عالمی وبا کے مثبت و منفی اثرات
دنیا کے محققین کورونا وائرس اور اس کے تباہ کن اثرات کے مطالعے میں مصروف ہیں۔
کورونا کی عالمی وبا نے سب کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ لوگ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ کورونا سے پہلے کی دنیا کیا تھی اور جب اس عالمی وبا کا خاتمہ ہوجائے گا تو دنیا کس طرح کی ہوجائے گی۔ اس حوالے سے مشہور انگریزی اخبار گارجین میں پیٹر بیکر کا ایک مضمون شایع ہوا ہے جس میں اس حوالے سے کچھ اندازے لگائے گئے ہیں۔
بیکر کا کہنا ہے کہ فروری سے پہلے کون جانتا تھا یا یہ کہہ سکتا تھا کہ چند ہفتوں کے اندر دنیا یکسر بدل جائے گی۔ بیکر سوال اٹھاتا ہے کہ چند ہفتوں پہلے تک کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ اسکول اچانک طویل عرصے کے لیے بند کردیے جائیں گے۔ کون جانتا تھا کہ عوامی جگہوں پر جمع ہونے اور اجتماعات کرنے پر پابندیاںعائد ہوجائیں گی۔ کس کے گمان میں تھا کہ محض چند ہفتوں کے اندر کروڑوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے اور کون یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ وقت بھی اچانک آجائے گا جب دنیا کی انتہائی بڑی اور طاقتور معیشتیں بھی بحران میں مبتلا ہوجائیں گی اور انھیں لوگوں کو مدد دینے کے لیے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پیکیج دینے پڑیں گے۔
ایسے ملکوں میں جہاں ہر قانون اور اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ وہاں یہ حالات پیدا ہوجائیں گے کہ مالک مکان، کرایہ داروں سے کرایہ نہیں لیں گے۔ بینک اپنی اقساط وصول نہیں کریں گے اور بے گھر افراد کو ہوٹلوں میں مفت رہائش کرنے کی اجازت اور سہولت فراہم کردی جائے گی۔
سماجی سطح پر بھی یہ صورتحال ہوگی کہ لوگ بڑی گرم جوشی سے ملنے کے بجائے ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرلیں گے۔ بیکر کا خیال ہے کہ حالات تیزی سے رونما ہورہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن جمہوری حکومتیں اس امتحان میں پورا نہیں اتر رہی ہیں۔ جمہورتیں بہت بڑے اور کڑے فیصلے کرنے کی اہلیت سے عاری نظر آتی ہیں۔ تاہم، اس کا تجزیہ ہے کہ بڑی تباہیاں اور آفات بہتر تبدیلی کی راہ بھی ہموار کرتی ہیں۔
1918 میں عالمی سطح پر فلو کی وبا پھیلی تھی جس میں کروڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس تباہی سے انسان نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ یورپی ملکوں نے اس وبا کے بعد قومی سطح پر صحت کی خدمات فراہم کرنی شروع کردی تھیں۔ اس کے علاوہ عظیم کساد بازاری اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید فلاحی ریاستیں قائم ہونے لگیں تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کی تباہ کاریوں اور ان کے اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔
مصنف یہ بھی نتیجہ نکالتا ہے کہ بدترین بحرانوں کے بعض خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 9/11 کے بعد شہریوں کی جاسوسی اور نگرانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسرے ملکوں پر حملے کرکے ان پر قابض ہونے کے عمل کا بھی آغاز ہوگیا۔ اسی طرح 2008 کی مالیاتی تباہی کے بعد پوری دنیا میں عوامی خدمات پر خرچ ہونے والے سرمائے میں کافی کٹوتی کردی گئی۔ کورونا بحران کے بعد بعض عجیب و غریب اور نئے مظاہر بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بڑی بڑی ہوائی کمپنیاں مختلف روٹس پر خالی پروازیں چلا رہی ہیں۔ جس کا انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن وہ ان ہوائی راستوں (روٹس) کو بچانے کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ فرانسیسی پولیس بے گھر لوگوں سے باہر رہنے کے جرم میں جرمانے وصول کررہی ہے۔ نیویارک کی جیل میں بند قیدیوں سے ہینڈ سینی ٹائزر کی بوتلیں بھروانے کی اجرت ایک ڈالر فی گھنٹہ سے بھی کم ادا کی جارہی ہے اور ان قیدیوں کو خود اس سینٹی ٹائزر کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، انھیں مفت صابن ضرور فراہم کیا جارہا ہے۔ البتہ انھیں اجازت ہے کہ صاف کرنے کا محلول آن لائن خرید سکتے ہیں۔
ہر عالمی بحران غورو فکر کے نئے در وا کرتا ہے، اگر لوگ بحران سے مایوس کن نتائج نکالیں گے تو انھیں زیادہ خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی بحرانوں کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر وبا پھیلنے کے بعد زیادہ ترلوگ انتہائی خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ دوسروں بالخصوص باہر والوں کو بالکل اپنے قریب نہیں آنے دیتے ہیں اور ان پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں۔ 14 ویں صدی میں طاعون کی وبا سے آنے والی سیاہ موت یورپ میں پھیل گئی تھی۔ اس دوران چھوٹے بڑے شہروں میں لوگوں نے خود کو اپنے گھروں اور علاقوں میں محصور کرلیا تھا اور وہ ''ناپسندیدہ'' برادری کے لوگوں پر حملے کیا کرتے تھے اور انھیں قتل کردیتے تھے۔
بیکر 1858 کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب امریکا کے شہر نیویارک میں زرد بخار یعنی یرقان کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس کے بعد تاریکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو اسٹیٹن کے جزیرے میں قائم ایک اسپتال میں قرنطینہ کردیا گیا تھا۔ شہر کے لوگ اس وبا سے اتنے خوف زدہ ہوئے کہ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس اسپتال سے ہر ایک کو باہرنکال دیا جائے اور اس کے بعد انھوں کے اس اسپتال کو نذر آتش کردیا تاکہ نیویارک والے اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ مصنف نے یہ افسوسناک انکشاف بھی کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اب تک دنیا کے 35 ملکوں میں غیر ملکیوں اور اجنبیوں پر طنز، طعنوں اور حملوں کے کئی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
ایک مشہور امریکی مورخ مائیک ڈیوس کا خیال ہے کہ ایک قطعی طور پر عقلی (Rational) دنیا میں آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک عالمی وبا زیادہ بین الاقوامیت کی راہ ہموار کرے گی۔ اس مورخ کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ ذہیت جو اپنے منافع سے آگے نہیں دیکھتی ہے۔ لہٰذا سماج کے کمزور طبقات کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کی دنیا کو اس بات کی ضرورت ہے کہ زیادہ مقدار میں ٹیسٹ کٹس، ماسک اور وینٹی لیٹرز کی پیدوار میں نہ صرف اپنے ملک بلکہ زیادہ غریب ملکوں کی ضروریات کوبھی پیش نظر رکھتے ہوئے غیر معمولی اضافہ کیا جائے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ دنیا کے تمام ملک ایک ہی بوتل کے اندر بند ہیں۔ الگ الگ راہ کر اس وبا پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔
دنیا کے محققین کورونا وائرس اور اس کے تباہ کن اثرات کے مطالعے میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے دنیا میں کافی کام ہورہا ہے۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ آج کی دنیا زیادہ بہتر انداز میں اس عالمی وبا کا مقابلہ کررہی ہے۔ کسی بھی عالمی وبا کی طرح کورونا بیماری بھی سماجی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشی حوالوں سے منفی اور مثبت دونوں اثرات مرتب کررہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی ہر حکومت اور دنیا کا ہر شہری اس مشکل گھڑی میں اپنے حواس پر قابو رکھے، خوف زدہ نہ ہو اور تاریخ کی اس حقیقت کو سمجھ لے کہ ہر عالمی وبا کے بعد انسان نے بہتر سبق سیکھا ہے۔ امید نہیں یقین رکھنا چاہیے کہ انسان اس بحران پر بھی قابو پالے گا اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے پر زیادہ مالی وسائل اور توانائیاں صرف کرے گا۔
بیکر کا کہنا ہے کہ فروری سے پہلے کون جانتا تھا یا یہ کہہ سکتا تھا کہ چند ہفتوں کے اندر دنیا یکسر بدل جائے گی۔ بیکر سوال اٹھاتا ہے کہ چند ہفتوں پہلے تک کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ اسکول اچانک طویل عرصے کے لیے بند کردیے جائیں گے۔ کون جانتا تھا کہ عوامی جگہوں پر جمع ہونے اور اجتماعات کرنے پر پابندیاںعائد ہوجائیں گی۔ کس کے گمان میں تھا کہ محض چند ہفتوں کے اندر کروڑوں افراد بے روزگار ہوجائیں گے اور کون یہ کہہ سکتا تھا کہ وہ وقت بھی اچانک آجائے گا جب دنیا کی انتہائی بڑی اور طاقتور معیشتیں بھی بحران میں مبتلا ہوجائیں گی اور انھیں لوگوں کو مدد دینے کے لیے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے ریلیف پیکیج دینے پڑیں گے۔
ایسے ملکوں میں جہاں ہر قانون اور اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ وہاں یہ حالات پیدا ہوجائیں گے کہ مالک مکان، کرایہ داروں سے کرایہ نہیں لیں گے۔ بینک اپنی اقساط وصول نہیں کریں گے اور بے گھر افراد کو ہوٹلوں میں مفت رہائش کرنے کی اجازت اور سہولت فراہم کردی جائے گی۔
سماجی سطح پر بھی یہ صورتحال ہوگی کہ لوگ بڑی گرم جوشی سے ملنے کے بجائے ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرلیں گے۔ بیکر کا خیال ہے کہ حالات تیزی سے رونما ہورہے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، لیکن جمہوری حکومتیں اس امتحان میں پورا نہیں اتر رہی ہیں۔ جمہورتیں بہت بڑے اور کڑے فیصلے کرنے کی اہلیت سے عاری نظر آتی ہیں۔ تاہم، اس کا تجزیہ ہے کہ بڑی تباہیاں اور آفات بہتر تبدیلی کی راہ بھی ہموار کرتی ہیں۔
1918 میں عالمی سطح پر فلو کی وبا پھیلی تھی جس میں کروڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس تباہی سے انسان نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ یورپی ملکوں نے اس وبا کے بعد قومی سطح پر صحت کی خدمات فراہم کرنی شروع کردی تھیں۔ اس کے علاوہ عظیم کساد بازاری اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جدید فلاحی ریاستیں قائم ہونے لگیں تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کی تباہ کاریوں اور ان کے اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔
مصنف یہ بھی نتیجہ نکالتا ہے کہ بدترین بحرانوں کے بعض خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 9/11 کے بعد شہریوں کی جاسوسی اور نگرانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسرے ملکوں پر حملے کرکے ان پر قابض ہونے کے عمل کا بھی آغاز ہوگیا۔ اسی طرح 2008 کی مالیاتی تباہی کے بعد پوری دنیا میں عوامی خدمات پر خرچ ہونے والے سرمائے میں کافی کٹوتی کردی گئی۔ کورونا بحران کے بعد بعض عجیب و غریب اور نئے مظاہر بھی دیکھنے میں آرہے ہیں۔ بڑی بڑی ہوائی کمپنیاں مختلف روٹس پر خالی پروازیں چلا رہی ہیں۔ جس کا انھیں نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے لیکن وہ ان ہوائی راستوں (روٹس) کو بچانے کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ فرانسیسی پولیس بے گھر لوگوں سے باہر رہنے کے جرم میں جرمانے وصول کررہی ہے۔ نیویارک کی جیل میں بند قیدیوں سے ہینڈ سینی ٹائزر کی بوتلیں بھروانے کی اجرت ایک ڈالر فی گھنٹہ سے بھی کم ادا کی جارہی ہے اور ان قیدیوں کو خود اس سینٹی ٹائزر کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، انھیں مفت صابن ضرور فراہم کیا جارہا ہے۔ البتہ انھیں اجازت ہے کہ صاف کرنے کا محلول آن لائن خرید سکتے ہیں۔
ہر عالمی بحران غورو فکر کے نئے در وا کرتا ہے، اگر لوگ بحران سے مایوس کن نتائج نکالیں گے تو انھیں زیادہ خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عالمی بحرانوں کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے پیمانے پر وبا پھیلنے کے بعد زیادہ ترلوگ انتہائی خوف میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ دوسروں بالخصوص باہر والوں کو بالکل اپنے قریب نہیں آنے دیتے ہیں اور ان پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں۔ 14 ویں صدی میں طاعون کی وبا سے آنے والی سیاہ موت یورپ میں پھیل گئی تھی۔ اس دوران چھوٹے بڑے شہروں میں لوگوں نے خود کو اپنے گھروں اور علاقوں میں محصور کرلیا تھا اور وہ ''ناپسندیدہ'' برادری کے لوگوں پر حملے کیا کرتے تھے اور انھیں قتل کردیتے تھے۔
بیکر 1858 کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ جب امریکا کے شہر نیویارک میں زرد بخار یعنی یرقان کی وبا پھوٹ پڑی تھی جس کے بعد تاریکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو اسٹیٹن کے جزیرے میں قائم ایک اسپتال میں قرنطینہ کردیا گیا تھا۔ شہر کے لوگ اس وبا سے اتنے خوف زدہ ہوئے کہ انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس اسپتال سے ہر ایک کو باہرنکال دیا جائے اور اس کے بعد انھوں کے اس اسپتال کو نذر آتش کردیا تاکہ نیویارک والے اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ مصنف نے یہ افسوسناک انکشاف بھی کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اب تک دنیا کے 35 ملکوں میں غیر ملکیوں اور اجنبیوں پر طنز، طعنوں اور حملوں کے کئی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔
ایک مشہور امریکی مورخ مائیک ڈیوس کا خیال ہے کہ ایک قطعی طور پر عقلی (Rational) دنیا میں آپ یہ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک عالمی وبا زیادہ بین الاقوامیت کی راہ ہموار کرے گی۔ اس مورخ کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ ذہیت جو اپنے منافع سے آگے نہیں دیکھتی ہے۔ لہٰذا سماج کے کمزور طبقات کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کی دنیا کو اس بات کی ضرورت ہے کہ زیادہ مقدار میں ٹیسٹ کٹس، ماسک اور وینٹی لیٹرز کی پیدوار میں نہ صرف اپنے ملک بلکہ زیادہ غریب ملکوں کی ضروریات کوبھی پیش نظر رکھتے ہوئے غیر معمولی اضافہ کیا جائے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ دنیا کے تمام ملک ایک ہی بوتل کے اندر بند ہیں۔ الگ الگ راہ کر اس وبا پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔
دنیا کے محققین کورونا وائرس اور اس کے تباہ کن اثرات کے مطالعے میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے دنیا میں کافی کام ہورہا ہے۔ سب سے خوش آیند بات یہ ہے کہ آج کی دنیا زیادہ بہتر انداز میں اس عالمی وبا کا مقابلہ کررہی ہے۔ کسی بھی عالمی وبا کی طرح کورونا بیماری بھی سماجی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشی حوالوں سے منفی اور مثبت دونوں اثرات مرتب کررہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی ہر حکومت اور دنیا کا ہر شہری اس مشکل گھڑی میں اپنے حواس پر قابو رکھے، خوف زدہ نہ ہو اور تاریخ کی اس حقیقت کو سمجھ لے کہ ہر عالمی وبا کے بعد انسان نے بہتر سبق سیکھا ہے۔ امید نہیں یقین رکھنا چاہیے کہ انسان اس بحران پر بھی قابو پالے گا اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے پر زیادہ مالی وسائل اور توانائیاں صرف کرے گا۔