چھٹی عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر آخری روز 4 سیشن ہوئے

ڈاکٹر سید جعفر احمد کی مرتب کردہ کتاب کی تقریب اجرا ہوئی، اداکار ضیامحی الدین کے ساتھ ایک شام بھی منائی گئی

افسانہ ایک صدی کا سفر میں مسعود اشعر خطاب کررہے ہیں ،انتظار حسین ،زاہدہ حنا و دیگر موجود ہیں ۔ فوٹو: ایکسپریس

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چھٹی عالمی اردوکانفرنس خوبصورت یادوں کے ساتھ اختتام پذیرہوگئی، آخری روز چار سیشن ہوئے۔

عالمی اردوکانفرنس کے آخری دن کاآغاز ''افسانہ ایک صدی کا سفر ''کے عنوان سے اجلاس سے ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مجلس مسعود اشعر نے کہاکہ افسانے غیر معمولی صنف نہیں، انھیں اہمیت دینے کی اشد ضرورت ہے، افسانہ کم نہیں چھپ رہا بلکہ اسے پڑھا کم جارہا ہے، انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے افسانہ نگاروں کی پہنچ پبلشروں تک نہیں، اس امر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، اس رجحان کو آگے بڑھنا ہوگا کہ ادیب چھپے اور اسے پڑھا جائے، ادب عشق کا سود ا ہے، مسعود اشعر نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ آج کا افسانہ کہاں کھڑا ہے اور دوسرا آج ہمارے انسانی رشتے بھی تبدیل ہورہے ہیں، ہمارے انسانی رشتوں کے رویے بدلے ہیں، کیا ہمارا افسانہ ہمارے موجود ہ معاشرے اور حالات کو فوکس کررہے ہیں، زاہد ہ حنا نے کہاکہ1913میں شروع ہونے والا ہمارا ساد ہ اور معصوم افسانہ19برس بعد شعلے اگلنے لگا، جنگ عظیم اول و دوم کی خوں ریزیاںافسانے پر انداز ہورہیں ہیں، انگارے افسانہ کا رسالہ1935میں شائع ہوا جو اس زمانے میں معیاری افسانوں پر مشتمل رسالہ ثابت ہوا۔

سجاد حیدر ،اسد محمد خان، حسن منظر، منٹو منظر عام پر آئے، غلام عباس کا افسانہ دھنک1969میں آیا جس نے دھوم مچادی تھی،عصمت چغتائی کے لحاف نے برصغیر نے تہلکہ مچادیا،اخلاق احمد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اکیسویں صدی کے افسانہ نگار20ویں صدی کے افسانہ نگاروں سے زیادہ چست اور زیرک ہیں، اس صد ی کے افسانہ نگاروں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا ہے، اس کے ایک جانب سامراج اور دوسری طرف طالبان ہیں جس سرزمین پر افسانہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے اس سرزمین پہ عدم مخالف برسرپیکار ہیں، اس صدی کا افسانہ نگار بے پنا ہ رویوں کے ساتھ آپ کو نظر آئے گا، اسے جہالت کی قوتوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے اور ان کے ساتھ زند ہ بھی رہنا ہوگا، ڈاکٹر مصطفی حسین نے کہا کہ ڈنش فکشن کو اردو کا رنگ دینا بہت مشکل امر ہے، اس زبان پہ بتدریج عبور حاصل کرنے کے بعد اشتیاق ہواکہ ڈنمارک کے ادب کو ٹٹولا جائے تو ایک سے ایک بڑھ کر شہ پارہ سامنے آتا گیا۔




ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ افسانہ ہمارے ذہنی و سماجی تقاضوں کو پورا کرتا ہے، فکشن کے مطالعے سے یگانگت اور ہمدردی بڑھتی جارہی ہے اور یہ عناصر ہمارے معاشرے سے کم ہوتے جارہے ہیں،محمد شاہد حمید کا کہنا تھا کہ حسن عسکری، غلام عباس اور انتظار حسین نے بھی افسانوں کو تقویت بخشی پھر وہ افسانے کے نام پر تماشاہونے لگا تو منشایاد کا افسانہ بچ گیا، ہم تو اپنی محبتوں کا افسانہ لکھتے ہیں کوئی موضوع نہیں معلومات کیلیے تو مضامین لکھتے رہے ہیں، اس دور میں جدید افسانے کی درست سمت میری دانست میں تاحال متعین نہیں ہوسکی، ممتاز ادیب علی حید ر ملک نے21ویں صدی میں علامتی افسانہ کے بارے میں بتایا کہ ملک میں مارشل لا لگا تو علامتی افسانے لکھے گئے، بیدی کے ساتھ منٹو کا دور مکمل ہوجاتا ہے، انتظار حسین سے علامتی افسانوں کا نیا دور شروع ہوگیا، ہمارے یہاں ضیا الحق کا تیسرا مارشل لاعلامتی افسانوں کا سبب بنا، اس سے پہلے کے افسانہ نگار نے ایوب خان کی کوئی مخالفت نہیں کی۔

ضیاالحق اس لیے بدقسمت حکمران تھے جن کے دور میں ادیبوں اور شاعر وں نے خوب کھل کر لکھا اور اس کے اثرات پوری دنیا میں پھیل گئے، دوسرے سیشن میں ڈاکٹر سید جعفر احمد کی مرتب کردہ کتا ب Challanges of History Writing in South Asiaکی تقریب اجرا ہوئی جس سے خطاب میں ممتاز تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی نے کہا ہے کہ تاریخ دو دھاری تلوار ہے، یہ نفرت بھی پیدا کرتی ہے اور دوستی ومحبت بھی پروان چڑھاتی ہے، میری زندگی کا یہ یادگار اور تاریخی لمحہ ہے، میرے حوالے سے لکھی گئی کتاب میں جن رائٹرز نے حصہ لیا خاص طور پر سید جعفر احمد کامشکور ہوں اور وہ میری مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ وہ میرے پیار اور غصے کو یکساں طور پر برداشت کرتے ہیں جو ان سے میری محبت کی علامت ہے، اس موقع پر سید بلند سہیل،کرامت علی، تسنیم صدیقی، دہلی یونیورسٹی آف انڈیا کے سابق پروفیسر ہربنس مکھیا،سید جعفر احمد و دیگر نے بھی خطاب کیا،تیسرے سیشن میں ممتازڈرامہ ڈائریکٹر اور صداکار ضیامحی الدین کے ساتھ ایک شام منائی گئی۔
Load Next Story