تنگ آمد بجنگ آمد
کورونا تاریخ کی ایک بدترین وبا ہے جس نے لاکھوں گھروں کے چراغ بجھا دیے۔
پچھلے چند ماہ سے ایک نئی اور انتہائی خطرناک بیماری نے دنیا میں تباہی مچا دی ہے۔ ایشیا، یورپ، امریکا، افریقہ غرض دنیا کے ہر حصے میں ایک طوفان تباہی مچا دیا ہے، ماضی میں ہیضہ، طاعون جیسی جان لیوا بیماریاں بھی آتی رہیں لیکن دنیا کے عوام ان بیماریوں سے اس قدر خوفزدہ نہیں رہے جتنا کورونا سے ہیں۔
اب تک اس بیماری سے 65 ہزار انسان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ بعض ملکوں میں مرنے والوں کے لیے قبرستان بھی دستیاب نہیں۔ یہ صورت حال اس قدر خوفناک ہے کہ کرہ ارض پر رہنے والا ہر انسان خوفزدہ اور بوکھلایا ہوا ہے۔
ماضی کی خطرناک بیماریوں میں ہیضہ، طاعون اور ٹی بی وغیرہ شامل ہیں، لیکن ان بیماریوں کی وجوہات اور علاج دریافت ہو چکا تھا۔ ان بیماریوں کی وجہ بھی بے پناہ جانی نقصان ہوا اور لوگ ان سے خوفزدہ بھی رہے لیکن کورونا کا خوف اس حوالے سے بے پناہ ہے کہ اس وبا کی وجوہات کا اب تک پتا نہیں چل سکا ہے۔
امریکا، یورپ کا شمار ایسے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں کے شہری پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں نہ صرف صحت کا خیال رکھتے ہیں بلکہ انھیں علاج معالجے کی بھی بہترین سہولتیں حاصل ہیں لیکن اس وحشی بیماری کورونا نے امریکا، یورپ سمیت تمام ترقی یافتہ ملکوں میں اس مضبوطی سے قدم جمائے ہیں کہ ہزاروں انسانوں کی بھینٹ لینے کے باوجود انسانوں کو تیزی سے کھائے جا رہی ہے۔
پسماندہ ملکوں میں بھی لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے چونکہ پسماندہ ملکوں کے عوام میں ڈسپلین موجود ہے نہ وہ کورونا کو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو علم اور آگہی کی کمی ہے لیکن دوسری بڑی وجہ اقتصادی مشکلات ہیں۔ہمارے ملک میں لاکھوں غریب عوام روزانہ کی اجرت پر انتہائی تنگدستی سے گزارا کرتے ہیں ملک میں لاک ڈاؤن کی وجہ روزانہ اجرت حاصل کرنے والے فاقہ کشی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
حکومت نے ان کی مدد کرنے کے حوالے سے ہر ماہ ہر خاندان کو تین ہزار روپے دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ہمارے ملک کے عام غیر ماہر مزدروں کو 17 ہزار روپے اجرت ملتی ہے جو انھیں عام طور سے ٹھیکیدار ادا کرتا ہے، واضح رہے کہ ہمارے ملک میں صنعتکاروں نے مزدوروں کو قانونی واجبات ادا کرنے سے بچنے کے لیے ٹھیکیداری نظام نافذ کر رکھا ہے، اس نظام میں ٹھیکیدار ہی مالک کا کردار ادا کرتا ہے۔
ملوں، کارخانوں میں کام کرنے والے غیر ماہر مزدوروں کو 17 ہزار ماہانہ تنخواہ ادا کی جاتی ہے جو کسی حال میں مزدوروں کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی۔ اس حوالے سے حکومت نے روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو ماہانہ تین ہزار روپے دینے کا جو اہتمام کیا ہے وہ ایک مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ سخت ناانصافی ہے لیکن حکومت جن مسائل میں گھری ہوئی ہے اس کے پیش نظر عمران حکومت اس سے زیادہ شاید کچھ کر بھی نہیں سکتی۔
ہمارے حکمران طبقے کی ذمے داری ہے کہ وہ دوسرے ''غیر پیداواری'' اخراجات کو کم سے کم کرکے لاک ڈاؤن کا شکار ہونے والے مزدوروں کی ماہانہ امداد میں ممکنہ اضافہ کریں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت ہر ممکنہ کوششوں کے ذریعے عوام کی بہتری کی کوشش کر رہی ہے لیکن ناتجربہ کاری اور ماضی کی حکومتوں کے چھوڑے ہوئے بھاری قرض کی وجہ وہ عوام کی ضرورتیں پوری نہیں کر پا رہی ہے۔کرپشن کے اربوں روپے اشرافیہ کی جاگیر نہیں بلکہ یہ عوام کا پیسہ ہے، ہمارے اداروں یعنی قانون اور انصاف کے اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ کرپشن کا اربوں روپیہ کرپٹ اشرافیہ سے لے کر لاک ڈاؤن سے متاثرین کی امداد میں استعمال کریں۔
بات چلی تھی کورونا سے اور پہنچی کرپشن تک۔ اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ اس غریب اور پسماندہ ملک کو ہماری اشرافیہ نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور لوٹ کے مال کو بچانے کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا۔ حیرت کی بات ہے کہ ہمارے قومی لٹیروں کو ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے پھر قانون اور انصاف حرکت میں کیوں نہیں آتا۔
کورونا تاریخ کی ایک بدترین وبا ہے جس نے لاکھوں گھروں کے چراغ بجھا دیے اسے ہم دنیا کی بدقسمتی کہیں یا حالات کا جبر کہ بے پناہ کوششوں کے باوجود اب تک اس شیطانی بیماری کا علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ اذیت ناک مسئلہ یہ ہے کہ لاکھوں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور کورونا کے خوف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گھروں سے نکلنا چاہتے ہیں تاکہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں لیکن کہیں کرفیو، کہیں لاک ڈاؤن انھیں باہر نکلنے نہیں دے رہا ہے۔ اگر کوئی باپ کوئی بھائی اپنے بچوں اپنے بھائیوں کا پیٹ بھرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتا ہے تو سامنے پولیس، رینجرز ہوتی ہے اب بے چارہ روز مزدوری کرنے والا روز کھانے والا مزدور کہاں جائے؟
کورونا ایک قدرتی وبا ہے جس کے بارے میں ہمارے طبی سائنسدان کچھ نہیں جانتے کیونکہ یہ ایک نئی بیماری ہے۔ اس سلسلے میں بلاشبہ شعبہ طب کے سائنسدان اور ماہرین رات دن کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس کا علاج دریافت کرلیں لیکن انھیں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس وقت جو اہم مسئلہ درپیش ہے وہ ہے ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے مزدور۔ بلاشبہ یہ حکومت کے بس سے باہر ہے کہ وہ لاکھوں اجرتی ملازمین کا پیٹ بھرسکے۔
ایسے نازک وقت میں ان مالداروں کو چاہیے کہ اپنی پوشیدہ کمائی کو باہر لا کر غریب مزدوروں کو فاقہ کشی سے بچائیں ۔ اس طرح ان کے طبقاتی گناہ کا کسی حد تک کفارہ ہو جائے گا اگر ایسا نہ ہوا تو انقلاب فرانس کی تاریخ ہمارے ہی نہیں، لٹیری کلاس کے بھی سامنے ہے اور یہ کہاوت بھی کہ ''تنگ آمد بجنگ آمد''۔ اب فیصلہ کرنا لٹیری کلاس کو ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھتی ہے یا نہیں۔