کورونا۔۔۔ابہام توہمات اور حقیقت
وائرس سے متعلق چند دل چسپ حقائق اور کچھ حیران کن مغالطے
کورونا وائرس کی وجہ سے تمام دنیا خوف کے ایک نادیدہ حصار میں مکمل طور پر قید ہوچکی ہے۔ یہ خوف کی ایک ایسی منفرد اور اعصاب شکن کیفیت ہے جس کا شاید ہی کبھی تاریخ میں حضرت انسان نے سامنا کیا ہو۔
علم کی معراج چھو لینے والا انسانی معاشرہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ زمین کی پاتال کو کھنگال لینے اور آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کرنے والی ترقی یافتہ اقوام بھی نادیدہ کورونا وائرس کے متعلق بس اِتنا ہی جانتی ہیں کہ ''وہ فی الحال کورونا وائرس کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتیں۔'' دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل بھی اِس وائرس کی حقیقت کو سرچ کرنے سے قاصر ہے اور دنیائے انٹرنیٹ کا سب سے بڑا انسائیکلوپیڈیا، وکی پیڈیا بھی کورونا کے حدودِ اربعہ بیان نہ کرنے پر شرم سار سا دکھائی دیتا ہے۔
اَب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں یہ واحد عالمی وبا ہے جو چند ماہ کے مختصر عرصے میں شرق سے لے کر غر ب تک پوری زمین کو ہی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور دنیا کے کم وبیش چپے چپے پر کورونا وائرس پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ اگر دنیا کے کسی علاقے میں اَب تک کورونا وائرس نہیں دیکھا گیا تو وہاں بھی کورونا وائرس کا خوف صاف صاف دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ایسی ایسی بے سروپا اور غلط معلومات پھیلائی جارہی ہیں کہ عام لوگ کورونا وائرس کا کم اور ''کورونا فوبیا'' کا زیادہ شکار ہوتے جارہے ہیں۔
کورونا وائرس کے متعلق پھیلنے والے غلط تصورات کے نقصانات کا اندازہ صرف اِس ایک بات سے لگالیں کہ ابھی تک لوگ کورونا وائرس اور اِس کے نتیجہ میں لاحق ہونے والی بیماری میں فرق یا تمیز نہیں کرپا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بعض نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پوسٹوں میں کورونا وائرس کو COVID-19 کے نام سے لکھا اور پکارا جارہا ہے حالاںکہ COVID-19 کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کا نام ہے، جب کہ اس وائرس کا پورا نام SARS-CoV-2 یعنی Severe Acute Respiratory Syndrome Coronavirus 2 ہے، جسے مختصراً آپ کورونا وائرس بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی ایک لفظی و معنوی سا فرق ہے جو ایڈز اور ایچ آئی وی کے درمیان بھی پایا جاتاہے۔ ایڈز مرض کا نام ہے جب کہ ایچ آئی وی اُس وائرس کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایڈز کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں قارئین کے لیے کورونا وائرس سے متعلق چند ایسے دل چسپ حقائق اور کچھ حیران کن مغالطوں کا مختصراً تذکرہ اور علمی محاکمہ پیشِ خدمت ہے جس کے مطالعے کے بعد یقیناً کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارے ذہنوں پر چسپاں ابہام اور توہمات کی بہت سی گرد بہ آسانی صاف ہوجائے گی۔
کورونا وائرس کا پہلا شکار انسان نہیں ایک بیئر کمپنی تھی
ہم میں سے اکثر لوگ یہ ہی سمجھتے ہوں گے کہ کورونا وائرس نے سب سے پہلے انسانوں کا اپنا شکار بنایا اور بعد ازاں اُس کے خوف نے دنیا کی معیشت کو اوجِ ثریا سے زمین پر لاپٹخا۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ کورونا وائرس نے اپنا سب سے پہلا شکار ایک معروف بیئر کمپنی کو بنایا تھا، جس کا نام بھی ''کورونا بیئر'' ہے۔ اِس بین الاقوامی بیئر کمپنی کی مصنوعات کو 1998 سے امریکا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بیئر کا منفرد اعزاز حاصل ہے جب کہ دنیا بھر میں بھی اِس کمپنی کی بیئر مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ لیکن اِس کمپنی کو ''کورونا'' کا نام لے ڈوبا۔ کورونا کا مطلب ہسپانوی اور لاطینی زبان میں ''کراؤن'' یعنی تاج ہے اور کورونا وائرس کو بھی کورونا کا نام اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ یہ وائرس بھی خوردبین سے ایک تاج کی طرح کا دکھائی دیتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی لوگوں نے کورونا وائرس کے بارے میں سنا، نام کی مماثلت کی وجہ سے لوگوں نے سوچا کہ کورونا وائرس، کورونا بیئر پینے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ پس لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جھوٹی پوسٹوں پر کامل اعتقاد کرتے ہوئے کورونا بیئر کی خریداری مکمل طور پر ترک کرنا شروع کردی۔
حالاںکہ کورونا وائرس اور کورونا بیئر کا آپس میں نہ تو کبھی کوئی تعلق تھا اور نہ ہے لیکن اِس کے باوجود کورونا بیئر کی فروخت دنیا بھر میں خطرناک حد تک گرگئی۔ معروف برطانوی تحقیقاتی فرم YouGov کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2020 کی ابتدا میں ہی کورونا بیئر کمپنی کی مصنوعات کی فروخت میں 75 فی صد تک کمی آگئی اور تازہ ترین صورت حال میں کورونا وائرس کے ساتھ نام کی مماثلت رکھنے کے باعث یہ کمپنی دیوالیہ ہونے بالکل قریب پہنچ چکی ہے۔ اِس واقعے میں اُن لوگوں کے لیے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے جو صبح و شام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔
عالم گیریت کورونا وائرس کی سواری ہے
فقط تین ماہ پہلے کی بات ہے کہ گوبلائزیشن یعنی عالم گیریت ہم انسانوں کا سرمایہ افتخار تھا اور پوری دنیا سرحدوں کو فرضی لکیروں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھی کیوںکہ عالمی روابط کے جدید ترین ذرائع پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں بدل چکے تھے۔ ہمیں تو خیر تیسری دنیا کے لوگ کہا جاتا تھا لیکن جو پہلی اور دوسری دنیا کے لوگ تھے انہوں نے صرف سرحدوں کو دیواریں ہی نہیں بلکہ پروانہ راہ داری کے جھنجھٹ سے بھی اپنی عوام کو کلیتاً آزادی دے دی تھی۔
یعنی یورپ میں لوگ ایک دوسرے کے ملک میں اتنی آسانی سے دبے پاؤں داخل ہوجاتے تھے کہ اتنی آسانی سے تو ہم اپنے دیرینہ دوست کے محلے میں بھی نہیں جا سکتے تھے۔ مگر افسوس یہ ہی عالم گیریت آج یورپ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب قرار پارہی ہے اور وہ اقوام جو کل تک سرحدوں کا قیدی ہونا پسند نہیں فرماتی تھیں۔ آج وہی لوگ اپنی مرضی سے اپنے اپنے گھروں میں خود کو مکمل طور پر قید کرچکے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس عالم گیریت کے رتھ پر سوار ہوکر پہلے ہی اُس مقام تک پہنچ چکا ہے، جہاں پر لاک ڈاؤن کی سرحدیں بھی غیرموثر ثابت ہورہی ہیں۔ اَب لگتا یہ ہی ہے کہ جب تک کورونا وائرس دنیا سے اپنے رختِ سفر باندھے گا تو اپنے ساتھ ہی عالم گیریت کے مغرور بچہ کو بھی اُنگلی پکڑ کر ساتھ ہی لے جائے گا۔ کیوںکہ انسانوں کی قوت ِ مدافعت کے بعد اگر کورونا وائرس نے سب سے زیادہ کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ عالم گیریت کا تصور ہی ہے۔
کورونا وائرس، سارس وائرس کا دوسرا جنم ہے؟
عموماً وائرس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ اتنی آسانی سے مرتے نہیں اور اگر مرجائیں تو اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑتے۔ یہ ہی وہ تیکنیکی مسئلہ ہے، جس کے باعث تک آج تک سائنس داں انسان پر حملہ آور ہونے والے کسی بھی وائرس کو ختم کرنے والی ایک دوا بھی نہیں ایجاد کرسکے۔ جہاں تک وائرس پر ویکسین کے اثرانداز ہونے کا تعلق ہے تو وہ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ یا تو ایک ویکسین وائرس کی استعدادکار کو کم زور بنادیتی ہے یا اُسے طویل نیند میں مبتلا کردیتی ہے یا پھر وائرس کی یادداشت کو چکمہ دے کر اُسے انسانی جسم کے مدافعتی نظام کے چنگل میں کچھ مدت کے لیے پھنسادیتی ہے۔ بہرحال ویکسین کسی بھی صورت وائرس کو جڑ سے ختم کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔
یہ ہی وجہ زمین پر آنے والے ہر نئے انسان کو وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے مدافعت کے لیے کم ازکم ایک بار ویکسی نیشن کی لازمی ضرورت رہتی ہے۔ دنیا بھر میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانا اِسی لیے لازم سمجھا جاتا ہے۔ بصورت دیگر کوئی بھی وائرس پھر سے بیدار ہوکر انسانی جسم میں متحرک ہونے کے بعد اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سُلا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں بھی خیال کیا جارہا ہے کہ یہ وائرس چین میں 2003 میں پھیلنے والی بیماری سارس کا سبب بننے والے وائرس کی ہی ایک نئی لیکن طاقت ور شکل ہے۔
دونوں وائرسوں کے درمیان فرق صرف انسانی جسم کے اندر کام کرنے کے طریقہ کار ہے۔ سارس ایک خوفناک وائرس ضرور تھا لیکن یہ بہرحال پوشیدہ نہیں رہتا تھا اور لوگ سارس وائرس سے صرف تب ہی متاثر ہوتے تھے۔ جب ان میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہوجاتی تھیں۔ اِسی وجہ سے سارس وائرس کا شکار مریضوں کو الگ کرنا اور کسی بھی ممکنہ متاثر شخص کو قرنطینے میں ڈالنا بہت آسان تھا۔ مگر اس کے مقابلے میں کورونا وائرس کو تلاش کرنا بھی مشکل ہے اور اِس کے پھیلاؤ کو روک پانا بھی مشکل تر ہے۔ وائرس کے نقطۂ نظر سے دیکھیں، تو ارتقائی اعتبار سے کورونا وائرس کی بقا کی حکمتِ عملی سارس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
اندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ بیمار لوگ خود اسپتال آئیں، آپ کو خود باہر جا کر انھیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اور اب کثیر تعداد میں کورونا وائرس کے ایسے تفصیلی کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں جس میں پایا گیا ہے کہ لوگوں میں علامات ظاہر بھی نہیں ہو پاتیں کہ وہ متاثرہ شخص خاموشی کے ساتھ بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب بننے لگتا ہے۔ آج سے پہلے طبی ماہرین کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز رہتی تھی کہ کوئی وائرس کتنا ہلاکت خیز ہے، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی زبردست صلاحیت نے باور کروادیا ہے کہ کسی وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت، اس کے خطرے کی حقیقی نوعیت یا ہلاکت خیزی کو ہزار گنا زیادہ بڑھا سکتی ہے۔
مثلاً اب تک کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور 10 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ اس کے مقابلے میں 2003 میں سارس نے 8098 لوگوں کو متاثر کیا تھا جن میں سے 774 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یعنی اگر دونوں وائرس کے متاثرہ افراد میں شرح اموات نکالی جائے تو کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی اموات کی شرح 3.4 فی صد ہے جب کہ سارس وائرس کی شرح اموات 9.6 فی صد تھی۔ لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے اُس کی ہلاکت خیزی کو سارس وائر س کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔
کورونا وائرس اپنے شکار میں فرق کرتا ہے
چینی سائنس دانوں کی اَب تک کی تحقیقات کے مطابق کورونا وائرس مردوں اور خواتین کو یکساں طور پر اپنا شکار بناتا ہے لیکن چین میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ فروری کے وسط میں کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کی شرح 2.8 فی صد، جب کہ اِس کے مقابلے میں خواتین میں اِس وائرس سے مرنے کی شرح مردوں سے کہیں کم یعنی صرف 1.7 فی صد رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ اعدادوشمار چین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی شرح اموات سے اخذ کردہ نتائج کے مطالعے کے بعد سامنے آئے ہیں، جب کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2003 میں ہانگ کانگ میں سارس وائرس پھیلنے کے بعد بھی اسی قسم کے اعدادوشمار سامنے آئے تھے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کا مدافعتی نظام مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
خواتین اور مردوں کے مدافعتی نظام کا یہ فرق قدرت کے ''جینیاتی نظام'' کی دین ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے جسم میں موجود وہ جین جو بیماریوں کا سبب بننے والے عناصر کو قوت پہچاننے کے ذمے دار ہوتے ہیں، وہ صرف اور صرف ''ایکس کروموسوم'' پر ہی ان کوڈ ہو نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چوںکہ خواتین میں دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں اور مردوں کے پاس صرف ایک، اس لیے مادہ جنسی ہارمون ایسٹروجن عورتوں کے مدافعتی نظام کو متحرک کرنے اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے نظام کو مضبوط تر بنادیتا ہے اور یوں خواتین کسی بھی نئے وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا مقابلہ تیز رفتاری اور زیادہ بڑے پیمانے پر کر سکتی ہیں۔ اس کے برعکس مردوں کے اندر پائے جانے والے ہارمون ٹیسٹوسٹیرون ایک ایکس کروموسوم ہونے کی وجہ سے مدافعتی نظام کو نئے وائرس کے خلاف وہ طاقت مہیا نہیں کرپاتا جس کی بیماری سے مقابلہ کرنے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا کرونا وائرس بھی اپنے پیشرو مہلک وائرسز کی طرح خواتین کے مدافعتی نظام کے آگے کسی نہ کسی حد تک بے بس سا نظر آرہا ہے۔
کورونا وائرس کسی کا دوست، کسی کا دشمن
کورونا وائرس کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک تہائی سے بھی زائد دنیا مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہوچکی ہے اور قریہ قریہ کورنا وائرس کو وہ وہ صلواتیں سنائی جارہی ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ ایسے میں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دنیا میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو کورونا وائرس کو نہ صرف اپنا دوست سمجھتا ہے بلکہ اُس کا شکرگزار بھی ہے تو یقینا سب کے لیے حیرانگی کی بات تو ہوگی ہی۔ ''چائنا پلس'' نامی ویب سائٹ کے مطابق، ژو جیامنگ نامی ایک شخص 1990 میں تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کی غرض سے جنوب مغربی چین کے صوبے گوئیژو، پہنچا جب کہ اس کا تعلق صوبہ ہوبے کے قصبے چی شوئی سے تھا۔ بدقسمتی سے ایک حادثے میں اس کی یادداشت چلی گئی جب کہ اس کا شناختی کارڈ بھی گم ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی شناخت بھی ممکن نہ رہی۔
کچھ سال سڑکوں پر کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد ایک رحم دل خاندان نے اسے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دے دی۔ اس دوران وہ اپنی گزری ہوئی زندگی، گھر اور خاندان کے بارے میں یاد کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہا لیکن سوائے اپنے نام کے، اور کچھ اِسے یاد نہیں آسکا۔ پھر یہ خاندان 2015 میں اپنے آبائی صوبے ژی جیانگ واپس منتقل ہوگیا اور ژوجیامنگ کو بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ یہاں آکر ژو جیامنگ کی یادداشت کچھ بحال ہونا شروع ہوئی، لیکن اب بھی وہ اپنے ماضی کی بیشتر باتیں یاد کرنے سے قاصر رہا۔ پھر اچانک یہ ہوا کہ 2020 کے ابتدائی ایام میں صوبہ ہوبے کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی خبریں پھیلنا شروع ہوئیں۔
ان ہی خبروں میں ژو جیامنگ کے قصبے کا تذکرہ بھی ہونے لگا، جنہیں دیکھ کر اس کی یادداشت حیرت انگیز طور پر مکمل طور پر بحال ہوگئی اور اسے وہ سب کچھ یاد آگیا جو وہ تیس سال پہلے بھول چکا تھا۔ اس نے فوراً مقامی پولیس سے رابطہ کیا اور کچھ دن کی تلاش کے بعد بالآخر اس کا اپنے خاندان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوگیا۔ اس کی والدہ ابھی تک حیات ہے اور اس کے چار بہن بھائی اس کے اچانک مل جانے پر خوشی کے مارے نہال ہیں کیوںکہ سب ہی اسے مُردہ سمجھ بیٹھے تھے۔ دنیا کورونا وائرس کے متعلق کچھ بھی کہے لیکن ژو جیامنگ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی یادداشت واپس لوٹ آنے اور اپنے بچھڑے خاندان سے ملنے پر کوروناوائرس کا تہہ دل سے شکرگزار ہے ۔
کورونا وائرس واپس لوٹ کر بھی آسکتا ہے؟
دنیا کے متعدد مالک تک پہنچ جانے والے نوول کورونا وائرس کا اب تک کوئی علاج یا ویکسین تو دست یاب نہیں، مگر پھر بھی15 سے 28 دنوں میں اس وائرس کی علامات کو ٹھیک کرکے مریض کو صحت یاب کرنے میں کام یابی حاصل ہوجاتی ہے، جس کے بعد مریض کو صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
اِس اُصول کے تحت 91 ہزار افراد کو صحت یاب قرار دے کر اُن کے گھروں میں واپس بھیجا جاچکا ہے۔ مگر ایک سوال سائنس دانوں کو یہ درپیش ہے ہے کہ کیا جو فرد اس وائرس کا شکار ہوچکا ہو، وہ صحت یابی کے بعد اس سے دوبارہ متاثر تو نہیں ہوسکتا؟ اور اب ایسا لگتا ہے کہ ایسا ممکن ہے کم از کم جاپان میں ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا ہے۔ جاپان کے شہر اوساکا کی رہائشی ایک خاتون دوسری بار اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا شکار ہوگئی ہے حالاںکہ پہلی بار یہ خاتون مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دی گئی تھی۔ 40 سال سے زائد عمر کی اس مریضہ میں دوسری بار کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
یہ خاتون جاپان کے شہر اوساکا میں ایک ٹور آپریٹر کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس خاتون میں 29 جنوری کو پہلی بار کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، کیوںکہ اس خاتون نے چین کے شہر ووہان (جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا) کے سیاحوں کی بس میں سفر کیا تھا۔6 فروری کو اِس خاتون کو، کورونا وائرس فری قرار دے کر مقامی اسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی، مگر 19 فروری کو وہ گلے اور سینے میں درد کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹروں کے پاس لے کر آئی، مگر اسے معمولی چیک اَب کے بعد گھر واپس بھیج دیا گیا۔ تاہم 21، 22 اور 25 فروری کو بھی جب یہ خاتون مسلسل ڈاکٹروں کے پاس گلے اور سینے میں شدید تکلیف کی شکایت لے کر آتی رہی تو ڈاکٹروں نے ازسرِ نو اِس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں 26 فروری کو دوسری بار خاتون میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ خاتون دوسری بار کورونا وائرس کا شکار کیسے اور کیوںکر ہوئی۔
بہرحال دوبارہ سے کورونا وائرس کے لوٹ آنے کے واقعے نے طبی ماہرین کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اور اَب خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ وہ تمام مریض جنہیں بظاہر مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر اُن کے گھروں میں بھیج دیا گیا، شاید ان میں سے کسی مریض میں دوبارہ سے کورونا وائرس آجائے۔ یہ صورت حال کتنی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوسکتی ہے۔ اَب طبی ماہرین اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔
کورونا وائرس سے دنیا کو خبر دار کرنے والا خود بھی خبر بن گیا
ڈاکٹر لی وینلیانگ وہ سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے کورونا وائرس کو اپنے مریضوں میں محسوس کیا تھا اور انہوں نے دسمبر میں ہی اِس وائرس سے متعلق دنیا کو خبردار کرنا شروع کردیا تھا۔ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے معروف میسجنگ ایپ وی چیٹ پر اپنے میڈیکل اسکول کے سابقہ طالب علموں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کورونا وائرس کے متعلق تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ وہ اس وائرس اور اِس کے نتیجے میں نمایاں ہونے والی علامات کے بارے میں اپنے پیاروں کو بھی بتائیں۔
ویڈیو میں وہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ''ووہان کی ایک مقامی مارکیٹ سے کچھ لوگ ان کے پاس علاج کے لیے آئے تھے، جن میں سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سینڈروم (سارس) جیسے ایک مہلک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور جب ان افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں سارس جیسے وائرس سے ملتا جلتا کورونا وائرس کا ایک گروپ ملا ہے۔'' ڈاکٹر لی وینلیانگ کی ویڈیو چیٹنگ کا اسکرین شارٹ چین بھر میں تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سارس نامی یہ وائرس پہلی مرتبہ 2003 میں سامنے آیا تھا جو چین سمیت پوری دنیا میں 800 افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ ابتدا میں کسی نے بھی اِن کی بات پر کان نہیں دھر ا بلکہ ووہان پولیس نے لوگوں میں خوف و ہراس اور افواہیں پھیلانے کے الزام میں ان سے تفتیش شروع کردی۔
بعدازاں جب ووہان میں کورونا وائرس پھیل گیا تو مقامی انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ڈاکٹر لی وینلیانگ اور اس کے خاندان سے باضابطہ معذرت بھی کی اور تحریری معافی بھی مانگی لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، کیوںکہ کورونا وائرس چین کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ آج جب کہ چین کورونا وائرس پر مکمل طور پر قابو پاچکا ہے، لیکن چینی عوام کو سب سے زیادہ افسوس ڈاکٹر لی وینلیانگ کی کورونا سے ہونے والی موت اور اِن کی تنبیہ کو بروقت نہ سننے کا ہے۔
ہم انسان کبھی بھی تیار نہیں تھے؟
کورونا وائرس کے نمودار ہونے سے صرف ایک ماہ قبل ہی دسمبر 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ''خلائی فوج'' کے قیام کا سرکاری اعلان کر تے ہوئے کہا تھا بہت جلد امریکی اسپس فورس خلا میں خلائی مخلوق کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنے کی اہل ہوجائے گی۔
دنیا بھر نے اس پیشرفت کو دنیا کی سلامتی کے لیے امریکا کا انتہائی اہم عسکری قدم قرار دیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پینٹاگون کی سرپرستی میں اس منفرد خلائی فوج کی کمان ایئر فورس جنرل جے ریمنڈ کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جو اِس وقت ''اسپیس کوم'' کے سربراہ ہیں۔ اس خلائی فورس کو امریکی فوج کی چھٹی برانچ قرار دیتے ہوئے امریکی حکومت نے 1.4 ٹریلین ڈالر کے اخراجات میں سے خلائی فورس کے لیے 738 بلین ڈالر مختص کیے تھے، مگر پھر یہ ہوا کہ انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے ایک خلوی نیم مردہ سا کورونا وائرس کہیں آن ٹپکا اور پھر آگے کی تمام صورت حال تو آپ روز انہ بلاناغہ نیوز چینلز پر ملاحظہ کر ہی رہے ہیں کہ کس طرح ایک نادیدہ وائرس دنیا کے 156 ممالک پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے اور نیلے آسمان تلے زمین پر شرق سے لے کر غرب تک وہ ہڑبونگ مچی ہوئی ہے کہ خلاؤں میں جنگ چھیڑنے کے دعوے دار بھی قرنظینہ نامی محفوظ کونے کھدروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کورونا وائرس کا عالم گیر پھیلاؤ اشارہ ہے کہ ہم انسان، اپنے جیسے دیگر کم زور انسانوں کے علاوہ کسی اور مخلوق سے نبرد آزما ہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں تھے۔
اگر تیار ہوتے تو آج دنیا کے کسی ایک سپرپاور ملک کے پاس تو اینٹی ایئرکرافٹ، اینٹی میزائل، اینٹی گن شپ ہیلی کاپٹر یا اینٹی ایٹم بم شیلڈ کے بجائے کم از کم ایک اینٹی وائرس جیسا چھوٹا سا ہتھیار تو ہونا ہی چاہیے تاکہ جس کی مدد سے کورونا وائرس کو تو بروقت ٹھکانے لگایا جاسکتا۔
علم کی معراج چھو لینے والا انسانی معاشرہ انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہوکہ زمین کی پاتال کو کھنگال لینے اور آسمان کی وسعتوں کو تسخیر کرنے والی ترقی یافتہ اقوام بھی نادیدہ کورونا وائرس کے متعلق بس اِتنا ہی جانتی ہیں کہ ''وہ فی الحال کورونا وائرس کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتیں۔'' دنیا کا سب سے بڑا سرچ انجن گوگل بھی اِس وائرس کی حقیقت کو سرچ کرنے سے قاصر ہے اور دنیائے انٹرنیٹ کا سب سے بڑا انسائیکلوپیڈیا، وکی پیڈیا بھی کورونا کے حدودِ اربعہ بیان نہ کرنے پر شرم سار سا دکھائی دیتا ہے۔
اَب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں یہ واحد عالمی وبا ہے جو چند ماہ کے مختصر عرصے میں شرق سے لے کر غر ب تک پوری زمین کو ہی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے اور دنیا کے کم وبیش چپے چپے پر کورونا وائرس پوری طرح سے اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ اگر دنیا کے کسی علاقے میں اَب تک کورونا وائرس نہیں دیکھا گیا تو وہاں بھی کورونا وائرس کا خوف صاف صاف دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر کورونا وائرس سے متعلق ایسی ایسی بے سروپا اور غلط معلومات پھیلائی جارہی ہیں کہ عام لوگ کورونا وائرس کا کم اور ''کورونا فوبیا'' کا زیادہ شکار ہوتے جارہے ہیں۔
کورونا وائرس کے متعلق پھیلنے والے غلط تصورات کے نقصانات کا اندازہ صرف اِس ایک بات سے لگالیں کہ ابھی تک لوگ کورونا وائرس اور اِس کے نتیجہ میں لاحق ہونے والی بیماری میں فرق یا تمیز نہیں کرپا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ بعض نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پوسٹوں میں کورونا وائرس کو COVID-19 کے نام سے لکھا اور پکارا جارہا ہے حالاںکہ COVID-19 کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کا نام ہے، جب کہ اس وائرس کا پورا نام SARS-CoV-2 یعنی Severe Acute Respiratory Syndrome Coronavirus 2 ہے، جسے مختصراً آپ کورونا وائرس بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی ایک لفظی و معنوی سا فرق ہے جو ایڈز اور ایچ آئی وی کے درمیان بھی پایا جاتاہے۔ ایڈز مرض کا نام ہے جب کہ ایچ آئی وی اُس وائرس کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے ایڈز کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ زیرنظر مضمون میں قارئین کے لیے کورونا وائرس سے متعلق چند ایسے دل چسپ حقائق اور کچھ حیران کن مغالطوں کا مختصراً تذکرہ اور علمی محاکمہ پیشِ خدمت ہے جس کے مطالعے کے بعد یقیناً کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارے ذہنوں پر چسپاں ابہام اور توہمات کی بہت سی گرد بہ آسانی صاف ہوجائے گی۔
کورونا وائرس کا پہلا شکار انسان نہیں ایک بیئر کمپنی تھی
ہم میں سے اکثر لوگ یہ ہی سمجھتے ہوں گے کہ کورونا وائرس نے سب سے پہلے انسانوں کا اپنا شکار بنایا اور بعد ازاں اُس کے خوف نے دنیا کی معیشت کو اوجِ ثریا سے زمین پر لاپٹخا۔ مگر لطیفہ یہ ہے کہ کورونا وائرس نے اپنا سب سے پہلا شکار ایک معروف بیئر کمپنی کو بنایا تھا، جس کا نام بھی ''کورونا بیئر'' ہے۔ اِس بین الاقوامی بیئر کمپنی کی مصنوعات کو 1998 سے امریکا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بیئر کا منفرد اعزاز حاصل ہے جب کہ دنیا بھر میں بھی اِس کمپنی کی بیئر مقبولیت کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔ لیکن اِس کمپنی کو ''کورونا'' کا نام لے ڈوبا۔ کورونا کا مطلب ہسپانوی اور لاطینی زبان میں ''کراؤن'' یعنی تاج ہے اور کورونا وائرس کو بھی کورونا کا نام اسی وجہ سے دیا گیا ہے کہ یہ وائرس بھی خوردبین سے ایک تاج کی طرح کا دکھائی دیتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ جیسے ہی لوگوں نے کورونا وائرس کے بارے میں سنا، نام کی مماثلت کی وجہ سے لوگوں نے سوچا کہ کورونا وائرس، کورونا بیئر پینے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ پس لوگوں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی جھوٹی پوسٹوں پر کامل اعتقاد کرتے ہوئے کورونا بیئر کی خریداری مکمل طور پر ترک کرنا شروع کردی۔
حالاںکہ کورونا وائرس اور کورونا بیئر کا آپس میں نہ تو کبھی کوئی تعلق تھا اور نہ ہے لیکن اِس کے باوجود کورونا بیئر کی فروخت دنیا بھر میں خطرناک حد تک گرگئی۔ معروف برطانوی تحقیقاتی فرم YouGov کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2020 کی ابتدا میں ہی کورونا بیئر کمپنی کی مصنوعات کی فروخت میں 75 فی صد تک کمی آگئی اور تازہ ترین صورت حال میں کورونا وائرس کے ساتھ نام کی مماثلت رکھنے کے باعث یہ کمپنی دیوالیہ ہونے بالکل قریب پہنچ چکی ہے۔ اِس واقعے میں اُن لوگوں کے لیے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے جو صبح و شام یہ کہتے نہیں تھکتے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔
عالم گیریت کورونا وائرس کی سواری ہے
فقط تین ماہ پہلے کی بات ہے کہ گوبلائزیشن یعنی عالم گیریت ہم انسانوں کا سرمایہ افتخار تھا اور پوری دنیا سرحدوں کو فرضی لکیروں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھی کیوںکہ عالمی روابط کے جدید ترین ذرائع پوری دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں بدل چکے تھے۔ ہمیں تو خیر تیسری دنیا کے لوگ کہا جاتا تھا لیکن جو پہلی اور دوسری دنیا کے لوگ تھے انہوں نے صرف سرحدوں کو دیواریں ہی نہیں بلکہ پروانہ راہ داری کے جھنجھٹ سے بھی اپنی عوام کو کلیتاً آزادی دے دی تھی۔
یعنی یورپ میں لوگ ایک دوسرے کے ملک میں اتنی آسانی سے دبے پاؤں داخل ہوجاتے تھے کہ اتنی آسانی سے تو ہم اپنے دیرینہ دوست کے محلے میں بھی نہیں جا سکتے تھے۔ مگر افسوس یہ ہی عالم گیریت آج یورپ میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا سبب قرار پارہی ہے اور وہ اقوام جو کل تک سرحدوں کا قیدی ہونا پسند نہیں فرماتی تھیں۔ آج وہی لوگ اپنی مرضی سے اپنے اپنے گھروں میں خود کو مکمل طور پر قید کرچکے ہیں۔ لیکن کورونا وائرس عالم گیریت کے رتھ پر سوار ہوکر پہلے ہی اُس مقام تک پہنچ چکا ہے، جہاں پر لاک ڈاؤن کی سرحدیں بھی غیرموثر ثابت ہورہی ہیں۔ اَب لگتا یہ ہی ہے کہ جب تک کورونا وائرس دنیا سے اپنے رختِ سفر باندھے گا تو اپنے ساتھ ہی عالم گیریت کے مغرور بچہ کو بھی اُنگلی پکڑ کر ساتھ ہی لے جائے گا۔ کیوںکہ انسانوں کی قوت ِ مدافعت کے بعد اگر کورونا وائرس نے سب سے زیادہ کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ عالم گیریت کا تصور ہی ہے۔
کورونا وائرس، سارس وائرس کا دوسرا جنم ہے؟
عموماً وائرس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ اتنی آسانی سے مرتے نہیں اور اگر مرجائیں تو اپنا کوئی نشان نہیں چھوڑتے۔ یہ ہی وہ تیکنیکی مسئلہ ہے، جس کے باعث تک آج تک سائنس داں انسان پر حملہ آور ہونے والے کسی بھی وائرس کو ختم کرنے والی ایک دوا بھی نہیں ایجاد کرسکے۔ جہاں تک وائرس پر ویکسین کے اثرانداز ہونے کا تعلق ہے تو وہ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ یا تو ایک ویکسین وائرس کی استعدادکار کو کم زور بنادیتی ہے یا اُسے طویل نیند میں مبتلا کردیتی ہے یا پھر وائرس کی یادداشت کو چکمہ دے کر اُسے انسانی جسم کے مدافعتی نظام کے چنگل میں کچھ مدت کے لیے پھنسادیتی ہے۔ بہرحال ویکسین کسی بھی صورت وائرس کو جڑ سے ختم کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔
یہ ہی وجہ زمین پر آنے والے ہر نئے انسان کو وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے مدافعت کے لیے کم ازکم ایک بار ویکسی نیشن کی لازمی ضرورت رہتی ہے۔ دنیا بھر میں بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانا اِسی لیے لازم سمجھا جاتا ہے۔ بصورت دیگر کوئی بھی وائرس پھر سے بیدار ہوکر انسانی جسم میں متحرک ہونے کے بعد اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سُلا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کے بارے میں بھی خیال کیا جارہا ہے کہ یہ وائرس چین میں 2003 میں پھیلنے والی بیماری سارس کا سبب بننے والے وائرس کی ہی ایک نئی لیکن طاقت ور شکل ہے۔
دونوں وائرسوں کے درمیان فرق صرف انسانی جسم کے اندر کام کرنے کے طریقہ کار ہے۔ سارس ایک خوفناک وائرس ضرور تھا لیکن یہ بہرحال پوشیدہ نہیں رہتا تھا اور لوگ سارس وائرس سے صرف تب ہی متاثر ہوتے تھے۔ جب ان میں اس وائرس کی علامات ظاہر ہوجاتی تھیں۔ اِسی وجہ سے سارس وائرس کا شکار مریضوں کو الگ کرنا اور کسی بھی ممکنہ متاثر شخص کو قرنطینے میں ڈالنا بہت آسان تھا۔ مگر اس کے مقابلے میں کورونا وائرس کو تلاش کرنا بھی مشکل ہے اور اِس کے پھیلاؤ کو روک پانا بھی مشکل تر ہے۔ وائرس کے نقطۂ نظر سے دیکھیں، تو ارتقائی اعتبار سے کورونا وائرس کی بقا کی حکمتِ عملی سارس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
اندازہ یہ ہے کہ صرف پانچ میں سے ایک کیس میں ہی شدید علامات ظاہر ہو رہی ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ بیمار لوگ خود اسپتال آئیں، آپ کو خود باہر جا کر انھیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اور اب کثیر تعداد میں کورونا وائرس کے ایسے تفصیلی کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں جس میں پایا گیا ہے کہ لوگوں میں علامات ظاہر بھی نہیں ہو پاتیں کہ وہ متاثرہ شخص خاموشی کے ساتھ بڑے پیمانے پر کورونا وائرس کے پھیلنے کا سبب بننے لگتا ہے۔ آج سے پہلے طبی ماہرین کی توجہ صرف اس بات پر مرکوز رہتی تھی کہ کوئی وائرس کتنا ہلاکت خیز ہے، مگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی زبردست صلاحیت نے باور کروادیا ہے کہ کسی وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت، اس کے خطرے کی حقیقی نوعیت یا ہلاکت خیزی کو ہزار گنا زیادہ بڑھا سکتی ہے۔
مثلاً اب تک کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 2 لاکھ 40 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور 10 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ اس کے مقابلے میں 2003 میں سارس نے 8098 لوگوں کو متاثر کیا تھا جن میں سے 774 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یعنی اگر دونوں وائرس کے متاثرہ افراد میں شرح اموات نکالی جائے تو کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی اموات کی شرح 3.4 فی صد ہے جب کہ سارس وائرس کی شرح اموات 9.6 فی صد تھی۔ لیکن کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے اُس کی ہلاکت خیزی کو سارس وائر س کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔
کورونا وائرس اپنے شکار میں فرق کرتا ہے
چینی سائنس دانوں کی اَب تک کی تحقیقات کے مطابق کورونا وائرس مردوں اور خواتین کو یکساں طور پر اپنا شکار بناتا ہے لیکن چین میں کورونا وائرس کا شکار ہونے والے مریضوں کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ فروری کے وسط میں کورونا وائرس سے مرنے والے مردوں کی شرح 2.8 فی صد، جب کہ اِس کے مقابلے میں خواتین میں اِس وائرس سے مرنے کی شرح مردوں سے کہیں کم یعنی صرف 1.7 فی صد رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ اعدادوشمار چین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی شرح اموات سے اخذ کردہ نتائج کے مطالعے کے بعد سامنے آئے ہیں، جب کہ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 2003 میں ہانگ کانگ میں سارس وائرس پھیلنے کے بعد بھی اسی قسم کے اعدادوشمار سامنے آئے تھے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خواتین کا مدافعتی نظام مردوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔
خواتین اور مردوں کے مدافعتی نظام کا یہ فرق قدرت کے ''جینیاتی نظام'' کی دین ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے جسم میں موجود وہ جین جو بیماریوں کا سبب بننے والے عناصر کو قوت پہچاننے کے ذمے دار ہوتے ہیں، وہ صرف اور صرف ''ایکس کروموسوم'' پر ہی ان کوڈ ہو نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چوںکہ خواتین میں دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں اور مردوں کے پاس صرف ایک، اس لیے مادہ جنسی ہارمون ایسٹروجن عورتوں کے مدافعتی نظام کو متحرک کرنے اور بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرنے کے نظام کو مضبوط تر بنادیتا ہے اور یوں خواتین کسی بھی نئے وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کا مقابلہ تیز رفتاری اور زیادہ بڑے پیمانے پر کر سکتی ہیں۔ اس کے برعکس مردوں کے اندر پائے جانے والے ہارمون ٹیسٹوسٹیرون ایک ایکس کروموسوم ہونے کی وجہ سے مدافعتی نظام کو نئے وائرس کے خلاف وہ طاقت مہیا نہیں کرپاتا جس کی بیماری سے مقابلہ کرنے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا کرونا وائرس بھی اپنے پیشرو مہلک وائرسز کی طرح خواتین کے مدافعتی نظام کے آگے کسی نہ کسی حد تک بے بس سا نظر آرہا ہے۔
کورونا وائرس کسی کا دوست، کسی کا دشمن
کورونا وائرس کے خوف کا یہ عالم ہے کہ ایک تہائی سے بھی زائد دنیا مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہوچکی ہے اور قریہ قریہ کورنا وائرس کو وہ وہ صلواتیں سنائی جارہی ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ ایسے میں اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دنیا میں ایک شخص ایسا بھی ہے جو کورونا وائرس کو نہ صرف اپنا دوست سمجھتا ہے بلکہ اُس کا شکرگزار بھی ہے تو یقینا سب کے لیے حیرانگی کی بات تو ہوگی ہی۔ ''چائنا پلس'' نامی ویب سائٹ کے مطابق، ژو جیامنگ نامی ایک شخص 1990 میں تعمیراتی کمپنی میں ملازمت کی غرض سے جنوب مغربی چین کے صوبے گوئیژو، پہنچا جب کہ اس کا تعلق صوبہ ہوبے کے قصبے چی شوئی سے تھا۔ بدقسمتی سے ایک حادثے میں اس کی یادداشت چلی گئی جب کہ اس کا شناختی کارڈ بھی گم ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی شناخت بھی ممکن نہ رہی۔
کچھ سال سڑکوں پر کسمپرسی کے عالم میں گزارنے کے بعد ایک رحم دل خاندان نے اسے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دے دی۔ اس دوران وہ اپنی گزری ہوئی زندگی، گھر اور خاندان کے بارے میں یاد کرنے کی مسلسل کوشش کرتا رہا لیکن سوائے اپنے نام کے، اور کچھ اِسے یاد نہیں آسکا۔ پھر یہ خاندان 2015 میں اپنے آبائی صوبے ژی جیانگ واپس منتقل ہوگیا اور ژوجیامنگ کو بھی اپنے ساتھ لے آیا۔ یہاں آکر ژو جیامنگ کی یادداشت کچھ بحال ہونا شروع ہوئی، لیکن اب بھی وہ اپنے ماضی کی بیشتر باتیں یاد کرنے سے قاصر رہا۔ پھر اچانک یہ ہوا کہ 2020 کے ابتدائی ایام میں صوبہ ہوبے کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کی خبریں پھیلنا شروع ہوئیں۔
ان ہی خبروں میں ژو جیامنگ کے قصبے کا تذکرہ بھی ہونے لگا، جنہیں دیکھ کر اس کی یادداشت حیرت انگیز طور پر مکمل طور پر بحال ہوگئی اور اسے وہ سب کچھ یاد آگیا جو وہ تیس سال پہلے بھول چکا تھا۔ اس نے فوراً مقامی پولیس سے رابطہ کیا اور کچھ دن کی تلاش کے بعد بالآخر اس کا اپنے خاندان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوگیا۔ اس کی والدہ ابھی تک حیات ہے اور اس کے چار بہن بھائی اس کے اچانک مل جانے پر خوشی کے مارے نہال ہیں کیوںکہ سب ہی اسے مُردہ سمجھ بیٹھے تھے۔ دنیا کورونا وائرس کے متعلق کچھ بھی کہے لیکن ژو جیامنگ کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی یادداشت واپس لوٹ آنے اور اپنے بچھڑے خاندان سے ملنے پر کوروناوائرس کا تہہ دل سے شکرگزار ہے ۔
کورونا وائرس واپس لوٹ کر بھی آسکتا ہے؟
دنیا کے متعدد مالک تک پہنچ جانے والے نوول کورونا وائرس کا اب تک کوئی علاج یا ویکسین تو دست یاب نہیں، مگر پھر بھی15 سے 28 دنوں میں اس وائرس کی علامات کو ٹھیک کرکے مریض کو صحت یاب کرنے میں کام یابی حاصل ہوجاتی ہے، جس کے بعد مریض کو صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
اِس اُصول کے تحت 91 ہزار افراد کو صحت یاب قرار دے کر اُن کے گھروں میں واپس بھیجا جاچکا ہے۔ مگر ایک سوال سائنس دانوں کو یہ درپیش ہے ہے کہ کیا جو فرد اس وائرس کا شکار ہوچکا ہو، وہ صحت یابی کے بعد اس سے دوبارہ متاثر تو نہیں ہوسکتا؟ اور اب ایسا لگتا ہے کہ ایسا ممکن ہے کم از کم جاپان میں ایک ایسا ہی کیس سامنے آیا ہے۔ جاپان کے شہر اوساکا کی رہائشی ایک خاتون دوسری بار اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا شکار ہوگئی ہے حالاںکہ پہلی بار یہ خاتون مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر گھر بھیج دی گئی تھی۔ 40 سال سے زائد عمر کی اس مریضہ میں دوسری بار کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔
یہ خاتون جاپان کے شہر اوساکا میں ایک ٹور آپریٹر کے طور پر کام کرتی ہے۔ اس خاتون میں 29 جنوری کو پہلی بار کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا، کیوںکہ اس خاتون نے چین کے شہر ووہان (جہاں سے یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا) کے سیاحوں کی بس میں سفر کیا تھا۔6 فروری کو اِس خاتون کو، کورونا وائرس فری قرار دے کر مقامی اسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی، مگر 19 فروری کو وہ گلے اور سینے میں درد کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹروں کے پاس لے کر آئی، مگر اسے معمولی چیک اَب کے بعد گھر واپس بھیج دیا گیا۔ تاہم 21، 22 اور 25 فروری کو بھی جب یہ خاتون مسلسل ڈاکٹروں کے پاس گلے اور سینے میں شدید تکلیف کی شکایت لے کر آتی رہی تو ڈاکٹروں نے ازسرِ نو اِس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں 26 فروری کو دوسری بار خاتون میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کی تصدیق ہوئی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ یہ خاتون دوسری بار کورونا وائرس کا شکار کیسے اور کیوںکر ہوئی۔
بہرحال دوبارہ سے کورونا وائرس کے لوٹ آنے کے واقعے نے طبی ماہرین کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے اور اَب خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں کہ وہ تمام مریض جنہیں بظاہر مکمل طور پر صحت یاب قرار دے کر اُن کے گھروں میں بھیج دیا گیا، شاید ان میں سے کسی مریض میں دوبارہ سے کورونا وائرس آجائے۔ یہ صورت حال کتنی زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوسکتی ہے۔ اَب طبی ماہرین اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔
کورونا وائرس سے دنیا کو خبر دار کرنے والا خود بھی خبر بن گیا
ڈاکٹر لی وینلیانگ وہ سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے کورونا وائرس کو اپنے مریضوں میں محسوس کیا تھا اور انہوں نے دسمبر میں ہی اِس وائرس سے متعلق دنیا کو خبردار کرنا شروع کردیا تھا۔ ڈاکٹر لی وینلیانگ نے معروف میسجنگ ایپ وی چیٹ پر اپنے میڈیکل اسکول کے سابقہ طالب علموں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے کورونا وائرس کے متعلق تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے تاکید کی تھی کہ وہ اس وائرس اور اِس کے نتیجے میں نمایاں ہونے والی علامات کے بارے میں اپنے پیاروں کو بھی بتائیں۔
ویڈیو میں وہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ''ووہان کی ایک مقامی مارکیٹ سے کچھ لوگ ان کے پاس علاج کے لیے آئے تھے، جن میں سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سینڈروم (سارس) جیسے ایک مہلک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور جب ان افراد کے ٹیسٹ کیے گئے تو ان میں سارس جیسے وائرس سے ملتا جلتا کورونا وائرس کا ایک گروپ ملا ہے۔'' ڈاکٹر لی وینلیانگ کی ویڈیو چیٹنگ کا اسکرین شارٹ چین بھر میں تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے لگا، جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ سارس نامی یہ وائرس پہلی مرتبہ 2003 میں سامنے آیا تھا جو چین سمیت پوری دنیا میں 800 افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔ ابتدا میں کسی نے بھی اِن کی بات پر کان نہیں دھر ا بلکہ ووہان پولیس نے لوگوں میں خوف و ہراس اور افواہیں پھیلانے کے الزام میں ان سے تفتیش شروع کردی۔
بعدازاں جب ووہان میں کورونا وائرس پھیل گیا تو مقامی انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے ڈاکٹر لی وینلیانگ اور اس کے خاندان سے باضابطہ معذرت بھی کی اور تحریری معافی بھی مانگی لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی، کیوںکہ کورونا وائرس چین کو پوری طرح سے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ آج جب کہ چین کورونا وائرس پر مکمل طور پر قابو پاچکا ہے، لیکن چینی عوام کو سب سے زیادہ افسوس ڈاکٹر لی وینلیانگ کی کورونا سے ہونے والی موت اور اِن کی تنبیہ کو بروقت نہ سننے کا ہے۔
ہم انسان کبھی بھی تیار نہیں تھے؟
کورونا وائرس کے نمودار ہونے سے صرف ایک ماہ قبل ہی دسمبر 2019 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ''خلائی فوج'' کے قیام کا سرکاری اعلان کر تے ہوئے کہا تھا بہت جلد امریکی اسپس فورس خلا میں خلائی مخلوق کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنے کی اہل ہوجائے گی۔
دنیا بھر نے اس پیشرفت کو دنیا کی سلامتی کے لیے امریکا کا انتہائی اہم عسکری قدم قرار دیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پینٹاگون کی سرپرستی میں اس منفرد خلائی فوج کی کمان ایئر فورس جنرل جے ریمنڈ کو دینے کا اعلان کیا گیا تھا، جو اِس وقت ''اسپیس کوم'' کے سربراہ ہیں۔ اس خلائی فورس کو امریکی فوج کی چھٹی برانچ قرار دیتے ہوئے امریکی حکومت نے 1.4 ٹریلین ڈالر کے اخراجات میں سے خلائی فورس کے لیے 738 بلین ڈالر مختص کیے تھے، مگر پھر یہ ہوا کہ انسانی آنکھ سے دکھائی نہ دینے والے ایک خلوی نیم مردہ سا کورونا وائرس کہیں آن ٹپکا اور پھر آگے کی تمام صورت حال تو آپ روز انہ بلاناغہ نیوز چینلز پر ملاحظہ کر ہی رہے ہیں کہ کس طرح ایک نادیدہ وائرس دنیا کے 156 ممالک پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا ہے اور نیلے آسمان تلے زمین پر شرق سے لے کر غرب تک وہ ہڑبونگ مچی ہوئی ہے کہ خلاؤں میں جنگ چھیڑنے کے دعوے دار بھی قرنظینہ نامی محفوظ کونے کھدروں میں دبکے بیٹھے ہیں۔ کورونا وائرس کا عالم گیر پھیلاؤ اشارہ ہے کہ ہم انسان، اپنے جیسے دیگر کم زور انسانوں کے علاوہ کسی اور مخلوق سے نبرد آزما ہونے کے لیے کبھی بھی تیار نہیں تھے۔
اگر تیار ہوتے تو آج دنیا کے کسی ایک سپرپاور ملک کے پاس تو اینٹی ایئرکرافٹ، اینٹی میزائل، اینٹی گن شپ ہیلی کاپٹر یا اینٹی ایٹم بم شیلڈ کے بجائے کم از کم ایک اینٹی وائرس جیسا چھوٹا سا ہتھیار تو ہونا ہی چاہیے تاکہ جس کی مدد سے کورونا وائرس کو تو بروقت ٹھکانے لگایا جاسکتا۔