تندور کو مرکز بنائیں

ہماری کم و بیش 90فی صد آبادی کی بنیادی غذا گندم کی روٹی ہے۔


اکرام سہگل April 04, 2020

کورونا وائرس کی وبا صرف ایک طبی ایمرجنسی نہیں بلکہ معاشی بحران بھی ہے۔ اس آفت سے قبل بھی ہماری تقریباً نصف آبادی غربت کی لکیر یا اس سے نیچے زندگی گزار رہی تھی، روٹی اور خوراک کی قیمتیں ہمارے ہاں پہلے بھی ایک سیاسی مسئلہ تھا۔

ذخیرہ اندوزی اور افراتفری میں کی جانے والی معمول سے زیادہ خریداری کے نتیجے میں غذائی اشیا اور روٹی کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے باعث بھوک اور غذائی قلت کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ وباء کی روک تھام کے لیے تمام صوبوں نے تقریباً مکمل لاک ڈاؤن کررکھا ہے جس کے باعث یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اس طبقے کے پاس اتنی مالی بچت نہیں ہوتی کہ یہ ہفتوں یا مہینوں بغیر کام کیے گزر بسر کرسکیں اس لیے موجودہ حالات میں ایسے خاندانوں کے لیے فاقوں کی نوبت آن پہنچی ہے۔

اس تباہی کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے غریب اور ضرورت مند افراد کے لیے مالی مدد اور راشن کی فراہمی کے اعلانات کیے ہیں۔ یہ بروقت اور قابل تحسین فیصلہ ہے تاہم ان اعلانات پر عمل درآمد اصل مسئلہ ہے۔ ہم ماضی میں بھی ایسے حکومتی اقدامات کے نتائج دیکھ چکے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ راشن کی تقسیم کا ایسا کیا طریقہ اختیار کیا جائے کہ یہ واقعی ضرورت مندوں تک پہنچے؟ حکومت کے اقدامات قابل تحسین ہیں لیکن یہ اتنا بڑا کام ہے کہ یونین کونسلز، یونین کمیٹیوں، خیراتی اور فلاحی تنظیموں کی مدد کے باوجود اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہمیں غیر روایتی انداز میں سوچنا ہوگا۔ اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ ہر علاقے میں مقامی تندوروں کو راشن کی تقسیم کا مرکز بنایا جائے۔

گندم سے تیار ہونے والی روٹی، نان یا چپاتی ہمارے ہاں خوراک کا بنیادی ترین جزو ہے اور غریب سے غریب خاندان کو بھی دن میں کم از کم دو مرتبہ اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ تندور یا تندور والا عوام کو خوراک کی فراہمی میں بنیادی کردار ادا کرتاہے، ہر موقعے پر خوراک کی فراہمی میں اس کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔

ہماری کم و بیش 90فی صد آبادی کی بنیادی غذا گندم کی روٹی ہے۔ نان تیار کرنے والے تندور زیادہ تر شہری علاقوں میں ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں عام طور پر گھروں ہی پر روٹی تیار کی جاتی ہے اور وہاں برائے نام تندور باقی ہیں۔ لیکن گاؤں کی آبادی کم ہونے کے باعث وہاں لوگ ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں اس لیے تندور عام طور پر خبروں، گپ شپ اور لگائی بجھائی کا مرکز ہوتے ہیں اور تندور والا بھی ہرکسی کو جانتا ہے۔ شہروں میں بہ آسانی ہر علاقے میں ہزاروں تندور مل جائیں گے، ہر محلے اور بازار میں یہ روزانہ مقامی آبادی کی روٹی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے تندور ہمارے ہاں خوراک کی فراہمی کا ایک بنا بنایا مرکز ہے جہاں سے غریب سے غریب آدمی بھی اپنی بنیادی خوراک حاصل کرتا ہے۔ موسم اور امن و امان کے حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں تندور پر پورے سال روٹی پکتی ہے۔

پاکستان میں گندم کی فی کس کھپت 110کلو سالانہ ہے۔ تقریباً 21کروڑ آبادی میں سے 6کروڑ 70لاکھ افراد کم یا روزانہ اجرت پر کام کرنے والے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 80فی صد کو روزانہ دن کے کھانے کے لیے روٹی خریدنا پڑتی ہے۔ دوسرے شہروں میں مزدوری کرنے والوں کو شام کے کھانے کے لیے بھی روٹی بازار سے لانا پڑتی ہے۔ سردی میں گیس کی لوڈ شیڈنگ اور گرمیوں میں موسم کی شدت کے باعث گھروں میں بھی تندور سے روٹی لائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری گندم کی مجموعی پیداوار کا 30 فی صد تندور والوں کے پاس جاتا ہے۔

ملک میں تندوروں کی ٹھیک ٹھیک تعداد کے اعداد وشمار تو دستیاب نہیں تاہم بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف کراچی جیسے بڑے شہر میں ان کی تعداد کئی ہزار ہوگی۔ تندور والے اپنے اہل علاقہ کو جانتے ہیں اور اپنے مقامی افراد میں غریب ترین لوگوں کو بھی جانتے ہیں، انھیں اپنے گاہکوں کے معاشی حالات کا اندازہ ہوتا ہے اس لیے یہ خوراک کی تقسیم کے بنے بنائے مراکز ہیں۔ خصوصاً غریب علاقوںمیں راشن کی مفت تقسیم کے لیے یہ بہترین مقام ہیں۔ تقسیم کے لیے صبح سات سے شام سات بجے کا وقت رکھا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد راشن حاصل کرسکیں اور وقت میں گنجائش کی وجہ سے ہجوم بھی نہ لگے۔ موجودہ حالات میں بازاروں میں آمد و رفت کم کرنے کے لیے تندور پر سبزی، پھل، خوردنی تیل وغیرہ کی فروخت کا انتظام بھی ہوسکتا ہے۔

اس سے لوگوں کو ضرورت کی اشیا ایک ہی جگہ مل جائیں گی اور وہ بازاروں میں گھومنے پھرنے سے بھی باز رہیں گے۔ تاہم یہاں ہجوم لگنے کا خطرہ ہوگا اس کے لیے خریداروں کو باہمی فاصلہ برقرار رکھنے کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ راشن کی تقسیم کی نگرانی کرنے والے سرکاری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے بھی یہ کھلے مقام زیادہ محفوظ ہوں گے۔ اس اسکیم میں تندوروں کی نشاندہی کرنے میں یونین کونسل کا کردار انتہائی اہم ہوگا۔ تقسیم کی نگرانی کے لیے یونین کونسل کے نمائندے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کو تندوروں پر تعینات کیا جاسکتا ہے۔ ہجوم لگنے سے روکنے کے لیے ہر خاندان سے صرف ایک فرد کو راشن وصول کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

ایک مرتبہ یہ سلسلہ شروع کیا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اور بہت سے پہلو واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ ایسے حالات میں وقت کے ساتھ ساتھ عملی سطح پر مسلسل کام کرنے سے تصویر واضح ہوتی ہے اور لائحہ عمل کو درست سمت دینے کا مرحلہ آتا رہتا ہے۔ متعلقہ اداروں اور افراد کو اس تجویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے۔ کم از کم اسے ترجیحی بنیادوں پر سندھ اور بالخصوص کراچی میں شروع کیا جاسکتا ہے اور یہاں کے غریب و نادار طبقے کی مدد کا یہ احسن قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ آج ہمیں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے، ہم نے بحیثیت قوم ایسے بحران کا کبھی سامنا نہیں کیا اس لیے حالات مزید سنگین ہونے سے پہلے ہمیں مؤثر اور غیر روایتی انداز میں تیزی کے ساتھ حکمت عملی طے کرکے عمل درآمد شروع کردینا چاہیے۔

گندم، سبزیوں اور پھلوں وغیرہ کی فراہمی کو جاری رکھنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور تندور کو خوراک تقسیم کا مرکز بنانے سے یہ مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ خوراک کی فراہمی کا سلسلہ برقرار رکھا جائے تو راشن کی تقسیم مستقل بنیادوں پر بھی ہوسکتی ہے۔ یہ صورت حال ہفتے دو ہفتے میں تو ختم ہونے والی نہیں، ہمیں اس کے طویل اور صبر آزما مقابلے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ وبا ختم ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ معاشی مسائل بھی ختم ہوجائیں گے۔ انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ یہ وبا لاکھوں افراد کے روزگار کو بھی نگل گئی ہے اس لیے حالات معمول پر آنے میں بہت وقت لگے گا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں