واجبات کی عدم ادائیگی فائر بریگیڈ ملازمین آج کام کرنا چھوڑ دیں گے

شہر میں قائم دیگر فائر اسٹیشنوں پر بھی ملازمین احتجاج کریں گے، فائر فائٹرز

ڈیڑھ سال میں اوور ٹائم کی مد میں ایک روپیہ ادا نہیں کیا گیا، اس ماہ بھی اب تک تنخواہ نہیں مل سکی۔ فوٹو: فائل

فائر بریگیڈ کے ملازمین آج سے بطور احتجاج کام کرنا چھوڑ دیںگے، سینٹرل فائر اسٹیشن اور دیگر مراکز پر احتجاج کیا جائے گا۔

ملک کے معاشی حب کراچی میں انتہائی اہم شعبے فائر بریگیڈ میں بدانتظامی عروج پر ہے، فائر فائٹرز کو 19 ماہ سے اوورٹائم ادا نہیں کیا گیا، اس ماہ تنخواہ بھی پیر کی شام تک موصول نہیں ہو سکی ہے جبکہ9ماہ قبل 15فیصد بڑھایا جانے والا اوور ٹائم بھی انھیں آج تک نہیں ملا۔

ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ 9 ماہ پہلے حکومت نے فائر فائٹرز کے اوور ٹائم میں 15فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا تھا وہ تو وہ لیکن اس سے پہلے 19 ماہ کا اوور ٹائم بھی انھیں آج تک نہیں مل سکا، واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث وہ شدید مالی بحران سے گزر رہے ہیں، قرضوں کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ فائر فائٹرز کو عالمی وبا کورونا کے دوران اب تک ماسک فراہم کیے گئے اور نہ ہی انھیں دستانے دیے گئے جبکہ اس کے علاوہ خصوصی لباس بھی انھیں فراہم نہیں کیا جاسکا ہے، وہ شہر کے ہر اس علاقے میں جاتے ہیں جہاں بھی آگ لگنے کی اطلاع موصول ہوتی ہے جو کہ بغیر کسی اقدامات کے جانا خود ان کی اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔


اس تمام تر صورتحال کے تناظر میں آج یعنی منگل کی دوپہرایک بجے سے فائر فائٹرز کام کرنا چھوڑ دیں گے، اس سلسلے میں سول اسپتال سے متصل فائر بریگیڈ کے ہیڈکوارٹرز میں احتجاج کیا جائے گا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شہر میں قائم دیگر پر اسٹیشنز پر بھی ملازمین احتجاج کریں گے، پیر کو بھی فائر بریگیڈ کے ہیڈ کوارٹرز میں احتجاج کیا گیا جبکہ سوک سینٹر میں بھی ملازمین احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔

فائر فائٹرز نے میئر کراچی وسیم اختر ، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور دیگر متعلقہ حکام سے اپیل کی ہے کہ خدارا ان کی حالت پر رحم کیا جائے آئے اور ان کے واجبات جلد از جلد ادا کیے جائیں تاکہ وہ معاشی بحران سے باہر آسکیں۔

واضح رہے کہ فائر بریگیڈ کے ملازمین اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ اپنے واجبات کی ادائیگی کے لیے مظاہرے کرچکے ہیں۔ وقتی طور پر متعلقہ حکام ان سے بات چیت کرکے احتجاج ختم کرنے پر رضامند کرلیتے ہیں لیکن کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔

 
Load Next Story