مزدور کو جلد ریلیف ملنا چاہیے
حکومت کی طرف سے آیندہ 48 گھنٹوں میں عوام کو ریلیف ملے گا، طویل المیعاد منصوبے تو عمر بھر چلتے رہیں گے۔
ISLAMABAD:
حکومت نے جمعہ کو مکمل لاک ڈاؤن کیا اور وہ بھی کرفیو جیسی سختی کے ساتھ کر کے دیکھ لیا، عوام نے حکومتی اقدامات پر سیکیورٹی اداروں و قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے مکمل تعاون کیا، اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ریاستی اور حکومتی سطح پر دور اندیشی پر مبنی اہم فیصلے کب ہوتے ہیں اور عوام کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کتنا فری ہینڈ ملتا ہے؟
اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ عالمی اور ملکی سطح پر کورونا کو ایک عظیم تر ناگہانی مصیبت کے طور پر عوام کے اعصاب پر سوار کیا گیا، ایک پاکستان ہی پر موقوف نہیں بلکہ پوری دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کے با اثر سیاستدانوں، مسیحاؤں، سائنسدانوں اور جینئیس لوگوں نے اپنی سی بہت کی مگر وہ جو کسی نے کہا ہے:
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں
تقریبا ساری مملکتیں اور عہد ساز سائنسدان، تیکنیک کار، موجد اور ڈاکٹر کورونا وائرس کی کوئی ویکسین بنا نہ سکے، اس کا کوئی شافی و کافی علاج تاحال تلاش نہیں ہوا، نوع انسانی کو جو معالجاتی ہدایات ملیں وہ یہی تھیں کہ گھر میں رہیں، سماجی فاصلہ رکھیں، کھانسی، نزلہ، بخار، چھینک آئے، فلو کا شبہ ہو اور پیٹ و پھیپھڑوں میں کوئی تکلیف ہونے لگے تو اسپتال کا رخ کریں، بار بار ہاتھ دھوئیں، اب تو تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سانس اور گفتگو سے بھی کورونا ہوسکتا ہے۔ یوں پاکستان سمیت پوری دنیا کے بیشتر ممالک کورونا کے وائرس کی زد میں ہیں، ہزاروں جاں بحق ہوچکے اور لاتعداد متاثرین صحت یابی کے منتظر ہیں۔
دنیا ایک Mega Hyped سیناریو میں الجھی ہوئی ہے جو صحت مند ہیں ان کو بھی کورونا ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن ایک حکمت عملی اور ضرورت تو ہے مگر دنیا سے کورونا کو لاک ڈاؤن کی مدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مگر کون سنتا ہے فغان درویش۔
وزیراعظم عمران خان نے تعمیرات کے شعبہ کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تعمیراتی شعبہ کو 14اپریل سے کھول دیا جائے گا، اس سال تعمیراتی شعبے میں سرمایہ لگانے والے سے ذریعہ آمدن نہیں پوچھا جائے گا، فکسڈ ٹیکس نافذ ہو گا، سیمنٹ اور اسٹیل انڈسٹری کے سوا تمام تعمیراتی شعبوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گھر فروخت کرنے والوں سے کیپیٹل گین ٹیکس نہیں لیا جائے گا، کنسٹرکشن انڈسٹری ڈویلپمنٹ بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
وزیراعظم ہاؤسنگ پروگرام میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو90 فیصد ٹیکس ریبیٹ دیا جائے گا اور وہ صرف اپنے منصوبوں پر ٹیکس کی مجموعی رقم کا 10فیصد ادا کریں گے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کی حکومتوں کی مشاورت سے تعمیراتی شعبے پر سیلز ٹیکس تمام ٹیکسوں کو یکجا کر کے دو فیصد کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پیکیج کے اعلان کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے30 ارب کی سبسڈی، شعبہ تعمیرات کو انڈسٹری کا درجہ دینے جا رہے ہیں۔
حکومت نے یہ فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے کیا ہے اور اس کا مقصد کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجہ میں بری طرح متاثر ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنا ہے۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے پیکیج کے اعلان پر اظہار تشکر کیا ہے لیکن ماہرین تعمیرات نے سوالات اٹھائے ہیں، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا، جب کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تھا حکومت کو ملکی معیشت اور صحت کے حوالے سے پید ا ہونے والے چیلنجز پر سوچ بچار کرنا چاہیے تھا مگر حکمرانوں نے سیاسی کشیدگی کی روک تھام پر توجہ نہ دی بلکہ سیاسی درجہ حرارت بڑھتا چلا گیا اور یہ نہ سوچا گیا کہ کہ کورونا وائرس کے اثرات و مضمرات کیا ہونگے، لیکن ارباب اختیار نے وبا کی ابتدا ہی میں دنیا سے امداد طلب کی اور کوشش اس بات کی ہوتی رہی کہ عوام کو لاک ڈاؤن کرکے کورونا کو تھکا دیا جائے، لیکن اس اسٹرٹیجی کے بیک فائر ہونے کے خطرات پہلے بھی تھے جب کہ صرف لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عوام کی معاشی حالت کی بہتری پر بھی توجہ مرکوز رکھنے سے گریز کی ہم سب نے بھاری قیمت ادا کی، لوگ ذہنی طور تھک چکے، ان میں مزید قید رہنے اور بھوکے مرنے کی سکت نہیں رہی، گزشتہ دنوں کراچی میں لیاقت آباد کے عوام کی شورش سے حکمرانوں کو اندازہ کرلینا چاہیے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، صوبائی حکومتیں اپنے کورونا میکنزم اور اسٹرٹیجی کو وبا کے دائمی علاج کی طرف سائنسی فکر اور ٹھوس عملی اقدامات سے ہم آہنگ کریں، واضح اہداف کے مطابق معاشی ریلیف دیں اور کورونا کے علاج کی ناگزیر سہولتوں کی فراہمی بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں، خوف اور بے جا تشہیر سے کورونا کے انسانی مسئلہ کو سیاست کی نذر کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں، وقت قومی اتفاق رائے کا ہے۔
وزیراعظم نے شرح صدر کے ساتھ کہا ہے کہ22 کروڑ لوگوں کو بند نہیں کر سکتے، مکمل لاک ڈاؤن سے امن و امان کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے، یہ ایک صائب انداز فکر ہے، سیاسی قیادتوں تک اس پیغام کو جلد پہنچ جانا چاہیے، وزیراعظم نے مزید کہا کہ ساری قوم مل کر کورونا کو شکست دے گی، خیراتی اداروں کی سرگرمیوں کو مربوط بنائیں گے، زراعت اور مال بردار ٹرانسپورٹ کا شعبہ مکمل طور پر کھلا ہوا ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے لگے کہ وفاق کوئی زبردستی کر رہا ہے، ٹائیگر فورس محلوں میں جا کر لوگوں کو آگاہی فراہم کرے گی، کورونا ریلیف فنڈ کمزور طبقے کے لیے قائم کیا گیا ہے، بجلی اور گیس کے بل کی ادائیگی میں تین مہینے کا ریلیف دیا ہے، کسی کا کنکشن منقطع نہیں کیا جائے گا، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں اور جو لوگ کرائے نہیں دے سکتے ان کے لیے بھی پالیسی بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا پوری دنیا میں چیلنج بن چکا ہے۔
پاکستان میں کورونا کا چیلنج مغرب سے مختلف ہے، مغرب میں ایک طرف کورونا ہے تو دوسری طرف معیشت ہے اور پاکستان میں ایک طرف کورونا اور دوسری طرف بھوک ہے، چین نے ووہان کو مکمل طور پر دو ماہ کے لیے لاک ڈاؤن کیے رکھا، ہم پورے ملک کو لاک ڈاؤن نہیں کر سکتے، اگر ہم لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو کیا ہم غریبوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں گے، صرف ڈیفنس اور گلبرگ کے علاقے میں لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہوگا، لاک ڈاؤن تب کامیاب ہوگا جب کچی آبادیوں اور غریبوں کے محلوں میں بھی کیا جائے۔ ہم نے عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کے لیے1200ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا ہے، اس سے ایسے خاندان جن کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے کو مدد ملے گی، ایک کروڑ افراد پیکیج لینے کے لیے رجسٹر ہوئے ہیں 40 لاکھ افراد کو چند روز میں چیک ملنا شروع ہو جائیں گے۔
کورونا ریلیف فنڈ کمزور طبقے کے لیے قائم کیا گیا ہے، ہم یہ فنڈ بڑھانے کی کوشش کریں گے، کہیں بھی خوراک کی قلت نہیں ہونے دی جائے گی، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کو نشان عبرت بنایا جائے گا، ٹائیگر فورس اپنے علاقوں میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرے گی، پاکستان میں زراعت کا شعبہ مکمل طور پر کھلا ہے، چھوٹے بڑے شہروں میں ریستوران سے کھانے پینے کی چیزیں لے کر جانے کی اجازت ہے، اس کے ساتھ ساتھ مال بردار ٹرانسپورٹ کو بھی کھلا رکھا گیا ہے۔
ایسے مقامات پر مکمل لاک ڈاؤن لگایا گیا ہے جہاں عوام کے اکٹھے ہونے کا خدشہ ہے جیسے کہ اسکول، کالجز، شادی ہالز اور کھیلوں کے میدان ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وائرس کتنی تیزی سے پھیلے گا لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ پاکستان میں کورونا کا خطرہ نہیں ہے، نوجوانوں کو اپنے بزرگوں اور بیمار اہل خانہ کو کورونا وائرس کے خطرے سے بچانا ہو گا۔ صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جاتا ہے، پاک فوج اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل مدد کر رہی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افواج پاکستان کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ غیر معینہ مدت تک لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے، وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ چھپے دشمن کو متحد ہوکر شکست دینی ہے۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ کورونا نے عالمی ماحول یکسر بدل دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعمیرات کے شعبے کے لیے بڑے پیکیج کی حکومتی پیشکش سامنے لائی گئی ہے، لیکن اس کے نتائج فوری تو سامنے نہیں آسکتے، تعمیرات کا شعبہ سات عشرے گزرنے پر بھی ایک صنعت کا درجہ حاصل نہ کرسکا، بلڈرز نے ملکی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر آج سب سے اہم سوال تعمیراتی مزدور سمیت ملک کا ہر محنت کش پابجولاں اور مقروض و مفلس ہے، کورونا وائرس کے باعث اس کی حالت دیدہ عبرت نگاہ ہے، کنسٹرکشن میں سرمایہ کاری ضرور ہونی چاہیے لیکن اس میں وقت لگے گا، دیہاڑی دار مزدور کو فوری ریلیف نہیں ملے گا، اس میں وقت لگے گا، بلڈرز کے لیے بیش بہا مراعات ہیں مگر مزدور اور دیہاڑی دار کو آج اور ابھی مالی امداد چاہیے، اس کے بچوں اور اہل خانہ کو راشن کی ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کی طرف سے آیندہ 48 گھنٹوں میں عوام کو ریلیف ملے گا، طویل المیعاد منصوبے تو عمر بھر چلتے رہیں گے۔
حکومت نے جمعہ کو مکمل لاک ڈاؤن کیا اور وہ بھی کرفیو جیسی سختی کے ساتھ کر کے دیکھ لیا، عوام نے حکومتی اقدامات پر سیکیورٹی اداروں و قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے مکمل تعاون کیا، اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ریاستی اور حکومتی سطح پر دور اندیشی پر مبنی اہم فیصلے کب ہوتے ہیں اور عوام کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے کتنا فری ہینڈ ملتا ہے؟
اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ عالمی اور ملکی سطح پر کورونا کو ایک عظیم تر ناگہانی مصیبت کے طور پر عوام کے اعصاب پر سوار کیا گیا، ایک پاکستان ہی پر موقوف نہیں بلکہ پوری دنیا کے طاقتور ترین ملکوں کے با اثر سیاستدانوں، مسیحاؤں، سائنسدانوں اور جینئیس لوگوں نے اپنی سی بہت کی مگر وہ جو کسی نے کہا ہے:
ہم نے اپنی سی کی بہت لیکن
مرضِ عشق کا علاج نہیں
تقریبا ساری مملکتیں اور عہد ساز سائنسدان، تیکنیک کار، موجد اور ڈاکٹر کورونا وائرس کی کوئی ویکسین بنا نہ سکے، اس کا کوئی شافی و کافی علاج تاحال تلاش نہیں ہوا، نوع انسانی کو جو معالجاتی ہدایات ملیں وہ یہی تھیں کہ گھر میں رہیں، سماجی فاصلہ رکھیں، کھانسی، نزلہ، بخار، چھینک آئے، فلو کا شبہ ہو اور پیٹ و پھیپھڑوں میں کوئی تکلیف ہونے لگے تو اسپتال کا رخ کریں، بار بار ہاتھ دھوئیں، اب تو تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سانس اور گفتگو سے بھی کورونا ہوسکتا ہے۔ یوں پاکستان سمیت پوری دنیا کے بیشتر ممالک کورونا کے وائرس کی زد میں ہیں، ہزاروں جاں بحق ہوچکے اور لاتعداد متاثرین صحت یابی کے منتظر ہیں۔
دنیا ایک Mega Hyped سیناریو میں الجھی ہوئی ہے جو صحت مند ہیں ان کو بھی کورونا ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن ایک حکمت عملی اور ضرورت تو ہے مگر دنیا سے کورونا کو لاک ڈاؤن کی مدد سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ مگر کون سنتا ہے فغان درویش۔
وزیراعظم عمران خان نے تعمیرات کے شعبہ کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت تعمیراتی شعبہ کو 14اپریل سے کھول دیا جائے گا، اس سال تعمیراتی شعبے میں سرمایہ لگانے والے سے ذریعہ آمدن نہیں پوچھا جائے گا، فکسڈ ٹیکس نافذ ہو گا، سیمنٹ اور اسٹیل انڈسٹری کے سوا تمام تعمیراتی شعبوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گھر فروخت کرنے والوں سے کیپیٹل گین ٹیکس نہیں لیا جائے گا، کنسٹرکشن انڈسٹری ڈویلپمنٹ بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
وزیراعظم ہاؤسنگ پروگرام میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو90 فیصد ٹیکس ریبیٹ دیا جائے گا اور وہ صرف اپنے منصوبوں پر ٹیکس کی مجموعی رقم کا 10فیصد ادا کریں گے۔ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کی حکومتوں کی مشاورت سے تعمیراتی شعبے پر سیلز ٹیکس تمام ٹیکسوں کو یکجا کر کے دو فیصد کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پیکیج کے اعلان کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے30 ارب کی سبسڈی، شعبہ تعمیرات کو انڈسٹری کا درجہ دینے جا رہے ہیں۔
حکومت نے یہ فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے کیا ہے اور اس کا مقصد کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے نتیجہ میں بری طرح متاثر ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنا ہے۔ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) نے پیکیج کے اعلان پر اظہار تشکر کیا ہے لیکن ماہرین تعمیرات نے سوالات اٹھائے ہیں، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا، جب کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تھا حکومت کو ملکی معیشت اور صحت کے حوالے سے پید ا ہونے والے چیلنجز پر سوچ بچار کرنا چاہیے تھا مگر حکمرانوں نے سیاسی کشیدگی کی روک تھام پر توجہ نہ دی بلکہ سیاسی درجہ حرارت بڑھتا چلا گیا اور یہ نہ سوچا گیا کہ کہ کورونا وائرس کے اثرات و مضمرات کیا ہونگے، لیکن ارباب اختیار نے وبا کی ابتدا ہی میں دنیا سے امداد طلب کی اور کوشش اس بات کی ہوتی رہی کہ عوام کو لاک ڈاؤن کرکے کورونا کو تھکا دیا جائے، لیکن اس اسٹرٹیجی کے بیک فائر ہونے کے خطرات پہلے بھی تھے جب کہ صرف لاک ڈاؤن کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ عوام کی معاشی حالت کی بہتری پر بھی توجہ مرکوز رکھنے سے گریز کی ہم سب نے بھاری قیمت ادا کی، لوگ ذہنی طور تھک چکے، ان میں مزید قید رہنے اور بھوکے مرنے کی سکت نہیں رہی، گزشتہ دنوں کراچی میں لیاقت آباد کے عوام کی شورش سے حکمرانوں کو اندازہ کرلینا چاہیے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا، صوبائی حکومتیں اپنے کورونا میکنزم اور اسٹرٹیجی کو وبا کے دائمی علاج کی طرف سائنسی فکر اور ٹھوس عملی اقدامات سے ہم آہنگ کریں، واضح اہداف کے مطابق معاشی ریلیف دیں اور کورونا کے علاج کی ناگزیر سہولتوں کی فراہمی بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں، خوف اور بے جا تشہیر سے کورونا کے انسانی مسئلہ کو سیاست کی نذر کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں، وقت قومی اتفاق رائے کا ہے۔
وزیراعظم نے شرح صدر کے ساتھ کہا ہے کہ22 کروڑ لوگوں کو بند نہیں کر سکتے، مکمل لاک ڈاؤن سے امن و امان کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے، یہ ایک صائب انداز فکر ہے، سیاسی قیادتوں تک اس پیغام کو جلد پہنچ جانا چاہیے، وزیراعظم نے مزید کہا کہ ساری قوم مل کر کورونا کو شکست دے گی، خیراتی اداروں کی سرگرمیوں کو مربوط بنائیں گے، زراعت اور مال بردار ٹرانسپورٹ کا شعبہ مکمل طور پر کھلا ہوا ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے لگے کہ وفاق کوئی زبردستی کر رہا ہے، ٹائیگر فورس محلوں میں جا کر لوگوں کو آگاہی فراہم کرے گی، کورونا ریلیف فنڈ کمزور طبقے کے لیے قائم کیا گیا ہے، بجلی اور گیس کے بل کی ادائیگی میں تین مہینے کا ریلیف دیا ہے، کسی کا کنکشن منقطع نہیں کیا جائے گا، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں اور جو لوگ کرائے نہیں دے سکتے ان کے لیے بھی پالیسی بنا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کورونا پوری دنیا میں چیلنج بن چکا ہے۔
پاکستان میں کورونا کا چیلنج مغرب سے مختلف ہے، مغرب میں ایک طرف کورونا ہے تو دوسری طرف معیشت ہے اور پاکستان میں ایک طرف کورونا اور دوسری طرف بھوک ہے، چین نے ووہان کو مکمل طور پر دو ماہ کے لیے لاک ڈاؤن کیے رکھا، ہم پورے ملک کو لاک ڈاؤن نہیں کر سکتے، اگر ہم لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو کیا ہم غریبوں کی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں گے، صرف ڈیفنس اور گلبرگ کے علاقے میں لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہوگا، لاک ڈاؤن تب کامیاب ہوگا جب کچی آبادیوں اور غریبوں کے محلوں میں بھی کیا جائے۔ ہم نے عام آدمی کو ریلیف پہنچانے کے لیے1200ارب روپے کا ریلیف پیکیج دیا ہے، اس سے ایسے خاندان جن کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے کو مدد ملے گی، ایک کروڑ افراد پیکیج لینے کے لیے رجسٹر ہوئے ہیں 40 لاکھ افراد کو چند روز میں چیک ملنا شروع ہو جائیں گے۔
کورونا ریلیف فنڈ کمزور طبقے کے لیے قائم کیا گیا ہے، ہم یہ فنڈ بڑھانے کی کوشش کریں گے، کہیں بھی خوراک کی قلت نہیں ہونے دی جائے گی، ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کو نشان عبرت بنایا جائے گا، ٹائیگر فورس اپنے علاقوں میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرے گی، پاکستان میں زراعت کا شعبہ مکمل طور پر کھلا ہے، چھوٹے بڑے شہروں میں ریستوران سے کھانے پینے کی چیزیں لے کر جانے کی اجازت ہے، اس کے ساتھ ساتھ مال بردار ٹرانسپورٹ کو بھی کھلا رکھا گیا ہے۔
ایسے مقامات پر مکمل لاک ڈاؤن لگایا گیا ہے جہاں عوام کے اکٹھے ہونے کا خدشہ ہے جیسے کہ اسکول، کالجز، شادی ہالز اور کھیلوں کے میدان ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ وائرس کتنی تیزی سے پھیلے گا لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ پاکستان میں کورونا کا خطرہ نہیں ہے، نوجوانوں کو اپنے بزرگوں اور بیمار اہل خانہ کو کورونا وائرس کے خطرے سے بچانا ہو گا۔ صورتحال کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا جاتا ہے، پاک فوج اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل مدد کر رہی ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افواج پاکستان کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے، انھوں نے یہ بھی کہا کہ غیر معینہ مدت تک لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے، وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ چھپے دشمن کو متحد ہوکر شکست دینی ہے۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ کورونا نے عالمی ماحول یکسر بدل دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعمیرات کے شعبے کے لیے بڑے پیکیج کی حکومتی پیشکش سامنے لائی گئی ہے، لیکن اس کے نتائج فوری تو سامنے نہیں آسکتے، تعمیرات کا شعبہ سات عشرے گزرنے پر بھی ایک صنعت کا درجہ حاصل نہ کرسکا، بلڈرز نے ملکی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر آج سب سے اہم سوال تعمیراتی مزدور سمیت ملک کا ہر محنت کش پابجولاں اور مقروض و مفلس ہے، کورونا وائرس کے باعث اس کی حالت دیدہ عبرت نگاہ ہے، کنسٹرکشن میں سرمایہ کاری ضرور ہونی چاہیے لیکن اس میں وقت لگے گا، دیہاڑی دار مزدور کو فوری ریلیف نہیں ملے گا، اس میں وقت لگے گا، بلڈرز کے لیے بیش بہا مراعات ہیں مگر مزدور اور دیہاڑی دار کو آج اور ابھی مالی امداد چاہیے، اس کے بچوں اور اہل خانہ کو راشن کی ضرورت ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حکومت کی طرف سے آیندہ 48 گھنٹوں میں عوام کو ریلیف ملے گا، طویل المیعاد منصوبے تو عمر بھر چلتے رہیں گے۔