عالمی وبا اورادب
سیلاب ، وبائیں بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلتی رہی ہیں
شہروں کی کہانیاں کس طرح دھندلکوں میں چھپی ہوتی ہیں ، اس کا اندازہ ان کی تاریخ سے ہوتا ہے۔ ان دنوں اٹلی کا نام ایک بار پھر اخباروں کی سرخیوں میں ہے۔ اٹلی جسے ہم اطالیہ بھی کہتے ہیں ، وہ مغربی تہذیب کا گہوارہ کہلاتا ہے۔ یہاں گلیلیو نے جدید سائنس کی بنیاد رکھی اور اس کی سزا بھگتی۔ زمین کے گھومنے اور نہ گھومنے کا قضیہ اسی سرزمین پر طے پایا اور یہیں گلیلیو نے چرچ کے سامنے سرگوشی میں یہ مشہور جملہ کہا تھا کہ ''زمین گھومتی تو ہے'' ایک ایسا قضیہ جس کی معافی اسے اپنی موت کے صدیوں بعد چرچ سے ملی، وہ بھی بیسویں صدی کے آخری برسوں میں۔ یہیں مائیکل اینجلو نے ڈیوڈ کا مجسمہ تراشا جو سنگتراشی کا شاہکار ہے۔ اٹلی کے مختلف شہروں میں فن کاروں ، سنگتراشوں اور مصوروں نے انسانی تاریخ کے کیا کیا شاہکار نہ تراشے۔ کیسے بے مثال ادبی شاہکار مصور نہ کیے۔ 'ڈیوائن کامیڈی' کے تینوں حصے، بوکیشیو کی کہانیاں اور بیسویں صدی میں البرٹو، موراویہ، اوریانہ فلاچی۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس سے پہلے یہاں کی تاریخ پر نپولین بوناپارٹ اور مسولینی نے حکمرانی کی۔ یہیں پر پیسا کا جھکا ہوا مینار بھی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا نظارہ کرنے ساری دنیا سے سیاح جاتے تھے۔ لیکن اب وہاں کے سیاحتی مراکز میں دھول اڑتی ہے اورو جہ اس کی وہی کورونا وائرس ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن جس نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
اس وقت کورونا وائرس سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی اور اسپین میں ہورہی ہیں۔ وہاں کی ہلاکتوں کی تفصیل پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک کا معاملہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا وائرس سے جتنی ہلاکتیں مغرب میں ہوئیں وہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کے رہنے والوں کے اندر قوت مزاحمت زیادہ ہوتی ہے۔
یوں تو ہرجگہ کے لوگوں کے بارے میں فکر ہے لیکن میری ایک عزیز شاگرد صائمہ حیات وہاں پڑھنے کے لیے گئی ہوئی ہے۔ وہ چند دنوں پہلے اپنے گھر کراچی آنے والی تھی کہ کورونا کے عذاب نے سر اٹھایا اور وہ وہیں کی ہوکر رہ گئی۔ اس کا بھائی عاطف حیات گوتم کراچی میں ہے اور اس کے لیے فکر مند رہتا ہے۔
اٹلی ہو یا اسپین دونوں ملکوں میں فن مصوری اور سنگتراشی کے اعلیٰ نمونے ہیں اور لاکھوں سیاح دنیا کے مشرق و مغرب سے آتے ہیں۔ مصوری اور سنگتراشی کے ان نمونوں کو دیکھتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔ ان نمونوں کو دیکھنے کے لیے اٹلی اور اسپین کے میوزیم کھچا کھچ بھرے رہتے تھے لیکن اس وقت ہر طرف سناٹا ہے۔ پوپ اور کلیسا کے دوسرے اعلیٰ حکام نے تمام مذہبی رسومات معطل کردی ہیں۔ جامعہ اظہر سے بھی صبح شام فتوے دیے جارہے ہیں۔ جن میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ نمازوں کے لیے مسجدوں میں اکٹھا نہ ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ جمعہ کی باجماعت نماز بھی عارضی طور پر بند کردی گئی ہے۔
ان تفصیلات کو پڑھتے ہوئے مجھے کلاسیکی ادب یاد آیا جو اب سے 700 برس پہلے اٹلی میں طاعون یا سیاہ موت کے دنوں میں بوکیشیو نے تخلیق کیا تھا۔ یہ 100 کہانیاں اس زمانے میں سنی اور سنائی گئی تھیں جب اٹلی میں ''سیاہ موت'' یعنی ''بلیک ڈیتھ'' اچانک پھیل گئی تھی اور سات عورتوں اور تین مردوں نے اپنے شہر کو ترک کیا اور شہر سے باہر ایک قدیم حویلی میں جااترے۔
اس قافلے میں سات عورتیں اور تین مرد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کہانیوں میں کچھ سنسکرت میں لکھی جانے والی پنچ تنتر کتھا سے مستعار لی گئی ہیں۔ یہ اتنی دلچسپ کہانیاں ہیں کہ ایک بار شروع کردیں تو آپ کے لیے اسے ہاتھ سے رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ کہانیاں تقریباً سب ہی اردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور ''عالمی ڈائجسٹ'' میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے چند احمد اقبال نے ترجمہ کیں اور درجنوں کمال الدین احمد نے ۔ چند کہانیاں میں نے بھی اردو میں منتقل کی تھیں۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ذہنی دباؤ کے باوجود بوکیشیو نے کیسی بے مثال کہانیاں لکھی تھیں۔ کیا اس مرتبہ بھی مغرب یا مشرق سے ہمیں اعلیٰ ادب مل سکے گا؟
سیلاب ، وبائیں بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلتی رہی ہیں۔ فرصت کے لمحوں میں زیادہ تر لوگوں نے کتابوں سے دل لگایا اور یہ بھی ہوا کہ وہ لوگ گاؤں میں آگ کے گرد بیٹھے اور انھوں نے زمانے بھر کی کہانیاں لوگوں کو سنائیں۔ اس زمانے میں خواندہ لوگ شاذو نادر ہوتے تھے۔ ایسے میں پڑھے لکھے لوگوں نے کچھ اپنی اور کچھ دوسروں سے سنی سنائی کہانیاں سنائیں۔ یہ داستان گو اسی طرح اپنا روزینہ کماتے تھے ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اس زمانے میں بھی شہرت کمائی اور جب وہاں سے اٹھے تو داد سمیٹی اور اس کے ساتھ ہی ان کی جیب میں چاندی اور سونے کے سکوں میں اضافہ ہوا۔
بیسیویں صدی میں اٹلی دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا اور اس کے آمر مطلق مسولینی نے جرمن نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کی پیروی کرتے ہوئے اٹلی کو بھی دوسری جنگ عظیم کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد اٹلی پر جو کچھ گزری ہم سب کو معلوم ہے۔ اب اس وقت کورونا وائرس اٹلی اور اسپین پر ٹوٹ پڑا ہے۔ کسی دن ہلاک شدگان کی تعداد اٹلی میں بڑھ جاتی ہے اور کسی روز اسپین میں جان سے جانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
یہ ایک نازک وقت ہے۔ پوری دنیا اپنے اپنے عذاب جھیل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کی دہشت نے انھیں نیم مردہ کررکھا ہے۔ وہ لوگ جو اس ہلاکت خیز وبا سے بے حد و حساب دہلے ہوئے ہیں، ان میں سے وہ لوگ جو دانشور ہیں، ادیب ہیں، سائنسدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے عوام کے ساتھ ہی اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اٹلی جیسے ملک میں ادیبوں نے سات یا ساڑھے سات سو برس پہلے اس سانحے کو کس طور لکھا تھا تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عرفان صدیقی نے اس عالم کو کس دل دوز انداز میں رقم کیا ہے۔ ان کے چند اشعار آپ کی نذر ہیں۔
مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے
اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں ٹوٹتی جاتی ہے سانس
اس کا کہنا ہے نہ گھبراؤ شفا ہونے کو ہے
فاصلوں اور قید تنہائی تلک تو آگئے
جانے کیا کچھ اور بھی نذر وبا ہونے کو ہے
ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو
ایسے لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے
دوسری جنگ عظیم کے دوران اور اس سے پہلے یہاں کی تاریخ پر نپولین بوناپارٹ اور مسولینی نے حکمرانی کی۔ یہیں پر پیسا کا جھکا ہوا مینار بھی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا نظارہ کرنے ساری دنیا سے سیاح جاتے تھے۔ لیکن اب وہاں کے سیاحتی مراکز میں دھول اڑتی ہے اورو جہ اس کی وہی کورونا وائرس ہے جو ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن جس نے ساری دنیا کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
اس وقت کورونا وائرس سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی اور اسپین میں ہورہی ہیں۔ وہاں کی ہلاکتوں کی تفصیل پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ ایک ترقی یافتہ ملک کا معاملہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کورونا وائرس سے جتنی ہلاکتیں مغرب میں ہوئیں وہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں کے رہنے والوں کے اندر قوت مزاحمت زیادہ ہوتی ہے۔
یوں تو ہرجگہ کے لوگوں کے بارے میں فکر ہے لیکن میری ایک عزیز شاگرد صائمہ حیات وہاں پڑھنے کے لیے گئی ہوئی ہے۔ وہ چند دنوں پہلے اپنے گھر کراچی آنے والی تھی کہ کورونا کے عذاب نے سر اٹھایا اور وہ وہیں کی ہوکر رہ گئی۔ اس کا بھائی عاطف حیات گوتم کراچی میں ہے اور اس کے لیے فکر مند رہتا ہے۔
اٹلی ہو یا اسپین دونوں ملکوں میں فن مصوری اور سنگتراشی کے اعلیٰ نمونے ہیں اور لاکھوں سیاح دنیا کے مشرق و مغرب سے آتے ہیں۔ مصوری اور سنگتراشی کے ان نمونوں کو دیکھتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔ ان نمونوں کو دیکھنے کے لیے اٹلی اور اسپین کے میوزیم کھچا کھچ بھرے رہتے تھے لیکن اس وقت ہر طرف سناٹا ہے۔ پوپ اور کلیسا کے دوسرے اعلیٰ حکام نے تمام مذہبی رسومات معطل کردی ہیں۔ جامعہ اظہر سے بھی صبح شام فتوے دیے جارہے ہیں۔ جن میں لوگوں سے کہا گیا ہے کہ نمازوں کے لیے مسجدوں میں اکٹھا نہ ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ جمعہ کی باجماعت نماز بھی عارضی طور پر بند کردی گئی ہے۔
ان تفصیلات کو پڑھتے ہوئے مجھے کلاسیکی ادب یاد آیا جو اب سے 700 برس پہلے اٹلی میں طاعون یا سیاہ موت کے دنوں میں بوکیشیو نے تخلیق کیا تھا۔ یہ 100 کہانیاں اس زمانے میں سنی اور سنائی گئی تھیں جب اٹلی میں ''سیاہ موت'' یعنی ''بلیک ڈیتھ'' اچانک پھیل گئی تھی اور سات عورتوں اور تین مردوں نے اپنے شہر کو ترک کیا اور شہر سے باہر ایک قدیم حویلی میں جااترے۔
اس قافلے میں سات عورتیں اور تین مرد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کہانیوں میں کچھ سنسکرت میں لکھی جانے والی پنچ تنتر کتھا سے مستعار لی گئی ہیں۔ یہ اتنی دلچسپ کہانیاں ہیں کہ ایک بار شروع کردیں تو آپ کے لیے اسے ہاتھ سے رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ کہانیاں تقریباً سب ہی اردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں اور ''عالمی ڈائجسٹ'' میں شائع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے چند احمد اقبال نے ترجمہ کیں اور درجنوں کمال الدین احمد نے ۔ چند کہانیاں میں نے بھی اردو میں منتقل کی تھیں۔ ان کہانیوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ذہنی دباؤ کے باوجود بوکیشیو نے کیسی بے مثال کہانیاں لکھی تھیں۔ کیا اس مرتبہ بھی مغرب یا مشرق سے ہمیں اعلیٰ ادب مل سکے گا؟
سیلاب ، وبائیں بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلتی رہی ہیں۔ فرصت کے لمحوں میں زیادہ تر لوگوں نے کتابوں سے دل لگایا اور یہ بھی ہوا کہ وہ لوگ گاؤں میں آگ کے گرد بیٹھے اور انھوں نے زمانے بھر کی کہانیاں لوگوں کو سنائیں۔ اس زمانے میں خواندہ لوگ شاذو نادر ہوتے تھے۔ ایسے میں پڑھے لکھے لوگوں نے کچھ اپنی اور کچھ دوسروں سے سنی سنائی کہانیاں سنائیں۔ یہ داستان گو اسی طرح اپنا روزینہ کماتے تھے ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے اس زمانے میں بھی شہرت کمائی اور جب وہاں سے اٹھے تو داد سمیٹی اور اس کے ساتھ ہی ان کی جیب میں چاندی اور سونے کے سکوں میں اضافہ ہوا۔
بیسیویں صدی میں اٹلی دوسری جنگ عظیم میں کود پڑا اور اس کے آمر مطلق مسولینی نے جرمن نازی لیڈر ایڈولف ہٹلر کی پیروی کرتے ہوئے اٹلی کو بھی دوسری جنگ عظیم کے جہنم میں دھکیل دیا۔ اس کے بعد اٹلی پر جو کچھ گزری ہم سب کو معلوم ہے۔ اب اس وقت کورونا وائرس اٹلی اور اسپین پر ٹوٹ پڑا ہے۔ کسی دن ہلاک شدگان کی تعداد اٹلی میں بڑھ جاتی ہے اور کسی روز اسپین میں جان سے جانے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔
یہ ایک نازک وقت ہے۔ پوری دنیا اپنے اپنے عذاب جھیل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورونا وائرس کی دہشت نے انھیں نیم مردہ کررکھا ہے۔ وہ لوگ جو اس ہلاکت خیز وبا سے بے حد و حساب دہلے ہوئے ہیں، ان میں سے وہ لوگ جو دانشور ہیں، ادیب ہیں، سائنسدان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے عوام کے ساتھ ہی اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ اٹلی جیسے ملک میں ادیبوں نے سات یا ساڑھے سات سو برس پہلے اس سانحے کو کس طور لکھا تھا تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ عرفان صدیقی نے اس عالم کو کس دل دوز انداز میں رقم کیا ہے۔ ان کے چند اشعار آپ کی نذر ہیں۔
مطمئن تھے لوگ شاید انتہا ہونے کو ہے
اب خبر آئی ابھی تو ابتدا ہونے کو ہے
ڈوبتی جاتی ہیں نبضیں ٹوٹتی جاتی ہے سانس
اس کا کہنا ہے نہ گھبراؤ شفا ہونے کو ہے
فاصلوں اور قید تنہائی تلک تو آگئے
جانے کیا کچھ اور بھی نذر وبا ہونے کو ہے
ایک سناٹا مسلسل ڈس رہا ہے شہر کو
ایسے لگتا ہے کہ کوئی حادثہ ہونے کو ہے