نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف چوہدری شوگر ملز کیس کی کارروائی روکنے کا حکم
چوہدری شوگر ملز میں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کیس کی کارروائی ریفرنس دائر ہونے تک نہیں ہوسکے گی
احتساب عدالت نے چوہدری شوگر ملز میں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کیس کی کارروائی ریفرنس دائر ہونے تک روک دی۔
لاہور کی احتساب عدالت کے ایڈمن جج جواد الحسن نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف چوہدری شوگر ملز کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف،مریم نواز اور یوسف عباس کی لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت منظور ہوچکی ہے جب کہ نیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کا ریفرنس ابھی دائر نہیں کیا گیا۔ ریفرنس کے بغیر کیس کی سماعت کرنا عدالتی وقت کا ضیاع ہے۔
احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں کیس کی فائل ریکارڈ روم بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ تینوں ملزمان کو ریفرنس دائر ہونے پر طلب کیا جائے گا۔
چوہدری شوگر ملز کیس؛
نیب کا موقف ہے کہ چوہدری شوگر ملز میں 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔ پھر وہی حصص مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔
لاہور کی احتساب عدالت کے ایڈمن جج جواد الحسن نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف چوہدری شوگر ملز کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نواز شریف،مریم نواز اور یوسف عباس کی لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت منظور ہوچکی ہے جب کہ نیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کا ریفرنس ابھی دائر نہیں کیا گیا۔ ریفرنس کے بغیر کیس کی سماعت کرنا عدالتی وقت کا ضیاع ہے۔
احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں کیس کی فائل ریکارڈ روم بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ تینوں ملزمان کو ریفرنس دائر ہونے پر طلب کیا جائے گا۔
چوہدری شوگر ملز کیس؛
نیب کا موقف ہے کہ چوہدری شوگر ملز میں 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔ پھر وہی حصص مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔