ہمیںاپنے پیمانے بنانے ہوں گے
zangar100@gmail.com
معلوم نہیںیہ ہر مفتوح تہذیب کی طرح غالب تہذیب سے متاثرہونیوالی نفسیات ہے یاایک صدی سے کچھ زائد تک گوروں کی غلامی کانتیجہ کہ ہم مغرب سے آنے والی ہر چیز پر دل وجاں سے ایمان لے آتے ہیں۔ مرعوبیت اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی اس حوالے سے سوال اٹھانے کی جرات ہی نہیں کرتا۔عام آدمی تو خیربے چارہ ان نزاکتوں اور پیچیدگیوں سے ناواقف ہوتا ہے، اہل دانش بھی اپنے احساس کمتری سے نہیں نکل پاتے۔انھیں خدشہ ہوتا ہے کہ کہیںانھیں بھی رجعت پسندوں کی اس صف میں شامل نہ کر لیا جائے جن پر روشن خیالوں کا نام نہاد ٹولہ صبح شام حقارت آمیزجملے اچھالتا رہتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا ہے تو سہی جو مغرب کو بڑی بیزاری اور تحقیر سے دیکھتا ہے۔وہ گوروں کے ہر فعل کو شک وشبے کی عینک لگا کر تجزیہ کرتے ہیں، سازشی نظریات تراشنا اور ان پر دل وجاں سے یقین لے آنا ان کا شیوہ ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ احساس کمتری کے شکارپہلے گروہ کی طرح یہ لوگ بھی ایک دوسری شدت کا شکار ہیں۔مغرب دشمنی میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ پولیو ویکسین تک کو سازش قراردے دیتے ہیں، ایسے ہی کچھ لوگوں نے آئیوڈین ملے نمک کے استعمال کے خلاف مہم چلا ڈالی کہ اس سے اولاد نہیں ہوپائے گی، انگریزی زبان کی بلاسوچے سمجھے مخالفت بھی ان کا شعار ہے۔ اگر وہ اسکولوں میں تعلیم کو انگریزی میڈیم میںدینے کی مخالفت کریں تو بات سمجھ میںآتی ہے،مگر انگریزی کا ہرجگہ بائیکاٹ دراصل ایک شکست خوردہ ذہنیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر اس گروہ میں غالب اکثریت روایتی مذہبی فکر کے لوگوں کی ہے،جو معاشرے کا نسبتاً رجعت پسندانہ طبقہ سمجھے جاتے ہیں۔ یوں اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کی جانب سے کسی درآمدہ فکر یانظریے کی مخالفت کا وہ اثر یا امپیکٹ نہیں پڑتا،جیسا کہ انٹیلی جنشیا کی عمومی مخالفت سے پڑسکتا ہے۔
مغرب سے ہونے والی ثقافتی اور فکری یلغار کے کئی پہلو اپنی جگہ اہم ہیں ، ان پر وقتاً فوقتاًبات ہوتی رہے گی۔سردست ہم دو باتوں کو لیتے ہیں۔ پچھلے تین چار برسوں میں یہ بات بار بار محسوس ہوئی کہ ہماری روایتی اخلاقیات کی جگہ بھی مغرب سے درآنے والی اخلاقیات نے لے لی ہے۔ دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک خاص پہلو ہے کہ اپنی پراڈکٹ بیچنے اور کنزیومر (صارف)مارکیٹ بنانے کے لیے وہ لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی کو بدل دیتاہے۔ یہ کام بڑے منظم انداز سے پرکشش اشتہاری مہم کے ذریعے کیاجاتاہے۔ پھر لکھاریوںاور رائے بنانے والوںپر اثرانداز ہوا جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ اس نئے ٹرینڈکی مزاحمت کرنا چھوڑ دیتے اور بتدریج اسے قبول کر لیتے ہیں ۔ جب اشرافیہ کسی فیشن اور ٹرینڈ کو قبول کر لے، جب انٹیلی جنشیا اور رائے بنا سکنے کی قوت رکھنے والے دانشور اور تجزیہ کار اس پر خاموش ہوجائیں تووہ بڑی تیزی سے متوسط اور نچلے طبقات تک سرائیت کر جاتی ہے۔ ہمارے ہاں فادرز ڈے ، مدرز ڈے سے لے کر ویلنٹائن ڈے تک جو کچھ ہونے لگا ہے، صرف چند برس پہلے تک کسی نے ان کا سنا بھی نہیںتھا۔ ہیلووین پارٹیوں سے لے کر نجانے کس کس انداز کی نئی رسومات ہمارے کلچر میں سرائیت کر رہی ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں۔ ابھی پچھلے روز ہمارے ایک دوست جو ایک معروف غیرملکی نشریاتی ادارے سے وابستہ ہیں، انھوں نے بڑی دردمندی سے یہ موضوع چھیڑا۔ وہ سینئر صحافی ہیں، یورپ اور امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک گھوم چکے ہیں۔ جدید تہذیب کے مخالف نہیں، اچھے بھلے روشن خیال اور ماڈریٹ آدمی ہیں۔ ان کی دو پیاری سی ننھی بیٹیاں شہر کے ایک بڑے اسکول میں تعلیم پا رہی ہیں۔ کہنے لگے ،'' کچھ عرصے سے مجھے یوں محسوس ہو نے لگا کہ میری بیٹیوں اور مجھ میں خاصاکمیونیکیشن گیپ آگیا ہے۔ میںاپنی صحافتی مصروفیت کے باوجود بچیوں کو ٹائم دینے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ ان کے لیے جدیدترین گیجٹ بھی لے رکھے ہیں، تاکہ وہ جدید ویڈیوگیمز کھیل سکیں۔ اس سب کچھ کے باوجود مجھے یوں لگنے لگاکہ میں صرف ان کے لیے چیزیں فراہم کرنے والی ایک مشین ہوں۔ وہ کسی اور دنیا کی باسی ہیں اور میں کہیں اور بستا ہوں۔ حالانکہ ابھی میری بیٹی صرف دس گیارہ برس کی ہے، چھوٹی تو صرف چھ سات سال کی ہے۔اس کے باوجود اتنی تیزی سے کمیونیکیشن گیپ پیدا ہوگیا کہ غور کرنے پر میں دہل سا گیا۔ میری بچیوں کی سوچیں، ان کے پسندیدہ کردار،ان کی فیری ٹیلز،ان کے آئیڈیلز بالکل ہی اور بن رہے ہیں، جن کا ہمارے ماحول، کلچر اور ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ میں نے اپنی بیوی سے میٹنگ کی،جو خود یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں۔ ہم نے طے کیا کہ بچے ہی ہماری کل کائنات ہیں۔ ابھی کچھ نہیںگیا، ہم انھیں دوبارہ واپس لا سکتے ہیں۔ میں نے اپنی صحافتی ذمے داریاں محدود کرلی ہیں، آمدنی میںضرور کچھ کمی ہوئی،مگر اب روزانہ دو تین گھنٹے بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ہم نے روزانہ ایک گھنٹہ اسٹڈی آور قرار دیا ہے ۔ میں انھیں کہانیاں سناتا ہوں، اسلامی تاریخ کی کہانیاں، قصص الانبیا، اپنی لوک کہانیاں، اپنے معاشرے، گھر اور بزرگوں کی باتیں...۔انھیں بتاتے ہیں کہ ہمارا کلچر کیا ہے، ہماری جڑیں کہاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس محنت کے نتیجے میں اب رفتہ رفتہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم دوبارہ سے ایک خاندان بن گئے ہیں۔ '' ہم سب دوستوںنے اپنے اس صحافی دوست کی کہانی سنی۔ ہم متفق تھے کہ یہ صرف ان کا نہیںبلکہ ہم سب کا مسئلہ بن رہا ہے،یہ شہری مڈل کلاس کا مسئلہ بن چکا ہے،ہم اپنے بچوںکو بہتر تعلیم کے لیے اعلیٰ اسکولوں میں داخل کراتے ہیں،جن کا نصاب باہر کے اسکولوں کی مناسبت سے ہوتا ہے،جسے پاکستانی کلچراور ثقافت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ جب ہمارے بچے اس میٹھے زہر کے عادی ہوجاتے ہیںتب ہمیںاندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر بڑا نقصان ہوگیا۔ بدقسمتی سے ان دوست کی طرح ہر کسی کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ بچوں کو دے سکے اور منظم پلاننگ کے ساتھ انھیں دوبارہ اپنے ساتھ جوڑلے۔
مغرب سے آنے والی دوسری درآمد سیاسی نوعیت کی ہے۔ پچھلے تین چار برس سے ہماریہاں مختلف امریکی اور یورپی اداروں کے کیے سروے اور پولز کا بڑاشہرہ ہے۔آئے روز اخبارات میں ان اداروں کے سروے شایع ہوتے رہتے ہیں، ان پر درجنوں پروگرام بھی چلتے ہیں۔ کیا کسی نے یہ پوچھا کہ ان سروے کا کیا طریقہ کار ہے، یہ کس قدر فول پروف ہے؟کیا صرف ہزار بارہ سو لوگوں کی رائے لے کر اس کی اوسط نکال لینے سے اٹھارہ کروڑعوام کی رائے معلوم ہوجاتی ہے؟پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام ایک منظم انداز سے سوچنے کے عادی نہیں، جہاں بہت سے مقامی فیکٹرز مقبولیت اور عدم مقبولیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جہاں ہر حلقے کی الگ الگ سیاست ہے، نیشنل سیاست کی بنیاد پر الیکشن نتائج یا مقبولیت کا فیصلہ قطعی طور پرنہیں کیا جا سکتا، وہاں یہ سروے کس حد تک درست ثابت ہوسکتے ہیں۔ اصل میں چونکہ ان سروے میں اپوزیشن لیڈروں کو ریٹنگ اور مقبولیت میں اوپر دکھایا جاتا ہے اور حکومت کو نیچے۔ادھر دنیا بھر کی طرح پاکستان میںبھی حکومتی پارٹی زیرعتاب ہوتی ہے اور اپوزیشن کو ایک رعایت ملتی ہے۔موجودہ حکمران جماعت تو ویسے بھی اپنی نان گورننس کے باعث بہت غیر مقبول ہوچکی ہے۔اس لیے اپوزیشن کے حامی اور حکومت کے نقاد حلقے ان سرویز کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور حکومت کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مثلاً آج کل ایسے ہر سروے میں عمران خان مقبولیت کی انتہا پر پہنچے ہیں جب کہ انتہائی نچلی سطح پر زرداری صاحب کانام آتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ واقعتاً دونوں کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کی یہی پوزیشن ہو،مگر میرا اعتراض تو یہ ہے کہ اگریہ''راز'' ہمیںدو تین مخصوص امریکی اداروں ہی نے بتانا ہے تو پھرہمیں ابھی سے ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ یہ ادارے مفت میں یہ احسان نہیں کرتے، ان کے اپنے مخصوص ایجنڈے ہوتے ہیں، جن پر نظر رکھنی ہوگی۔ خود امریکا میں ان سروے اور پول سسٹم پر اعتراضات ہورہے ہیں۔ وہاں بعض دانشور کہہ رہے ہیں کہ جب کسی خاص کارپوریٹ لابی کو امریکی حکومت سے اپنی کوئی بات منوانی ہوتی ہے، کوئی خاص قانون سازی کرانی یا رکوانی مقصود ہوتی ہے تو ان سروے اور پول کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔ اچانک ہی اوباما کی مقبولیت کم ہونے لگتی ہے۔ پھر جب اوباما حکومت دبائو میں آ جائے ، مطلوبہ کام ہوجائے تو فوراً ریٹنگ بڑھ جاتی ہے۔ ہمیںامریکیوںسے سبق سیکھناچاہیے، جو بات ان لوگوں کو کئی دھوکوں کے بعد سمجھ آرہی ہے، وہ ہمیں ابھی سے سمجھ لینی چاہیے۔ ہمیںہر کام کے لیے اپنے پیمانے بنانے ہوں گے۔
ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا ہے تو سہی جو مغرب کو بڑی بیزاری اور تحقیر سے دیکھتا ہے۔وہ گوروں کے ہر فعل کو شک وشبے کی عینک لگا کر تجزیہ کرتے ہیں، سازشی نظریات تراشنا اور ان پر دل وجاں سے یقین لے آنا ان کا شیوہ ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ احساس کمتری کے شکارپہلے گروہ کی طرح یہ لوگ بھی ایک دوسری شدت کا شکار ہیں۔مغرب دشمنی میں اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ پولیو ویکسین تک کو سازش قراردے دیتے ہیں، ایسے ہی کچھ لوگوں نے آئیوڈین ملے نمک کے استعمال کے خلاف مہم چلا ڈالی کہ اس سے اولاد نہیں ہوپائے گی، انگریزی زبان کی بلاسوچے سمجھے مخالفت بھی ان کا شعار ہے۔ اگر وہ اسکولوں میں تعلیم کو انگریزی میڈیم میںدینے کی مخالفت کریں تو بات سمجھ میںآتی ہے،مگر انگریزی کا ہرجگہ بائیکاٹ دراصل ایک شکست خوردہ ذہنیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ پھر اس گروہ میں غالب اکثریت روایتی مذہبی فکر کے لوگوں کی ہے،جو معاشرے کا نسبتاً رجعت پسندانہ طبقہ سمجھے جاتے ہیں۔ یوں اپنی سادہ لوحی کے باعث ان کی جانب سے کسی درآمدہ فکر یانظریے کی مخالفت کا وہ اثر یا امپیکٹ نہیں پڑتا،جیسا کہ انٹیلی جنشیا کی عمومی مخالفت سے پڑسکتا ہے۔
مغرب سے ہونے والی ثقافتی اور فکری یلغار کے کئی پہلو اپنی جگہ اہم ہیں ، ان پر وقتاً فوقتاًبات ہوتی رہے گی۔سردست ہم دو باتوں کو لیتے ہیں۔ پچھلے تین چار برسوں میں یہ بات بار بار محسوس ہوئی کہ ہماری روایتی اخلاقیات کی جگہ بھی مغرب سے درآنے والی اخلاقیات نے لے لی ہے۔ دراصل یہ سرمایہ دارانہ نظام کا ایک خاص پہلو ہے کہ اپنی پراڈکٹ بیچنے اور کنزیومر (صارف)مارکیٹ بنانے کے لیے وہ لوگوں کے سوچنے کے انداز ہی کو بدل دیتاہے۔ یہ کام بڑے منظم انداز سے پرکشش اشتہاری مہم کے ذریعے کیاجاتاہے۔ پھر لکھاریوںاور رائے بنانے والوںپر اثرانداز ہوا جاتا ہے ، حتیٰ کہ وہ اس نئے ٹرینڈکی مزاحمت کرنا چھوڑ دیتے اور بتدریج اسے قبول کر لیتے ہیں ۔ جب اشرافیہ کسی فیشن اور ٹرینڈ کو قبول کر لے، جب انٹیلی جنشیا اور رائے بنا سکنے کی قوت رکھنے والے دانشور اور تجزیہ کار اس پر خاموش ہوجائیں تووہ بڑی تیزی سے متوسط اور نچلے طبقات تک سرائیت کر جاتی ہے۔ ہمارے ہاں فادرز ڈے ، مدرز ڈے سے لے کر ویلنٹائن ڈے تک جو کچھ ہونے لگا ہے، صرف چند برس پہلے تک کسی نے ان کا سنا بھی نہیںتھا۔ ہیلووین پارٹیوں سے لے کر نجانے کس کس انداز کی نئی رسومات ہمارے کلچر میں سرائیت کر رہی ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں۔ ابھی پچھلے روز ہمارے ایک دوست جو ایک معروف غیرملکی نشریاتی ادارے سے وابستہ ہیں، انھوں نے بڑی دردمندی سے یہ موضوع چھیڑا۔ وہ سینئر صحافی ہیں، یورپ اور امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک گھوم چکے ہیں۔ جدید تہذیب کے مخالف نہیں، اچھے بھلے روشن خیال اور ماڈریٹ آدمی ہیں۔ ان کی دو پیاری سی ننھی بیٹیاں شہر کے ایک بڑے اسکول میں تعلیم پا رہی ہیں۔ کہنے لگے ،'' کچھ عرصے سے مجھے یوں محسوس ہو نے لگا کہ میری بیٹیوں اور مجھ میں خاصاکمیونیکیشن گیپ آگیا ہے۔ میںاپنی صحافتی مصروفیت کے باوجود بچیوں کو ٹائم دینے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ ان کے لیے جدیدترین گیجٹ بھی لے رکھے ہیں، تاکہ وہ جدید ویڈیوگیمز کھیل سکیں۔ اس سب کچھ کے باوجود مجھے یوں لگنے لگاکہ میں صرف ان کے لیے چیزیں فراہم کرنے والی ایک مشین ہوں۔ وہ کسی اور دنیا کی باسی ہیں اور میں کہیں اور بستا ہوں۔ حالانکہ ابھی میری بیٹی صرف دس گیارہ برس کی ہے، چھوٹی تو صرف چھ سات سال کی ہے۔اس کے باوجود اتنی تیزی سے کمیونیکیشن گیپ پیدا ہوگیا کہ غور کرنے پر میں دہل سا گیا۔ میری بچیوں کی سوچیں، ان کے پسندیدہ کردار،ان کی فیری ٹیلز،ان کے آئیڈیلز بالکل ہی اور بن رہے ہیں، جن کا ہمارے ماحول، کلچر اور ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ میں نے اپنی بیوی سے میٹنگ کی،جو خود یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں۔ ہم نے طے کیا کہ بچے ہی ہماری کل کائنات ہیں۔ ابھی کچھ نہیںگیا، ہم انھیں دوبارہ واپس لا سکتے ہیں۔ میں نے اپنی صحافتی ذمے داریاں محدود کرلی ہیں، آمدنی میںضرور کچھ کمی ہوئی،مگر اب روزانہ دو تین گھنٹے بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ہم نے روزانہ ایک گھنٹہ اسٹڈی آور قرار دیا ہے ۔ میں انھیں کہانیاں سناتا ہوں، اسلامی تاریخ کی کہانیاں، قصص الانبیا، اپنی لوک کہانیاں، اپنے معاشرے، گھر اور بزرگوں کی باتیں...۔انھیں بتاتے ہیں کہ ہمارا کلچر کیا ہے، ہماری جڑیں کہاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس محنت کے نتیجے میں اب رفتہ رفتہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہم دوبارہ سے ایک خاندان بن گئے ہیں۔ '' ہم سب دوستوںنے اپنے اس صحافی دوست کی کہانی سنی۔ ہم متفق تھے کہ یہ صرف ان کا نہیںبلکہ ہم سب کا مسئلہ بن رہا ہے،یہ شہری مڈل کلاس کا مسئلہ بن چکا ہے،ہم اپنے بچوںکو بہتر تعلیم کے لیے اعلیٰ اسکولوں میں داخل کراتے ہیں،جن کا نصاب باہر کے اسکولوں کی مناسبت سے ہوتا ہے،جسے پاکستانی کلچراور ثقافت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں۔ جب ہمارے بچے اس میٹھے زہر کے عادی ہوجاتے ہیںتب ہمیںاندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر بڑا نقصان ہوگیا۔ بدقسمتی سے ان دوست کی طرح ہر کسی کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ بچوں کو دے سکے اور منظم پلاننگ کے ساتھ انھیں دوبارہ اپنے ساتھ جوڑلے۔
مغرب سے آنے والی دوسری درآمد سیاسی نوعیت کی ہے۔ پچھلے تین چار برس سے ہماریہاں مختلف امریکی اور یورپی اداروں کے کیے سروے اور پولز کا بڑاشہرہ ہے۔آئے روز اخبارات میں ان اداروں کے سروے شایع ہوتے رہتے ہیں، ان پر درجنوں پروگرام بھی چلتے ہیں۔ کیا کسی نے یہ پوچھا کہ ان سروے کا کیا طریقہ کار ہے، یہ کس قدر فول پروف ہے؟کیا صرف ہزار بارہ سو لوگوں کی رائے لے کر اس کی اوسط نکال لینے سے اٹھارہ کروڑعوام کی رائے معلوم ہوجاتی ہے؟پاکستان جیسے ملک میں جہاں عوام ایک منظم انداز سے سوچنے کے عادی نہیں، جہاں بہت سے مقامی فیکٹرز مقبولیت اور عدم مقبولیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جہاں ہر حلقے کی الگ الگ سیاست ہے، نیشنل سیاست کی بنیاد پر الیکشن نتائج یا مقبولیت کا فیصلہ قطعی طور پرنہیں کیا جا سکتا، وہاں یہ سروے کس حد تک درست ثابت ہوسکتے ہیں۔ اصل میں چونکہ ان سروے میں اپوزیشن لیڈروں کو ریٹنگ اور مقبولیت میں اوپر دکھایا جاتا ہے اور حکومت کو نیچے۔ادھر دنیا بھر کی طرح پاکستان میںبھی حکومتی پارٹی زیرعتاب ہوتی ہے اور اپوزیشن کو ایک رعایت ملتی ہے۔موجودہ حکمران جماعت تو ویسے بھی اپنی نان گورننس کے باعث بہت غیر مقبول ہوچکی ہے۔اس لیے اپوزیشن کے حامی اور حکومت کے نقاد حلقے ان سرویز کو ہاتھوں ہاتھ لیتے اور حکومت کے خلاف ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مثلاً آج کل ایسے ہر سروے میں عمران خان مقبولیت کی انتہا پر پہنچے ہیں جب کہ انتہائی نچلی سطح پر زرداری صاحب کانام آتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ واقعتاً دونوں کی مقبولیت اور عدم مقبولیت کی یہی پوزیشن ہو،مگر میرا اعتراض تو یہ ہے کہ اگریہ''راز'' ہمیںدو تین مخصوص امریکی اداروں ہی نے بتانا ہے تو پھرہمیں ابھی سے ہوشیار ہوجانا چاہیے۔ یہ ادارے مفت میں یہ احسان نہیں کرتے، ان کے اپنے مخصوص ایجنڈے ہوتے ہیں، جن پر نظر رکھنی ہوگی۔ خود امریکا میں ان سروے اور پول سسٹم پر اعتراضات ہورہے ہیں۔ وہاں بعض دانشور کہہ رہے ہیں کہ جب کسی خاص کارپوریٹ لابی کو امریکی حکومت سے اپنی کوئی بات منوانی ہوتی ہے، کوئی خاص قانون سازی کرانی یا رکوانی مقصود ہوتی ہے تو ان سروے اور پول کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے ۔ اچانک ہی اوباما کی مقبولیت کم ہونے لگتی ہے۔ پھر جب اوباما حکومت دبائو میں آ جائے ، مطلوبہ کام ہوجائے تو فوراً ریٹنگ بڑھ جاتی ہے۔ ہمیںامریکیوںسے سبق سیکھناچاہیے، جو بات ان لوگوں کو کئی دھوکوں کے بعد سمجھ آرہی ہے، وہ ہمیں ابھی سے سمجھ لینی چاہیے۔ ہمیںہر کام کے لیے اپنے پیمانے بنانے ہوں گے۔