنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے اب تک ہزاروں انسان ہلاک ہو چکے ہیں، دنیا میں انسانوں کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے۔ کیا کورونا 7 ارب انسانوں کو کھا سکتی ہے؟ شعبہ ہیلتھ کے ماہرین اپنے تن من دھن سے پوری کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دنیا کو اس بلا سے نجات دلا دیں، اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ آج اس خطرناک ترین صورتحال میں بھی مایوس سیاستدانوں کی پہلی ترجیح اقتدار ہے۔ اس ذہنیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام کی حالت پر کہ آنسو بہانے والے اندر سے اقتدار کے کس قدر بھوکے ہیں اور عوام کے کتنے بڑے ہمدرد ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ دوغلے لیڈروں کی اصلیت کا پتا اب بہتر طریقے سے چل سکتا ہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ دنیا کو چلانے والے اتنے ذہین نہیں ہیں جتنے ذہین ہونے کی انھیں ضرورت ہے، یہاں میرا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو ہر ممکنہ آفت کا اندازہ ہونا چاہیے اور انھیں اس میں خصوصی تحقیقی ذمے داریاں ادا کرنی چاہیے تھیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ جو وبا کورونا کے نام سے دنیا پر نازل ہوئی ہے کیا یہ بالکل نئی ہے یا ماضی میں دنیا اس کا سامنا کرچکی ہے؟ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماہرین کی ذمے داریوں کا تعین کیا جاسکے۔ انسان بلاشبہ بڑا بااختیار ہے لیکن بعض اوقات اس قدر بے اختیار ہو جاتا ہے کہ اﷲ کے علاوہ اس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔
آج مسلمان اﷲ کو یاد کر رہا ہے، ہندو بھگوان کو پکار رہا ہے۔ عیسائی گاڈ کو یاد کر رہا ہے، اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے خدا کو یاد کر رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان بہت بااختیار ہونے کے باوجود کتنا بے اختیار ہے۔ اس حوالے سے ایک ضروری بات یہ ہے کہ دنیا کے عوام نے اپنا اپنا الگ خدا بنا رکھا ہے۔اور یہی نہیں کیا بلکہ اس مذہب کے حوالے سے ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتا ہے نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ اس حوالے سے ایک دوسرے کا بے تحاشا خون بھی بہاتا ہے، خدا کو مختلف حوالوں سے بانٹ کر دنیا میں نفرتوں کی جو آبیاری کی ہے کورونا سے زیادہ انسان کو مذہبی نفرتوں سے نقصان پہنچا ہے۔
یہ وقت ایسا ہے کہ دوست دشمن ایک دوسرے کے ساتھی اور بہترین دوست بن رہے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے حامی عوام کو بلاتفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کے خلاف لانے کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے بارہا عوام کی خدمت میں یہ گزارش کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی ضرورت بھی ہے اور سازش بھی ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ صرف انسان کا بچہ ہوتا ہے، شبنم کی طرح ، لیکن یہ انسان ہی ہوتے ہیں جو اس معصوم فرشتے کو شیطان بنا دیتے ہیں۔ مذہب جیسے مقدس رشتے کو محض اپنی بے وقوفی سے انسان جہل کے رشتوں میں بدل دیتا ہے۔ دنیا کا ہر وہ انسان جو دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتے ہیں اور انسانوں کے درمیان پھیلائی ہوئی نفرتوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ،کیا وہ قابل تنقید ہوتے ہیں یا قابل تعریف۔ یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ دنیا سے نفرتوں کا خاتمہ ہو جائے، یہ ایسا مشن ہے جو دنیا میں امن اور خوشحالی کو بڑھاوا دے سکتا ہے لیکن اس حوالے سے انسانوں کی مثبت کوششوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آب آئیے کورونا وائرس کی طرف پتا نہیں نہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کوئی نئی بیماری ہے یا ماضی میں اس نے دنیا کو اجاڑنے میں کردار ادا کیا۔ ماضی میں اگر اس بیماری سے نقصان ہوا تھا تو اس کے حوالے سے اب تک عوام کو اس کی تفصیلات کا علم کیوں نہ ہوا۔ بہرحال یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ قوم اس سے زیادہ پریشان نہیں، نوجوان کرفیو کے دوران گلیوں میں کرکٹ کھیل رہے ہیں چونکہ جانی نقصان کافی ہوا ہے لیکن قوم حوصلے کے ساتھ اس نقصان کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ایسے تکلیف دہ موقعوں پر سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہوتی ہے کہ ملک میں پینک نہ پھیلے اور عوام بہادری سے اس کا مقابلہ کریں اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اس وقت ملک میں ایک جرأت مند حکومت ہے جو حالات کا تندہی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور عوام بڑی بے جگری سے اس بلا کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن چونکہ اس وبا سے مسلسل نقصان ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی شاید اور زیادہ نقصان کا خدشہ ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ چین سے وہ معلومات حاصل کی جائیں جن کی وجہ چین میں یہ وبا کم ہو رہی ہے۔ وہ پاکستان کے مسائل کا مطالعہ کرکے موثر تدابیر اختیار کرنے کا حکومت کو مشورہ دیں گے۔ یہ خوشی اور اعتماد کی بات ہے کہ چین جیسے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں کورونا پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں چینی عوام کے ڈسپلن کا بڑا دخل ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے اب تک ہزاروں انسان ہلاک ہو چکے ہیں، دنیا میں انسانوں کی آبادی 7 ارب سے زیادہ ہے۔ کیا کورونا 7 ارب انسانوں کو کھا سکتی ہے؟ شعبہ ہیلتھ کے ماہرین اپنے تن من دھن سے پوری کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دنیا کو اس بلا سے نجات دلا دیں، اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ آج اس خطرناک ترین صورتحال میں بھی مایوس سیاستدانوں کی پہلی ترجیح اقتدار ہے۔ اس ذہنیت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عوام کی حالت پر کہ آنسو بہانے والے اندر سے اقتدار کے کس قدر بھوکے ہیں اور عوام کے کتنے بڑے ہمدرد ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ دوغلے لیڈروں کی اصلیت کا پتا اب بہتر طریقے سے چل سکتا ہے۔
موجودہ کورونا وائرس کے سامنے آنے کے بعد یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ دنیا کو چلانے والے اتنے ذہین نہیں ہیں جتنے ذہین ہونے کی انھیں ضرورت ہے، یہاں میرا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین کو ہر ممکنہ آفت کا اندازہ ہونا چاہیے اور انھیں اس میں خصوصی تحقیقی ذمے داریاں ادا کرنی چاہیے تھیں۔ اس حوالے سے یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ جو وبا کورونا کے نام سے دنیا پر نازل ہوئی ہے کیا یہ بالکل نئی ہے یا ماضی میں دنیا اس کا سامنا کرچکی ہے؟ یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ ماہرین کی ذمے داریوں کا تعین کیا جاسکے۔ انسان بلاشبہ بڑا بااختیار ہے لیکن بعض اوقات اس قدر بے اختیار ہو جاتا ہے کہ اﷲ کے علاوہ اس کا کوئی سہارا نہیں ہوتا۔
آج مسلمان اﷲ کو یاد کر رہا ہے، ہندو بھگوان کو پکار رہا ہے۔ عیسائی گاڈ کو یاد کر رہا ہے، اسی طرح ہر مذہب کے ماننے والے اپنے اپنے خدا کو یاد کر رہے ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان بہت بااختیار ہونے کے باوجود کتنا بے اختیار ہے۔ اس حوالے سے ایک ضروری بات یہ ہے کہ دنیا کے عوام نے اپنا اپنا الگ خدا بنا رکھا ہے۔اور یہی نہیں کیا بلکہ اس مذہب کے حوالے سے ایک دوسرے سے سخت نفرت کرتا ہے نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ اس حوالے سے ایک دوسرے کا بے تحاشا خون بھی بہاتا ہے، خدا کو مختلف حوالوں سے بانٹ کر دنیا میں نفرتوں کی جو آبیاری کی ہے کورونا سے زیادہ انسان کو مذہبی نفرتوں سے نقصان پہنچا ہے۔
یہ وقت ایسا ہے کہ دوست دشمن ایک دوسرے کے ساتھی اور بہترین دوست بن رہے ہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے حامی عوام کو بلاتفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کے خلاف لانے کی راہ میں دیوار بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے بارہا عوام کی خدمت میں یہ گزارش کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کی ضرورت بھی ہے اور سازش بھی ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ صرف انسان کا بچہ ہوتا ہے، شبنم کی طرح ، لیکن یہ انسان ہی ہوتے ہیں جو اس معصوم فرشتے کو شیطان بنا دیتے ہیں۔ مذہب جیسے مقدس رشتے کو محض اپنی بے وقوفی سے انسان جہل کے رشتوں میں بدل دیتا ہے۔ دنیا کا ہر وہ انسان جو دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتے ہیں اور انسانوں کے درمیان پھیلائی ہوئی نفرتوں کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ،کیا وہ قابل تنقید ہوتے ہیں یا قابل تعریف۔ یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں کہ دنیا سے نفرتوں کا خاتمہ ہو جائے، یہ ایسا مشن ہے جو دنیا میں امن اور خوشحالی کو بڑھاوا دے سکتا ہے لیکن اس حوالے سے انسانوں کی مثبت کوششوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آب آئیے کورونا وائرس کی طرف پتا نہیں نہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کوئی نئی بیماری ہے یا ماضی میں اس نے دنیا کو اجاڑنے میں کردار ادا کیا۔ ماضی میں اگر اس بیماری سے نقصان ہوا تھا تو اس کے حوالے سے اب تک عوام کو اس کی تفصیلات کا علم کیوں نہ ہوا۔ بہرحال یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ قوم اس سے زیادہ پریشان نہیں، نوجوان کرفیو کے دوران گلیوں میں کرکٹ کھیل رہے ہیں چونکہ جانی نقصان کافی ہوا ہے لیکن قوم حوصلے کے ساتھ اس نقصان کا مقابلہ کر رہی ہے۔ ایسے تکلیف دہ موقعوں پر سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہوتی ہے کہ ملک میں پینک نہ پھیلے اور عوام بہادری سے اس کا مقابلہ کریں اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اس وقت ملک میں ایک جرأت مند حکومت ہے جو حالات کا تندہی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور عوام بڑی بے جگری سے اس بلا کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن چونکہ اس وبا سے مسلسل نقصان ہو رہا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی شاید اور زیادہ نقصان کا خدشہ ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ چین سے وہ معلومات حاصل کی جائیں جن کی وجہ چین میں یہ وبا کم ہو رہی ہے۔ وہ پاکستان کے مسائل کا مطالعہ کرکے موثر تدابیر اختیار کرنے کا حکومت کو مشورہ دیں گے۔ یہ خوشی اور اعتماد کی بات ہے کہ چین جیسے دنیا کے سب سے بڑے ملک میں کورونا پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس میں چینی عوام کے ڈسپلن کا بڑا دخل ہے۔