اللہ ناراض کر بیٹھے دوسرا اور آخری حصہ

کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے جو کردار علمائے ملت نے ادا کیا، وہ معاشرے کے کسی اور طبقے کا دکھائی نہیں دیا۔

ashfaqkhan@express.com.pk

کورونا وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے جو کردار علمائے ملت نے ادا کیا، وہ معاشرے کے کسی اور طبقے کا دکھائی نہیں دیا، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی نام نہاد این جی اوز اور میرا جسم میری مرضی کے بیہودہ نعرے لگانے والی آنٹیوں نے تو گوشہ نشینی میں ہی عافیت جانی۔

دنیا کی بے بسی دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے قیامت سے پہلے اﷲ تعالی پوچھ رہا ہے لِّمَنِ اُ لْمُلْکُ اُلْیَوْمَ آج کس کی بادشاہی ہے۔ اپنی مرضی کا کوئی دعویدار اپنی مرضی سے گھر سے باہر قدم رکھنے کوتیار نہیں۔ صرف اﷲ کے نیک بندے ایسی نازک صورتحال میں بھی مساجد میں جاتے ہیں اور اس وباء سے نجات کے لیے گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں۔

یہ ناگہانی صورتحال ہمارے لیے سدھرنے کے بے شمار مواقع لے کر آئی ہے۔ ہمیں نقاب کرنا آگیا، وضو کا طریقہ آگیا ، ہمیں طہارت اور صفائی ستھرائی کا ڈھنگ اور اس کی اہمیت کا پتا چل گیا، شادی ہال بند ہونے سے سادگی سے شادی کرنے کا کلچر متعارف کرانے کا موقع مل گیا، کاروبار صبح سویرے شروع کرنے اور شام ہوتے ہی بند کرنے کی عادت پڑگئی، دل کو حلال اور سادہ خوراک استعمال کرنے پر آمادہ کرلیا۔ علماء چیخ چیخ کر سمجھاتے رہے لیکن کسی کو سمجھ نہ آیا لیکن اﷲ کی جانب سے بھیجے گئے ایک جرثومے نے ساری بات سمجھا دی۔

کورونا وائرس سے احتیاط اور بچاو کے لیے سب سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کی سربراہی میں چودہ نکات پر مشتمل ''کورونا وائرس کی وباء اور شرعی رہنمائی'' کے عنوان سے ہدایت نامہ جاری کیا، پھر تمام مدارس کی تنظیمات کے سربراہان نے 13 نکات پر مشتمل جامع ہدایت نامہ جاری کیا، اور اس پر پورے ملک کے آئمہ خطباء، علماء و مشائخ عمل کر رہے ہیں۔

اس ہدایت نامہ میں کہا گیا ہے کہ وبائیں درحقیقت اﷲ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہماری اصلاح کے لیے آتی ہیں۔ اس موقع پر پوری قوم توبہ استغفار اور رجوع الی اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ حکومت اپنے اداروں کو بھی اس جانب متوجہ کرے اور فحاشی اور بے حیائی کے پروگرام بند کیے جائیں۔ مساجد کھلی رکھی جائیں، پنج وقتہ اذان و اقامت اور باجماعت نماز جاری رہے گی۔ تمام لوگ وضو گھر سے کرکے آئیں اور ہرقدم پر نیکی پائیں۔ سنتیں گھر سے پڑھ کر آئیں بعد کی سنتیں بھی واپس جاکر گھر پڑھیں۔

اگر طبی وجوہات کی بنا پر حکومت نمازیوں کی تعداد پرکوئی پابندی عائد کرے یا کسی خاص عمر کے مسلمان کومسجد جانے سے منع کرے تو شرعی طور پر وہ معذور سمجھے جائیں گے۔ جماعت اپنے گھر والوں بلکہ کسی ایک محرم خاتون کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے، اگر مزید عذر ہوتو تنہا پڑھیں۔ وائرس کاشکار یا جنھیں وائرس کاشبہ ہے یا جن کو کھانسی، نزلہ، زکام اور بخار ہو اور پچاس سال سے زائد عمر کے لوگ اور ایسے افراد جن کے امراض اس وائرس سے بڑھ جانے کا خطرہ ہو، وہ وباء کے پورے دور میں مساجد میں نہ آئیں۔ ان کوترک جماعت کاگناہ نہیں ہوگا۔

جو نوجوان بزرگوں کی تیمارداری میں مصروف ہیں وہ بھی نماز گھر پرپڑھیں۔ مسجدوں سے قالین ہٹا کرفرش کو دھونے اور صاف ستھرا رکھنے کااہتمام کریں۔ مسجدوں کے داخلی دروازوں پرسینی ٹائزر لگائیں۔ جمعہ کو عمومی اردو تقریر کے بجائے صرف پانچ منٹ کے لیے کوروناوباء سے متعلق دینی و طبی رہنمائی فراہم کی جائے اور مختصر خطبے، نماز اوردعا پراکتفا کیا جائے اور پھر گھروں کوچلے جائیں۔ جن حضرات کو ڈاکٹرصاحبان یا ان ہدایات کی روشنی میں حکومت منع کرے وہ ظہر کی نماز گھر میں ادا کریں۔ وباء سے بچنے کے لیے جمعہ میں شریک یاگھروں میں نماز ادا کرنے والے اﷲ تعالی کی پناہ مانگیں۔ نابالغ بچے مسجد نہ آئیں۔


موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ علماء کرام کی جانب سے آنے والی ان احتیاطی تدابیر کو اپنایا جائے، انھی ہدایات کی روشنی میں مساجد کو نماز پنگانہ کے لیے آباد رکھا جائے۔ جولوگ مساجد بند کرنے کی باتیں کررہے ہیں، انھیں بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج مغرب کے تمام ماہرین طب اور ڈبلیو ایچ او کورونا ایسی وباء سے بچنے کے لیے جو احتیاطی تدابیر تجویز کررہے ہیں ان پر تو ہر مسلمان چودہ سو سال سے عمل کرتے چلے آرہے ہیں، طہارت اور نماز پنجگانہ کے لیے دن میں پانچ بار وضو کا اہتمام کرنا تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، میڈیکل سائنس کورونا سے بچنے کے لیے آج بار بار ہاتھ دھونے کی باتیں کر رہی ہے۔ یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آج مغرب تمام تر علوم وفنون، اور مادی ترقی واسباب کے باوجود اسلام کی دہلیز پر سرنگوں ہے۔

علمائے ملت نے ہر پہلو پر نگاہ رکھی اوروباء سے نجات اور لاک ڈاون سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کرنے کیے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ ملک بھر میں لاک ڈاون کہ وجہ سے لاکھوں محنت کش، دیہاڑی دار بے روزگاری اور فاقوں کا شکار ہوگئے، لوگوں کو بھوک سے بچانا سب سے بڑا چلینج تھا ایسے حالات میں علمائے ملت نے ہی قوم کو راستہ دکھایا۔ سب سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل نے فتوی جاری کیا اور اس کے فوری بعد پاکستان علماء کونسل، دارالافتاء پاکستان اور ملک بھر کے علماء و مشائخ میدان عمل میں نظر آئے۔

ان کی جانب سے جاری ہونے والے فتووں میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے سد باب کے لیے ہونے والے اقدامات سے محنت کش، دیہاڑی دار، غرباء و مساکین سخت مشکل حالات سے دوچارہیں، ان کے پاس کھانے کوراشن ہے نہ ادویات کے پیسے۔ نفلی حج اور عمرہ کا ارادہ رکھنے والے فرزندان توحید اپنی رقوم سے غرباء، مساکین، دیہاڑی دار، محنت کشوں اور مستحقین کی مدد کریں، اﷲ کریم انھیں دوہرا اجر دے گا۔

موجودہ ناگہانی صورتحال میں سب سے افضل عبادت بھوک اور بیماری سے مرنے والے انسانوں کو بچانا ہے۔ صاحب نصاب اورمخیر حضرات زکوٰۃ کے ذریعے بھی ایسے لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں، زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کا انتظار کرنے کے بجائے ضرورت مندوں کو ابھی زکوٰۃ ادا کردیں۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو بحرانی کیفیت سے فائدہ اٹھا کر مال بنانے کی دھن میں مگن ہوجاتا ہے۔ لاک ڈاون ہوتے ہی اس طبقے نے راشن، صابن، سینی ٹائزر اور ادویات مارکیٹ سے غائب کردیں۔ اس صورتحال میں ایک بار پھر علماء و مفتیان کرام آگے آئے، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف فتوی جاری کیا۔ دارالافتاء پاکستان نے انسانی ضرورت کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع کو حرام قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ تاجر حضرات فورا روز مرہ کی اشیاء کو عوام الناس کو مہیا کریں اور حکومت ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے اور ان کی اشیاء کو ضبط کر کے مستحقین میں تقسیم کر دے۔

ذخیرہ اندوزی اور عوام الناس کے استعمال کی چیزوں کا ذخیرہ کرنا شرعی طور پر نا جائز ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو اﷲ کے نبیؐ نے بیزاری کا اعلان کیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو ملعون قرار دیا گیا ہے اور حضرت عمرؓ سے ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ کا فرمان ہے کہ جس نے مسلمانوں کے خلاف غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کی اﷲ کریم اس پر غربت افلاس اور جذام کی بیماری کو مسلط کر دیں گے۔ علماء پر تنقید کرنے والے علماء کے کردار کودیکھیں۔ آج علمائے ملت فرنٹ لائن پر آکر اپنا کردار ادا نہ کرتے تو معاشرہ انتشار کا شکار نظر آتا۔

آخر میں موجودہ حالات پر لکھی گئی ایک نظم قارئین کے لیے پیش ہے اس میں ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے

بہت مصروف رہتے تھے / ہواؤں پر حکومت تھی/ تکبر تھا کہ طاقت تھی بلا کی بادشاہی تھی /کوئی بم لے کے بیٹھا تھا /کسی کے ہاتھ حکمت تھی /کوئی تسخیر کرتا تھا/کوئی تدبیر کرتا تھا /کوئی ماضی دکھاتا تھا /کسی کے ہاتھ فیوچر تھا/سب ہی مصروف تھے ایسے /کہ ایک ہستی بھلا بیٹھے /بہت پرواز کر بیٹھے /خدا ناراض کر بیٹھے/اب اس نے منہ جو پھیرا ہے /فقط وحشت کا ڈیرہ ہے /کہ دنیا کی ہر ایک بستی /بھیانک موت چہرہ ہے / خدا منہ پھیر بیٹھا ہے /اب اس کا گھر بھی خالی ہے /قہر دنیا پہ طاری ہے /ابھی بھی وقت ہے لوگو /خدا سے گڑگڑا کر تم /اسے راضی کرو لوگو
Load Next Story