آٹا چینی بحران پر سرکاری رپورٹ اور لائن کٹنے کا خدشہ
یوں لگ رہا جیسے یہ رپورٹ اور اس پر کارروائی کے بعد حکومت ایک ہاؤس آف کارڈز ثابت ہوگی
سچ پوچھیے تو اپنی ٹیم کی غلطیوں اور نااہلیوں کا ڈھول پیٹتی آٹا چینی رپورٹ پبلک کرنا بڑا جگرا مانگتا ہے۔ میڈیا، جو ویسے بھی خان صاحب کی غلطیاں گننے کا شیدائی ہے، کورونا پر رپورٹنگ کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ سو اس جانب کسی بھوکے شیر کی طرح لپکا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ خان صاحب اس رپورٹ کو پبلک کرنا تو چاہتے تھے مگر وہ اس رپورٹ کو پبلک کرنے کےلیے کسی موزوں وقت کی تلاش میں تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس رپورٹ کےلیے مرزا شہزاد اکبر المعروف احتساب اکبر کی پریس کانفرنس تیار تھی، جس میں ایک سیفٹی والو کو ہاتھ میں رکھ کر، حکومت کو ذمے داران سے الگ کر کے پیش کیا جانا تھا۔ ایسا مگر نہ ہوسکا اور اُن ہی کے دفتر سے ایک سینئر صحافی کے ہاتھ لگ کر یہ رپورٹ ہفتے کی رات کو سات بج کر پچاس منٹ پر ٹاک شوز سے عین قبل میڈیا کی زینت بنا دی گئی۔
اپنی ایک تحریر ''واقفان حال کہتے ہیں'' میں یہ خبر قارئین کی نذر کر چکا ہوں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس میں اعظم خان گروپ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے چکا ہے اور ترین گروپ کا سامان باہر پھینکا جا چکا ہے۔ جہانگیر ترین نے اب سے چند لمحے قبل اس بات کا پہلی بار برملا اظہار کیا کہ ہاں، وزیرِ اعظم ہاؤس میں موجود ایک اعلیٰ افسر سے اُن کی نہیں بنتی اور ایک سول ادارے کو استعمال کرکے ان کے خلاف مختلف رپورٹس بنوائی جا رہی ہیں۔ جہانگیر ترین نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس ادارے کا سربراہ لگانے میں بھی اسی اعلیٰ افسر کا ہاتھ ہے۔ وہ کہتے ہیں، اور صحیح کہتے ہیں، کہ یہ رپورٹ فی الحال نامکمل ہے۔ مکمل رپورٹ کےلیے ایک اعلی اختیاراتی بنا دیا گیا ہے جو 25 تاریخ تک یہ رپورٹ حتمی شکل میں مرتب کرکے وزیرِ اعظم پاکستان کو پیش کرے گا اور یوں کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
مگر میں سوچ رہا ہوں کہ کارروائی کون کرے گا؟ کس کے خلاف کرے گا؟ اُس کی شکل کیا ہوگی؟ اور، سب سے بڑھ کر، اُس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ یعنی جب شکایت کنندہ عدالت جائے گا تو کارروائی کرنے والا کس طرح سے اپنے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرے گا؟ بات غور طلب ہے کہ اسد عمر کی جانب سے چینی پر سبسڈی دینے پر انکار تو کیا گیا، مگر اُن کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ کہا گیا کہ اضافی چینی برآمد کی جائے۔ اُن کی رخصت کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اور اجلاس میں چینی کی ایکسپورٹ کی باضابطہ اجازت دی جاتی ہے جس کے بعد گیند وفاقی کابینہ کے کورٹ میں جاتی ہے اور اس کی توثیق عمران خان کی قیادت میں وفاقی کابینہ بھی کر دیتی ہے۔
یوں حکومتِ پنجاب کو ایک خاموش رضا مندی کے تحت چینی پر سبسڈی دینے کا اشارہ کر دیا جاتا ہے اور بزدار سرکار کی جانب سے تین ارب کی سبسڈی دے دی جاتی ہے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر اور ماورائے عقل تھا۔ بقول جہانگیر ترین، جب چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تو اس وقت ملک میں 16 لاکھ ٹن چینی اضافی تھی۔ سبسڈی لی تو اس لیے گئی کیوں کہ ایکسپورٹ کے وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت پچاس روپے فی کلو تھی اور لوکل مارکیٹ میں چینی کی قیمت زیادہ یعنی پچپن روپے کلو تھی۔ اپنی چینی کو بین الاقوامی نرخوں پر لانے، یعنی کاسٹ آف پروڈکشن کم کرنے کےلیے، پانچ روپے فی کلو کے حساب سے سبسڈی پنجاب حکومت سے لی گئی۔ اس قدم سے پاکستانی زرِمبادلہ میں تقریباً بیس کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے تین ارب کی سبسڈی کے ساتھ تقریباً 34 ارب روپے کمائے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب چینی اضافی تھی اور اسے برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مقامی مارکیٹ میں اس کی کمی کیوں واقع ہوئی اور قیمت میں اضافہ کیوں ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب چینی کی قیمت پچپن روپے فی کلو تھی، تب گنا فی من 180 روپے کا تھا۔ گنے کی تازہ پیداوار میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے گنا 230 روپے فی من بکنے لگا۔ گنے کی قیمت جب 180 روپے فی من ہو تو مارکیٹ میں اس کی قیمت 67 سے 74 روپے فی کلو ہوتی ہے اور جب گنے کی قیمت 230 روپے فی من ہو تو اس کی قیمت مقامی مارکیٹ میں 80 روپے فی کلو ہوتی ہے۔ پوری رپورٹ کے بار بار مطالعے کے بعد بھی میں کسی کو قصور وار نہیں کہہ سکتا، سوائے اِس کے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی اور بروقت فیصلے نہ لینے کی صلاحیت ہی اس کی اصل ذمہ دار ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان نے حالیہ دنوں میں ایک اعلان یہ کیا کہ ایک سال تک جو بھی صنعتی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے گا، اُس سے ذرائع آمدن کے حوالے سے سوال نہیں ہوگا۔ کل ایک اخبار میں نہایت درست اور برمحل سوال اٹھایا گیا کہ ایک فیصلہ جسے اوّل تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی حمایت حاصل تھی، پھر وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت کابینہ کی بھی حمایت حاصل ہوئی، پھر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے بھی اُس کی توثیق کی، اس فیصلے پر چند ماہ بعد ایف آئی اے کا ایک افسر ماورائے عقل ہونے کی مہر ثبت کردے تو کیا گارنٹی ہے کہ وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو، جس میں صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے، ایک اور افسر ماورائے عقل کہہ کر تمام سرمایہ کاروں کو قتل گاہ کی جانب روانہ نہیں کرے گا۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ سرمایہ بہت کمزور دل کا مالک ہوتا ہے۔ کہیں بھی معمول سے ہٹ کر ذرا سی ہلچل ہو، سب سے پہلے سرمایہ بھاگتا ہے۔
خان صاحب نے یقیناً اس رپورٹ کو پبلک کرنے سے پہلے اس کے تمام تر پہلوؤں کا بغور جائزہ لے لیا ہوگا۔ 25 تاریخ کا انتظار ہے، جب شاید سیاسی شطرنج کی بساط پر عجب منظر دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف دیرینہ دوست ہے تو دوسری طرف جنوبی پنجاب کے محاذ کا اہم ترین کھلاڑی۔ ایک طرف گجرات کے سیاسی پہلوان ہیں تو دوسری طرف اپنی پنجاب الیون کا وسیم اکرم پلس۔ خان صاحب کو اس کی سیاسی قیمت چکانا ہوگی۔
یوں لگ رہا جیسے یہ رپورٹ اور اس پر کارروائی کے بعد حکومت ایک ہاؤس آف کارڈز ثابت ہو جس کی مولانا کوثر نیازی کے الفاظ میں، لائن کسی بھی وقت کٹ سکتی ہو۔ جہاں کریڈٹ بنتا ہے وہاں مگر تعریف ہونی چاہیے۔ عوام کی اکثریت کو برآمدات کےلیے دی گئی سبسڈی، گنے کی فی من قیمت اور اسٹاکیوں کے کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ بات ماننے کی ہے کہ خان صاحب چاہتے تو اس رپورٹ کو دبا کر اسے اندرون خانہ سیاسی بلیک میلنگ کےلیے استعمال کر سکتے تھے اور عام لوگوں کو اس کی بھنک بھی نہ لگتی۔ آپ رپورٹ کے متن کو بنیاد بنا کر جو دل چاہے کہیے، آپ یہ جان لیں کہ اگر اُس شخص کی نیت میں فتور ہوتا تو وہ یہ رپورٹ دبائے رکھتا۔ جہاں پہلے وقتوں میں ہر سرکاری گھپلے کی فائل کو ایک غائبانہ آگ راکھ کر دیتی تھی، ہر خلاف تحقیقات کرنے والا افسر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا، وہیں اس دور میں اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی خلاف یہ رپورٹ منظرِ عام پر لانا خان صاحب کی ایمانداری پر مہر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اپنی ایک تحریر ''واقفان حال کہتے ہیں'' میں یہ خبر قارئین کی نذر کر چکا ہوں کہ وزیرِ اعظم ہاؤس میں اعظم خان گروپ معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے چکا ہے اور ترین گروپ کا سامان باہر پھینکا جا چکا ہے۔ جہانگیر ترین نے اب سے چند لمحے قبل اس بات کا پہلی بار برملا اظہار کیا کہ ہاں، وزیرِ اعظم ہاؤس میں موجود ایک اعلیٰ افسر سے اُن کی نہیں بنتی اور ایک سول ادارے کو استعمال کرکے ان کے خلاف مختلف رپورٹس بنوائی جا رہی ہیں۔ جہانگیر ترین نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس ادارے کا سربراہ لگانے میں بھی اسی اعلیٰ افسر کا ہاتھ ہے۔ وہ کہتے ہیں، اور صحیح کہتے ہیں، کہ یہ رپورٹ فی الحال نامکمل ہے۔ مکمل رپورٹ کےلیے ایک اعلی اختیاراتی بنا دیا گیا ہے جو 25 تاریخ تک یہ رپورٹ حتمی شکل میں مرتب کرکے وزیرِ اعظم پاکستان کو پیش کرے گا اور یوں کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
مگر میں سوچ رہا ہوں کہ کارروائی کون کرے گا؟ کس کے خلاف کرے گا؟ اُس کی شکل کیا ہوگی؟ اور، سب سے بڑھ کر، اُس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ یعنی جب شکایت کنندہ عدالت جائے گا تو کارروائی کرنے والا کس طرح سے اپنے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کرے گا؟ بات غور طلب ہے کہ اسد عمر کی جانب سے چینی پر سبسڈی دینے پر انکار تو کیا گیا، مگر اُن کی جانب سے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں یہ کہا گیا کہ اضافی چینی برآمد کی جائے۔ اُن کی رخصت کے بعد اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایک اور اجلاس میں چینی کی ایکسپورٹ کی باضابطہ اجازت دی جاتی ہے جس کے بعد گیند وفاقی کابینہ کے کورٹ میں جاتی ہے اور اس کی توثیق عمران خان کی قیادت میں وفاقی کابینہ بھی کر دیتی ہے۔
یوں حکومتِ پنجاب کو ایک خاموش رضا مندی کے تحت چینی پر سبسڈی دینے کا اشارہ کر دیا جاتا ہے اور بزدار سرکار کی جانب سے تین ارب کی سبسڈی دے دی جاتی ہے۔
ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد کا فیصلہ سمجھ سے بالاتر اور ماورائے عقل تھا۔ بقول جہانگیر ترین، جب چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تو اس وقت ملک میں 16 لاکھ ٹن چینی اضافی تھی۔ سبسڈی لی تو اس لیے گئی کیوں کہ ایکسپورٹ کے وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت پچاس روپے فی کلو تھی اور لوکل مارکیٹ میں چینی کی قیمت زیادہ یعنی پچپن روپے کلو تھی۔ اپنی چینی کو بین الاقوامی نرخوں پر لانے، یعنی کاسٹ آف پروڈکشن کم کرنے کےلیے، پانچ روپے فی کلو کے حساب سے سبسڈی پنجاب حکومت سے لی گئی۔ اس قدم سے پاکستانی زرِمبادلہ میں تقریباً بیس کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے تین ارب کی سبسڈی کے ساتھ تقریباً 34 ارب روپے کمائے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب چینی اضافی تھی اور اسے برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو مقامی مارکیٹ میں اس کی کمی کیوں واقع ہوئی اور قیمت میں اضافہ کیوں ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب چینی کی قیمت پچپن روپے فی کلو تھی، تب گنا فی من 180 روپے کا تھا۔ گنے کی تازہ پیداوار میں کمی واقع ہونے کی وجہ سے گنا 230 روپے فی من بکنے لگا۔ گنے کی قیمت جب 180 روپے فی من ہو تو مارکیٹ میں اس کی قیمت 67 سے 74 روپے فی کلو ہوتی ہے اور جب گنے کی قیمت 230 روپے فی من ہو تو اس کی قیمت مقامی مارکیٹ میں 80 روپے فی کلو ہوتی ہے۔ پوری رپورٹ کے بار بار مطالعے کے بعد بھی میں کسی کو قصور وار نہیں کہہ سکتا، سوائے اِس کے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناقص منصوبہ بندی اور بروقت فیصلے نہ لینے کی صلاحیت ہی اس کی اصل ذمہ دار ہیں۔
وزیرِ اعظم پاکستان نے حالیہ دنوں میں ایک اعلان یہ کیا کہ ایک سال تک جو بھی صنعتی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرے گا، اُس سے ذرائع آمدن کے حوالے سے سوال نہیں ہوگا۔ کل ایک اخبار میں نہایت درست اور برمحل سوال اٹھایا گیا کہ ایک فیصلہ جسے اوّل تو اقتصادی رابطہ کمیٹی کی حمایت حاصل تھی، پھر وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت کابینہ کی بھی حمایت حاصل ہوئی، پھر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے بھی اُس کی توثیق کی، اس فیصلے پر چند ماہ بعد ایف آئی اے کا ایک افسر ماورائے عقل ہونے کی مہر ثبت کردے تو کیا گارنٹی ہے کہ وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو، جس میں صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے، ایک اور افسر ماورائے عقل کہہ کر تمام سرمایہ کاروں کو قتل گاہ کی جانب روانہ نہیں کرے گا۔
کسی نے کیا خوب کہا کہ سرمایہ بہت کمزور دل کا مالک ہوتا ہے۔ کہیں بھی معمول سے ہٹ کر ذرا سی ہلچل ہو، سب سے پہلے سرمایہ بھاگتا ہے۔
خان صاحب نے یقیناً اس رپورٹ کو پبلک کرنے سے پہلے اس کے تمام تر پہلوؤں کا بغور جائزہ لے لیا ہوگا۔ 25 تاریخ کا انتظار ہے، جب شاید سیاسی شطرنج کی بساط پر عجب منظر دیکھنے کو ملے۔ ایک طرف دیرینہ دوست ہے تو دوسری طرف جنوبی پنجاب کے محاذ کا اہم ترین کھلاڑی۔ ایک طرف گجرات کے سیاسی پہلوان ہیں تو دوسری طرف اپنی پنجاب الیون کا وسیم اکرم پلس۔ خان صاحب کو اس کی سیاسی قیمت چکانا ہوگی۔
یوں لگ رہا جیسے یہ رپورٹ اور اس پر کارروائی کے بعد حکومت ایک ہاؤس آف کارڈز ثابت ہو جس کی مولانا کوثر نیازی کے الفاظ میں، لائن کسی بھی وقت کٹ سکتی ہو۔ جہاں کریڈٹ بنتا ہے وہاں مگر تعریف ہونی چاہیے۔ عوام کی اکثریت کو برآمدات کےلیے دی گئی سبسڈی، گنے کی فی من قیمت اور اسٹاکیوں کے کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ بات ماننے کی ہے کہ خان صاحب چاہتے تو اس رپورٹ کو دبا کر اسے اندرون خانہ سیاسی بلیک میلنگ کےلیے استعمال کر سکتے تھے اور عام لوگوں کو اس کی بھنک بھی نہ لگتی۔ آپ رپورٹ کے متن کو بنیاد بنا کر جو دل چاہے کہیے، آپ یہ جان لیں کہ اگر اُس شخص کی نیت میں فتور ہوتا تو وہ یہ رپورٹ دبائے رکھتا۔ جہاں پہلے وقتوں میں ہر سرکاری گھپلے کی فائل کو ایک غائبانہ آگ راکھ کر دیتی تھی، ہر خلاف تحقیقات کرنے والا افسر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا، وہیں اس دور میں اپنی ہی حکومت میں اپنے ہی خلاف یہ رپورٹ منظرِ عام پر لانا خان صاحب کی ایمانداری پر مہر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔