ہم اچھے لوگ ہیں

اس وقت مغرب اور بھارت سے تقابل کرنے کے بجائے پاکستانیوں کا جذبہ ایثار اجاگر کرنے کی ضرورت ہے

اس وقت مغرب اور بھارت سے تقابل کرنے کے بجائے پاکستانیوں کا جذبہ ایثار اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

THARPARKAR:
پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آتے ہی سرکاری سطح پر کیے جانے والے اقدامات کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ حکومت سندھ جسے صرف ایک ہفتہ قبل آوارہ کتوں کے کاٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے نظر آئی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وزیر اعلیٰ سندھ نے وائرس سے نمٹنےکےلیے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ اسی دوران وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی میڈیا پر دکھائی دینے لگےاور بچوں کو علم ہوا کہ بلوچستان کا بھی ایک وزیر اعلیٰ ہے۔ انہوں نے جس انداز میں کم وسائل کے باوجود وائرس سے نمٹنے کےلیے اقدامات کیے وہ لائق تحسین ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تو دو ہفتوں تک کہیں دکھائی نہیں دیئے، لیکن جب انہوں نے اپنا دیدار ٹی وی اسکرینز پر کرایا، اس کے بعد سے روزانہ ہی پردے پر انہی کا چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ لگے ہاتھوں جان لیجیے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان ہیں۔ جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، اس وقت تک مجھے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا دکھائی نہیں دیئے تھے جبکہ وزیر اعظم پاکستان کورونا پر خطاب کی ہیٹ ٹرک مکمل کرچکے تھے۔ حکومت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو تو شمار ہی نہیں کیا جاتا۔

پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ہم نے حکومت اور اپوزیشن کو تو تنقید کانشانہ بنایا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے اس سے بچاؤ کےلیے اپنا کردار کس حد تک ادا کیا ہے؟ شکوے، شکایات اور ایک دوسرے کو کوسنا چھوڑیئے۔ اس بحث کو بھی رہنے دیجیے کہ کورونا وائرس ایرانی زائرین لائے یا اس کو پھیلانے کا ذریعے رائے ونڈی تبلیغی بن رہے ہیں۔ یہ موضوع بھی بعد کےلیے رکھیے کہ وزیر اعظم کا اکاؤنٹ کس کام آئے گا اور خواجہ آصف نے زلفی بخاری پر الزامات کیوں لگائے؟ اس پر بھی بات نہیں کرتے کہ چین نے اس وائرس کو دنیا میں پھیلایا یا اس کی تیاری امریکی لیبارٹری میں ہوئی؟ لیکن اس وائرس نے صحت کے بارے میں اعلیٰ سہولیات کے دعویدار ترقی یافتہ ممالک سے لے کر تیسری دنیا کے غریب ممالک تک، سبھی کو ایک صف میں کھڑا کردیا ہے۔ ہاں اس وائرس نے مغرب کی مثال دینے والے تجزیہ کاروں کو بھی یو ٹرن لینے پر مجبور کردیا ہے۔ جہاں پاکستان میں مخیر حضرات غریب پاکستانیوں کی کھلے دل سے مدد کر رہے ہیں، وہیں مغرب میں ڈیپارٹمنٹل اسٹورز خالی ہوچکے ہیں، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مغرب اور ترقی یافتہ ممالک کی معاشرتی اقدار کی قلعی بھی اسی وائرس کی وجہ سے کھل گئی ہے۔

ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں کے تاجروں نے اتنے کروڑ عوام کی فلاح کےلیے خرچ کیے ہیں، لیکن ہم اس خبر پر توجہ نہیں دے رہے کہ بھارت کے دس کروڑ مزدوروں کی نوکریاں جا چکی ہیں، وہ اپنی سماجی سکیورٹی کےلیےاپنے اپنے گاؤں کا رخ کر رہے ہیں، کئی دنوں سے بھارت کے مختلف علاقوں سے مزدور سہولیات نہ ہونے کے باعث پیدل اپنے آبائی گھروں کو جا رہے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں 1947 میں تقسیم ہند کو ایک المناک داستان کے طور پر یاد رکھا جا رہا ہے مگر اس وقت تو صرف ڈیڑھ کروڑ انسانوں نے ہجرت کی تھی۔ بھارت کی 9 ریاستوں کے 56 اضلاع سے ہجرت کرنے والے افراد مختلف علاقوں میں جارہے ہیں، حکومت نے ابتدائی طور پر 35 ہزار یونین کونسلز کو ایمرجنسی کےلیے تیار کیا ہے، لیکن تجزیہ کاروں کے نزدیک یہ دس کروڑ انسان ایک بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں۔ بھارت میں چند سو تبلیغی جماعت کے اراکین پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ذمہ داری عائد کی جارہی ہے، لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے ملک میں تین ہفتوں کا لاک ڈاؤن کر رکھا ہے، اس کے باوجود مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج چوہان کی تقریب حلف برداری میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدیوپا 2000 ہزار افراد کے ساتھ ایک شادی میں شریک ہوئے۔

اس وقت جہاں خانہ کعبہ کا طواف بند ہے، ویٹی کن سٹی میں احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، مساجد، مندر اور چرچ بند ہیں، لیکن تریمولہ میں 61 ہزار ہندو مذہبی اجتماع کر رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان بھارت کی مثالیں دے رہے ہیں، لیکن پاکستان بھارت سے لاکھوں درجے بہترہے، یہاں تمام تر خامیوں کے باوجود کورونا سے بچنے کےلیے بھرپور انتظامات کیے جارہے ہیں۔


پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کےلیے عام پاکستانی بھی خاصا سنجیدہ ہے۔ گذشتہ روز لاہور کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا، پوش علاقوں سے لے کر کچی آبادیوں کا جائزہ لیا۔ 99 فیصد کے قریب لوگوں نے ماسک پہن رکھے تھے جبکہ اسّی فیصد کے قریب لوگ دستانے بھی پہنے ہوئے تھے۔ اس وقت جہاں دنیا کو معاشی بحرانوں کا سامنا ہے، وہیں پاکستان میں مخیر حضرات ضرورت مند افراد کی مدد میں پیش پیش ہیں۔ ہر فرد اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ مخیر ادارے تو اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں مگر انفرادی سطح پر بھی شہری جذبہ ایثار سے سرشار ہیں۔

لاہور ہی میں ایک دوست اپنا پکوان کے نام سے کھانا بنانے کا کام کرتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث اس کا کاروبار بند ہوگیا، لیکن اس نےاپنے کاریگروں کو چھٹی دینے کے بجائے ان سے کھانا بنوا کر کچی آبادیوں میں مفت تقسیم کرنا شروع کردیا۔ اس ایک پکوان سینٹر سے روزانہ 400 افراد کو ان کے گھروں کی دہلیز پر کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ صرف لاہور میں آپ کو ایسی درجنوں مثالیں مل جائیں گی۔

اس وقت مغربی ممالک اور بھارت سے تقابلی جائزہ پیش کرنے کے بجائے پاکستانیوں کے جذبہ ایثار کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ٹھیلے والے سے لے کر صنعتوں کے مالک تک، سب قوم کی مدد کر رہے ہیں۔ اس وقت قوم کو کوسنے دینے کے بجائے داد دینی چاہیے، کیونکہ ہم اچھے لوگ ہیں اور اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

اس وبائی کیفیت میں افراتفری، جھوٹی خبریں اور دل جلانے کی باتیں کرنے کے بجائے امید پھیلائیے، خوشیوں کے دیپ جلائیے اور خوشخبریاں سنائیے، تبھی ہم اس جنگ میں کامیابی حاصل کرسکیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story