وزیراعلیٰ پنجاب کورونا وائرس اور حکومتی اقدامات
یہ تسلیم کرناہوگاکہ وفاقی حکومت ہو یا چاروں صوبائی حکومتیں ہوں انھوں نے ایک مشکل وقت میں بہت بہتر طریقے سے کام کیا ہے۔
وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں یا ریاستی سطح پر موجود ادارے یا معاشرے کے مختلف طبقات سب کے سامنے ایک بڑا چیلنج کورونا وائرس کا بحران او راس سے جڑے اقدامات اور انتظامات ہیں ۔یہ ایک مشکل وقت ہے۔ حکومت پر تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے ۔ یہ بات درست ہے کہ کورونا بحران سے نمٹنے میں تن تنہا حکومت کچھ نہیں کرسکتی ، جب تک کہ تمام فریقین مل کر ان حالات کا مقابلہ نہیں کرتے ۔
یہ تسلیم کرناہوگا کہ وفاقی حکومت ہو یا چاروں صوبائی حکومتیں ہوں انھوں نے ایک مشکل وقت میں بہت بہتر طریقے سے کام کیا ہے۔سندھ نے ابتدا میں اچھے اقدامات کیے او ران کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔لیکن یہاںاس بحران میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مقابلہ بازی کو پیدا کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بھی حمایت نہیں ہونی چاہیے ۔
پنجاب میں وزیر اعلی عثمان بزدار کی حکومت کو ہمیشہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ تنقید کا محور وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیں اور ان کو ایک کمزور وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں ایک کمزور وزیر اعلیٰ کی تقرری کرکے سارے معاملات کو خود اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے ۔ لیکن اس ساری تنقید کے پس منظر میں وزیر اعلی عثمان بزدار وزیر اعظم عمران خان کی بڑی حمایت کے ساتھ وزیر اعلی کے منصب پر موجود ہیں ۔
حالیہ کورونا وائرس کے بحران میں جہاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنی قیادت کو تسلیم کروایا ہے تو اسی طرح پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی بہتر کام کرنے میں نظر آئے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ بنیادی طور پر کم گو ہیں یا کھل کر بات کرنے سے ہچکچاہٹ یا گریز کرتے ہیں ۔پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے او ریہاں حکمرانی باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے ۔ بالحضوص ایسے موقع پر جب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو داخلی او رخارجی یعنی پارٹی کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر تنقید کا سامناہو تو دباو کی کیفیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔
کہا جاتا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بہت زیادہ فعال نہیں ہیں اورکاموں میں تاخیر کرتے ہیں ۔لیکن کورونا وائرس کے تناظر میں جتنی تیزی سے انھوں نے لاہور، ملتان او رڈی جی خان میں کوارنٹائن سینٹرز یا فیلڈ اسپتال بنائے خاص طو رپر لاہور میں ایکسپو سینٹر میں ایک ہزار بستر اور ملتان میں چھ ہزار بستر پر مشتمل فیلڈ اسپتال حکومت کی فوری بہتر کاوش کا حصہ ہے ۔
یہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے فوری طور پر وفاقی حکومت سے امدادی رقم جو چار ہزار مقرر ہوئی تھی اسے وزیر اعظم کے تعاون سے بارہ ہزار مقرر کرکے ایک بڑا اہم کام ان مستحق لوگوں کے لیے کیا جو واقعی قابل تعریف ہے ۔اس دس ارب کے امدادی پیکیج کے تحت پچیس لاکھ خاندانوں کو امدادی رقم یا امداد فراہم کرنا مقصد ہے او رجو آن لائن سہولت کے ساتھ ملے گی ۔اسی طرح ایک مسئلہ اس مرض کے ٹیسٹوںکا تھا ۔ پنجاب نے اس میں باقی صوبوں کے مقابلے میں برتری حاصل کی۔
اسی طرح کاروباری صنعت کی معاونت او رعام آدمی کے معاشی تحفظ کے لیے 18ارب روپے سے زائدٹیکس ریلیف پیکیج جاری کیا گیا جس میں پراپرٹی ٹیکس او رپروفیشنل ٹیکس تین ماہ کے لیے معاف، بجلی کے بلوں پر عائد الیکٹرک سٹی ڈیوٹی تین ماہ کے لیے معاف، شہری علاقوں میں پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد اسٹامپ ڈیوٹی اوردیگر ٹیکسز کی شریچھ فیصد سے کم کرکے دو فیصد، خدمات میں سولہ فیصد سے زیرو فیصد کیا گیا ہے ۔
اہم بات یہ ہے اس موقع پر وزیر اعلی پنجاب اوران کا کابینہ یا مشیر سمیت انتظامی مشینری کے ساتھ کافی متحرک کام کررہے ہیں اور خود عملا وزیراعلیٰ براہ راست ان معاملات کی نگرانی بلکہ دیگر اضلاع میں بھی جاکر معاملات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں ۔اس وقت پنجاب کی بیوروکریسی بھی ان کے ساتھ ساتھ کھڑی ہے اور وہ شکایات بھی نہیں مل رہی جو تحریک انصا ف کوابتدائی حکومتی دنوں میں عملی طور پر بیوروکریسی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
یہاں پنجاب کی انتظامی مشینری کو بھی داد دینی ہوگی جو ا س مشکل حالات میں عملی طو ر پر میدان میں موجود ہے او رلوگوں کی مدد کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔البتہ وزیر اعلی کے پاس اب لاک ڈاون سے باہر نکلنے کا متبادل پلا ن بھی ہونا چاہیے تاکہ لوگ واپس کاروبار یا معمول پر آسکیں او ران پر جو معاشی بوجھ ہے وہ کم ہوسکے ۔اسی طرح کاروبار کو پابند کیا جائے کہ رات نوبجے کے بعد کاروبار نہ ہو۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا بڑا چیلنج ابھی بھی امدادی سرگرمیوں کی صورت میں موجود ہے ۔کیونکہ ابھی بھی سب سے زیادہ سوالات حکومت پر فوری امدادی سرگرمیوں اور بالخصوص سفید پوش لوگوں تک ان کی رسائی ہے ۔
وزیر اعلیٰ کو اس کام میں بہت زیادہ انتظامی حکمت عملیوں یا مختلف پالیسیوں بنانے میں خرچ کرنے کے بجائے براہ راست ان لوگوں تک امدادی سرگرمی خاص طور پر راشن کی فراہمی کے عمل میں بطور وزیر اعلی اور حکومت اور زیادہ متحرک او رفعال ہونے کی ضرورت ہے ۔ وہ اپنے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو بھی متحرک کریں او رضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ان کا تعاون بھی حاصل کرکے مقامی لوگوں تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو ممکن بنائیں۔ہم وزیر اعلی پر تنقید کرنا چاہیں تو ضرور کریں مگر سیاست سے بالاتر ہوکر اگر وہ کورونا کی جنگ میں اپنی بہتر کارکردگی کے ساتھ سامنے آئے ہیں تو ان کی سیاسی پزیرائی بھی ہونی چاہیے ۔
یہ تسلیم کرناہوگا کہ وفاقی حکومت ہو یا چاروں صوبائی حکومتیں ہوں انھوں نے ایک مشکل وقت میں بہت بہتر طریقے سے کام کیا ہے۔سندھ نے ابتدا میں اچھے اقدامات کیے او ران کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔لیکن یہاںاس بحران میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مقابلہ بازی کو پیدا کرنا بھی درست نہیں ہوگا۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بھی حمایت نہیں ہونی چاہیے ۔
پنجاب میں وزیر اعلی عثمان بزدار کی حکومت کو ہمیشہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ تنقید کا محور وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہیں اور ان کو ایک کمزور وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ وزیر اعظم عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے پنجاب جیسے بڑے صوبہ میں ایک کمزور وزیر اعلیٰ کی تقرری کرکے سارے معاملات کو خود اپنے کنٹرول میں رکھا ہوا ہے ۔ لیکن اس ساری تنقید کے پس منظر میں وزیر اعلی عثمان بزدار وزیر اعظم عمران خان کی بڑی حمایت کے ساتھ وزیر اعلی کے منصب پر موجود ہیں ۔
حالیہ کورونا وائرس کے بحران میں جہاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اپنی قیادت کو تسلیم کروایا ہے تو اسی طرح پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بھی بہتر کام کرنے میں نظر آئے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ بنیادی طور پر کم گو ہیں یا کھل کر بات کرنے سے ہچکچاہٹ یا گریز کرتے ہیں ۔پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے او ریہاں حکمرانی باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے ۔ بالحضوص ایسے موقع پر جب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو داخلی او رخارجی یعنی پارٹی کے اندر اور باہر دونوں محاذوں پر تنقید کا سامناہو تو دباو کی کیفیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔
کہا جاتا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بہت زیادہ فعال نہیں ہیں اورکاموں میں تاخیر کرتے ہیں ۔لیکن کورونا وائرس کے تناظر میں جتنی تیزی سے انھوں نے لاہور، ملتان او رڈی جی خان میں کوارنٹائن سینٹرز یا فیلڈ اسپتال بنائے خاص طو رپر لاہور میں ایکسپو سینٹر میں ایک ہزار بستر اور ملتان میں چھ ہزار بستر پر مشتمل فیلڈ اسپتال حکومت کی فوری بہتر کاوش کا حصہ ہے ۔
یہ وزیر اعلیٰ پنجاب کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے فوری طور پر وفاقی حکومت سے امدادی رقم جو چار ہزار مقرر ہوئی تھی اسے وزیر اعظم کے تعاون سے بارہ ہزار مقرر کرکے ایک بڑا اہم کام ان مستحق لوگوں کے لیے کیا جو واقعی قابل تعریف ہے ۔اس دس ارب کے امدادی پیکیج کے تحت پچیس لاکھ خاندانوں کو امدادی رقم یا امداد فراہم کرنا مقصد ہے او رجو آن لائن سہولت کے ساتھ ملے گی ۔اسی طرح ایک مسئلہ اس مرض کے ٹیسٹوںکا تھا ۔ پنجاب نے اس میں باقی صوبوں کے مقابلے میں برتری حاصل کی۔
اسی طرح کاروباری صنعت کی معاونت او رعام آدمی کے معاشی تحفظ کے لیے 18ارب روپے سے زائدٹیکس ریلیف پیکیج جاری کیا گیا جس میں پراپرٹی ٹیکس او رپروفیشنل ٹیکس تین ماہ کے لیے معاف، بجلی کے بلوں پر عائد الیکٹرک سٹی ڈیوٹی تین ماہ کے لیے معاف، شہری علاقوں میں پراپرٹی کی خرید و فروخت پر عائد اسٹامپ ڈیوٹی اوردیگر ٹیکسز کی شریچھ فیصد سے کم کرکے دو فیصد، خدمات میں سولہ فیصد سے زیرو فیصد کیا گیا ہے ۔
اہم بات یہ ہے اس موقع پر وزیر اعلی پنجاب اوران کا کابینہ یا مشیر سمیت انتظامی مشینری کے ساتھ کافی متحرک کام کررہے ہیں اور خود عملا وزیراعلیٰ براہ راست ان معاملات کی نگرانی بلکہ دیگر اضلاع میں بھی جاکر معاملات کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں ۔اس وقت پنجاب کی بیوروکریسی بھی ان کے ساتھ ساتھ کھڑی ہے اور وہ شکایات بھی نہیں مل رہی جو تحریک انصا ف کوابتدائی حکومتی دنوں میں عملی طور پر بیوروکریسی سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
یہاں پنجاب کی انتظامی مشینری کو بھی داد دینی ہوگی جو ا س مشکل حالات میں عملی طو ر پر میدان میں موجود ہے او رلوگوں کی مدد کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔البتہ وزیر اعلی کے پاس اب لاک ڈاون سے باہر نکلنے کا متبادل پلا ن بھی ہونا چاہیے تاکہ لوگ واپس کاروبار یا معمول پر آسکیں او ران پر جو معاشی بوجھ ہے وہ کم ہوسکے ۔اسی طرح کاروبار کو پابند کیا جائے کہ رات نوبجے کے بعد کاروبار نہ ہو۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا بڑا چیلنج ابھی بھی امدادی سرگرمیوں کی صورت میں موجود ہے ۔کیونکہ ابھی بھی سب سے زیادہ سوالات حکومت پر فوری امدادی سرگرمیوں اور بالخصوص سفید پوش لوگوں تک ان کی رسائی ہے ۔
وزیر اعلیٰ کو اس کام میں بہت زیادہ انتظامی حکمت عملیوں یا مختلف پالیسیوں بنانے میں خرچ کرنے کے بجائے براہ راست ان لوگوں تک امدادی سرگرمی خاص طور پر راشن کی فراہمی کے عمل میں بطور وزیر اعلی اور حکومت اور زیادہ متحرک او رفعال ہونے کی ضرورت ہے ۔ وہ اپنے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو بھی متحرک کریں او رضلعی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ان کا تعاون بھی حاصل کرکے مقامی لوگوں تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو ممکن بنائیں۔ہم وزیر اعلی پر تنقید کرنا چاہیں تو ضرور کریں مگر سیاست سے بالاتر ہوکر اگر وہ کورونا کی جنگ میں اپنی بہتر کارکردگی کے ساتھ سامنے آئے ہیں تو ان کی سیاسی پزیرائی بھی ہونی چاہیے ۔