سپریم کورٹ نے ایک بار پھر لاپتہ افراد کو پیش کرنے کیلئے ایک دن کی مہلت دے دی
اگر کوئی شخص ایجنسیوں کی حراست میں مرے تو وہ قتل ہے، چیف جسٹس
CHENNAI:
سپریم کورٹ نے ایک بار پھر لاپتہ افراد کو پیش کرنے کےلئے ایک دن کی مہلت دیتےہوئے حکومت کو کل تمام افراد کو عدلت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیاہے۔
سپریم کورٹ میں بلوچستان لاپتہ افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کررہا ہے۔ عدالت کے حکم کے باوجود 35 لاپتہ افراد سپریم کورٹ پیش نہیں کیئے گئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ ان میں سے دو افراد مر چکے ہیں مجھے رات ہی وزیر دفاع نے بتایا کہ دو افراد سینٹرمیں مر چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک لاپتہ شخص دسمبر 2012 جب کہ دوسرا جولائی 2013میں فوت ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مرنے والوں کے نام اور 10 سینٹر میں مرے اس کی معلومات فراہم کی جائیں ،ان افراد کی ہلاکت نے کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیا، اگر اس کے بعد کچھ رہ گیا ہے تو بتادیں، اگر کوئی شخص کسی ایجنسی کی حراست میں مرے تو یہ قتل ہے ،اس موقع پر خبر سنتے ہی ایک لاپتہ شخص یاسین کا بھائی محب خان کمرہ عدالت میں بے ہوش ہو گیا اور حالت غیر ہونے پر اسپتال سینٹر منتقل کردیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع نے 28 نومبر کو لاپتہ افراد پیش کرنے کا یقین دلایا تھا، لوگوں کو مارنا ہے تو پھر تفتیشی مراکز بند کردیں، اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت ایکشن لیتی ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کہا کہ دونوں لکی مروت کے حراستی مرکز میں مرے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہ سینٹر ہے جس کو وفاق کنٹرول کرتا ہے، جو مر گیا ہے اس کا حال احوال دے دیا باقی کہہ رہے ہیں ہمارے پاس نہیں، ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کہا کہ یہ دونوں قیدی قدرتی موت مرے ہیں۔
اس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جس لمحہ ریاست قانون شکن ہو جائے تو دوسرے کو کیسے کہے گی کہ قانون پر عمل کرے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لکی مروت سینٹر کے افسران کے خلاف مقدمہ درج کریں اور ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے۔ ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ میتیں ورثا کے حوالہ کر دی گئیں اور انہوں نے بھی قانونی کارروائی نہیں کی، وزارت دفاع کی جانب سے مزید ایک دن کی مہلت دینے کی استدعابھی کی گئی۔ ،وزیر دفاع خواجہ آصف پیش ہوئےتو چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی قانون سے بہت بڑا ہے جس پر حکومت کا بس نہیں چل رہا ، آپ بے بس ہیں تو لکھ دیں، اس دوران خواجہ آصف نے وقت مانگا جس پر چیف جسٹس نے کہا ایک دن، ایک منٹ ایک سیکنڈ بھی نہیں دیں گے۔
وزیر دفاع نے کہاکہ آرمی چیف کا آج پہلا دن ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے مزید 2 یا 3 دیئے جائیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے آپ کو 21 ماہ دے چکے ہیں۔ آج شام تک ہر حال میں لاپتہ افراد سمیت ان کے خلاف درج کئے جانے والے مقدمات کی کاپی اور گرفتاریوں کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے جب کہ جو لوگ لاپتہ افراد کو لےکر گئےہیں ان کے خلاف اغوا اور قتل کے مقدمات درج کئے جائیں۔ لوگ بازیاب نہیں ہورہے تو آپ کے سسٹم میں خرابی ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتےہوئے حکومت کو تمام افراد پیش کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ نے ایک بار پھر لاپتہ افراد کو پیش کرنے کےلئے ایک دن کی مہلت دیتےہوئے حکومت کو کل تمام افراد کو عدلت کے روبرو پیش کرنے کا حکم دیاہے۔
سپریم کورٹ میں بلوچستان لاپتہ افراد کیس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کررہا ہے۔ عدالت کے حکم کے باوجود 35 لاپتہ افراد سپریم کورٹ پیش نہیں کیئے گئے اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ ان میں سے دو افراد مر چکے ہیں مجھے رات ہی وزیر دفاع نے بتایا کہ دو افراد سینٹرمیں مر چکے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک لاپتہ شخص دسمبر 2012 جب کہ دوسرا جولائی 2013میں فوت ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مرنے والوں کے نام اور 10 سینٹر میں مرے اس کی معلومات فراہم کی جائیں ،ان افراد کی ہلاکت نے کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیا، اگر اس کے بعد کچھ رہ گیا ہے تو بتادیں، اگر کوئی شخص کسی ایجنسی کی حراست میں مرے تو یہ قتل ہے ،اس موقع پر خبر سنتے ہی ایک لاپتہ شخص یاسین کا بھائی محب خان کمرہ عدالت میں بے ہوش ہو گیا اور حالت غیر ہونے پر اسپتال سینٹر منتقل کردیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع نے 28 نومبر کو لاپتہ افراد پیش کرنے کا یقین دلایا تھا، لوگوں کو مارنا ہے تو پھر تفتیشی مراکز بند کردیں، اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت ایکشن لیتی ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کہا کہ دونوں لکی مروت کے حراستی مرکز میں مرے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہ سینٹر ہے جس کو وفاق کنٹرول کرتا ہے، جو مر گیا ہے اس کا حال احوال دے دیا باقی کہہ رہے ہیں ہمارے پاس نہیں، ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کہا کہ یہ دونوں قیدی قدرتی موت مرے ہیں۔
اس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ جس لمحہ ریاست قانون شکن ہو جائے تو دوسرے کو کیسے کہے گی کہ قانون پر عمل کرے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لکی مروت سینٹر کے افسران کے خلاف مقدمہ درج کریں اور ذمہ داروں کو گرفتار کیا جائے۔ ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ میتیں ورثا کے حوالہ کر دی گئیں اور انہوں نے بھی قانونی کارروائی نہیں کی، وزارت دفاع کی جانب سے مزید ایک دن کی مہلت دینے کی استدعابھی کی گئی۔ ،وزیر دفاع خواجہ آصف پیش ہوئےتو چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی قانون سے بہت بڑا ہے جس پر حکومت کا بس نہیں چل رہا ، آپ بے بس ہیں تو لکھ دیں، اس دوران خواجہ آصف نے وقت مانگا جس پر چیف جسٹس نے کہا ایک دن، ایک منٹ ایک سیکنڈ بھی نہیں دیں گے۔
وزیر دفاع نے کہاکہ آرمی چیف کا آج پہلا دن ہے، لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے مزید 2 یا 3 دیئے جائیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے آپ کو 21 ماہ دے چکے ہیں۔ آج شام تک ہر حال میں لاپتہ افراد سمیت ان کے خلاف درج کئے جانے والے مقدمات کی کاپی اور گرفتاریوں کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے جب کہ جو لوگ لاپتہ افراد کو لےکر گئےہیں ان کے خلاف اغوا اور قتل کے مقدمات درج کئے جائیں۔ لوگ بازیاب نہیں ہورہے تو آپ کے سسٹم میں خرابی ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتےہوئے حکومت کو تمام افراد پیش کرنے کا حکم دیا۔