قرنطینہ میں کیسے وقت گزاریں
اتنے دن تنہا رہنے سے افراد ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں
دنیا اس وقت ایک مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ہر ُسو ایک خوف و دہشت کی فضاء ہے۔ سماجی رابطے منقطع ہوچکے ہیں۔ ہر فرد ذہنی تناؤ کا شکار ہے۔ ایک وائرس نے دنیا بھر کو اپنا شکار بنا کر رکھا ہے اور اس ساری صورتحال میں چاہے کوئی امیر ہو یا غریب، کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتا ہو اس وباء کے نشانے پر ہے۔ نہ تو کسی شخص کی دولت اس کی آڑ بن سکتی ہے، نہ اس کی حثیت و مرتبہ۔ عجب بے بسی کا عالم ہے۔ ایسے میں ذہنی طور پر پژمرگی کا چھا جانا کوئی انوکھی بات نہ ہوگی۔
خصوصی طور پر جب اس جان لیوا مرض نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ایسے میں ہر شخص کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ نہ تو ابھی تک ایسی کوئی ویکسین ایجاد ہوئی جو اس وبا کے اثرات سے محفوظ رکھ سکے اور نہ ہی کوئی دوا۔ ایسے میں اگر اس وباء سے بچاؤ کی کوئی تدبیر ہے تو وہ ہے خود کو قرنطینہ کرلینا۔ یعنی خود کو آئسولیٹ کرکے سب سے الگ کرلینا۔ یہ نہ صرف ایک شخص کے لیے انفرادی طور پر ردبلا کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی فائدہ بخش ہے۔
قرنطینہ بنیادی طور پر فرانس سے باقاعدہ شروع ہونے والا تصور ہے۔ فرانسیسی اور اٹلی کی زبان کے مرکب قورنٹائن، میں قوارنٹائن کا مطلب چالیس اور ٹائین کا مطلب دن ہے۔ اسی مناسبت سے چالیس دن کے اس خاص قیام کو قوارنٹائن (قرنطینہ) کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دراصل اس لیے شروع ہوا کہ دوسرے براعظموں سے آنے والے افراد اگر اپنے ساتھ کوئی بیماری یا وباء لے کر آتے تو وہ چالیس روز تک کسی سے نہ ملیں اور اس دوران ان کے مرض کی علامات بھی واضح ہوجائیں اور دوسری صورت میں اگر وہ صحت مند ہیں تو بے فکر ہوکر شہر میں داخل ہوسکیں۔ اسلامی تاریخ پر بھی نگاہ ڈالیں تو قرنطینہ سے ملتے جلتے تصورات موجود ہیں جیسے کہ کوڑھ مریضوں کے لیے خلافت امیہ کے چھٹے خلیفہ الولید نے 706سن ہجری سے 707 سن ہجری کے دوران دمشق میں ہسپتال تعمیر کروائے جہاں کوڑھی مریضوں کو الگ رکھا جاتا۔ اس سے مرض کے پھیلاؤ کو روکنا مقصودتھا۔
اسی تصور کو ذہن میں رکھتے ہوئے موجودہ صورتحال پہ نگاہ دوڑائی جائے تو قرنطینہ بہترین آپشن معلوم ہوتا ہے۔ کورونا وائرس جوکہ چائنا کہ شہر ووہان سے وباء کی صورت تیزی سے پھیلتے ہوئے دنیا کے 198 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اس نے نہ صرف صحت پر اثرات ڈالے بلکہ اس وقت عالمی سطح پر معاشی بحران کی سی کیفیت طاری ہے۔ کاروبار بند ہوگئے ہیں، سٹاک مارکیٹ میں مندی سے انڈیکس صدی کی کم ترین سطح پر جاپہنچے ہیں، تعلیم کا نظام، ذرائع نقل و حمل، مذہبی و سیاسی سرگرمیاں سب بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی صورت حال دکھائی دیتی ہے۔
دسمبر 2019ء سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی وباء نے 2020ء کو امید، خوشیوں اور ترقی کی بجائے مایوسی، خوف اور موت کا جو سندیسہ دیا وہ ڈپریشن پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے میں جب تقریباً تمام ملازمین اور سٹوڈنٹس کو گھر بھیج دیا گیا ہے، جن میں سے بعض کو آن لائن کام اور کلاسز کی ترغیب بھی دے دی گئی ہے، ایسے میں زندگی نارمل روٹین سے ہٹ کر چل رہی ہے۔ حکومتوں اور طبی ماہرین کی جانب سے باربار ہدایات جاری کی جارہی ہیں کہ خودکو قرنطینہ میں رکھیں۔ ضروری نہیں کہ قرنطینہ کوئی ہسپتال ہو بلکہ یہ گھر کا ایک کمرہ بھی ہوسکتا ہے جو محدود سماجی روابط کو یقینی بناتا ہے۔ اب چونکہ بقول ارسطو انسان معاشرتی حیوان ہے اور خودکو تنہا کردینے کے بعد وہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے تو ایسی صورت میں مندرجہ ذیل اقدامات اسے پریشان کن صورتحال سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
٭ قرنطینہ میں شدید ڈپریشن
بے خبری میں انسان مارا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ضوکر کا خیال ہے کہ عام طور پر ایسے لوگوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے جوکہ بے چینی اور دوسرے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہوجانے کے بعد مشکلات میں گھر جاتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ دوسرے عوامل جیسے کہ غربت اور کسی جان لیوا بیماری یا وباء کے خوف کی وجہ سے بھی لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وہ خود یا ان کے پیارے کہیں متاثر نہ ہوجائیں۔ اس سلسلے میں ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ ڈپریشن کی علامات سے آگاہی کسی بھی قسم کی بدترین صورت حال سے بچنے کا واحد راستہ ہے۔
ڈپریشن کی علامات جن پر فوراً چوکنا ہونا چاہیے۔ ان میں نمایاں علامات یہ ہیں اور ہر وقت اداسی کی کیفیت کا شکار رہنا، بستر چھوڑنے کا دل نہ چاہنا، نیند میں کمی، بھوک کا نالگنا، نشہ آور اشیاء کی جانب رغبت، سگریٹ شراب نوشی اور انتہا درجے تک خود کو تنہا کرلینا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شدید غصہ، تباہ کن سوچیں، خود کو نقصان پہنچانے والے خیالات اور ناامیدی کا غلبہ ہے۔ ایسی علامات کی صورت میں خاندان کے افراد دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کو نشاندہی کرنی چاہیے۔ کیونکہ ایسی ذہنی حالت خطرناک ہوسکتی ہے۔ خصوصاً کورونا وائرس کی موجودہ صورت حال میں طبی ماہرین ڈپریشن سے بچاؤ کے لیے چند ہدایات دیتے ہیں جوکہ پیش خدمت ہیں۔
٭خود کو وقت دیں
خیالات لہروں کی مانند ہوتے ہیں۔ خیالات کی بحروں میں مروجز کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بعض اوقات جب خود کو بے بس محسوس کریں تو ضروری نہیں کہ وہ بے بسی ہمیشگی ہو بلکہ وہ ایک لمحاتی کیفیت ہے جوکہ حالات کا شاخسانہ ہوسکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کووڈ۔19 نے پوری دنیا کی آفات و قدرت کے سامنے بے بسی کو عیاں کردیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص خود کو بے بس و بے کس محسوس کررہا ہے جیسا کہ شاید آپ بھی تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر اندھیرے کے بعد ایک اجالا آپ کا منتظر ہے۔ ہر رات کے بعد ایک صبح ضرور آتی ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہہ رکھا ہے کہ ''لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے'' یعنی وقت گزر جاتا ہے۔ اگر ابھی مایوسی کا دور دورہ ہے تو امید سحر بھی طلوع ہوگی۔ ہمیشہ کچھ بھی نہیں رہتا خود کو تھوڑا وقت دیں یہ سمجھانے کے لیے کہ ٹھیک ہے ہم ایک برے وقت سے گزر رہے ہیں مگر یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ زندگی کے نشیب و فراز کا نام ہے۔ اچھے برے وقت کا آنا قدرت کا دستور ہے اور انسان اگر یہ تسلیم کرے کہ وہ قدرت کے قانون کو ٹال نہیں سکتا تو مایوسی کا شکار ہوگا۔
٭پارٹی کریں
کورونا وائرس کی اس خطرناک صورتحال میں یقینا پارٹی کا نام سنتے ہی سب کے ذہنوں میں سوالات سر اٹھانے لگے ہوں گے کہ بھلا ایسی صورت میں پارٹی کیسے اور کیوں کر جاسکتی ہے؟ تو یاد رکھیں کے ہم ڈیجیٹل ایج میں رہ رہے ہیں جہاں ورچوئل ریئلٹی کا دور دورہ ہے۔ ہم اصل زندگی میں تو ایک دوسرے سے ملنے سے پرہیز کررہے ہیں مگر ایک ورچوئل دنیا میں ہم سب سماجی رابطے میں بندھے ہیں۔ واٹس ایپ ہو، فیس بک، انسٹاگرام یا سنپ چیٹ ویڈیو کالنگ اور گروپ کالنگ میں سب ایک جگہ مل بیٹھ کر ایک ورچوئل پارٹی پلان کرسکتے ہیں۔ آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے دوستوں یا فیملی کے گروپ میں ایک روز قبل مسیج کردیں کے فلاں وقت ہم سب آن لائن ہوں گے اور مل کر چائے پئیں گے۔
ایسی ورچوئل پارٹی میں آپ سب ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں گے اور لطف بھی ہوگا لیکن اس کی سب سے خاص بات یہ ہوگی کہ کسی کو وائرس کے لگنے کا خدشہ نہیں ہوگا، کیونکہ سوشل میڈیا پر البتہ سوشل ڈسٹینس تو برقرار ہی ہے۔ ٹیکنالوجی کی لگام آپ کے ہاتھ میں ہے سو اسے اپنی مرضی سے موڑیں۔
٭مدد گار بنیں بزرگوں کی دعالیں
نوجوانی کا دور جوش جذبے سے بھرپور ہوتا ہے۔ بے معنی مصروفیات بھی الجھائے رکھتی ہیں اور وقت گزرنے کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے برعکس بڑی عمر کے لوگوں کے لیے وقت گزارنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ خاص طور پر کووڈ۔19 میں خودکو قرنطینہ کرنے کے بعد ایسے افراد کا ڈپریشن میں جانے کا خدشہ 20 گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ گھروالوں سے کٹ کر تنہا رہنے سے وہ خود کو اکیلامحسوس کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں بڑی عمر کے افراد نوجوانوں کی مانند ٹیکنالوجی سے بھی خاص شناسائی نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے دوستوں سے مل سکتے ہیں۔ تو مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کی دعائیں لیں اور ان کے پژمردہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ قرنطینہ کرنے والوں بزرگوں کے لیے کھانا لے جائیے، انہیں خط لکھیں، تحفے کے طور پر کتابیں بھیجیں۔ مددگار ہونا مقابلہ کرنے کے لیے سب سے اہم ہتھیار ہے۔ اگر ایسا خود نہیں کرسکتے تو کسی ایسی بااعتماد تنظیم کو عطیات دیں جو بزرگوں کو کھانا پہنچانے کا کام کرتی ہے۔
٭رابطے میں رہیں
کورونا کی فضا میں جہاں جسمانی رابطوں سے پرہیز کرنا ضروری ہے ونہی روحانی رابطے مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنے تخلیق کار سے رابطے میں رہنا بے حد ضروری ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس وباء یا بلا کو کیسے ٹالنا ہے۔ ذی شعور افراد بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ اس ساری صورتحال میں انسان کی بے بسی کا کیا عالم ہے۔ اگر کسی کے پاس اختیار ہے تو وہ ہے اللہ عزوجل کی ذات جو 'کن' کہہ کر سب ٹھیک کرسکتی ہے اور چاہے تو نیست و نابوت۔ کورونا وائرس کو اللہ کا عذاب سمجھنے کے بجائے اسے امتحان سمجھیں اور رب کو اپنی بے بسی کا یقین دلا کر اس سے اپنے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی مانگیں۔ دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی کے لیے دست سوال دراز ہوں۔ اپنے رب اور مذہب سے اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔ اس وقت تمام ممالک میں چاہے ان کا تعلق جس مرضی مذہب سے ہو تمام افراد اپنے مذہب کی جانب راغب ہورہے ہیں اور دوا سے دعا تک کا سفر طے کررہے ہیں۔
مذہب سے لگاؤ رکھنا یا مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا کوئی بری بات نہیں مگر کمرشلزازم اور کنزومرازم کی دوڑ میں لگنے والے افراد اس چیز سے ناصرف خار کھاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی متنفر کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں، جس سے نتیجتاً وہ اپنے دنیاوی فائدے حاصل کرتے ہیں مگر دنیا کے بعد کی زندگی خسارے میں ہے۔ لیکن فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ قرنطینہ میں رہتے ہوئے مراقبہ کیجئے۔ اگر مسلمان ہیں تو نماز، قرآن پڑھیں یا چاہے جس مرضی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اپنی مقدس کتابوں کو پڑھیں اپنے رب سے اپنے رشتے کو مضبوط کریں۔ ایسا کرنے سے دلی سکون تو ملے گا ہی اس کے ساتھ ساتھ ذہن و دل پر چھائے مایوسی کے بادل بھی چھٹ جائیں گے اور یوں آپ کورونا کے ڈر سے نکل جائیں گے۔
٭معالج سے رابطے میں رہیں
بہت سے معالجین نے موجودہ صورتحال کے پیش نظر اپنی خدمات آن لائن پیش کرنا شروع کردیں ہیں۔ بہت سے ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کو اب آن لائن یا ورچوئلی چیک کرتے ہیں بلکہ کورونا کے خطرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ایسے مریضوں جوہ پہلے سے کسی ڈاکٹر سے معائنہ نہیں کراتے ان کے لیے بھی اب ڈاکٹرز دستیاب ہیں جو آن لائن مختلف ویب سائٹس یا نمبروں کے ذریعے مریضوں کو چیک کرتے اور دوا تجویز کرتے ہیں۔ خصوصاً نفسیات کے ماہرین اس وقت زیادہ متحرک ہیں کیونکہ قرنطینہ کرنے والے افراد کو ذہنی الجھنوں کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اگرحد سے زیادہ بوجھل پن محسوس ہو اور خود کو نقصان پہنچا لینے کا خدشہ ہو تو معالج سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
٭وزش کریں
قرنطینہ میں سارا دن گزارنا قدرے مشکل کام ہے اور ایک جگہ بیٹھے لیٹے رہنے سے اکتانے کے ساتھ ساتھ وزن کے بڑھنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ورزش کریں۔ دن میں کوئی وقت مقرر کریں جس میں ورزش کرنا ہو۔ اگر ممکن ہو کہ باہر جاسکیں تو واک کرنے جائیں مگر احتیاطی تدابیر کے ساتھ۔ دوسرے افراد سے کم از کم چھ فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیں۔ ورزش سے ناصرف مصروفیت ملے گی بلکہ یہ جسم کو بے ساختگی سے بچانے کے ساتھ ساتھ قوت مدافعت بھی بڑھائے گی۔ ورزش کے بعد محسوس کریں گے جیسے یہ انعام ہو۔ روزانہ کی ورزش قرنطینہ میں بہترین نتائج دے سکتی ہے۔
٭ پرہیز کریں
بعض افراد کو کسی چیز کی عادت ہوتی ہے اور اسے چھوڑنا ان کے لئے ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن نہایت افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کچھ افراد کو بری عادات ہوتی ہیں جیسے سگریٹ نوشی، تمباکو، پان، بیڑا، نسوار اور شراب نوشی ایسے افراد اول تو ان چیزوں سے پرہیز نہیں کرتے،اور اگر قرنطینہ میں وہ جب نجالت مجبوری انہیں چھوڑتے ہیں تو ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔ جس سے ناصرف وہ بے چینی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ بے خوابی اور نیند نہ آنے جیسے عارضے بھی لاحق ہوجاتے ہیں۔ ایسی خوفناک صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مناسب غذا لی جائے، روزانہ اچھی اور مکمل نیند اور کسی نہ کسی جسمانی مشقت کا سہارا ذہنی و جسمانی طور پر مضبوطی دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
٭ پرسکون رہیں
کورونا وائرس سے شاید لوگ اتنے خوف زدہ نہ ہوں جتنے وہ کورونا وائرس سے متعلق چوبیس گھنٹے چلنے والی بریکنگ نیوز سے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات سے واقفیت ضروری ہے مگر ہر وقت نیوز چینل لگا کر بیٹھے رہنا ڈپریشن کا سبب بنتا ہے۔ امریکی ماہرین نفسیات کی جانب سے عوام کے لیے یہ پیغام جاری کیا گیا کہ صرف مستند ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں پر کان دھریں اور کوشش کریں کہ کم سے کم ٹیلی ویژن اور خاص کر سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں دیکھیں۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ قرنطینہ میں پرسکون ہوکر بیٹھیں۔ لمبے سانس لیں، آنکھیں بند کرکے خود کو یہ محسوس کروائیں کہ آپ پرسکون ہیں اور جلد کورونا وائرس کا یہ خوف دم توڑ دے گا۔ اپنے پسندیدہ مشغلے کو اپنائیں خواہ وہ تلاوت سننا ہو، کتابیں پڑھنا یا پھر مراقبہ۔ یہ آپ پر بہتر اثرات ڈالے گا۔
٭صفائی رکھیں
یہ تو تمام افراد جانتے ہی ہوں گے کہ کورونا وائرس ہاتھوں، منہ اور ناک کے ذریعے پھیلتا ہے سو ہر ممکن کوشش یہی کرنی چاہیے کہ خود کو صاف ستھرا رکھیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے استعمال کی چیزں کو بھی صاف رکھیں۔ ایسا کرنے سے آپ کوناصرف صفائی میں مدد ملے گی بلکہ یہ ایک اچھی مصروفیت بھی ہے۔ جیسے اپنے لحافوں کی صفائی کریں۔ اپنے کچن کی صفائی تمام درازیں، الماریاں کھول کر انہیں دوبارہ سے سیٹ کریں، فالتو اور پرانی بے کار اشیاء نکال پھینکیں۔ پرانے کاغذ پھینک دیں، وقت گزارنے کے لیے کوئی مشغلہ ڈھونڈیں۔ کتابیں پڑھیں، پہلیاں سلجھانے کی کوشش کریں، نئی نئی تراکیب آزمائیں، مزیدار کھانے پکائیں۔ اس طرح آپ میں کچھ کرلینے کا احساس پیدا ہوگا اور خود کو پر اعتماد محسوس کریں گے۔
٭بے فکر ہوجائیں
کورونا وائرس پھیلنے کے بعد خواتین خصوصاً مائیں بے حد پریشانی کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کا خیال ہے کہ بچے ویہی سنتے اور کرتے ہیں جو وہ والدین کو کرتا دیکھتے ہیں۔ بچوں کو سکھانے کے یے ایک مثال بننا ہوگا۔ بچوں کو کووڈ19 کے حوالے سے بٹھا کر سمجھائیں اور بتائیں کہ احتیاط کیسے کرنی ہے۔ ہم سب انسان ہیں اور کوئی بھی پرفیکٹ نہیں، پرفیکٹ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جوکوئی انسان کرسکتا ہے وہ احتیاط اور دعا ہے۔ اس ساری صورتحال میں لوگوں کی روزمرہ روٹین جیسے کام پر جانے والے افراد کی روٹین بھی بدلی ہے۔ سو وہ اس وجہ سے خاصے ڈسٹرب بھی ہیں اور خود کو قرنطینہ کرنے کے بعد تو مزید پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا جو لوگ 'ورک ایٹ ہوم' پر ہیں انہیں بھی اس پریشانی سے بچنے کے لیے اپنا ایک شیڈول بنالینا چاہیے۔ کب اٹھنا ہے، کب ناشتہ کرنا ہے، طعام اور باقی معاملات، خاص طور پر بچوں کے لیے ایک روٹین بنانا ضروری ہے تاکہ سکول کھلنے پر انہیں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
٭آگاہی پھیلائیں
کچھ لوگوں کی عادت ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے کوئی سا بھی مواد پھیلا دیتے ہیں بنا تصدیق کیے غلط معلومات کو شیئر کردیتے ہیں جس سے ناصرف خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے بلکہ معصوم لوگوں کے لیے وہ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ایسی معلومات عام کریں جوکہ عوام الناس میں آگاہی پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں۔ اس مشکل وقت میں سب کا ایک بیانیے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ ناکہ اشتعال اور تفرقہ پھیلانا۔ مل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود بھی محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔