ہومیو پیتھی کا عالمی دن
صرف ہومیو پیتھی ہی آسان، سادہ، فطری، بے ضرر، ارزاں اور جامع طریقہ علاج ہے۔
صرف ہومیو پیتھی ہی آسان، سادہ، فطری، بے ضرر، ارزاں اور جامع طریقہ علاج ہے، جو بیمار کے معیار پر پورا اترتا اور اسے جلد، مکمل اور نرم طریق پر مستقل شفاء سے ہمکنار کرتا ہے۔
1796ء میں ڈاکٹر ہانیمن نے کہا کہ' Similia Similibus Curentureor Let Likes Cured Bylike' یعنی جو مرض اِس وقت بیمار آدمی میں ہے، وہ اُسی وقت ٹھیک ہو سکتا ہے، جب اُسے ایسی دوا دی جائے جو اس سے پہلے ایک صحت مند انسان میں ویسا ہی ادویاتی مرض پیدا کر چکی ہو۔ اِس نظریہ کی اس قدر زیادہ مخالفت کی گئی کہ انھیں لیپسبرگ چھوڑ کر کواتھن ہجرت کرنا پڑی تاہم اس مرد حق نے باطل نظریات کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
اب وہ وہاں اپنے نظریہ کے مطابق کامیاب پریکٹس کرنے لگے لیکن ایک مشکل اس نئے علاج میں یہ پیش آئی کہ بیماری تو ٹھیک ہوجاتی تھی لیکن دوا کے اثرات باقی رہ جاتے تھے۔ اس مشکل کو بھی انھوں نے بڑے صبر و تحمل سے اپنے تجربات کی روشنی میں حل کر دیا۔ انھوں نے ادویات کو بنانے کا ایک خاص طریقہ Potentisation متعارف کرایا۔
مریض کا مرض سے شفایابی کی طرف لوٹنے کا بھی ایک اصول متعین کیا گیا ہے، جسے ڈاکٹر کائنفائن نسٹناہیرنگ قانون شفاء (Law of Cure) کہتے ہیں۔ اس کے مطابق شفایابی اندر سے باہر کی طرف، اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں ہو گی۔ جو علامات آخر میں ظاہر ہوتی تھیں، وہ پہلے اور جو پہلے ظاہر ہوتی تھیں وہ آخر میں ختم ہوں گی۔ اس موقع پر یہاں ایک سوال آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ ہومیو پیتھی میں ادویات کے ذرائع کیا ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل عناصر سے ماخوذ ہیں:
1۔ پودے ، 2۔ جانور (مچھلی، سانپ، دودھ)، 3۔ معدنیات (سونا ، چاندی، تانبہ)، 4۔ اجزاء (ٹی بی کے جراثیم وغیرہ)، 5۔ صحت مند اجزاء مثلاً تھائیرائیڈ غدود۔
طب کی دنیا میں یہ ڈاکٹر ہانیمن ہی تھے جنہوں نے یہ باور کرایا کہ انسان ، جسم اور روح کا مرکب ہے ۔ روح وہ چیز ہے جو پورے جسم کو کنٹرول کر تی ہے اور یہی سب سے پہلے بیمار ہوتی ہے اور جسم آخر میں بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ اچھی سوچ ، اچھے خیالات اور اچھے کام ، ان سب چیزوں سے یہ ترو توانا ہوتی ہے جبکہ فکر، غصہ، افسوس، غلط سوچ اور کاموں سے متاثر ہو تی ہے۔ اس کے بعد قوتِ حیات جو اس کی ایک شکل ہے، متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے، جس کا اظہار پہلے بے چینی، گھبراہٹ، نیند کی کمی اور بعد میں خارش ، تیزابیت وغیرہ کی شکل میں علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ بغیر کسی دوا (ہومیو پیتھک) جاری رہے تو پھر بیماری جسم پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں ساختی و فعلیاتی تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
جس طرح روح غیر مادی ہے اسی طرح بیماری بھی، لہذا اسے درست کرنے کے لئے ہمیں ایسی دوا کی ضرورت ہو گی جس میں ایسی قوت ہو جو اس غیر مادی بیماری کو دُور کر سکے۔ ہومیو پیتھک دوا جسے پوٹنٹائز کر کے اس کی غیر مادّی شفائی قوت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، وہ قوت حیات کی مدد کر تی ہے کہ وہ اس بیماری کے خلاف کام کرے جو جسم میں گھس آئی ہے اور اس طرح بارہا دوا کے دہرانے سے قوت حیات طاقت ور ہوجاتی ہے اور بیماری کمزور۔ پھر بہت جلد ایسا موقع آتا ہے کہ بیماری جسم سے دُور ہو جاتی ہے اور قوت حیات واپس اپنی اصلی حالت میں لوٹ آتی ہے۔ اس طرح جسم کمزور نہیں پڑتا اور اِسی وجہ سے بیماری کا بار بار اعادہ نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ جیسے سابقہ سطور میں بھی بتایا گیا ،ایک خاص طریقے سے یعنی پوٹنٹائز کے عمل سے دوا تیار کی جاتی ہے، جس سے دوا کی بیماری والی صفات ختم ہو جاتی ہیں اور اس کی شفایابی والی قوت ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس لئے ٹی بی کے جراثیم سے بننے والی دواؤں برکولائینم ٹی بی کے مرض میں بڑا مؤثر کام دکھاتی ہے وغیر ہ وغیرہ۔
ڈاکٹر ہانیمن دنیا کے پہلے مایہ ناز ڈاکٹر تھے جنھوں نے ادویات کو استعمال کرنے سے پہلے ان کی انسانی پروونگ پر ناصرف زور دیا بلکہ عملی طور پر خود 99ادویات کو اپنے اوپر آزمایا، جس کا ذکر انھوں نے میٹریا میڈیکا پیورا میں کیا۔ دوا کی آزمائش پروونگ کا طریقہ کار بہت سادہ اور آسان ہے۔ وہ اس طرح کی چیف ریسرچ سائنٹس دوا کو منتخب کر کے اس کے تمام فارماکولوجیکل اور ٹاکسک اثرات کے متعلق علم رکھتا ہے ، پھر اس دوا کو ہومیو پیتھک طریقہ سے تیار کر کے مختلف رنگ و نسل، جنس، عمر کے لوگوں کو دوا کھلاتا ہے۔ ایک مخصوص میعاد تک ان میں سے کچھ لوگوں کو دوا کھلائی جاتی ہے، اور کچھ لوگوں کو صرف سادہ گولیاں دی جاتی ہیں تاکہ لوگوں پر دوا کھانے کے نفسیاتی اثر کو پرکھا جا سکے۔
اب ان پروورزProversse جن کو ادویہ دی گئی ہیں، ایک خاص اسکیم کے تحت یعنی ان کے ذہن ، دماغ، سَر،کان ، ناک، آنکھ ، منہ، دانت، زبان، حلق، گردن، پیٹھ، سینہ، پیٹ، نسوانی اعضاء، مرادنہ اعضاء، گردے وغیرہ اور پیتھالوجیکل علامات کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ پھر ایک سائنٹیفک انداز میں ان تمام علامات کو جو مختلف پروورز نے فراہم کی تھی، احتیاط کے ساتھ جانچا جاتا ہے، پھر ان علامات کو منظور کر کے اس دوا کو اور اس کی علامات کو میٹریا میڈیکا میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
انسانی پروونگ کے تین بڑے فائدے ہیں، ایک تو یہ کہ ادویات جس طرح سے انسانی جسم پراثر ڈالتی ہیں، اس کا براہ راست مشاہدہ ہونا، اور دوم: انسانی نفسیاتی علامات بھی ملتی ہیں۔ سوم: آئندہ علاج میں مریض کی کیفیات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جبکہ جانوروں پر ہونے والی پروونگ میں صرف پیتھالوجیکل علامات کا تو علم ہو جاتا ہے لیکن انسانی نفسیات اور انسانی جسم میںہونے والی تبدیلیاں پھر بھی مفروضہ ہی رہتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی میں جو ادویات ڈاکٹر ہانیمن نے آج سے200 سال پہلے ثابت کی تھیں، آج تک ان میں کوئی فرق نہیں آیا اور اب تک اِسی طرح زیر استعمال ہیں، جبکہ دیگر مروجہ طریقہ ہائے علاج میں ادویہ کچھ عرصے بعد متروک ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ دوسری ادویات لے لیتی ہیں اور یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی میں مریض کی اپنی کیفیات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے نہ کہ مرض کو ، کیونکہ جب مریض ٹھیک ہوگا تو مرض بھی ٹھیک ہو جائے گا، اس لئے جب بھی کسی ہومیو پیتھک معالج کے پاس جائیں اُسے اپنی ذہنی کیفیات، کسی چیز سے رغبت یا نفرت، تکلیف میں کس چیز کی کمی یا زیادتی ہوتی ہے، کس وقت اور کس طرح ہوتی ہے وغیرہ بتائیں اور جو بھی رپورٹس ہیں ،وہ بھی دکھائیں تاکہ وہ آپ کے لئے صحیح بالمثل دوا تجویز کر سکے، جس سے آپ کو جلد آرام آجائے گا۔
یادرہے کہ ہومیو پیتھی اور صرف ہومیو پیتھی ہی وہ آسان ، سادہ فطری (Natural) بے ضرر، ارزاں اورجامع طریقہ علاج ہے ، جو ایک بیمار کے معیار پر پورا اترا ہے اور اس کو مکمل جلد اور نرم طریق پر مستقل شفاء سے ہمکنار کر دیتا ہے۔
1796ء میں ڈاکٹر ہانیمن نے کہا کہ' Similia Similibus Curentureor Let Likes Cured Bylike' یعنی جو مرض اِس وقت بیمار آدمی میں ہے، وہ اُسی وقت ٹھیک ہو سکتا ہے، جب اُسے ایسی دوا دی جائے جو اس سے پہلے ایک صحت مند انسان میں ویسا ہی ادویاتی مرض پیدا کر چکی ہو۔ اِس نظریہ کی اس قدر زیادہ مخالفت کی گئی کہ انھیں لیپسبرگ چھوڑ کر کواتھن ہجرت کرنا پڑی تاہم اس مرد حق نے باطل نظریات کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
اب وہ وہاں اپنے نظریہ کے مطابق کامیاب پریکٹس کرنے لگے لیکن ایک مشکل اس نئے علاج میں یہ پیش آئی کہ بیماری تو ٹھیک ہوجاتی تھی لیکن دوا کے اثرات باقی رہ جاتے تھے۔ اس مشکل کو بھی انھوں نے بڑے صبر و تحمل سے اپنے تجربات کی روشنی میں حل کر دیا۔ انھوں نے ادویات کو بنانے کا ایک خاص طریقہ Potentisation متعارف کرایا۔
مریض کا مرض سے شفایابی کی طرف لوٹنے کا بھی ایک اصول متعین کیا گیا ہے، جسے ڈاکٹر کائنفائن نسٹناہیرنگ قانون شفاء (Law of Cure) کہتے ہیں۔ اس کے مطابق شفایابی اندر سے باہر کی طرف، اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں ہو گی۔ جو علامات آخر میں ظاہر ہوتی تھیں، وہ پہلے اور جو پہلے ظاہر ہوتی تھیں وہ آخر میں ختم ہوں گی۔ اس موقع پر یہاں ایک سوال آپ کے ذہن میں آ سکتا ہے کہ ہومیو پیتھی میں ادویات کے ذرائع کیا ہیں۔ یہ مندرجہ ذیل عناصر سے ماخوذ ہیں:
1۔ پودے ، 2۔ جانور (مچھلی، سانپ، دودھ)، 3۔ معدنیات (سونا ، چاندی، تانبہ)، 4۔ اجزاء (ٹی بی کے جراثیم وغیرہ)، 5۔ صحت مند اجزاء مثلاً تھائیرائیڈ غدود۔
طب کی دنیا میں یہ ڈاکٹر ہانیمن ہی تھے جنہوں نے یہ باور کرایا کہ انسان ، جسم اور روح کا مرکب ہے ۔ روح وہ چیز ہے جو پورے جسم کو کنٹرول کر تی ہے اور یہی سب سے پہلے بیمار ہوتی ہے اور جسم آخر میں بیماری کا شکار ہوتا ہے۔ اچھی سوچ ، اچھے خیالات اور اچھے کام ، ان سب چیزوں سے یہ ترو توانا ہوتی ہے جبکہ فکر، غصہ، افسوس، غلط سوچ اور کاموں سے متاثر ہو تی ہے۔ اس کے بعد قوتِ حیات جو اس کی ایک شکل ہے، متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے، جس کا اظہار پہلے بے چینی، گھبراہٹ، نیند کی کمی اور بعد میں خارش ، تیزابیت وغیرہ کی شکل میں علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ بغیر کسی دوا (ہومیو پیتھک) جاری رہے تو پھر بیماری جسم پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جسم میں ساختی و فعلیاتی تبدیلیاں واقع ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
جس طرح روح غیر مادی ہے اسی طرح بیماری بھی، لہذا اسے درست کرنے کے لئے ہمیں ایسی دوا کی ضرورت ہو گی جس میں ایسی قوت ہو جو اس غیر مادی بیماری کو دُور کر سکے۔ ہومیو پیتھک دوا جسے پوٹنٹائز کر کے اس کی غیر مادّی شفائی قوت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، وہ قوت حیات کی مدد کر تی ہے کہ وہ اس بیماری کے خلاف کام کرے جو جسم میں گھس آئی ہے اور اس طرح بارہا دوا کے دہرانے سے قوت حیات طاقت ور ہوجاتی ہے اور بیماری کمزور۔ پھر بہت جلد ایسا موقع آتا ہے کہ بیماری جسم سے دُور ہو جاتی ہے اور قوت حیات واپس اپنی اصلی حالت میں لوٹ آتی ہے۔ اس طرح جسم کمزور نہیں پڑتا اور اِسی وجہ سے بیماری کا بار بار اعادہ نہیں ہوتا۔
واضح رہے کہ جیسے سابقہ سطور میں بھی بتایا گیا ،ایک خاص طریقے سے یعنی پوٹنٹائز کے عمل سے دوا تیار کی جاتی ہے، جس سے دوا کی بیماری والی صفات ختم ہو جاتی ہیں اور اس کی شفایابی والی قوت ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ اس لئے ٹی بی کے جراثیم سے بننے والی دواؤں برکولائینم ٹی بی کے مرض میں بڑا مؤثر کام دکھاتی ہے وغیر ہ وغیرہ۔
ڈاکٹر ہانیمن دنیا کے پہلے مایہ ناز ڈاکٹر تھے جنھوں نے ادویات کو استعمال کرنے سے پہلے ان کی انسانی پروونگ پر ناصرف زور دیا بلکہ عملی طور پر خود 99ادویات کو اپنے اوپر آزمایا، جس کا ذکر انھوں نے میٹریا میڈیکا پیورا میں کیا۔ دوا کی آزمائش پروونگ کا طریقہ کار بہت سادہ اور آسان ہے۔ وہ اس طرح کی چیف ریسرچ سائنٹس دوا کو منتخب کر کے اس کے تمام فارماکولوجیکل اور ٹاکسک اثرات کے متعلق علم رکھتا ہے ، پھر اس دوا کو ہومیو پیتھک طریقہ سے تیار کر کے مختلف رنگ و نسل، جنس، عمر کے لوگوں کو دوا کھلاتا ہے۔ ایک مخصوص میعاد تک ان میں سے کچھ لوگوں کو دوا کھلائی جاتی ہے، اور کچھ لوگوں کو صرف سادہ گولیاں دی جاتی ہیں تاکہ لوگوں پر دوا کھانے کے نفسیاتی اثر کو پرکھا جا سکے۔
اب ان پروورزProversse جن کو ادویہ دی گئی ہیں، ایک خاص اسکیم کے تحت یعنی ان کے ذہن ، دماغ، سَر،کان ، ناک، آنکھ ، منہ، دانت، زبان، حلق، گردن، پیٹھ، سینہ، پیٹ، نسوانی اعضاء، مرادنہ اعضاء، گردے وغیرہ اور پیتھالوجیکل علامات کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ پھر ایک سائنٹیفک انداز میں ان تمام علامات کو جو مختلف پروورز نے فراہم کی تھی، احتیاط کے ساتھ جانچا جاتا ہے، پھر ان علامات کو منظور کر کے اس دوا کو اور اس کی علامات کو میٹریا میڈیکا میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
انسانی پروونگ کے تین بڑے فائدے ہیں، ایک تو یہ کہ ادویات جس طرح سے انسانی جسم پراثر ڈالتی ہیں، اس کا براہ راست مشاہدہ ہونا، اور دوم: انسانی نفسیاتی علامات بھی ملتی ہیں۔ سوم: آئندہ علاج میں مریض کی کیفیات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے جبکہ جانوروں پر ہونے والی پروونگ میں صرف پیتھالوجیکل علامات کا تو علم ہو جاتا ہے لیکن انسانی نفسیات اور انسانی جسم میںہونے والی تبدیلیاں پھر بھی مفروضہ ہی رہتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی میں جو ادویات ڈاکٹر ہانیمن نے آج سے200 سال پہلے ثابت کی تھیں، آج تک ان میں کوئی فرق نہیں آیا اور اب تک اِسی طرح زیر استعمال ہیں، جبکہ دیگر مروجہ طریقہ ہائے علاج میں ادویہ کچھ عرصے بعد متروک ہو جاتی ہیں اور ان کی جگہ دوسری ادویات لے لیتی ہیں اور یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہومیو پیتھی میں مریض کی اپنی کیفیات کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے نہ کہ مرض کو ، کیونکہ جب مریض ٹھیک ہوگا تو مرض بھی ٹھیک ہو جائے گا، اس لئے جب بھی کسی ہومیو پیتھک معالج کے پاس جائیں اُسے اپنی ذہنی کیفیات، کسی چیز سے رغبت یا نفرت، تکلیف میں کس چیز کی کمی یا زیادتی ہوتی ہے، کس وقت اور کس طرح ہوتی ہے وغیرہ بتائیں اور جو بھی رپورٹس ہیں ،وہ بھی دکھائیں تاکہ وہ آپ کے لئے صحیح بالمثل دوا تجویز کر سکے، جس سے آپ کو جلد آرام آجائے گا۔
یادرہے کہ ہومیو پیتھی اور صرف ہومیو پیتھی ہی وہ آسان ، سادہ فطری (Natural) بے ضرر، ارزاں اورجامع طریقہ علاج ہے ، جو ایک بیمار کے معیار پر پورا اترا ہے اور اس کو مکمل جلد اور نرم طریق پر مستقل شفاء سے ہمکنار کر دیتا ہے۔