لاک ڈائون کے تین سال
دنیا کے لاکھوں افراد ان دنوں ٹیلیفون کی نعمت سے استفادہ کر رہے ہونگے۔
صبح بیدار ہوکر بستر چھوڑنے کا ایک وقت ہوا کرتا تھا جب سے کورونا وائرس نامی آفت نے دنیا کے سیکڑوں ملکوں کے بعد پاکستان میں بھی داخل ہوکر تباہی کی ابتدا کی ہے اور ایک متاثرہ شخص سے رابطے و قربت سے دوسروں تک منتقل ہوکر بیماری اور موت کے اسباب پیدا کردیے ہیں۔
علاج اور احتیاط سے اگلا قدم اٹھا اٹھا کر حکومت کو Lock Down کے ذریعے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا پابند کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور سڑکوں بازاروں پر بلا مقصد آنیوالوں کو گرفتار تک کرنے کا قدم اٹھانے کے اختیار کو گرفتار تک کرنے کا قدم اٹھانے کا اختیار دیکر لوگوں کو اس جان لیوا بیماری سے بچانے کا اہتمام کیا ہے۔ اب لوگوں کی آمدورفت بستر سے ڈرائنگ روم تک محدود ہوگئی ہے۔
اب پہلی بار بوقت نماز فجر بستر چھوڑنا ہوتا ہے پھر ناشتے کے لیے اس کے بعد پھر بستر پر اور اس کے بعد اخبار کی سرخیاں پڑھ کر صوفے پر لیٹ جانا، چھوتھی بار اٹھ کر شیو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا، اگر بعد دوپہر فیصلہ شیو کرلینے کے حق میں ہے۔ تو شام چار بجے شلوار کرتا اتار کر پتلون قمیض زیب تن کرکے گھر کی دہلیز پار کرنے کا پلان بنا کر Lock Down کو Violate کرنے کی اسکیم بنانا جس میں بیگم اور دیگر اہل خانہ کی مخالفت کا سامنا لازماً ہوگا کیونکہ کورونا وائرس دنیا کے تمام پبلک مقامات پر دندناتا پھررہا ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم ہو یا ہمارے صوبہ سندھ کا وزیر یہ VIRUS کسی کو نہیں بخشتا۔
فیملی کی مخالفت کے باوجود تین دن کی حراست توڑ کر میں سیاہ رنگ کا ماسک لگا کر مال روڈ کی طرف نکل گیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے سڑک سنسان تھی، پولیس ڈیوٹی پر موجود تھی۔ ایک دو جگہ مجھے روکنے کی نیم دلانہ کوشش ضرور ہوئی لیکن جواباً میرے ہاتھ ہلا کر Wave کرنے پر انھوں نے سمجھا ہوگا کہ میں بھی ڈیوٹی پر ہوں۔ نصف گھنٹے میں طے ہونے والا فاصلہ دس منٹ میں مجھے GPO کے سامنے لے گیا جہاں سے میں نے واپسی کی اور مزید دس منٹ کے بعد میری کار لاہور جمخانہ کلب کے سامنے تھی۔ کلب کا مین گیٹ بند تھا۔ یہ وہ کلب تھی جو ممبرز اور ان کے مہمانوں سے بھری رہتا تھا۔
تیس سال کی ممبر شپ کے دور میں مجھے اس کا گیٹ پہلی بار بند ملا۔ یہ وہ کلب تھا جسے مجھ جیسے سینئر ممبر اب Second Home کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن یہ کلب شہر کی گلیوں، مارکیٹوں اور بازاروں کی طرح سنسان بند اور بے آباد تھا۔ کلب کے چیئرمین کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جواد نے پہلے اس کا جمنیزیم بند کیا پھر ریستوران، پھر بلیئرڈ روم، پھر سوئمنگ پول، پھر لائبریری اور پھر گالف کورس اور آخر میں کلب بند کردیا تاکہ مکمل Lock Down ہوجائے۔ آج صبح سے شام تک میرا آٹھ دس دوستوں سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔
سب کے سب مکمل احتیاط کرتے ہوئے گھروں میں تھے، کوئی صوفے پر لیٹا تھا ،کوئی کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ دو تین بار بار سوتے جاگتے کا کھیل کھیل رہے تھے۔ ایک صحن میں بیٹھے آسمان پر نظریں جمائے تھے۔ ایک ٹیلیوژن کے چینل گھمائے جارہے تھے۔ ایک ٹیلیفون پر مصروف تھے۔ ان میں سے کوئی گھر سے باہر کا چکر لگانا چاہتا تو بیگم یا بچے مخالف ہی نہیں گیٹ لاک کردیتے۔ بینظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری جنھوں نے رسالہ ماہ نامہ ''دھنک'' بحیثیت مالک و مدیر شایع کرنا شروع کیا تو حسن نثار اور کارٹونسٹ جاوید اقبال بھی اس سے منسلک ہوئے تھے۔
یہ جناب سرور سکھیرا اگرچہ برٹش نیشنل ہیں اور باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں لیکن آج کل پاکستان میں مقیم ہیں۔ شام پانچ بجے ان کا ٹیلیفون آیا کہ ''دس روز ہوگئے کورونا وائرس اور Lock Down کی وجہ سے بیٹی گھر سے باہر جانے نہیں دیتی، میں کیا کروں'' میں خود گھر میں مقید ہوں، انھیں صبر اور برداشت کرنے کے سوا کیا مشورہ دیتا کہ یہ عذاب الٰہی تو ساری دنیا پر اترا ہوا ہے لیکن پاکستان کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی نسبت اس وائرس سے کم متاثر ہے اور اگر یورپ اور امریکا سے موازنہ کریں تو ہر وقت دست دعا اٹھائے رکھنا ہی صائب عمل معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ اس کے کہ جسے انگریزی میں Social Distancing کہتے ہیں اس پربہرطور عمل کیا جائے، اس کی ایک حقیقت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ وائرس خود چل کر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ مریض سے قربت اسے وصول کنندہ تک پہنچاتی ہے۔
بیشمار پاکستانیوں کے بچے تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں یورپ امریکا برطانیہ و دیگر ملکوں میں قیام پذیر ہیں، ان کے والدین خود سے زیادہ ان کے لیے دعاگو اور متفکر رہتے ہیں۔ خدا بھلا کرے سائنس و ٹیکنالوجی کے ان مؤجدوں کا جنھوں نے کئی ایجادات کے علاوہ ٹیلیفون میں اتنی جدت پیدا کردی کہ اب ایک دوسرے کو دیکھ کر بات چیت ہوجاتی ہے۔ دنیا کے لاکھوں افراد ان دنوں ٹیلیفون کی نعمت سے استفادہ کر رہے ہونگے۔
یقینا لاک ڈائون کے ان دنوں میں ہمیں نبی کریم حضرت محمدؐ کے تین سال تک شعب ابی طالب کی اس پہاڑی گھاٹی میں اپنے مومن ساتھیوں کے ہمراہ گزار ہوئے دنوں کو یاد رکھنا چاہیے جو انھوں نے محصور رہ کر بھوک بیماری کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ گزارے۔ اس وقت تو ان کے پاس نہ بجلی تھی نہ گیس نہ پانی نہ فرج نہ صوفہ نہ بستر نہ انواح و اقسام کے کھانے نہ TV نہ فون نہ موٹر نہ مشروب نہ ادویات، ہمیں آج کے Lock Down میں شعب ابی طالب کے لاک ڈائون کو یاد رکھنا چاہیے۔
علاج اور احتیاط سے اگلا قدم اٹھا اٹھا کر حکومت کو Lock Down کے ذریعے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا پابند کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور سڑکوں بازاروں پر بلا مقصد آنیوالوں کو گرفتار تک کرنے کا قدم اٹھانے کے اختیار کو گرفتار تک کرنے کا قدم اٹھانے کا اختیار دیکر لوگوں کو اس جان لیوا بیماری سے بچانے کا اہتمام کیا ہے۔ اب لوگوں کی آمدورفت بستر سے ڈرائنگ روم تک محدود ہوگئی ہے۔
اب پہلی بار بوقت نماز فجر بستر چھوڑنا ہوتا ہے پھر ناشتے کے لیے اس کے بعد پھر بستر پر اور اس کے بعد اخبار کی سرخیاں پڑھ کر صوفے پر لیٹ جانا، چھوتھی بار اٹھ کر شیو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا، اگر بعد دوپہر فیصلہ شیو کرلینے کے حق میں ہے۔ تو شام چار بجے شلوار کرتا اتار کر پتلون قمیض زیب تن کرکے گھر کی دہلیز پار کرنے کا پلان بنا کر Lock Down کو Violate کرنے کی اسکیم بنانا جس میں بیگم اور دیگر اہل خانہ کی مخالفت کا سامنا لازماً ہوگا کیونکہ کورونا وائرس دنیا کے تمام پبلک مقامات پر دندناتا پھررہا ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم ہو یا ہمارے صوبہ سندھ کا وزیر یہ VIRUS کسی کو نہیں بخشتا۔
فیملی کی مخالفت کے باوجود تین دن کی حراست توڑ کر میں سیاہ رنگ کا ماسک لگا کر مال روڈ کی طرف نکل گیا۔ لاک ڈائون کی وجہ سے سڑک سنسان تھی، پولیس ڈیوٹی پر موجود تھی۔ ایک دو جگہ مجھے روکنے کی نیم دلانہ کوشش ضرور ہوئی لیکن جواباً میرے ہاتھ ہلا کر Wave کرنے پر انھوں نے سمجھا ہوگا کہ میں بھی ڈیوٹی پر ہوں۔ نصف گھنٹے میں طے ہونے والا فاصلہ دس منٹ میں مجھے GPO کے سامنے لے گیا جہاں سے میں نے واپسی کی اور مزید دس منٹ کے بعد میری کار لاہور جمخانہ کلب کے سامنے تھی۔ کلب کا مین گیٹ بند تھا۔ یہ وہ کلب تھی جو ممبرز اور ان کے مہمانوں سے بھری رہتا تھا۔
تیس سال کی ممبر شپ کے دور میں مجھے اس کا گیٹ پہلی بار بند ملا۔ یہ وہ کلب تھا جسے مجھ جیسے سینئر ممبر اب Second Home کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن یہ کلب شہر کی گلیوں، مارکیٹوں اور بازاروں کی طرح سنسان بند اور بے آباد تھا۔ کلب کے چیئرمین کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جواد نے پہلے اس کا جمنیزیم بند کیا پھر ریستوران، پھر بلیئرڈ روم، پھر سوئمنگ پول، پھر لائبریری اور پھر گالف کورس اور آخر میں کلب بند کردیا تاکہ مکمل Lock Down ہوجائے۔ آج صبح سے شام تک میرا آٹھ دس دوستوں سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے۔
سب کے سب مکمل احتیاط کرتے ہوئے گھروں میں تھے، کوئی صوفے پر لیٹا تھا ،کوئی کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ دو تین بار بار سوتے جاگتے کا کھیل کھیل رہے تھے۔ ایک صحن میں بیٹھے آسمان پر نظریں جمائے تھے۔ ایک ٹیلیوژن کے چینل گھمائے جارہے تھے۔ ایک ٹیلیفون پر مصروف تھے۔ ان میں سے کوئی گھر سے باہر کا چکر لگانا چاہتا تو بیگم یا بچے مخالف ہی نہیں گیٹ لاک کردیتے۔ بینظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری جنھوں نے رسالہ ماہ نامہ ''دھنک'' بحیثیت مالک و مدیر شایع کرنا شروع کیا تو حسن نثار اور کارٹونسٹ جاوید اقبال بھی اس سے منسلک ہوئے تھے۔
یہ جناب سرور سکھیرا اگرچہ برٹش نیشنل ہیں اور باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں لیکن آج کل پاکستان میں مقیم ہیں۔ شام پانچ بجے ان کا ٹیلیفون آیا کہ ''دس روز ہوگئے کورونا وائرس اور Lock Down کی وجہ سے بیٹی گھر سے باہر جانے نہیں دیتی، میں کیا کروں'' میں خود گھر میں مقید ہوں، انھیں صبر اور برداشت کرنے کے سوا کیا مشورہ دیتا کہ یہ عذاب الٰہی تو ساری دنیا پر اترا ہوا ہے لیکن پاکستان کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی نسبت اس وائرس سے کم متاثر ہے اور اگر یورپ اور امریکا سے موازنہ کریں تو ہر وقت دست دعا اٹھائے رکھنا ہی صائب عمل معلوم ہوتا ہے۔
علاوہ اس کے کہ جسے انگریزی میں Social Distancing کہتے ہیں اس پربہرطور عمل کیا جائے، اس کی ایک حقیقت کو کسی صورت نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہ وائرس خود چل کر کسی پر حملہ آور نہیں ہوتا۔ مریض سے قربت اسے وصول کنندہ تک پہنچاتی ہے۔
بیشمار پاکستانیوں کے بچے تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں یورپ امریکا برطانیہ و دیگر ملکوں میں قیام پذیر ہیں، ان کے والدین خود سے زیادہ ان کے لیے دعاگو اور متفکر رہتے ہیں۔ خدا بھلا کرے سائنس و ٹیکنالوجی کے ان مؤجدوں کا جنھوں نے کئی ایجادات کے علاوہ ٹیلیفون میں اتنی جدت پیدا کردی کہ اب ایک دوسرے کو دیکھ کر بات چیت ہوجاتی ہے۔ دنیا کے لاکھوں افراد ان دنوں ٹیلیفون کی نعمت سے استفادہ کر رہے ہونگے۔
یقینا لاک ڈائون کے ان دنوں میں ہمیں نبی کریم حضرت محمدؐ کے تین سال تک شعب ابی طالب کی اس پہاڑی گھاٹی میں اپنے مومن ساتھیوں کے ہمراہ گزار ہوئے دنوں کو یاد رکھنا چاہیے جو انھوں نے محصور رہ کر بھوک بیماری کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ گزارے۔ اس وقت تو ان کے پاس نہ بجلی تھی نہ گیس نہ پانی نہ فرج نہ صوفہ نہ بستر نہ انواح و اقسام کے کھانے نہ TV نہ فون نہ موٹر نہ مشروب نہ ادویات، ہمیں آج کے Lock Down میں شعب ابی طالب کے لاک ڈائون کو یاد رکھنا چاہیے۔