کورونا وائرس سے لڑتا افریقا

ساری دنیا سے زیادہ ہوشیار اور مقابلے کے لیے تیار

پس ماندہ سمجھا جانے والا براعظم وائرس سے نمٹنے کے لیے کم وسائل کے باجود کیا کچھ کر رہا ہے؟

جب زندگی پہلے ہی بے شمار مسائل سے سر پھوڑ رہی ہو ایسے میں کوئی نیا خطرہ خاطر میں لایا نہیں جاتا۔ اسی وجہ سے عام افریقی باشندے جنوری کے اوائل تک کوروناوائرس کو ایک ایسی افسانوی چیز سمجھ رہے تھے جس کی آمد کا مقصد گویا صرف سفید فام لوگوں کا جینا دوبھر کر نا ہو یا پھر یہ وائرس دنیا سے ان زیادتیوں کا بدلہ لینے آیا ہو جو افریقی باشندوں اور ان کی زمین میں گڑے قدرتی خزانوں کے ساتھ کئی دہائیوں سے کھلے عام اور بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہیں۔

ایک عام افریقی تو اس جانب سے قدرے بے فکر تھا گویا یہ وائرس سرمایہ دارانہ نظام کو دھول چٹانے کے لیے زمین پر حملہ آور ہوا ہے اور افریقا کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اس لیے جس وقت دنیا بھر میں افراتفری تھی اس وقت افریقا میں ہر کوئی سکون سے تھا۔ لیکن ایسا نہیں کہ عام لوگوں کی طرح ان کی حکومتیں بھی بے فکر بیٹھی تھیں ۔ بلکہ حیرت انگیز طور پر ان کی نظریں مستقل اس جانب گڑی ہوئی تھیں کہ آگے ہونے کیا جارہا ہے؟ اور وہ وقت سے پہلے اپنی کمر کسنے کی تیاری کر رہے تھے۔ دیر سے سہی لیکن خطرہ بن کر کورونا براعظم افریقا میں بھی وارد ہو ہی گیا۔ مارچ، کورونا کے افریقا میں قدم رکھنے کا مہینہ تھا، جب یہ وبا عالمی کہلائی جارہی ہے تو اس سے بچنا کسی ایک براعظم کے لیے بھلا ممکن کیسے ہو سکتا ہے؟ بے فکر بیٹھے عام افریقی باشندوں کو اب یہ ماننا ہی پڑا کہ کورونا نامی وائرس ایبولا کی طرح صرف ایک خطے کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے بڑی پریشانی بن کر آچکا ہے۔

اس وقت دنیا خود کو تنہا کرکے اس وبا سے زیادہ سے زیادہ بچنے کے جتن کر رہی ہے، لیکن افریقا میں مکمل Isolation سرے سے ممکن ہی نہیں۔ ایک ایسا براعظم جہاں لوگوں کی اکثریت کے پاس رہنے کو گھروں کے نام پر فقط ہڈ ( Hoods ) ہوں اور تقریباً ہر ملک میں پچپن سے بھی کم فی صد گھرانوں میں پانی لائنوں کے ذریعے فراہم کیا جارہا ہو وہاں آئسولیشن کی بات کیسے کی جاسکتی ہے۔ اس حال میں گزربسر کرنے والے افریقیوں کی اکثریت موت کے نام پر بس اسی حقیقت سے واقف ہے کہ جب مرنا ہو گا مرجائیں گے، لیکن جب تک زندہ ہیں تو وقت گھسیٹنا ہی ہے۔

مارچ کے وسط تک افریقا کے صرف پانچ ممالک میں کورونا کے کیسز سامنے آئے۔ اس کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر 35 افریقی ممالک میں ساڑھے چھے سو کورونا کے مریض رجسٹر ہوئے، جو کم وسائل کے حامل براعظم کے لیے ایک بڑی تعداد تھی۔ یہ بھی گمان ظاہر کیا گیا کہ مریضوں کی تعداد تو اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے لیکن ٹیسٹنگ کٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے وائرس سے متاثرہ افراد سامنے ہی نہیں آپا رہے۔ گذشتہ ہفتے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ 1.3بلین آبادی کے حامل اس براعظم کو بدترین صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ افریقی ممالک کے سربراہان نے اس الرٹ کے بعد خطرے کی بو سونگھتے ہوئے بساط سے بڑھ کر اقدامات کرنے شروع کردیے۔ بیس افریقی ممالک کے ماہرین ِ صحت نے چین کے ڈاکٹروں کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ میں اس حوالے سے مکمل معلومات اور راہ نمائی حاصل کی اور تیزتر اقدامات کیے۔

ماہرین کا خدشہ ہے کہ یہ وائرس اگر افریقا میں تیزی سے پھیلا تو اس سے نمٹنے کے لیے افریقا کے امیرترین ممالک بھی بے بس ہوسکتے ہیں۔ ساؤتھ افریقا میں اس وقت کورونا کے سب سے زیادہ کیسز موجود ہیں جن کی تعداد1353 بتائی جارہی ہے، جن میں سے پانچ مریض جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ساؤتھ افریقا میں عیسائیوں کی ایک بڑی مذہبی تقریب جس میں تیس لاکھ افراد کا اجتماع متوقع تھا، اسے منسوخ کردیا گیا لیکن افسوس اب بھی یہاں کی ٹرینیں اور بسیں ہجوم سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ کم آمدنی کے حامل وہ افریقی باشندے ہیں جن کے لیے کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھ جانے کا مطلب بھی موت ہی ہے۔ یہ خود کو الگ تھلگ رکھنے اور کام چھوڑنے کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے ۔ وبا سے بچنے کے لیے بھوک سے مرجانا انہیں کسی طور منظور ہے۔



ایک ہزار سے زائد کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کے حامل ممالک کے لیے نائیجیریا نے بھی اپنی سرحدیں بند کردیں۔ چین اور امریکا سمیت ان تمام ممالک سے آنے والے مسافروں پر پابندی لگادی جہاں کورونا کے ہزار یا اس سے بھی زائد کیسز سامنے آچکے تھے۔ ساتھ ہی حکومت نے ملک میں مکمل ٹریول بین عائد کردیا ہے۔ خود نائیجیریا میں اب تک 139مریض سامنے آچکے ہیں جن میں سے دو دم توڑ گئے۔ یہاں جس شخص میں کورونا کا پہلا کیس دریافت ہوا وہ ایک امریکی شہری تھا جو زمینی راستے سے نائیجیریا میں داخل ہوا تھا۔ اس وبا سے نمٹنے کے لیے نائیجیریا میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے اپنی دولت کورونا فنڈ میں دینی شروع کردی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر مرکزی حکومت کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کر رہا ہے۔

اس وقت کینیا میں کورونا کے 88کنفرم کیسز موجود ہیں۔ ابتدا میں کرفیو کے نفاذ کے لیے یہاں پولیس نے سخت ترین اقدامات کیے، جس نے کرفیو کے اوقات میں عام شہریوں کی زندگی عذاب بنا دی۔ شام سے صبح تک کے کرفیو میں کینیا کی پولیس نے لوگوں کو روکنے کے لیے بے جا سختیاں کیں۔ یہاں تک کہ باہر نکلنے والے شہریوں پر لاٹھی چارج کیا جانے لگا، آنسو گیس پھینکی گئی اور فائرنگ بھی ہوئی، جس سے نیروبی میں اپنے گھر کی بالکنی میں کھڑا ایک تیرہ سالہ بچہ جاں بحق بھی ہوگیا۔ عوام میں پولیس کے لیے شدید غم وغصہ پھیلا۔ سارا دن وائرس کے خوف میں جینے والے لوگ رات میں پولیس گردی کے خوف میں گزارنے لگے۔ کینیا کے صدر نے اس معاملے کو بہت عقل مندی سے سنبھالا اور پولیس کے اس رویے پر عوام سے معافی بھی مانگی۔

یوگنڈا وہ افریقی ملک ہے جہاں یہ وائرس دیگر ممالک کی نسبت کافی دیر میں آیا۔ اس وقت یہاں کورونا کے کنفرم کیسز صرف تیرہ ہیں۔ یہاں حکومت نے تیزترین اقدامات کرتے ہوئے مکمل لاک ڈاؤن کردیا اور ہر قسم کے سفر پر پابندی عائد کردی ہے۔ اب تک یہاں کورونا سے کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔ ایتھوپیا میں کرونا کے پچیس کیسز رپورٹ ہونے کے بعد ایمرجنسی کا نفاذ کردیا گیا اور اگست میں ہونے والے انتخابات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں، جب کہ صومالیہ میں کورونا کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہاں کے سابق صدر نور حسن حسین کرونا وائرس کا شکار ہو کر وفات پاگئے ہیں۔ برونڈی میں اس ہفتے پہلے دو کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص حال ہی میں روانڈا اور دوسرا دبئی سے برونڈی آیا تھا۔

ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اب ان نتائج کی بات کرتے ہیں جو افریقا کو اس وائرس کے نتیجے میں جھیلنے پڑیں گے۔ افریقیوں کی ایک بڑی تعداد اس مغالطے کا شکار ہے کہ کیوں کہ افریقا ایک گرم براعظم ہے تو وائرس یہاں زیادہ دیر ٹک نہیں پائے گا لیکن اس مفروضے کو بین الاقوامی ماہرین ِ صحت پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔ افریقا کے زمینی حقائق دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ حکومتوں کے تمام تیزتر اقدامات کے باوجود یہاں کورونا کے اثرات باقی خطوں کے مقابلے میں بدترین بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو ہے یہ کہ ان کے پاس ادویات اور ٹیسٹ کٹس کی شدید قلت ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں سماجی دوری کے تصور کا نفاذ عملاً ممکن ہی نہیں، کیوں کہ آبادی کی اکثریت گنجان اور کچے علاقوں کی مکین ہے۔ حکومتوں کی طرف سے عائد کردہ لاک ڈاؤن اور کرفیو، بھوک اور اس کے نتیجے میں ہونے والے استحصال کو بڑھاوا دینے کے سوا کچھ نہ کرے گا، کیوں کہ کسی بھی حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ گھر بیٹھے اپنے عوام کے پیٹ بھرنے کا ہی سامان کر سکے۔

ان منفی نکات کے ساتھ ساتھ ہی افریقا کے لیے چند کرنیں امید کی بھی موجود ہیں۔ ایک، وہاں آبادی کی اکثریت کا نوجوان طبقے پر مشتمل ہونا ہے ۔ یہ وائرس کیوں کہ بڑی عمر کے افراد کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے، اس لیے اس سے افریقی باشندوں کے متاثر ہونے کے امکانات یورپ جیسے نہیں۔ دی اکنامسٹ میں پیش کردہ اعدادوشمار کے مطابق افریقا کی ایک اعشاریہ تین بلین آبادی میں سے صرف چھے ملین افراد اسی سال سے زیادہ عمر کے حامل ہیں جب کہ سینتالیس ملین افراد پینسٹھ سال سے زائد عمر کے ہیں جب کہ یورپ میں اسی سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد چالیس ملین ہے۔ اس تناسب کے اعتبار سے یہ وائرس افریقا میں لوگوں کی موت کی بڑی وجہ شاید نہ بن سکے۔

دوسری حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ افریقا میں یہ وائرس بہت دیر میں آیا اور اس کے پھیلنے کی شرح اب تک تیز نہیں ہے۔ اس لیے ان کے پاس تیاری کا وقت دوسری اقوام کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔ افریقی ممالک نے اس معاملے میں اگر چہ زیادہ ہوشیاری کا ثبوت بھی دیا ہے۔ انہوں نے ترقی یافتہ ممالک کی طرح ایک دن بھی سکون سے بیٹھ کر تماشا دیکھنے میں برباد نہیں کیا بلکہ اپنے براعظم تک وائرس آنے سے قبل ہی ہر ایک ملک نے اپنی حدود میں ہونے والی ہر قسم کی بڑی تقریبات کو فوری طور پر منسوخ کردیا۔ یوگنڈا نے اپنی حدود میں ایک کیس آنے کا بھی انتظار نہ کیا اور ملک کے تمام اسکول بند کردیے۔ ساؤتھ افریقا نے برطانیہ سے بھی پہلے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا جب کہ برطانیہ میں کورونا یہاں سے سولہ گنا زیادہ رفتار سے پھیلا۔ تین اپریل کو سیریا لیون میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا لیکن اس سے بہت پہلے وہ اپنی حدود میں بارہ مہینے کی ایمرجینسی نافذ کرچکا تھا۔

میری لینڈ میں واقع جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے ماہرین نے گذشتہ اکتوبر میں Biological Threat جاری کی تھی اور اس کے اثرات سے نمٹنے والے ممالک کی فہرست، مقابلے کی صلاحیت کے اعتبار سے مرتب کی تھی۔ اس فہرست میں افریقی ممالک کو سب سے نچلے درجے پر رکھا گیا تھا۔ جنوری سے ڈبلیو ایچ او نے افریقی ممالک میں کرونا الرٹ جاری کرنے شروع کر دیے تھے۔

اس کے مطابق بیس افریقی ممالک کے اس وبا کی لپیٹ میں آنے کے امکانات موجود ہیں۔ افریقی حکومتوں نے وقت ضایع کیے بغیر اپنی اپنی حدود میں آئسولیشن وارڈ تیزی سے قائم کرنا شروع کردیے۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ اس بڑے اور تیز تر خطرے سے نمٹنے کے لیے ان کو مزید خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں تیزی سے پھیلتے اس وائرس کو دیکھتے ہوئے افریقا کرونا ٹیسٹ کی صلاحیت کو تیزی سے بڑھانے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ سینیگال میں واقع ایک بائیو میڈیکل ریسرچ سینٹر کے سربراہ کا کہنا ہے کہ'' یہ کہنا درست نہیں کہ وبا سے لڑنے کے لیے افریقا کم زور اور کم تیار ہے۔ یہ بات اس پر منحصر ہے کہ آپ دورسے افریقا کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں کوئی یہ نہیں دیکھ رہا کہ حقیقت میں افریقا اس سے کس طرح نمٹ رہا ہے۔''

افریقا میں اس وقت ایک ملین چینی باشندے موجود ہیں، جو افریقا میں چین کے معاشی مفادات کے لیے مختلف اداروں میں کام کر رہے ہیں۔ چین سے عام دنوں میں روزانہ ایک ہزار مسافر مختلف افریقی ہوائی اڈوں پر اترتے ہیں۔ ابتدا میں افریقا نے چین سے آنے والی فلائٹ تو نہیں روکیں لیکن ایئرپورٹ پر مسافروں کے مکمل معائنے کے انتظامات ضرور کیے اور پھر کچھ ہی عرصے بعد چھے افریقی ممالک نے چین سے سفری تعلقات منقطع کردیے۔ موزمبیق نے چینی باشندوں کو ویزہ جاری کرنے سے انکار کردیا۔

ساؤتھ افریقا نے تو چین سے آنے والی تمام ڈاک بھی روک دی۔ افریقی حکومت نے وبا کو اس براعظم سے دور رکھنے کے لیے اقدامات اس قدر تحمل سے کیے کہ عام افریقی باشندوں میں خوف پیدا نہیں ہونے دیا۔ فروری کے مہینے میں سینیگال اور گیمبیا کی سرحد پہ دو چینی باشندوں کو روکا جو ایک دن قبل ہی بیجنگ سے آئے تھے۔ پولیس نے ان کے پتے اور فون نمبر لے کر انہیں اطمینان سے گھر تو جانے دیا لیکن چودہ دن تک ان کے گھروں کی مکمل نگرانی کی۔ اسی طرح جنوری کے آخر میں مغربی افریقا کے ممالک میں اٹھائیس چینی باشندے داخل ہوئے۔ ان کی بھی مکمل نگرانی کی گئی۔ متعلقہ اداروں کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں ان میں وائرس کا معمولی سا بھی شک ہوا تو ہم ا س سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ساتھ ہی تمام افریقی ممالک نے کورونا کیسز آنے سے پہلے ہی بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی مہم بھی شروع کردی تھی۔

اس وقت روانڈا کے باشندے سیلف ہائیجین کا بے حد خیال رکھتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہاں ہر بس اسٹاپ پر ہاتھ دھونے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ کورونا کے بیاسی کنفرم کیسز کی موجودگی کے بعد یہاں لاک ڈاؤن بھی کردیا گیا ہے۔ کیمرون میں دو سوچوراسی کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے کیمرون کی حکومت نے یکجہتی فند قائم کردیا ہے۔ سرکار نے اس فنڈ کے لیے ایک بلین کی رقم مختص کی ہے جب کہ بڑے پیمانے پر لوگ اس فنڈ میں اپنی بساط کے مطابق رقوم جمع کروا رہے ہیں۔ بوٹسوانا اب تک کورونا فری افریقی ملک تھا لیکن یہاں اپریل کے آغاز میں کورونا کے چار کیس سامنے آچکے ہیں۔ یہاں پہلا کیس ایک ادھیڑ عمر کی عورت کا سامنے آیا جس میں وائرس کی تشخیص اس کی موت کے بعد ہوئی۔

مصر میں بھی لوگوں کو گھروں میں رکھنے کے لیے لاک ڈاؤن کردیا اور کرفیو لاگو کیا گیا ہے۔ مصر کے مرکزی بینک نے تمام مقامی بینکوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بغیر کسی جرمانے کے تمام واجبات کی وصولی کو چھے ماہ کے لیے موخر کردیں۔ ساتھ ہی حکومت نے مالز اور کیفے بند رکھنے کے ساتھ لوگوں کے حقہ پینے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ ان پابندیوں کی وجہ سے مصر میں سڑک پر ہونے والے حادثات میں نمایاں حد تک کمی بھی آئی ہے جس کی عام طور پر شرح بہت زیادہ تھی۔ مصر کی چین سے مثالی تعلقات کے باعث اس وبا سے نمٹنے کے لیے چین کا ساتھ مصر کی ایک بڑی طاقت بن رہا ہے۔

اس وقت کورونا وائرس کے حوالے سے افریقا میں اگر کسی ملک کو سب سے زیادہ خطرہ ہے تو وہ لیبیا ہے۔ جنگ زدہ لیبیا میں ستائیس مارچ کو کورونا کا پہلا کیس کنفرم ہوا ہے۔ یہ مریض سعودی عرب سے لیبیا آیا تھا۔ مستقل خانہ جنگی کے باعث دیگر شعبوں کی طرح یہاں صحت کا شعبہ بھی تباہ ہوچکا ہے۔ لیبیا اس وقت خانہ جنگی اور وبا دونوں طرف سے آفت میں گھرا ہوا ہے۔ ستائیس مارچ سے اب تک مزید آٹھ کیسز سامنے آچکے ہیں۔ لیکن لیبیا کے ڈاکٹروں نے آن لائن خود کو دست یاب کر رکھا ہے۔ اسمارٹ فون لیبیا میں رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ لہٰذا لوگ گھر بیٹھے کسی بھی وقت ڈاکٹروں سے رابطہ کر کے معلوم کر سکتے ہیں کہ کس صورت میں انہیں اسپتال جانے کی ضرورت ہے اور کون گھر میں آئسولیٹ ہو کر ہی صحت یاب ہوسکتا ہے۔ جنگ زدہ لیبیا میں ڈاکٹروں کے اس مثالی کردار کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔


دنیا کے دیگر ممالک کی طرح افریقا میں بھی وبا کے بعد Distance Learning اور گھر سے دفتری کام کی انجام دہی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کام کے فروغ کے لیے ڈیجیٹل اور کلاؤڈ ٹیکنالوجی کے استعمال میں اداروں کے درمیان مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ اس مسابقت کو دیکھتے ہوئے ایک سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھ رہا ہے کہ اس ورچوئل دنیا میں جہاں سارے کام آن لائن اور ساری میٹنگز اسکرین کے اندر ہوا کریں گی اس دنیا میں انسانوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں دستخط کا نعم البدل آخر کیا ہو گا؟

کورونا کٹ کی تیاری میں سینیگال کا ناقابلِ فراموش کردار:

براعظم افریقا میں سینیگال وہ پہلا ملک ہے جہاں کورونا وائرس کے تیزترین ٹیسٹ کی کٹس تیار کی جارہی ہیں۔ ان کٹس کے ذریعے محض دس منٹ کے اندر انسانی جسم میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تشخیص کی جاسکے گی۔ یہ نہ صرف تیزترین ٹیسٹ کٹس ہیں بلکہ قیمت کے اعتبار سے نہایت سستی بھی ہیں جن کو غریب ممالک کے لیے حاصل کرنا آسان ہوگا۔ برطانیہ کے تعاون سے سینیگال کے دارلحکومت ڈاکار میں قائم ایک لیبارٹری میں ان کٹس کی تیاری کا کام تیزی سے جاری ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے مارچ کے پہلے ہفتے میں اس لیبارٹری کا دورہ کیا تھا اور ان کٹس کی تیاری کے لیے 46 ملین پاؤنڈ کا فنڈ بھی فراہم کیا تھا۔ ان کٹس کی مدد سے ٹیسٹ محض دس منٹ کے دورانیے پر مشتمل ہوگا جس کے لیے کسی بجلی، لیب یا کسی دوسرے انفرااسٹرکچر کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ ٹیسٹ ہر فرد بہ آسانی خود بھی کر سکے گا۔ ان کے ذریعے ہونے والے ٹیسٹ پر ایک پاؤنڈ سے بھی کم لاگت آئے گی۔ لیکن برطانوی ماہرین کے نزدیک اس کی قیمت سے بڑا مسئلہ مارکیٹ میں اس کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے افریقی سربراہ کا مشن ایمپاسبل

اس تباہ کن وائرس کے وقت صحت کے بین الاقوامی ادارے ڈبلیو ایچ او کے سربراہ بھی افریقی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن وبا کے اس وقت میں اپنی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے ادا کر رہی ہے، لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس وقت اس کے سربراہ ٹیڈرو ایڈہانم کا تعلق ایتھوپیا سے ہے۔

اپنے اس عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے دنیا کو درپیش دو بڑی وباؤں کا سامنا کیا، ایک ایبولا اور دوسری کورونا۔ پچپن سالہ ٹیڈرو کو ان کے جاننے والے دو الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں ایک Charming اور دوسرا Unassuming۔ انہوں نے اپنے بچپن میں چار سالہ بھائی کی موت دیکھی جو خسرے کی وبا میں جاں بحق ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی موت کو اب تک قبول نہیں کر سکے ہیں۔ 2005 میں وہ ایتھوپیا میں وزیرصحت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت انہوں نے پورے ملک میں چالیس ہزار کمیونٹی ہیلتھ ورکرز تعینات کیے، لیبارٹریوں کی حالت بہتر بنائی اور لگاتار کوششوں سے بچوں اور عورتوں میں اموات کی شرح کو ساٹھ فی صد جب کہ ایڈز اور ٹی بی سے ہونے والی اموات کو پچاس فی صد تک کم کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایتھوپیا بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں بھی تھا ۔ ڈبلیو ایچ او کی69 سالہ تاریخ میں ٹیذرو سربراہ کا عہدہ سنبھالنے والے پہلے افریقی قرار پائے۔



انہوں نے جب عہدہ سنبھالا اس وقت مغربی افریقا سے بدترین وبا ایبولا کا خاتمہ ہوا ہی تھا۔ لیکن ان کے دور میں ایبولا ایک بار پھر لوٹا اور اس بار اس وبا کا مرکز کانگو تھا۔ وہ ایبولا کے معاملے میں بیک وقت دو محاذوں پر لڑرہے ہیں۔ ایک اس سے ہونے والی اموات اور دوسری وہ عوامی سوچ جو ایبولا کی موجودگی کا سرے سے انکار کر کے کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کردیتی ہے۔ وہ اس وبا کے خاتمے کے لیے پرعزم میدان میں اترے ہوئے تھے کہ اب کورونا نامی ایک اور عالمی وبا ان کے لیے مشن امپاسبل بن کر کھڑی ہوچکی ہے۔ یہ تو وبا کے خاتمے پر پتا چلے گا کہ ایک افریقی ذہن نے بیک وقت دو وباؤں سے لڑنے کے لیے دنیا کے سامنے کیا مثال پیش کی ہے۔

افریقا میں کورونا کے حوالے سے پھیلنے والی غلط فہمیاں

ہر خطے کی طرح افریقا میں بھی کورونا وائرس کے حوالے سے کافی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں۔ سوشل میڈیا پر ایک خبر تیزی سے وائرل ہوئی کہ امیر ممالک کورونا کی ویکسین کو افریقیوں پر آزمانے کی تیاری کر چکے ہیں۔ اس حوالے سے ایک فرانسیسی عورت کی یوٹیوب ویڈیو یہاں تیزی سے پھیلی جس میں وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے افریقیوں کو کسی بھی ویکسین کے استعمال سے روک رہی تھی۔ ایک اور اسی طرح کا پیغام بھی وائرل ہوا جس میں کہا گیا کہ امیر ممالک میں لانے سے پہلے کورونا کی ویکسین کو افریقا میں لوگوں پر ٹیسٹ کیا جائے گا۔ لیکن پھر ان افواہوں کی حکومتی سطح پر تردید کی گئی اور کہا گیا کہ کورونا ویکسین کی تیاری کی منزل ابھی دور ہے تو اسے آزمانے کا سوال کیسے پیدا ہوگیا۔

دوسری غلط فہمی یہ پھیلائی گئی کہ کالی جلد والے افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو ہی نہیں سکتے۔ لیکن اس بات کی تردید کینیا کے وزیرصحت نے کی اور کہا کہ جلد کے رنگ سے وائرس کے پھیلنے کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کسی بھی وقت کسی بھی رنگ کے حامل فرد پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ ایک اور افواہ یہاں تیزی سے پھیلی کہ کورونا سے بچنے کے لیے بلیک ٹی پی جائے۔ لوگ ایک دوسرے کو فون پر اور سوشل میڈیا پر بلیک ٹی پینے کا مشورہ دیتے ملے، لیکن پھر میڈیکل سائنس کو اس کی بھی تردید کرنی پڑی۔ حد تو یہ ہے کہ نائیجیریا کے ایک اخبار نے ہیڈ لائن لگائی کہ اگر آپ کورونا وائرس سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنی اپنی داڑھیاں صاف کروالیں۔ اس کے علاوہ نائیجیریا میں ہی ایک چرچ کے پادری نے ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں کہا کہ خدا کے حکم سے میں وائرس کے خاتمے کے لیے چین جا رہا ہوں۔ یہ ویڈیو بہت تیزی سے پھیلی جس کی بعد میں تردید کر دی گئی کہ یہ ویڈیو جعلی ہے۔

وہ افریقی ممالک جو کورونا وائرس سے تاحال محفوظ ہیں

افریقیوں کا خیال ہے کہ انہیں کورونا وائرس کے معاملے میں خدا نے بخشا ہوا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں وائرس کے کم سے کم پھیلاؤ کی وجہ دیگر ممالک کے مقابلے میں فضائی ٹریفک کا کم ہونا ہے۔ لیکن افریقا کو دور سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ وہاں کورونا کے کیسز اس لیے کم ہیں کہ ان کے پاس تشخیص کے لیے کٹس ہی نہیں۔ اس لیے کیسز چھپے ہوئے ہیں۔

یمن، الگ تھلگ رہنے والا شمالی کوریا اور دوردراز واقع مُٹھی بھر جزیروں کے علاوہ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں کورونا وائرس کے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر افریقا کے بعض ممالک بھی اس سے تادمِ تحریر محفوظ ہیں۔ ان میں سے پہلا ملک جنوبی سوڈان ہے۔ اس کی وجہ ماہرین نے یہ بتائی ہے کہ جنوبی سوڈان کی طرف پوری دنیا سے جانے والی پروازوں کی تعداد بے حد کم ہے۔ اس لیے یہ وائرس وہاں نہیں پہنچ سکا۔ لیکن یہاں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرلی گئی ہیں۔ اسکول، مارکیٹیں اور پُرہجوم جگہوں کو بند کردیا گیا ہے۔ مذہبی اور معاشرتی تمام تقریبات پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ جنوبی سوڈان نے چوبیس بستروں پر مشتمل ایک آئسولیشن وارڈ بھی قائم کرلیا ہے۔

برونڈی وہ دوسرا افریقی ملک ہے جو اس آفت سے محفوظ ہے۔ یہاں کے سرکاری ترجمان نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا اور کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ برونڈی کے پاس اس وائرس کو ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت نہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہم اس حوالے سے مکمل تیار ہیں۔ برونڈی میں بھی بچاؤ کے تمام بند باندھ لیے گئے ہیں اور جگہ جگہ ہاتھ دھونے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔

ساؤ ٹوم اور پرنسپے ایک جزیرے پر آباد چھوٹی سی افریقی قوم ہے۔ یہ بھی تاحال کورونا فری جگہ ہے۔ تاہم ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں سو سے زائد افراد کو وائرس میں مبتلا ممالک سے واپسی پر کڑی جانچ کے لیے قرنطینیہ میں رکھا ہوا ہے۔ دو لاکھ باشندوں کے اس ملک میں صرف چار آئی سی یو ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اس وائرس کو اپنی حدود میں داخلے سے روکنے کے لیے سخت انتظامات کیے ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی سیاحتی اہمیت کے باوجود اس ملک نے اپنی سرحدیں باہر کے ہر فرد کے لیے بند کردی ہیں۔

ملاوی بھی اس عالمی وبا سے اب تک محفوظ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہاں جانچ کا کوئی انتظام ہی نہیں تو کیس کیسے سامنے آئیں گے لیکن ملاوی کے وزیرصحت نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس تشخیص کے لیے ٹیسٹنگ کٹس موجود ہیں اور وہ ٹیسٹ کر رہے ہیں لیکن اب تک کوئی پوزیٹو رپورٹ نہیں آئی۔ البتہ ملاوی کی حکومت نے بیرون ملک سے آنے والے باشندوں کو قرنطینہ میں رکھا ہوا ہے۔

جنوبی افریقا کے ملک لیسوتھو میں بھی کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ یہ صرف بیس لاکھ باشندوں پر مشتمل چھوٹی سی افریقی ریاست ہے۔ صفر کیس کے باوجود یہاں کی حکومت نے مکمل لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔ چینی ارب پتی جیک ما کے تعاون سے اس ملک کو ٹیسٹنگ کٹس اور دیگر سامان بھی فراہم کردیا گیا ہے۔

کوموروس افریقا کے مشرقی ساحل پر واقع ایک آتش فشاں جزیرہ نما ہے، جو مڈغاسکر اور موزمبیق کے درمیان واقع ہے۔ یہاں بھی اب تک ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔ یہاں کے دارالحکومت میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہاں ملیریا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوسکتا ہے۔
Load Next Story