کس سے لڑنے کی بات کرتے ہو

آپ لاکھ تدبیریں کرلیں لیکن جب تک اللہ راضی نہیں ہوگا تب تک اس وباء سے نجات ممکن نہیں۔

خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں بہلول دانا نامی ایک درویش گزرے ہیں۔ ایک دن وہ بازار میں بیٹھے تھے، کسی راہگزر نے پوچھا بہلول کیا کررہے ہو؟ درویش نے جواب دیا بندوں کی اللہ سے صلح کرا رہا ہوں۔ راہگزر نے پھر پوچھا، کیا بنا؟ درویش نے جواب دیا اللہ تو مان رہا ہے لیکن بندے نہیں مان رہے۔ کچھ عرصے بعد اسی شخص کاگزر ایک قبرستان کے قریب سے ہوا۔

اس نے دیکھا بہلول قبرستان میں بِیٹھا ہوا ہے۔ قریب جاکر پوچھا بہلول کیا کررہے ہو؟ درویش بولے بندوں کی اللہ سے صلح کرا رہا ہوں۔ ان سے پوچھا گیا پھر کیا بنا؟ جواب آیا آج بندے تو مان رہے ہیں لیکن اللہ نہیں مان رہا۔ دنیا کا بھی یہی حال ہے، بڑے بڑے محدثین، مفکرین، علماء،مشائخ، زاہدوں، عابدوں، متقی و پرہیز گاروں اور شب زندہ داروں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن دنیا اللہ سے صلح کرنے کے لیے تیار نہ تھی، اللہ کی بغاوت ونافرمانی کا سلسلہ ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئی لیکن ایک چھوٹے سے جرثومے نے کہرام مچا کے رکھ دیا اور دنیا کو رب کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا۔ آج بندے تومان رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے اللہ ابھی تک ناراض ہے۔

کرہ ارض پر کوئی ایسا ملک دکھائی نہیں دے رہا جو کورونا کے کہرام کے سامنے کھڑا نظر آتا ہو، سب کے سب گھٹنوں پر آچکے ہیں، معاشی و عسکری اعتبار سے دنیا پر دھاک بٹھانے والی بڑی بڑی عالمی طاقتیں بے بسی و لاچارگی کا شکار بن چکی ہیں، اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق پوری دنیا میں کورونا کے پازیٹو کیسوں کی تعداد ساڑھے تیرہ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور اس وباء کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں جانے والے 75ہزار کا ہندسہ بھی عبور کرچکے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن کورونا کیسز کی تعداد میں کم و بیش ایک لاکھ کا اضافہ کررہا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکا کورونا کی وباء میں بھی سب سے آگے نظر آرہی ہے، جہاں کورونا کے شکار لوگوں کی تعداد تقریباً چار لاکھ ہوچکی ہے،کم و بیش ایک ہزار امریکی روزانہ موت کے منہ میں جارہے ہیں، اتنے وسائل، اس قدر مادی ترقی، سائنس و ٹیکنالوجی پر عبورسب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ جب دنیا کی نام نہاد واحدسپر طاقت کا یہ حال ہے تو باقی ممالک کس کھیت کی مولی ہیں، ایسی صورتحال میں پاکستان جیسے ممالک کاشمار تین میں نہ تیرہ میں ہوتا ہے۔

امریکا جیسی طاقت اگر اس وباء سے لڑ سکتی تو کب کی لڑ جاتی، وہ اپنے شہریوں کو یوں موت کا شکار ہوتے کبھی نہ دیکھتی۔ وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ ویکسین بنے گی تو ہمیں اس وباء سے نجات ملے گی، تب تک وہ بے بسی اور لاچارگی کا اظہار کرتے رہیں گے لیکن اسلام نے ہمیں یہ نہیں سکھایا۔ ہم کو ایک معمولی سے وائرس کے آگے بے بسی ولاچارگی کا اظہار نہیں کرنا بلکہ اپنی بے بسی و لاچارگی کا اظہار رب ذرالجلال کی بارگاہ میں کرنا ہے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ یہ وباء اللہ تعالی کی آزمائش ہے اور وہی ہمیں اس آزمائش سے نکالے گا۔

آپ لاکھ تدبیریں کرلیں لیکن جب تک اللہ راضی نہیں ہوگا تب تک اس وباء سے نجات ممکن نہیں۔ اسلام تدبیر سے منع نہیں کرتا لیکن توکل الی اللہ کو چھوڑ کر صرف تدبیر کا راستہ اپنانے کا درس بھی نہیں دیتا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ زندگی اور موت کا مالک صرف ہمارا رب ہے، بیماری دینے والا بھی وہ ہے اور شفا دینے والا بھی وہ ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی ذات قادر نہیں۔ جب عقیدہ اس قدر واضح اور مضبوط ہے تو پھر اللہ سے دوری کیوں؟ آج اللہ کی قربت کے لیے رب کی بارگاہ میں اپنے آپ کو سرنڈر کرنے کی ضرورت ہے، اپنے گناہوں کو تسلیم کرتے ہوئے توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔

عبادت و ریاضت اور دعائوں کی کثرت سے ہی اللہ راضی ہوگااوراس کام کے لیے مسجد کے سوا کوئی بہترین جگہ نہیں ہوسکتی لیکن بد قسمتی سے آج پاکستان کے مسلمان اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں پر اضطراب کا شکار ہیں، جس نازک گھڑی میں مسجدوں کو آباد کرنے کی ترغیب دینی چاہیے تھی ہم مسجدوں کو تالے لگا رہے ہیں، نمازوں پر باجماعت پابندیاں عائد کررہے ہیں، شب برات جیسی برکت اور فضیلت والی رات کے لیے بھی مسجدوں کے دروازے بند کردیے گئے اور شنید ہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کی اجازت بھی نہیں ملے گی۔


کورونا سے لڑنے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ یہ لڑائی کورونا سے ہے یا اللہ سے؟ کیا سماجی فاصلے کی پابندی کا اطلاق صرف مسجدوں کی حد تک ہے؟ بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل و سپرا سٹور اس پابندی کے پابند کیوں نہِیں، جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے سب سے بڑے مراکز ہیں، وہاں موجود اشیاء نجانے کس کس کے ہاتھوں کو چھو کر صارفین تک پہنچتی ہوں گی، ممکن ہے ان ہاتھوں میں کورونا زدہ بھی شامل ہوں، اسکریننگ کا کیا نظام ہے؟ بینکوں میں اور راشن تقسیم کرتے ہوئے سماجی فاصلے کی پابندی کیوں نہیں؟ کیا کورونا صرف مسجد میں آتا ہے؟

حکومت اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے کام نہ کرے، مسجدوں کو بند کرنے کے بجائے انھیں محفوظ بنانے کی پالیسی اپنائی جائے، احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے لوگوں کومساجد آباد کرنے کی ترغیب دی جائے وہیں سے اللہ کی رحمت کا نزول ہوگا اور ہم اس کہرام سے نکلیں گے۔ نبی کریمﷺ نے خندق اس لیے نہیں کھودی تھی کہ وہ ہمیں بچائے گی، خندق کھودنا تو ایک تدبیر تھی، توکل تو اللہ پر ہی تھا۔ یہ وہ عمل تھا جس نے قیامت تک آنے والوں کے لیے راستہ بتادیا۔ جو حضرات الصلوۃ فی بیوتکم کا حوالہ دیتے ہیں میں ان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا کورونا کسی طوفان یا بارش کا نام ہے؟

کہیں کا مسئلہ کہیں پر چپکانے کی روش اب ترک کردینی چاہیے، کورونا ایک وباء ہے اس کے لیے ہمیں وہی راستہ اختیار کرنا ہوگا جو اسلام نے ہمیں بتایااور جو راستہ ہمیں بتایا گیا ہے اس میں کہیں بھی مساجد کو بند کرنے کا حکم نہیں ہے۔ صحابہ کرام کے دور میں اور بعد کے اَدوار میں بھی طاعون وغیرہ کی وبائیں پھیلی ہیں، جن کی ہلاکت خیزی تاریخ کے قاری پر مخفی نہیں ہے، لیکن سلفِ صالحین نے سخت ہلاکت کے مواقع پر بھی مساجد کی بندش اور جمعہ کے اجتماعات ترک کرنے کے فتاویٰ اور اَحکام صادر نہیں فرمائے، بلکہ ان کے اَدوار میں مساجد کی طرف رجوع مزید بڑھ گیا، جیساکہ قاضی عبد الرحمن القرشی الدمشقی الشافعی اپنے زمانہ میں 764 ھ کے طاعون سے متعلق لکھتے ہیں:

''جب طاعون پھیل گیا اور لوگوں کو ختم کرنے لگا، تو لوگوں نے تہجد، روزے، صدقہ اور توبہ واستغفار کی کثرت شروع کردی اور ہم مردوں، بچوں اور عورتوں نے گھروں کو چھوڑدیا ہے اور مسجدوں کو لازم پکڑ لیا، تو اس سے ہمیں بہت فائدہ ہوا''۔

حیا الصحابہ میں ہے :

''سعید بن مسیب کہتے ہیں: جب ابوعبیدہ اردن میں طاعون میں مبتلا ہوئے تو جتنے مسلمان وہاں تھے ان کو بلا کر ان سے فرمایا:

میں تمہیں ایک وصیت کررہا ہوں اگر تم نے اسے مان لیا تو ہمیشہ خیر پر رہو گے اور وہ یہ ہے کہ نماز قائم کرو، ماہِ رمضان کے روزے رکھو، زکوۃ ادا کرو، حج وعمرہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کو (نیکی کی) تاکید کرتے رہو اور اپنے امیروں کے ساتھ خیرخواہی کرو اور ان کو دھوکا مت دو اور دنیا تمہیں (آخرت سے) غافل نہ کرنے پائے؛ کیوں کہ اگر انسان کی عمر ہزار سال بھی ہوجائے تو بھی اسے (ایک نہ ایک دن) اس ٹھکانے یعنی موت کی طرف آنا پڑے گا جسے تم دیکھ رہے ہو۔ ہم نے گزشتہ سے پیوستہ کالم میں بھی یہ حکم خداوندی پیش کیا تھا اور ایک بار پھر پیش کردیتے ہیں، سورۃ بقرہ آیت نمبر114 میں اللہ رب العزت کا فرمان عالی شان ہے۔

'' اوراس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس نے اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام لینے کی ممانعت کردی اور ان کے ویران کرنے کی کوشش کی، ایسے لوگوں کا حق نہیں ہے کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں بھی ذلت ہے اوران کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔'' کس سے لڑنے کی بات کرتے ہو؟
Load Next Story