افغان حکومت رواں ہفتے 100 طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی
طالبان نے بھی اپنی قید میں موجود افغان اہلکاروں کو بتدریج آزاد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے
امریکا اور طالبان میں امن معاہدے کے بعد افغان حکومت اس ہفتے کے اختتام تک 100 طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی۔ طالبان ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ منگل کے روز افغانستان میں کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے باوجود افغان حکومت اور تین رکنی طالبان وفد میں خصوصی ملاقات کے بعد کیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی ''رائٹرز'' کے مطابق، افغان حکومت نے یہ فیصلہ اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت کیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے بھی اپنی قید میں موجود افغان اہلکاروں کو بتدریج آزاد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے مگر تعداد نہیں بتائی گئی۔
واضح رہے کہ 29 فروری 2020 کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے نمائندوں میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے چلی جائے گی اور طالبان ان کی محفوظ واپسی کی ذمہ داری لیں گے۔
اسی معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ افغان حکومت کی قید میں موجود، تقریباً چھ ہزار طالبان رہا کیے جائیں گے جبکہ دوسری جانب طالبان بھی اپنی قید میں حکومتِ افغانستان کے اہلکاروں/ فوجیوں/ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو رہا کریں گے۔
قبل ازیں افغان حکومت کو اس شق پر شدید اعتراض تھا اور وہ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکاری تھی۔ البتہ حالیہ پیش رفت کو اس حوالے سے اہم قرار دیا جاسکتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ''رائٹرز'' کے مطابق، افغان حکومت نے یہ فیصلہ اعتماد سازی کے اقدامات کے تحت کیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے بھی اپنی قید میں موجود افغان اہلکاروں کو بتدریج آزاد کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے مگر تعداد نہیں بتائی گئی۔
واضح رہے کہ 29 فروری 2020 کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان کے نمائندوں میں ایک امن معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت امریکی فوج 14 ماہ میں افغانستان سے چلی جائے گی اور طالبان ان کی محفوظ واپسی کی ذمہ داری لیں گے۔
اسی معاہدے کی ایک شق یہ بھی تھی کہ افغان حکومت کی قید میں موجود، تقریباً چھ ہزار طالبان رہا کیے جائیں گے جبکہ دوسری جانب طالبان بھی اپنی قید میں حکومتِ افغانستان کے اہلکاروں/ فوجیوں/ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو رہا کریں گے۔
قبل ازیں افغان حکومت کو اس شق پر شدید اعتراض تھا اور وہ طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکاری تھی۔ البتہ حالیہ پیش رفت کو اس حوالے سے اہم قرار دیا جاسکتا ہے۔